Tag: justice Umar Ata Bandial

  • جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھائیں گے

    جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھائیں گے

    اسلام آباد : جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھائیں گے،موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد یکم فروری کو ریٹائرہوجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد دو سال سے زائد عرصے تک اعلیٰ عدالتی عہدے پر کام کرنے کے بعد یکم فروری کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

    وزارت قانون نے نئے چیف جسٹس تعیناتی سمری پر کام شروع کر دیا ہے ، وزارت قانون سمری تیار کرکے صدر مملکت کو بھجوائے گی اور صدرمملکت کی منظوری کے بعد نوٹی فکیشن جاری کیا جائے گا۔ْ

    خیال رہے سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال مقرر ہے، چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے ، جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ سینئر ترین جج ہیں۔

    جسٹس بندیال 18 ستمبر 2023 کو ریٹائر ہونے تک چیف جسٹس کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

    جسٹس بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 تک ایک سال سے زائد عرصے تک اس عہدے پر کام کرنے والے چیف جسٹس بن جائیں گے۔

  • صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

    صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

    اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے پرجسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ازخود نوٹس کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس عمرعطابندیال نےپانچ رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا ہے، لارجربینچ کی سربراہی خود قائم مقام چیف جسٹس عمرعطابندیال کریں گے جبکہ جسٹس قاضی فائز جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں قائم بینچ کاحصہ نہیں ہونگے۔

    بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمدامین،جسٹس محمدعلی مظہرشامل ہونگے، پانچ رکنی لارجر بینچ چھبیس اگست کے بجائے پیر کو کیس کی سماعت کرے گا، کیس سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو نوٹس جار ی کردیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا حکم دیا تھا۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی مفاد میں نوٹس لیا تھا،صحافیوں کوہراساں کرنےپرسپریم کورٹ کےازخودنوٹس کا تحریری حکم جاری کیا تھا۔

    فیصلے ‏میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایف آئی اے نے اپنےدائرہ اختیار سے تجاوز کیا ‏پریس ریلیز میں نہیں لکھا صحافیوں نے عدلیہ کے خلاف کیا رپورٹ کیا؟ ایف آئی ‏اےنےتاثردیامقدمات عدلیہ کی جانب سےدرج کرائے۔

    عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے سےصحافیوں کیخلاف تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے ‏کہ ڈی جی ایف آئی اے بتائیں کی پریس ریلیز ان کےحکم پرجاری ہوئی؟ آزادانہ رپورٹنگ کرنےوالوں ‏کوبرطرف کرناآئین کی خلاف ورزی ہے، پیمرابتائےآئین کی خلاف ورزی کرنےوالےمیڈیاہاؤسزکیخلاف ‏کیا کارروائی کی؟

    عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ پیمرا آگاہ کرے میڈیا کی آزادی برقرار رکھنے میں اس کا کیا کردار ‏ہے پیمرابتائےتمام جماعتوں کی یکساں کوریج کیلئےکیااقدامات کیے؟ کیمروں کےہوتےصحافیوں کا ‏اغوا اور حملے نااہلی ہیں یاشریک جرم ہونا، الزام لگایا میڈیا ہاؤسز مخصوص سیاسی نظریے کی ترویج ‏پرآمادہ ہوئے۔

    فیصلے میں وزارت اطلاعات سے ایک سال میں جاری اشتہارات کی تفصیلات طلب کی گئی، فیصلے ‏کے مطابق وزارت مذہبی امور بتائے سچ بولنے اور نشر کی حوصلہ افزائی کیلئےکیا اقدامات کیے ‏گئے ہیں۔