Tag: JusticeForZainab

  • بیٹی کا قاتل گرفتار ہوتا تو زینب آج زندہ ہوتی، والدہ عائشہ

    بیٹی کا قاتل گرفتار ہوتا تو زینب آج زندہ ہوتی، والدہ عائشہ

    قصور: ایک سال قبل درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کی جانے والی عائشہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ اگر میری بیٹی کے قاتل گرفتار ہوجاتے تو زینب کی زندگی محفوظ رہتی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع قصور میں ایک سال قبل 9 جنوری 2017 کو انسانیت سوز واقعہ پیش آیا تھا کہ جب درندہ صفت شخص نے 5 سال کی عائشہ نامی معصوم بچی کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا اور قتل کر کے لاش ویران جگہ پر پھینک دی تھی۔

    عائشہ کی والدہ نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میری بیٹی عائشہ کی عمر 5 سال 10 ماہ تھی ، اُسے گزشتہ برس زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور زینب کی لاش بھی ٹھیک اُسی روز برآمد ہوئی‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ قصور میں جنسی درندگی کے واقعات کو ختم ہونا چاہیے مگر ایک سال گزر جانے کے بعد بھی بیٹی کے قاتل کو نہیں پکڑا جاسکا، اگر عائشہ کا درندہ صفت قاتل پکڑا جاتا تو زینب کی زندگی محفوظ رہتی‘۔

    مزید پڑھیں: سانحہ قصور، وزیراعلیٰ پنجاب کا بچوں کےتحفظ کیلئےخصوصی کمیٹی بنانے کا اعلان

    مقتولہ عائشہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار  کے نوٹس کے بعد ہمیں بھی انصاف کی امید نظر آنے لگی۔

    دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدر انصاری نے بچیوں سے زیادتی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ہر فورم پر انسانیت سوز واقعات کے خلاف آواز اٹھائی، قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں‘۔

    پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بچیوں سے زیادتی کے 8 واقعات میں ایک ہی شخص کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، ہم جلد از جلد مذکورہ شخص کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس، مبینہ قاتل کی ایک اور اہم سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

    پنجاب کے ضلع قصور میں گزشتہ ایک سال کے دوران 12 بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا اور المناک بات یہ ہے کہ واقعے میں ملوث شخص تاحال گرفتار نہ کیا جاسکا۔

    واضح رہے کہ پانچ روز قبل قصور میں 8 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر کے اُس کی لاش کچرے خانے میں پھینک دی گئی تھی، واقعے کی تفصیل جب سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تو ہر شخص نے مذکورہ بچی کے لیے آواز اٹھائی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اہل خانہ کو انصاف فراہم کرتے ہوئے ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • زینب زیادتی و قتل: بچوں کے تحفظ کے لیے سوچنا ہوگا‘ شہزاد رائے

    زینب زیادتی و قتل: بچوں کے تحفظ کے لیے سوچنا ہوگا‘ شہزاد رائے

    کراچی: معروف گلوکار اور سماجی کارکن شہزاد رائے کا کہنا ہے کہ زینب کا قتل انسانیت کی تذلیل ہے۔ ملک میں ہر پانچواں بچہ زیادتی کا شکار ہورہا ہے‘ بچوں کو گھر اور اسکول میں تربیت دے کر ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی کارکن شہزاد رائے نے آج کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قصور کے سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ملزم کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ سانحہ انسانیت کی تذلیل ہے‘ زینب تو دنیا سے چلی گئی لیکن ہمیں بچوں کے تحفظ کے لیے سوچنا ہوگا‘ شہزاد رائے کے مطابق ہر پانچواں بچہ زیادتی کا شکا ر ہورہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کو صحیح اور غلط کی پہچان کرانا ہوگی‘ بچوں سےزیادتی‘ مارپیٹ کرنے والےکوسخت سزا دینی چاہئے۔ایسےواقعات سےبچنےکے لیے اسکولوں میں بچوں کوآگاہی ضروری ہے‘ بچوں سے زیادتی میں90فیصدقریبی لوگ ملوث ہوتے ہیں ۔

    شہزاد رائے کے مطابق والدین اور بچوں کےدرمیان اس معاملے پر بات چیت ہونی چاہئے۔گھر اور اسکول میں بچوں کوتربیت دے کرایسےواقعات سےبچایاجاسکتاہے۔ ایسےاکثرواقعات ہیں جوسامنےنہیں آتےجبکہ اس سلسلے میں قوانین بھی موجودہیں۔

    یاد رہے کہ چار روز قبل اغوا ہونے والی ننھی زینب کو درندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا کردیا تھا‘ سات سالہ بچی زینب کو گزشتہ روز آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا‘ ننھی پری کی نمازجنازہ علامہ طاہرالقادری نے پڑھائی تھی۔

    اغوا کے وقت زینب کے والدین عمرےکی سعادت کے لیے سعودیہ عرب میں موجود تھے اور وہ اپنی خالہ کے گھر مقیم تھی‘ گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران قصورمیں بچیوں کواغواکےبعد قتل کرنے کا یہ دسواں واقعہ ہے اور پولیس ایک بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔