کراچی : لیاری میں گزشتہ روز 5 منزلہ عمارت کے انہدام کے نتیجے میں جہاں نیچے کھڑی کئی گاڑیاں تباہ ہوئیں ان ہی میں ایک نئی موٹر سائیکل متوفی شعیب کی بھی تھی۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق 20 سال کے شعیب نے ایک ہفتے قبل ہی زیرو میٹر نئی 125 موٹر سائیکل خریدی تھی لیکن وہ یہ نہیں جاتنا تھا کہ وہ اسے کبھی چلا نہیں سکے گا۔
نوجوان اس کا بھائی اور والد تاحال عمارت کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، اور ان کی زندگی کی امیدیں وقت گزرنے ساتھ ساتھ دم توڑتی جارہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شعیب کے کزن نے بتایا کہ یہ میرے ماموں کا بیٹا ہے اس نے نئی موٹر سائیکل بہت شوق سے خریدی تھی۔
یاد رہے کہ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں 5 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی تھی، جس کے نتیجے میں 19 افراد دب کر جاں بحق اور خواتین سمیت آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔
ملبے سے تین ماہ کی بچی کو زندہ نکالا گیا تاہم ملبے میں دبے دیگر افراد کو نکالنے کیلئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ لیاری سانحہ میں 30 سے زائد افراد کی ملبے میں دبے ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم ریسکیو ٹیمیں مشینری کے ساتھ امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
کراچی : لیاری کے علاقے بغدادی میں رہائشی عمارت گرنے کا واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 13 ہوگئی لیاری سانحہ کے دیگر متاثرین کی تلاش کا کام جاری ہے۔
اے آر وائی نیوز کراچی کے نمائندے عدنان راجپوت کی رپورٹ کے مطابق منہدم ہونے والی عمارت کا ملبہ اٹھانے کا کام جاری ہے۔
اس حوالے سے ریسکیو1122 عہدیداران کا کہنا ہے کہ عمارت کے ملبے سے ایک اور خاتون کی لاش نکال لی گئی، جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد13 ہوگئی۔
کراچی:اس وقت 8 سے زائد زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں، ملبےمیں مزید 10سے12 افراد کے دبے ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ریسکیو حکام کے مطابق ہیوی میشنری کی مدد سے عمارت کا ملبہ ہٹایا جارہا ہے، ملبہ دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیےمنی ڈمپر طلب کرلیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سانحہ لیاری میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین اور دیگر رشتہ دار سول اسپتال میں جمع ہوگئے۔
انتظامیہ کی جانب سے متاثرین کی معلومات کے لیے کوئی ہیلپ ڈیسک قائم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے پیاروں سے متعلق معلومات کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
یاد رہے کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی تھی، جس کے نتیجے میں 13 افراد دب کر جاں بحق اور چار خواتین سمیت آٹھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
ملبے سے تین ماہ کی بچی کو زندہ نکالا گیا تاہم ملبے میں دبے دیگر افراد کو نکالنے کیلئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تیس سے زائد افراد کی ملبے میں دبے ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم ریسکیو ٹیمیں مشینری کے ساتھ امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
حکام کے مطابق خستہ حال عمارت گرنے کے باعث اطراف کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا اور دیواروں میں دراڑیں پڑگئیں، جس کے بعد عمارت کو خالی کرانے کا نوٹس جاری کیا گیا گیا تھا۔
کراچی کے علاقے لیاری میں آج 6 منزلہ عمارت منہدم ہوگئی اب تک 11 لاشیں نکالی جا چکی ہیں کئی ملبے تلے دبے ہیں تاہم یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری میں جمعہ کی صبح 6 منزلہ عمارت منہدم ہوگئی۔ ریسکیو ٹیمیں اب تک 11 لاشیں ملبے سے نکال چکی ہیں۔ 8 سے زائد زخمیوں کو بھی ریسکیو کیا گیا ہے۔
اہل علاقہ کے مطابق عمارت کے ملبے تلے اب بھی کئی لوگ دبے ہوئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
تاہم لیاری میں کثیر المنزلہ عمارت منہدم ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران عمارتیں منہدم ہونے کے چار بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
ان حادثات میں 55 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جب کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
لیاری میں عمارتیں زمیں بوس ہونے سے سب سے زیادہ واقعات سال 2020 میں رونما ہوئے جب ایک سال کے اندر 3 عمارتیں منہدم ہو کر ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
مارچ 2020 میں بارش کے باعث عمارت گرنے سے دو افراد جاں بحق جب کہ پانچ زخمی ہوئے۔ جون 2020 میں 5 منزلہ عمارت اچانک گر پڑی جس نے 22 زندگیوں کے چراغ گل کر دیے۔
چند دن بعد ہی اسی علاقے کی خداداد مارکیٹ میں پانچ منزلہ عمارت گر گئی اور اس حادثے میں بھی 25 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ان واقعات میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔
کراچی : کمشنر کراچی حسن نقوی نے کہا ہے کہ لیاری بغدادی میں 6 منزلہ عمارت گرنے کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو ایسی عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمشنر کراچی حسن نقوی حادثے کے 13گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے اور انتظامیہ اور پولیس کو ہدایات دیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمارت کے ملبے سے اب تک 10لاشیں نکالی جاچکی ہیں، دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مزید لاشیں نہ ملیں۔
انہوں نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن 24گھنٹے تک جاری رہے گا، امید ہے کہ اس دورانیے میں ریسکیو کا کام مکمل ہوجائے گا۔
کمشنرکراچی نے کہا کہ ہماری پوری پوری توجہ ریلیف اور ملبے سے لوگوں کو نکالنے پر ہے، 50فیصد تک ریسکیو کا کام کرچکے ہیں۔
کمشنر کراچی حسن نقوی نے کہا کہ سانحے کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو ایسی بلڈنگز میں رہ رہے ہیں، اس عمارت کو سندھ بلڈنگ کنٹرول نے نوٹس دے رکھا تھا۔
عمارت کے رہائشیوں کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کا خیال کرنا چاہیے، کسی کو گھر سے گھسیٹ کے نکالنا ناپسندیدہ کام ہے، انتظامیہ کسی کو گھر سے گھیسٹ کر نہیں نکالنا چاہتی۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ پوری طرح متحرک ہے، ادارے مل کر کام کررہے ہیں، پولیس کو غیر ضروری افراد کو ہٹانے کے احکامات دئیے ہیں۔
یہ الزام تراشی کا وقت نہیں اور نہ کسی پر الزام لگانا چاہیے، سب سے ذیادہ ذمہ داری ان افراد کی ہےجو ان عمارتوں میں رہتے ہیں،ایسے افراد اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انتظامیہ جب نوٹس دے رہی ہے تو عمارت کو خالی کردینا چاہیے تھا،اگر مکین خطرناک عمارتوں سے باہرنکلیں تو انتظامیہ تعاون کرے گی، لیاری میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق رپورٹ طلب کررہے ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری میں 6 منزلہ عمارت گرنے کے واقعہ کے لاپتہ افراد اگر ملبے تلے نہیں دبے ہوئے تو پھر کہاں ہیں اہلخانہ سوال کر رہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق اپنوں کی فکر میں سول اسپتال کراچی کے ٹراما سینٹر میں حواس باختہ حالت، لڑکھڑاتی زبانوں اور نم آنکھوں کے ساتھ لوگ اپنے پیاروں کے منتظر ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں لیاری میں گرنے والے عمارت میں ریسکیو کام کے دوران حکام نے یہ کہہ کر سوال اسپتال بھیج دیا کہ آپ کے زخمی رشتہ داروں کو ٹراما سینٹر منتقل کیا ہے۔ لیکن جب یہ یہاں پہنچے تو ان کے پیارے کیا ملتے، ان کے نام بھی اسپتال کے زخمیوں کی فہرست میں درج نہیں تھے۔
ایک شخص نے بتایا کہ حکام نے بتایا کہ آپ کے زخمی رشتہ داروں کو سول اسپتال پہنچایا گیا ہے، لیکن جب ہم یہاں پہنچے تو ان میں سے ایک بھی یہاں نہیں تھا اور نہ ہی فہرست میں اس کا نام۔
ایک اور خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے رشتہ دار اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ پورا دن گزر گیا، اب تو رات ہوگئی اور ان کا اب تک پتہ نہیں چل رہا ہے۔
خاتون نے کہا کہ پتہ نہیں انتظامیہ انہیں ملبے سے نکال بھی رہی ہے یا نہیں۔ ہمیں تو یہاں اسپتال بھیج دیا ہے اور ہم یہاں گھنٹوں سے منتظر ہیں۔
حادثے کے بعد سول اسپتال ٹراما سینٹر میں افراتفری کا عالم ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ امید اور مایوسی کے درمیان حادثہ کے متاثرین اب بھی اسپتال میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ جمعہ کی صبح کراچی کے علاقے لیاری بغدادی کے علاقے میں 6 منزلہ عمارت گر گئی۔ ملبے سے اب تک 9 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جب کہ متعدد زخمی ہیں۔
اہل علاقہ کے مطابق عمارت کے ملبے تلے اب بھی 20 سے 25 لوگ دبے ہوئے ہیں۔ جن کو نکالنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
متاثرین نے امدادی سرگرمیاں تاخیر سے شروع کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جب کہ ایک متاثرہ خاتون نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ عمارت کئی روز سے ہل رہی تھی۔ سب کو بتایا لیکن کسی نے فلیٹ خالی نہیں کیا۔
اہل علاقہ اور عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہےکہ جب عمارت گری تو ایسا لگا کہ زلزلہ آ گیا ہے اور ہر طرف چیخ وپکار مچ گئی۔
حکومت سندھ نے لیاری حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے جب کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو معطل کر دیا ہے۔
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی انکشاف کیا کہ عمارت کو کئی بار خالی کرنے کے نوٹس دیے گئے اور آخری بار گزشتہ ماہ 2 جون کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے شہریوں سے بھی اپیل کی کہ وہ غیر قانونی تعمیرات میں گھر نہ خریدیں۔