Tag: karachi unrest case

  • چیئرمین پی ٹی اے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

    چیئرمین پی ٹی اے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

    کراچی : سپریم کورٹ رجسٹری میں سوشل میڈیا پر عدلیہ اور اس کے فیصلوں پر ہونے والی تنقید پر اظہار برہمی، چیئرمین پی ٹی اے کے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کردییے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں سوشل میڈیا پر عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی گئی، جس میں چیئرمین پیمرا ابصار عالم پیش ہوئے،عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کی غیر موجودگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے اُن کے بارے میں دریافت کیا ، جس پر چیئرمین کے وکلاء کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ’’وہ اسلام آباد میں کچھ پروگراموں میں مصروف ہیں۔

    عدالت نے چیئرمین پیمرا ابصار عالم سے استفتار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے چینلز کے لائسنس کو معطل کیوں نہیں کیا گیا جو عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں، ابصار عالم نے عدالت کو جواب دیا کہ قانون کے تحت جو کارروائی ممکن تھی وہ عمل میں لائی گئی۔

    عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ اگلی سماعت پر اُن کو ضرور پیش کیا جائے، قبل ازیں سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی اسلم نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے اویس شاہ اغواء کیس پر پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے آئی جی سندھ اور سیکریٹری داخلہ کو متعلقہ افراد کے خلاف کارروئی عمل میں لانے کی ہدایت جاری کیں۔

  • کراچی بدامنی کیس : اویس شاہ اغوا کیس رپورٹ مسترد

    کراچی بدامنی کیس : اویس شاہ اغوا کیس رپورٹ مسترد

    کراچی : سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ، پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس مسترد کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی اسلم کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، دورانِ سماعت پولیس کی جانب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے جسٹس اویس شاہ اغواء کیس پر آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔

    آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور ایس پی طاروق نواز سمیت 24 ڈی ایس پیز کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اُن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

    جسٹس امیر ہانی نے سندھ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف وارننگ دینے سے کام نہیں چلے گا، رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے خلاف مترادف ہے،سیکریٹری داخلہ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کے پاس تحقیقات کا اختیار ہے۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے سیکریٹری داخلہ سے استفتار کیا کہ ‘‘ کیا 20 جون کو شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے ؟، جس پر سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں لگے کیمرے ٹھیک ہیں مگر وہ بہت ہلکی کوالٹی کے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی‘‘۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنے بڑے شہر میں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر پیسوں کا ضیاء کیا گیا، جدید دور میں ناکارہ کیمرے لگانے کی منظوری کس نے دی؟، کوئی بھی ادارہ اپنے کام کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’کیا اب انتظامی معاملات بھی ججز دیکھیں گے؟ ‘‘، عدالت نے اویس شاہ بازیابی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا اور مبارک باد پیش کی۔

    اس موقع پر جسٹس خلیجی نے کہا کہ ہم نے جان کی پرواہ کیے بغیر اویس شاہ کیس پر کام کو جاری رکھا، امیر ہانی اسلم نے اس امید کا اظہار کیا کہ دیگر لاپتہ افراد بھی جلد بازیاب کروالیے جائیں گے۔