کراچی: شہر قائد کے علاقے سہراب گوٹھ اسکیم 33 میں ایک تاجر کے گھر میں ڈکیتی کی واردات کے وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہے، جس میں ڈاکوؤں کی کار کو آتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اسکیم 33 میں تاجر کے گھر ڈکیتی کے کیس میں سہرب گوٹھ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ 8 نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کر لیا۔
پولیس حکام کے مطابق ورادات کپڑے کے تاجر کے گھر میں ہوئی تھی، آٹھ مسلح ڈاکو فیملی کو یرغمال بنا کر گھر کا صفایا کر گئے تھے، متاثرین کے مطابق واردات میں 35 تولہ سونا، 90 ہزار روپے نقدی رقم اور لائسنس یافتہ اسلحے سمیت دیگر سامان لوٹا گیا۔
واردات کے حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے، جس میں ایک سفید کار میں سوار ملزمان کو آتے جاتے دیکھا جا سکتا ہے،
متاثرین کا کہنا ہے کہ مسلح ڈاکوؤں نے گھر میں موجود افراد کو رسیوں سے باندھ دیا تھا، اور مزاحمت کرنے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی پولیس کو فراہم کر دی گٸی ہیں، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واردات کے حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
کراچی: رواں سال شہر قائد میں کتنے پولیس مقابلے ہوئے؟ اعدادوشمار جاری کردئیے گئے۔
آئی جی کراچی غلام نبی میمن کی جانب سے جاری اعدادوشمار میں بتایا گیا کہ سال دو ہزار بائیس کے آغاز سے اب تک مجموعی طور پر شہر میں 228 پولیس مقابلے ہوئے، ان مقابلوں میں 26 ملزمان ہلاک جبکہ 262 کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پولیس مقابلوں کے علاوہ کراچی میں پولیس نے یکم جنوری سے اٹھائیس مارچ تک دو ہزار ایک سو چھبیس ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ماہانہ بنیاد پر گرفتار ملزمان کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔
جنوری میں 600 ملزمان کو پولیس نے اپنی گرفت میں لیا جبکہ فروری میں یہ تعداد کچھ زیادہ رہی جہاں 778 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ رواں ماہ میں اب تک 668 جرائم پیشہ افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔
ادھر کراچی پولیس آفس میں رشوت لینے والے افسران کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے، کے پی او ایڈمن آفس سے پولیس ملازمین کے لیے نوٹس بھی جاری ہوچکا ہے۔
ایڈمن آفس کا کہنا تھا کہ آڈیو، ویڈیو، وائس یا ٹیکسٹ کے ذریعے معلومات شئیر کی جاسکتی ہے اور مزید معلومات کے لیے ایڈمن آفس خود شکایت کنندہ سے رابطہ کرے گا۔
دوسری جانب کراچی پولیس نے محکمے میں کالی بھیڑوں کےخلاف کریک ڈاؤن شروع کررکھاہے، اسی تناظر میں ایس ایچ او ماڈل کالونی انیس ابڑو کے خلاف مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔
کراچی: شہر قائد کی پولیس نے مبینہ طور پر رشوت نہ دینے پر نوجوان کے خلاف درخشاں تھانے میں منشیات برآمدگی کا جھوٹا مقدمہ درج کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق ساؤتھ زون پولیس مستقبل کے معماروں کی زندگی اور مستقبل سے کھیلنے لگی، عبدالسبحان نامی نوجوان کے خلاف درخشاں تھانے میں مبینہ جھوٹا مقدمہ درج کر لیا گیا، نوجوان نے وزیر اعلیٰ، گورنر، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو کارروائی کے لیے درخواست دے دی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق درخواست ایس ایچ او درخشاں اعظم، اے ایس آئی زبیر، اے ایس آئی ضیا اللہ، اہل کار عدیل عباس، گلشن علی اور چندر کمار کے خلاف دی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ 19 جنوری کو رات 1 بجے پولیس نے بڑا بخاری سگنل پر ہاتھ دے کر اسے روکا، پولیس موبائل نمبر SPC-562 میں اے ایس آئی ضیااللہ موجود تھے، ضیا، عدیل عباس اور گلشن علی نے ڈرا دھمکا کر رشوت طلب کی، کہا گیا ذلت رسوائی ہوگی اور کورٹ کے دھکے اور اخراجات الگ ہوں گے، رشوت دینے سے انکار کیا تو درخشاں تھانے لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
درخشاں تھانے میں مبینہ طور پر درج کیے گئے جھوٹے مقدمے کا عکس
نوجوان نے درخواست میں الزام لگایا کہ انھیں تھانے میں ایس ایچ او کے کمرے میں بٹھا کر 2 لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی، انکار کرنے پر ایس ایچ او نے جھوٹا مقدمہ درج کر لیا، اور انھیں 17 گھنٹے تک حوالات میں بند رکھا اور موبائل، قیمتی اشیا ضبط کر لیں، پرس میں 40 ہزار روپے موجود تھے۔ پولیس نے اگلے روز بھی عدالت میں پیش نہیں کیا، رات گئے تفتیشی پولیس کے حوالے کیا گیا جنھوں نے پھر تشدد کیا، بعد ازاں تفتیشی افسر نے پرس میں سے 35 ہزاررشوت لے کر چھوڑ دیا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بقایا 5 ہزار روپے ایک اور اہل کار نے پرس میں سے نکال لیے، جب کہ بقایا سامان طلب کیا تو قیمتی گھڑی غائب اور موبائل ٹوٹا ہوا تھا۔ نوجوان نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ افسران کے خلاف انکوائری کی جائے، اور بدعنوان افسران کے خلاف تادیبی قانونی کارروائی کر کے انھیں انصاف فراہم کیا جائے۔
نوجوان عبدالسبحان کی حکام بالا کو دی گئی درخواست کا عکس
یاد رہے کہ گزشتہ برس 22 نومبر کو دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر گھر واپس آتے نوجوان نبیل ہود بائے کو بھی پہلے پولیس نے اسی طرح روکا تھا اور پھر جب وہ پولیس کے رویے سے گھبرا کر بھاگا تو اسے پیچھے سے گولیاں ماری گئیں، جس سے وہ دم توڑ گیا تھا، اس واقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ کی جانب سے بھی سخت نوٹس لیا گیا تھا۔