Tag: Karsaz Attack

  • سانحہ کارساز، بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا  شہداء کو خراج عقیدت پیش

    سانحہ کارساز، بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا شہداء کو خراج عقیدت پیش

    کراچی : پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا سانحہ کارساز پر کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی جدوجہد میں خون کے دریا پار کیے جبکہ آصف زرداری نے کہا شہیدوں کی قربانیوں سے جمہوریت کاسورج طلوع ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ کارساز کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی جدوجہد میں خون کے دریا پار کیے، بینظیر بھٹو سانحہ کارسازکے بعد جام شہادت تک دہشت گردی چیلنج کرتی رہیں۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے شہدا کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

    پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے 18اکتوبر سانحہ کار ساز کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہیدجمہوریت کےروشن ستارےہیں، شہیدوں کی قربانیوں سے جمہوریت کاسورج طلوع ہوا، 11سال پہلے وطن دشمنوں نے کاروان جمہوریت پر حملہ کیا اور جیالوں نے جان کا نذرانہ دے کر شہید بینظیر بھٹو کا تحفظ کیا تھا۔

    آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے روشن ستاروں کی قربانی سےجمہوریت کی فتح ہوئی ، ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائیں گی، 18 اکتوبر کو کراچی میں 30لاکھ عوام نے بینظیر بھٹو کے نظریے کی تائید کی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ قائداعظم،عوام کےپاکستان کوپرامن، جمہوری،باوقارملک بنائیں گے، پی پی نے1973کےآئین کوبحال، پارلیمنٹ کوبااختیاربنایا، صوبوں کوخودمختاری دی، کےپی،گلگت بلتستان کو پہچان دی۔

    سابق صدر کا کہنا تھا کہ آج جمہوریت خطرےمیں ہے جوقربانیوں کےبعدملی تھی ، عوام کی منتخب پارلیمنٹ کادفاع کرتے رہیں گے۔

    خیال رہے کہ سانحہ کارساز کو گیارہ سال گزر گئے ہیں ، بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر پیپلزپارٹی کا قافلہ ایئرپورٹ سے بلاول ہاؤس کی جانب رواں دواں تھا کہ کارساز کے مقام پر ہونے والے دھماکوں سے ایک سو ستترافراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے گئے تھے۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے آج یادگار شہدا پر فاتحہ خوانی کی جائے گی۔

  • سانحہ کارساز کی قیامت صغریٰ کو 10 برس بیت گئے

    سانحہ کارساز کی قیامت صغریٰ کو 10 برس بیت گئے

    کراچی : سانحہ کارساز کو گزرے آج 10 سال مکمل ہوگئے۔ سانحہ کارساز اس وقت رونما ہوا جب 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلوس پر کراچی میں خود کش حملہ کیا گیا۔ 10 سال پہلے آج ہی کے روز سانحہ کارساز پیش آیا۔

    سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی آمد پر نکالی گئی ریلی میں دہشت گردی کی خوفناک واردات نے 130 افراد کی جان لی تھی، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔

    عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لئے موجود تھا، بے نظیر بھٹو کو پلان کے تحت کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاؤس جانا تھا لیکن جیالوں کے ٹھاٹھے مارتے ہوا سمندرنے مختصرسے فاصلے کو انتہائی طویل بنا دیا۔

    پی پی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے ہوئے تھے دن بھر سفر کے بعد نصف شب کےقریب بے نظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو ایک زور دار دھماکے ہوئے جس کے بعد جشن ماتم میں تبدیل ہوگیا۔

    دوبم دھماکوں نے ریلی کو خون میں نہلادیا، اس حملے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تو جان بچ گئی مگر انہیں اپنے سیکڑوں کارکنوں کی شہادت کا غم اٹھانا پڑا۔

    دھماکوں میں ایک سوتیس سے زیادہ افراد جان گنوا بیٹھے۔ جبکہ ساڑھے چار سو کے لگ بھگ زخمی بھی ہوئے تھے ۔دہشت گردی کی کارروائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں اورانہیں فوری طور پر وہاں سے ان کی رہائش گاہ بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔

    خطروں میں گھری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کااعزاز پانے والی اس بہادر رہنما کو ستائیس دسمبر کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بار دشمن کامیاب رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔

    پیپلز پارٹی آج ان شہداء کی یاد کا دن مناتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان اور رہنما یادگار شہداء کارساز پر پہنچ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔


    اے آر وائی کے کیمرہ مین عارف خان نے بھی جام شہادت نوش کیا

    سانحہ اٹھارہ اکتوبر میں اے آر وائی نیوز کےکیمرہ مین عارف خان بھی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔

    عارف خان آج بھی ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی ویلکم ریلی کی کوریج کی ذمہ داری اے آر وائی نیوزکے سینئر کیمرہ مین عارف خان کے سپرد تھی۔

    کیمرہ مین عارف خان پس منظر میں رہتے ہوئے ناظرین کو تاریخی ریلی کا ایک ایک منظر دکھاتے رہے۔ عارف خان پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے دھماکے میں شہید ہوگئے، یوں خبریں دینے والا خود خبر بن گیا۔

    عارف خان نے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کا نذرانہ دے کر سچا صحافی ہونے کا ثبوت دیا، وہ اے آر وائی فیملی کاحصہ تھے، جو اپنے ساتھی کو کبھی نہ بھول پائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔