Tag: khashoggi

  • مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے کہا ہے کہ انہیں اطالوی سپر کپ کے سعودی عرب میں انعقاد سے دلی افسوس ہوا ہے۔

    روم میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خاشقجی کی منگیتر ہیٹس کینگز کا کہنا تھا کہ یہ نہایت افسوسناک ہے کہ ایک ایسا ملک جس پر ایک ریاستی قتل کا الزام ہے، اور اس کے قاتل تاحال آزاد ہیں، اسے یہ تحفہ دیا گیا کہ اطالوی ان کی سرزمین پر فٹبال کھیلیں۔

    انہوں نے کہا کہ میں اس کے معاشی پہلوؤں سے واقف ہوں اور اس کا بائیکاٹ کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن کیا اس کے سیاسی اثرات نہیں ہوں گے؟

    واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

    ان کے قتل پر سعودی حکومت پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    سعودی صحافی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی پالیسیوں اور وژن 2030 کے سخت ناقد تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ لاحق تھا اور وہ کئی برسوں سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    بعد ازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی طور پر خود کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس نے سعودیہ اور ترکی میں دوریاں پیدا کیں، ترک وزیر خارجہ

    خاشقجی قتل کیس نے سعودیہ اور ترکی میں دوریاں پیدا کیں، ترک وزیر خارجہ

    انقرہ : ترک وزیر خارجہ جاویش اوگلو امریکی پابندیوں سے متعلق کہا ہے کہ اگرامریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کیں تو انقرہ بھی جوابی قدامات کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے وزیرخارجہ جاویش مولود اوگلو نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے نے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں اور تعلقات میں کمزوری آئی۔

    ایک بیان میں ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کا ملک روس سے فضائی دفاعی نظام ایس 400 ضرور خرید کرے گا۔

    ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگرامریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کیں تو انقرہ بھی جوابی قدامات کرے گا۔خیال رہے کہ امریکا نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے روس سے ایس 400 دفاعی نظام خرید کیا تو امریکا ایف 35 جنگی طیاروں کی ڈیل منسوخ کردے گا۔

    ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ قضیہ فلسطین ان کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے اور فلسطینیوں کے حقوق اور قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے اس دھمکی کے بعد ترکی کی کرنسی لیرہ کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں 5.93 لیرہ کی کمی واقع ہوئی ہے، امکان ہے کہ آئندہ ماہ ترکی روس سے ایس 400 دفاعی نظام خرید لے گا۔

  • جمال خاشقجی قتل، بیٹے نے دیت کی رقم لینے کی تردید کردی، انصاف کے لیے پرامید

    جمال خاشقجی قتل، بیٹے نے دیت کی رقم لینے کی تردید کردی، انصاف کے لیے پرامید

    واشنگٹن: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے امریکی اخبار میں دیت کی رقم لینے کے حوالے سے چلنے والی خبروں کو جھوٹا قرار دے دیا۔

    جمال خاشقجی کے صاحبزادے صلاح خاشقجی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر امریکی اخبار کے دعوے کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سعودی حکام سے دیت کے عوض کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات ہوئی’۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے خاندان نے کسی تیسرے فریق کو  بھی درمیان میں نہیں رکھا جو ہماری نمائندگی کرسکے۔

    جمال خاشقجی کے صاحبزادے کا کہنا تھا کہ ’سعودی فرمانروا اور ولی عہد نے انسانیت کے ناطے اہل خانہ سے تعاون کی پیش کش کی تھی تاہم ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا‘۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جو لوگ والد کے قتل میں ملوث تھے انہیں سعودی حکومت سخت سزا دے کر ہمیں انصاف فراہم کرے گی، اگر کیس سے متعلق کوئی ثبوت سامنے آتا ہے تو ہم اس کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔

    مزید پڑھیں: خاشقجی کے بچوں کو خون بہا میں گھر، لاکھوں ڈالر دئیے گئے، امریکی اخبار کا دعویٰ

    اُن کا کہنا تھا کہ ’انصاف کی فراہمی ایسا اقدام ہے جس کے ذریعے عزت اور خدا کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے، ہمیں امید ہے کہ جمال خاشقجی کے معاملے میں تمام تقاضے اور شواہد کو دیکھتے ہوئے منصفانہ فیصلہ دیا جائے گا‘۔ قبل ازیں امریکی اخبار نے تین اپریل کو شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی کے چار بچوں نے والد کی دیت کے عوض لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر وصول کرلیے جبکہ انہیں سعودی حکام نے ماہانہ لاکھوں ڈالر فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

    رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی حکام اور دیگر افراد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمال خاشقجی کے دو بیٹوں اور دوبیٹیوں کو آئندہ چند ماہ میں سعودی صحافی کے قاتلوں کا ٹرائل مکمل ہونے پر خون بہا سے متعلق مذاکرات کے تحت مزید لاکھوں ڈالر بھی دیئے جاسکتے ہیں۔حکام کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت، جمال خاشقجی کے اہلخانہ سے طویل المدتی مفاہمت کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے تاکہ انہیں قتل پر تنقید سے باز رہنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    سابق عہدیدار کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں شاہ سلمان کی جانب سے ان گھروں اور 10 ہزار ڈالر یا اس سے زائد ماہانہ آمدن کی منظوری دی گئی تھی اور اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایک بڑی ناانصافی ہوچکی ہے اور یہ غلط کو صحیح کرنے کی کوشش ہے۔ صلاح خاشقجی نے اپنے آج کے بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ ہمارے درمیان کوئی تیسرا فریق نہیں جو سعودی حکام سے بات چیت کرے اور معاملات طے کرے، میڈیا کو ذرائع سے ملنے والی خبر بالکل غلط ہے کیونکہ اس حوالے سے جو بھی اقدامات ہوں گے ہم اعلان کر کے لوگوں کو آگاہ کریں گے۔

  • خاشقجی قتل سے قبل بن سلمان نے ناقدین کو خاموش کرانے کیلئے مہم کا آغاز کیا تھا، رپورٹ

    خاشقجی قتل سے قبل بن سلمان نے ناقدین کو خاموش کرانے کیلئے مہم کا آغاز کیا تھا، رپورٹ

    واشنگٹن/ریاض : امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ محمد بن سلمان نے اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کیلئے ایک سال قبل ’سعودی رپیڈ انٹر وینشن گروپ‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے خفیہ طور پر ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا جس کا مقصد اپنے ناقدین کو خاموش کرانا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے اس منصوبے کو ’سعودی رپیڈ انٹر وینشن گروپ‘ کا نام دیا تھا جس کی مقصد سعودی شہریوں کی نگرانی، ناقدین کا اغواء، گرفتار اور ان پر تشدد تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ ٹیم کی سربراہی شاہی عدالت کے رکن سعودی القحطانی کررہے تھے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسی ٹیم کے کارندوں نے گزشتہ برس استنبول میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے سخت ناقد صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا تھا۔

    امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے سینیٹر کو بتایا گیا تھا کہ انہیں جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان ملوث ہونے پر یقین ہے تاہم سعودی حکومت مسلسل اس سے انکاری ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بعدازاں سعودی حکومت نے عالمی دباؤ پر صحافی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے سزا دینے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی ریپڈ انٹروینشن گروپ نے ہی خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین رضاکاروں کو گرفتار کیا تھا اور اب تک انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے ابھی تک سعودی رپیڈ انٹر وینشن گروپ کی تشکیل سے متعلق تردید یا تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

  • محمد بن سلمان خاشقجی قتل میں ملوث ہیں انہیں سزا ہونی چاہیے، لنڈسے گراہم

    محمد بن سلمان خاشقجی قتل میں ملوث ہیں انہیں سزا ہونی چاہیے، لنڈسے گراہم

    واشنگٹن : امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تزشتہ برس ترکی کے دارالحکومت استنبول میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی سے متعلق امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری محمد بن سلمان پر عائد ہوتی ہے۔

    سینیٹر لنڈسے گراہم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری لانی ہے تو اس کےلیے محمد بن سلمان سے نمٹنا ضروری ہے‘۔

    امریکی سینیٹر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافی کے قتل میں ملوث مشتبہ افراد پر پابندیاں لگانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی اخبار کےلیے کالم تحریر کرنے والے صحافی کے قتل میں ملوث 11 افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ہے جبکہ اٹارنی جنرل نے پانچ ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ جمال خاشقجی کو گزشتہ برس اکتوبر میں ترک دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے گمشدگی کے بعد قتل کیا گیا تھا، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کے قتل میں 15 افراد ملوث تھے۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی سے متعلق سعودی ٹرائل اقوام متحدہ نے ناکافی قرار دے دیا

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کی لاش ابھی برآمد نہیں ہوئی ہے، ترک حکام نے دعویٰ کی تھا کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد لاش کے ٹکرے کرکے تیزاب میں ڈال دئیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کی جانب خاشقجی کے قتل میں ملوث 20 افراد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

  • خاشقجی قتل محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا، امریکی میڈیا کا دعویٰ

    خاشقجی قتل محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا، امریکی میڈیا کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خیال ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ولی عہد محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں بہیمانہ طریقے سے قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسی نے مزید انکشافات کردئیے۔

    خاشقجی قتل کیس سے متعلق مزید تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے امریکی خفیہ ادارے کا کہنا تھا کہ مقتول صحافی نے تی مرتبہ قاتلوں سے قتل نہ کرنے کی التجا کی تھی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق جمال خاشقجی کے آخری الفاظ تھے ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘۔

    امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل پر مامور سعودی خفیہ ایجنسی کا اعلیٰ افسر واردات سے متعلق پل پل کی رپورٹ فون پر سعودیہ منتقل کررہا تھا۔

    امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خیال ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے وقت اسکواڈ اور اپنے مشیر کو 11 میسجز کیے۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    دوسری جانب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد سعود القحطائی کے ساتھ رابطے میں تھے، سعود القحطائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

    خیال رہے کہ احمد العسیری انٹیلی جنس کے سربراہ جبکہ سعود القحطائی ولی عہد کے اہم مشیر تھے، سعودی عرب کی جانب سے اپنے سفارت خانے میں قتل کے اعتراف کے بعد دونوں کو برطرف کردیا گیا تھا۔

  • لندن: سعودی سفارت خانے کی شاہراہ جمال خاشقجی کے نام سے منسوب

    لندن: سعودی سفارت خانے کی شاہراہ جمال خاشقجی کے نام سے منسوب

    لندن : جمال خاشقجی کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے غیر سرکاری تنظیم کے کارکنوں نے سعودی سفارت خانے کی شاہراہ کا نام تبدیل کرکے ’خاشقجی اسٹریٹ رکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کارکنوں نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمعے کے روز دارالحکومت لندن میں واقع سعودی سفارت خانے کی سڑک کو ’خاشقجی اسٹریٹ‘ کے نام سے منسوب کردیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا ادارے کا کہنا تھا کہ این جی او کارکنان کی جانب سے یہ اقدام جمال خاشقجی کی سفارت خانے میں بہیمانہ موت کا ایک ماہ مکمل ہونے پراٹھایا گیا ہے۔

    برطانوی این جی او ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مہم چلانے والی مینیجر کرسٹائن بینیدکٹ کا کہنا تھا کہ سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ اور دوستوں سے اظہار یکجہتی کے لیے فوری اقدام تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ خاشقجی کے قریبی دوستوں اور اہل خانہ نے کارکنوں پر ان ریاستوں میں احتجاج کرنے کے لیے زور دیا جو سعودی عرب کی قریبی اتحادی ہیں۔

    کرسٹائن کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ مہم باعث بنے گی کی اقوام متحدہ اس قتل کی تحقیق کرے کیوں کہ سعودی حکومت خود اپنی تفتیش کرنے کےلیے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

    خیال رہے کہ ترک صدر طیب اردوگان نے ترک صدر اردوگان نے براہ راست سعودی حکومت کو قصور وار ٹہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاش کے صرف ٹکڑے ہی نہیں کیے گئے بلکہ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے تیزاب کا استعمال کیا گیا‘۔

    ترک تفتیش کار کا بیان۔


    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کو کب اور کہاں قتل کیا گیا؟


    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • اقوام متحدہ نے  جمال خاشقجی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا

    اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا

    نیویارک : اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے قتل کی تحقیقات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک میں پریس بریفنگ کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی اقوام متحدہ اگینز کلیمرڈ نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا اور کہا صحافی کے قتل میں ملوث افراد ریاستی نمائندے تھے، قتل کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔

    نمائندہ خصوصی اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ریاستیں ہاتھ جھاڑ کر ایک طرف نہیں ہوسکتیں، سعودی عرب واضح کرے کہ خاشقجی کے قتل میں ریاست ذمہ دار ہے یا نہیں۔

    اگینز کلیمرڈ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی غیر جانبدار اور مکمل تحقیقات سے ہی اس بات کا تعین ہوسکے گا کہ اس قتل کا حکم کس سطح سے آیا تھا، تاہم ہمارے پاس اتنے شواہد موجود ہیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب ہی اس کا ذمہ دار اور اس میں ملوث ہے۔

    دوسری جانب سعودی پراسیکیوٹر کے مطابق جمال خاشقجی کی ہلاکت باقاعدہ منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے۔

    یاد رہے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا سعودی عرب جمال خاشقجی کی لاش سے متعلق معلومات فراہم کرے تاکہ جمال خاشقجی کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرکے واقعے کی حقیقت سامنے لائی جاسکے۔

    واضح رہے جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے تاہم سعودی حکام صحافی کی گمشدگی کے متعلق غلط وضاحتیں دیتا رہا اور دو ہفتے تک حقائق کی پردہ پوشی کرتا رہا۔

    جس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا، بعد ازاں امریکی صدر نے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔

    ترک صدر طیب اردگان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی صحافی کو دو اکتوبر ہی کو قتل کردیا گیا تھا، سعودی افسران نےقتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ 15افرادکی ٹیم الگ الگ وقت پراستنبول میں سعودی قونصلیٹ پہنچی، جمال خاشقجی ایک بج کر 8 منٹ پر قونصل خانے میں گئے ، پھر واپس نہیں آئے، جمال خاشقجی کی منگیتر نے ترک حکام کو 5بج کر 50منٹ پر آگاہ کیا اور منگیتر کی درخواست پرترک حکام نے تحقیقات شروع کیں۔

  • جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    ابوظہبی : اماراتی وزیر انور قرقاش امریک صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار ’دی واشنگٹن‘ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے سے گمشدگی کے معاملے پر سعودی حکام کو مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے جس پر یو اے ای کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے نام پر ریاست سعودی عرب کے خلاف مہم چلانے والے فریقوں کے درمیان رابطہ متوقع ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق اماراتی وزیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکی اخبار سے منسلک صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن مذکورہ معاملے کو ہوا دینے والے خبردار رہیں گے کیوں کہ اس کے سنگین مضمرات سامنے آئیں گے۔

    اماراتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی کامبابی کا ضامن سعودی عرب ہے، سعودیہ کی کامیابی مشرق وسطیٰ کی کامیابی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے سے متعلق سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو معاملے مکمل تحقیق کرے گی۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔