Tag: khashoggi-murder

  • خاشقجی قتل کیس: کینیڈا کا سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کا معاہدہ ختم کرنے پر غور

    خاشقجی قتل کیس: کینیڈا کا سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کا معاہدہ ختم کرنے پر غور

    اوٹاوا : کینیڈین وزیر اعظم نے سنہ 2014 میں سعودیہ کے ساتھ کیا گیا اسلحے کا معاہدہ منسوخ کرنے پر غور شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈین وزیر اعظم کی جانب سے مذکورہ اقدام ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل اور ریاض کی قیادت میں یمن میں جاری بمباری کے خلاف اٹھایا گیا ہے۔

    وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو کینیڈا کے سابق وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کی جانب سے سعودیہ کے ساتھ مسلح گاڑیوں اور دیگر ہتھیاروں کی فروخت کا 15 ارب معاہدہ وراثت میں ملا تھا۔

    کینیڈین وزیر اعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈا صحافی کا قتل ہرگز برداشت نہیں کرے گا، اسی لیے کینیڈا معاملے کے آغاز سے ہی سعودی عرب سے جواب دینے اور مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ’کینیڈا کی جانب سے غیر معمولی قیمت چکائے بغیر‘ سابق قدامت پسند حکومت کے دستخط شدہ معاہدے کو منسوخ کرنا ’انتہائی مشکل ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کینیڈا نے نومبر میں جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد کی بنیاد پر 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اگر کینیڈا سعودی عرب سے معاہدہ ختم کرتا ہے تو ہمیں ایک ارب ڈالرز جرمانہ جبکہ معاہدے کو منسوخ کرنے میں ناکامی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ کینیڈین وزیر اعظم پہلی رہنما تھے جنہوں نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سننے کی تصدیق کی تھی۔

    مزید پڑھیں : ترک صدر کا سعودی عرب سے جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردیے گئے۔

  • امریکی سینیٹ  نے سعودی ولی عہد کو جمال خشوگی کےقتل کاذمہ دار ٹھہرادیا

    امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد کو جمال خشوگی کےقتل کاذمہ دار ٹھہرادیا

    واشنگٹن : امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کاذمہ دارقراردینے کی قرارداد منظور کرلی اور یمن جنگ میں سعودی عرب کی امدادروکنےکامطالبہ بھی کردیا۔

    امریکی میڈٰیا کے مطابق امریکی سینیٹ میں ایک قراردار پیش کی گئی ، پیش کردہ قرارداد میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ذمے دار قرار دیا گیااور زور دیا کہ انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

    قرارداد میں صحافی کے قتل کے خلاف قرارداد کے حق میں چھپن اور مخالفت میں اکتالیس ووٹ ڈالے گئے۔

    ری پبلکن سینیٹر کی پیش کردہ قرارداد میں سعودی ولی عہد کوجمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دارقراردیتے ہوئے قتل اور صدرٹرمپ کی شہزادہ محمد کی حمایت کی مذمت کی گئی۔

    قرارداد میں صدر ٹرمپ سے یمن جنگ میں سعودی عرب کو امریکہ کی جانب سے عسکری امداد روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

    مزید پڑھیں : سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کاحکم دیا، امریکی میڈیا کا دعوی

    یاد رہے امریکی میڈیا نے دعوی کیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا، سی آئی اے نے فون کالز ریکارڈ سے اندازہ لگایا، جبکہ سعودی عرب نے سی آئی اے سے منسوب دعویٰ مسترد کردیا تھا۔

    امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا  کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے وقت اسکواڈ اور اپنے مشیر کو 11 میسجز کیے،تحقیقات کے حوالے سے خفیہ ادارے نے دوسری مرتبہ سعودی عہد پر الزام عائد کیا تھا۔

    اس سے قبل ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیاتھا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • امریکا کی بڑی جامعہ نے سعودیہ سے تعلقات ختم نہ کرنے کی تجویز دے دی

    امریکا کی بڑی جامعہ نے سعودیہ سے تعلقات ختم نہ کرنے کی تجویز دے دی

    واشنگٹن : امریکی تعلیمی ادارے نے تجویز دی ہے کہ جمال خاشقجی قتل کے باوجود ادارے کو سعودی عرب سے تعلقات ختم نہیں کرنے چاہیئں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی معروف ترین تعلیمی ادارے ’میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی‘ ایم آئی ٹی کے حکام نے سعودی عرب اور امریکا کے درمیان قائم تعلقات کے حوالے سے تجزیہ رپورٹ پیش کردی۔

    ایم آئی ٹی کے ڈین رچرڈ لیسٹر نے جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ خاشقجی قتل کے معاملے پر سعودیہ سے تعلقات منقطع نہیں کرنے چاہیئں۔

    ایم آئی ٹی کے ڈین نے جمعرات کے روز تعلقات سے متعلق جائزہ رپورٹ ای آئی ٹی کے سربراہ رفائیل رائف تک پہنچا دی ہے جو تمام نتائج کا جائزہ لینے کے بعد5 جنوری کو  تعلقات سے متعلق فیصلہ دیں گے۔

    امریکی خبر رساں ادارے نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل فروخت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ’آرامکو‘ نے سابقہ معاہدے کی مد میں ادارے کو 40 لاکھ ڈالر دئیے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایم آئی ٹی کے ڈین کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاشقجی قتل میں ملوث عناصر کی کسی بھی سعودی ادارے نے مالی معاونت نہیں کی۔

    محمد بن سلمان خاشقجی قتل کے ذمہ دار ہیں، امریکی سینیٹ میں قرار داد پیش

    انہوں نے رپورٹ میں کہا تھا کہ ہم کئی برسوں سے سعودی عرب کے ساتھ کام کرتے آرہے ہیں اور ہم نے اچھے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔

    جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم آئی ٹی کو سعودی عرب سے تعلقات ختم کرنے کے لیے کوئی اطمینان بخش جواز نہیں ہے، لہذا ادارے کو تعلقات باقی رکھنے چاہیئں۔

    خیال رہے کہ میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی دنیا کا معروف ترین تعلیمی ادارہ ہے۔

  • محمد بن سلمان خاشقجی قتل کے ذمہ دار ہیں، امریکی سینیٹ میں قرار داد پیش

    محمد بن سلمان خاشقجی قتل کے ذمہ دار ہیں، امریکی سینیٹ میں قرار داد پیش

    واشنگٹن : امریکی سینیٹر زنے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ولی عہد کے خلاف قرار داد پیش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونےو الے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کی قرار داد امریکی سینیٹ میں پیش کردی گئی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکا کے 6 اعلیٰ سینیٹرز کی جانب سے پارٹی مؤقف سے انحراف کرنے کے بعد پیش کردہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’سینیٹ خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے ذمہ دار ہونے پر پختہ یقین رکھتا ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارےکا کہنا ہے کہ اگر امریکی سینیٹ میں جمال خاشقجی قتل سے متعلق قرارداد منظوری کرلی گئی تو محمد بن سلمان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔

    ریپبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ سینیٹرز کی جانب سے پیش کردہ قرار داد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے امریکا کی قومی سلامتی کو کئی مواقع پر خطرے میں مبتلا کیا اور جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہاتھ تھا۔

    خیال رہے کہ جمال خاشقجی کوقتل کرنے پر ترکی کے چیف پراسیکیوٹر کی جانب سے محمدبن سلمان کے قریبی ساتھی اور سعودی خفیہ ایجنسی کے نائب سربراہ کے وارنٹ گرفتاری فائل ہوئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹرز نے ترکی کے چیف پراسیکیوٹر کے اقدام کے بعد سینیٹ میں قرارداد پیش کی۔

    یاد رہے کہ ایک روز قبل امریکی سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل کی امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو سعودی صحافی کے قتل پر بریفنگ دی، بریفنگ کے بعد کچھ سینیٹرز نے سعودی ولی عہد کو جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث قرار دینا شروع کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی سینیٹرز کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی سی آئی اے کی سربراہ کی بریفنگ کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار ہے۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • سعودی حکومت براہ راست خاشقجی کے قتل میں ملوث ہے، اردوگان

    سعودی حکومت براہ راست خاشقجی کے قتل میں ملوث ہے، اردوگان

    انقرہ : ترک صدر طیب اردوگان نے صحافی جمال خاشقجی قتل کیس سے متعلق کہا ہے کہ صحافی کو قتل کرنے کا حکم سعودی عرب کے بڑے عہدیدار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی سفارت خانے میں گمشدگی اور قتل کی تحقیقات کے دوران ترک صدر اردوگان نے کہا ہے کہ ’لاش کے صرف ٹکڑے ہی نہیں کیے گئے بلکہ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے تیزاب کا استعمال کیا گیا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کاکہنا تھا کہ ترک صدر طیب اردوگان نے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پہلی مرتبہ سعودی حکومت پر برائے راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل میں سعودی حکومت کا ہاتھ ہے۔

    ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ خاشقجی کے سفاکانہ قتل کا حکم سعودی حکومت کے پڑے عہدیدار نے دیا تھا تاہم شاہ سلمان کے ملوث ہونے کا یقین نہیں ہے‘۔

    ترک صدر کے مطابق برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے والا سعودی عرب کا قاتل اسکواڈ اس سے قبل بھی ایک ایسا آپریشن کرچکا ہے۔

    سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا، ترکی نے مذکورہ ملزمان کو ترکی کے حوالے کرنے کا کہنا تھا لیکن سعودی حکومت نے ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    خیال رہے کہ امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد بن سلمان نے صدر دونلڈ ٹڑمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی جان بولٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران کہا تھا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند اور اسلامی انتہا پسند تنظیم اخوان المسلمین کا ممبر تھا۔

    ترک تفتیش کار کا بیان۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کو کب اور کہاں قتل کیا گیا؟

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    ریاض : سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے داماد اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند تھا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے سعودی صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرنے سے قبل محمد بن سلمان نے وائٹ ہاوس سےٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد بن سلمان نے امریکی حکام سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران کہا کہ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی خاشقجی ایک خطرناک اسلامی شدت پسند تھا۔

    امریکی آخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر دونلڈ ٹڑمپ کے داماد اور مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی جان بولٹن سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند اور اسلامی انتہا پسند تنظیم اخوان المسلمین کا ممبر تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے وائٹ ہاوس حکام کو کیا گیا فون صحافی کی گمشدگی کے ایک ہفتے بعد کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے جیرڈ کشنر اور جان بولٹن پر زور دیا کہ سعودیہ اور امریکا کے درمیان اتحاد قائم رہنا چاہیے۔

    دوسری جانب سے جمال خاشقجی کے اہل خانہ کی جانب سے سعودی صحافی کی اخوان المسلمون کی رکنیت کی تردید کی تھی جبکہ جمال خاشقجی خود کئی مرتبہ اخوان المسلمون کی رکنیت کے حوالے سے تردید کرچکے تھے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔