Tag: khashoggi murder case

  • خاشقجی قتل، سعودیہ نے تفتیش کاروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی

    خاشقجی قتل، سعودیہ نے تفتیش کاروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی

    واشنگٹن/ریاض : اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے جمال خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات کرنے والوں کی صلاحتیوں کو ’کمزور‘ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر تفتیش کار ایجنس کالمارڈ نے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کیس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی۔

    ایجنس کالمارڈ نے ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ ’صحافی سعودی عرب کے پہلے سے طے شدہ ظالمانہ منصوبے کا شکار ہوئے‘۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی حکام نے قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے ترک تفتیش کاروں کو 13 روز تک سفارت خانے تک رسائی حاصل نہیں تھی۔

    ایجنس کالمارڈ نے رپورٹ میں بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو قتل کیا گیا جبکہ تفتیش کاروں کو 15 اکتوبر سفارت خانے میں جانے کی اجازت دی گئی جبکہ سفارت کار کے گھر جانے کی اجازت 17 اکتوبر کی ملی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سفارت خانے اور سفارت کار کے گھر تک کئی روز رسائی نہ ملنے کے باعث تحقیقات باالخصوص فورینسک تحقیقات متاثر ہوئی۔

    اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے تحقیقات جمال خاشقجی نے سعودی عرب کی جانب سے 11 مشتبہ افراد پر بنائے گئے مقدموں پر تنقید کرتے ہوئے مقدمے کی شفافیت پر سوال اٹھائے۔

    ایجنس کالمارڈ نے تحقیقات کے سلسلے میں سعودی عرب کے سرکاری دورے کی درخواست کی ہے تاکہ متعلقہ حکام سے برائے راست ثبوت طلب کرسکیں۔

    اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی ایجنس کالمارڈ نے جمال جاشقجی قتل کی تحقیقاتی رپورٹ 28 جنوری سے 3 فروری کے درمیان ترکی کا دورہ کرنے کے بعد مرتب کی ہے۔

    جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سیکیورٹی کیمروں سے’چھیڑ چھاڑ‘ کی کوشش کی گئی: ترک اخبار

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    جمال خاشقجی قتل کی حتمی رپورٹ اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں رواں برس جون میں پیش کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردیے گئے۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایسے آپریشن کے لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی منظوری کے بغیر نہیں ہوتے لیکن سعودی حکام کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنٹوں نے بغیر اجازت جمال خاشقجی کا قتل کیا۔

  • خاشقجی قتل کیس: ترکی نے ایک مرتبہ پھر قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا

    خاشقجی قتل کیس: ترکی نے ایک مرتبہ پھر قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا

    بیونس آئرس : طیب اردوگان نےسعودی حکومت سے استنبول میں قتل ہونے والے معروف صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کوترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں صحافی جمال خاشقجی قتل کیس سے متعلق طیب اردوگان نے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں جی 20 ممالک سربراہی اجلاس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ صحافی کے قتل سے متعلق ریاست سعودی عرب میں ہونے والی قانونی کارروائی اطمینان بخش نہیں ہے، قتل ترکی میں ہوا ہے اس لیے کارروائی بھی ترکی میں ہوگی۔

    ترک صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معروف امریکی اخبارسے منسلک صحافی جمال خاشقجی کو بہت ہی بے دردی اور بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا جو ایک عالمی مسئلہ ہے،سعودی حکومت کو چاہیے کہ خاشقجی قتل کیس میں ملوث تمام افراد کواستنبول کے حوالے کردے۔

    ارجنٹینا میں منعقد ہونے والے جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر طیب اردوگان کاکہنا تھا کہ اجلاس جی 20 اجلاس کے دوران واحد کینیڈا تھا جس نے خاشقجی قتل سے متعلق محمد بن سلمان سے سوال کیا۔

    ترک صدر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں موجود گروپ 20 کے رکن ممالک کو ساڑھے 7 منٹ تک بے دردی سے موت کے منہ میں جانے والےجمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کی گئی تحقیقات، شواہد اور دستاویزات کا تبادلہ کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہمارا ارادہ سعودی شاہی خاندان کو مصیبت میں مبتلا کرنے یا نقصان پہنچانے کا نہیں ہےتاہم معروف صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے قتل کا حکم صادر کرنے اور اسے قتل کرنے والے افراد کا چہرہ بج تک عیاں نہیں کردتیا تب تک مطمئن نہیں ہوسکتا، قتل کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے قاتلوں کو دنیا دنیا اور عدلیہ کے سامنے پیش کریں گے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل بھی ترکی مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کرچکا ہے جس پرسعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 سعودی شہریوں کی ترکی حوالگی سے متعلق کہا تھا کہ مذکورہ افراد سعودی شہری ہیں، انہیں سعودیہ میں گرفتار کیا گیاہے، سعودیہ میں ہی تفتیش ہوگی اور سعودی میں ہی سزا دی جائے گی۔

    سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان مجرموں کے حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس، ٹرمپ نے انصاف پر تجارت کو ترجیح دی، ترک وزیر خارجہ

    خاشقجی قتل کیس، ٹرمپ نے انصاف پر تجارت کو ترجیح دی، ترک وزیر خارجہ

    انقرہ : ترک وزیر خارجہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’انسانی جان مقدم ہونی چاہیے لیکن ٹرمپ نے انصاف پر تجارتی تعلقات کو ترجیح دی ہے‘۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں دی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس اور معروف صحافی جمال خاشقجی قتل سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ نے خاشقجی قتل کیس میں کبوتر کی مانند اپنی آنکھیں بند کرلی ہے۔

    ترک وزیر خارجہ میولت کوواسگو کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی قتل کیس سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ صحافی کے قتل کی تفتیش کے معاملے پر آنکھیں بند کرلیں گے۔

    ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کو انسانی جان کو اہمیت دینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے انصاف پر سعودی عرب سے تجارتی تعلقات کو ترجیح دی۔

    میولت کوواسگو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ بیان نے واضحات کردی کہ ٹرمپ کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی سے متعلق سی آئی اے کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی کے قتل کا حکم نہیں دیا۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے محمد بن سلمان سے متعلق کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے تاہم مجھے نہیں معلوم اگر کوئی محمد بن سلمان کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔

    یاد رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔