Tag: khurram sohail

  • پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر- فلم باجی

    پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر- فلم باجی

    پاکستانی سینما کی بحالی کی بات تو بہت عرصے سے ہو رہی ہے،  مگر اب نئے دور میں بننے والی فلموں کی اکثریت میں نہ تو پاکستان دکھائی دیتا ہے، نہ ہی پاکستانی سینما، لیکن فلمی صنعت کی نام نہاد بحالی کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے، پھر بھی پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر میں اگر کسی نے رنگ بھرے ہیں تو وہ فلم ساز ثاقب ملک ہیں، انہوں نے اپنی پہلی ہی فلم کی بدولت فلمی صنعت کو شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی اس فلمی کاوش کا نام ’باجی‘ ہے۔ یہ ایک سچی اور اصل پاکستانی فلم ہے، جس کے انتظار میں پاکستانی سینما کے فلم بین نہ جانے کب سے منتظر تھے۔ مبارک ہو، اس فلم کو دیکھنے کے بعد، ایسا محسوس ہو رہا ہے، ہمارے سینماکی بحالی کا کام اب حقیقی معنوں میں شروع ہوا چاہتا ہے۔

    کہانی

    ڈھلتی ہوئی عمر کی ایک اداکارہ، جس کا ماضی فلم بینوں کی تالیوں سے گونجتا رہا، پھر اُسے تنہائی نے آن گھیرا۔ زوال کی دھول میں ایک منظر اُبھرا، جس میں اُسے دکھائی دینے والا چہرہ، اس کی روشن منزل تک لے جانے والا وسیلہ بن سکتا تھا۔ ایک نوجوان مڈل کلاس لڑکی، خواب دیکھنے اور زندگی میں خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والی، اس نے زندگی کے مدو جزر کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ ایک عاشق، جس کے حصے میں تشنگی اور وحشت آئی، ایک لٹیرا، جس کے طلسم نے کئی دلوں کو چاک کیا۔ ان چاروں مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ ذیلی کردار، ایک ایک کرکے کہانی میں آتے اور جاتے رہے، جن میں نیر اعجاز، نشو، عرفان کھوسٹ، علی سلیم اور ثانیہ سعید تک کا ہر کردار دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔

    [bs-quote quote=” یہ ایک ایسی فلم ہے، جو حقیقی معنوں میں پاکستانی سینما کی بحالی میں ایک یادگار موڑ ثابت ہوگی” style=”style-11″ align=”right”][/bs-quote]

    کہانی نویس نے جس مہارت اور سہولت سے کرداروں کو کہانی میں گوندھا، کہانی کو آگے بڑھایا، ایک سے زائد مرتبہ کہانی کو کلائمکس کے دروازے سے داخل کر کے فلم بین کو حیران کیا، یہ اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستانی سینما کو ایسی کہانیوں اور ندرت بھرے انداز کی ضرورت ہے، جس کو عرفان احمد عرفی نے ثاقب ملک کے ساتھ مل کر قلم سے نہیں بلکہ جذبے کی روشنائی سے ایسے لکھاکہ پاکستان کا روایتی اور جدید سینما ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑا دکھائی دیا،  اگر آپ کو مبالغہ آرائی کاگمان ہو رہا ہے اور یقین نہیں آرہا، تو سینما اسکرین پر جاکر اس فلم کو دیکھنے کا تجربہ کیجیے۔

    فلم سازی

    پاکستان میں صدی کا ہندسہ بدلا، مگر سینما کے حالات نہ بدلے لیکن میں اس بات کا عینی شاہد ہوں، اُس وقت بھی ثاقب ملک کے دفتر کی دیواروں پر فریم ہوئے پرانی پاکستانی فلموں کے پوسٹرز آویزاں تھے۔


    اُس وقت جب پاکستانی سینما کی بحالی کے نعرے کا شور مدھم تھا، تب ثاقب ملک پاکستانی فلم کے ماضی کو سینے سے لگائے”کھماج“ جیسی میوزک ویڈیو بنا کر روایتی سینما سے اپنے لگاؤ کا اظہار کر رہے تھے۔ ”نہ رے نہ“ جیسی میوزک ویڈیو بناکر سینما اور اسکرین کی جدیدیت سے شناسائی کا ثبوت بھی دے رہے تھے۔ اسی عرصے کے درمیان کہیں سے ان کے اندر فلم”باجی“ کا موضوع بیدار ہوا، جس کو بنانے کے لیے ان کے اندر کا ہدایت کار تو مچل رہا تھا، مگر فلم ساز کی بھی ضرورت تھی، آخرکار یہ فریضہ بھی خود انہوں نے انجام دیا۔

    ہدایت کاری

    فلم سازی اور ہدایت کاری کے پہلو سے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ فلم کی ابتدا ایک ایسے سین سے ہوتی ہے، جس میں ایک نوخیز لڑکی ”باجی “ کو پکار رہی ہوتی ہے، فلم کی کہانی اپنا دائرہ مکمل کرکے واپس اسی سین پر آکر ٹھہرتی ہے، تو اس دوارنیے میں بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کہانی کہاں تک آن پہنچی ہے۔ ایک ایک فریم پینٹنگ کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ شہر کے پوش علاقوں سے لے کر پرانے لاہور کی گلیوں تک، فلمی صنعت کے ویران نگار خانوں سے لے کر شباب کی محفلوں تک، جتنے فریم ثاقب ملک نے سجائے اور کرداروں نے گفت و شنید کی، وہ اپنے فن کی معراج پر رہے۔

    اس فلم کی کہانی اور تکنیک کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہوں گا، یہ پڑھنے کی نہیں دیکھنے کی شے ہے، وہ بھی سینما اسکرین پر، جہاں ایک حقیقی اداکارہ کی سوانحی زندگی کو بہت خوبصورتی فلمایا گیا ہے، وہیں اس کے مد مقابل ایک نئے چہرے کو دکھانے کے لیے، دلکش اور تروتازہ چہرے سے ہی کام لیا گیا ہے، جس کی یہ پہلی فلم ہے، ورنہ اس نے اب تک فیشن کی دنیا میں شہرت کی بلندی تو طے کی تھی، لیکن اس فلم کے دروازے سے داخل ہوکر ، اداکاری کے منچ پر، وہ جس مکمل اعتماد سے آن کھڑی ہوئی ہے، یہ دیکھنے لائق ہے۔ ان دونوں کرداروں سے بندھا ہوا تیسرا کردار، جو بطور فلم ساز اس فلم میں متعارف ہوتا ہے، اس نے بھی اپنی زندگی کا بہترین کردار نبھایا ہے۔ اب یہ میرا ہو یا آمنہ الیاس اور چاہے عثمان خالد بٹ ہو، تینوں کو اسکرین پر اداکاری کے کامیاب کرتب دکھاتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ہدایت کار چاہے تو کیا کچھ نہیں کرسکتا، واقعی فلم ہدایت کار کا میڈیم ہوتی ہے، اس فلم کو دیکھ کر محسوس ہوا۔

    دیگرجہتیں

    فلم میں موسیقی، عکاسی، تصویرکشی، گلوکاری، شاعری، رقص، تدوین، رنگ و روغن، ایکشن اور دیگر تمام پہلوؤں پر باریک بینی سے کام کیا گیا ہے، کہیں غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی، حتیٰ کہ فلم میں میرا کی شاندار اداکاری کے علاوہ، ان کی درست انگریزی مکالمات نے بھی مذاق بنانے والوں کایہ راستہ بھی بند کر دیا۔ دو پرانے پاکستانی فلمی گیتوں کا فیوژن بھی لائق ستائش ہے اور بیک گراؤنڈ میوزک نے بھی کرداروں کے تاثرات میں جان ڈال دی، اس پر بالائے ستم ، ملبوسات، لوکیشنز، اور مکالموں کی ذومعنویت نے فلم بین کو کہانی سے باہر جھانکنے کا موقع تک نہیں دیا۔ فلمی صنعت کی چمکیلی دنیا کے ہمراہ اس کا بدصورت چہرہ بھی نمایاں کیا ہے۔

    نتیجہ

    میرے فلمی تنقید کے کیرئیر میں یہ پہلی فلم ہے، جس کو میں نے سینما پر جا کر دو مرتبہ دیکھا۔ پہلی بار میں کہانی کی کشش اور اسکرین پر فنی جمالیات کا حسن اتنا زیادہ تھا کہ میری آنکھیں اس چکاچوند میں کھوگئیں، دوسری بار میں نے جذبات سے عاری ہوکر صرف عقل کے زور پر یہ فلم دیکھی اور دونوں مرتبہ نتیجہ یکساں رہا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے، جو حقیقی معنوں میں پاکستانی سینما کی بحالی میں ایک یادگار موڑ ثابت ہوگی۔

    اب تک بحالی کے نعرے سے جڑے ہوئے پاکستانی سینما میں فلم سازی کی جتنی ضربیں لگائی گئیں، محاورة کہا جائے تو وہ سب سنار کی تھیں، اس فلم کو دیکھ کر محسوس ہوا، یہ چوٹ لوہار کی ہے، جس کا اثر دیرپا اور بازگشت بہت دنوں تک رہے گی۔ ثاقب ملک اور پاکستانی فلم بینوں کو مبارک ہو، پاکستانی سینما کی اصل بحالی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے، جس میں سارے رنگ اپنی مٹی کے ہیں، محسوس ہونے والی تمام پرچھائیاں اپنے ہی سینماکی ہیں اور خوشبو بھی وہ، جس سے ماضی میں پاکستانی سینماکے چاہنے والے مانوس تھے۔


    خرم سہیل

    معروف بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں تنقید کے میدان کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

  • شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    ایک ایسی نایاب کتاب، جو 81 برس قبل بڑے اہتمام سے، تحقیق کے بعد شایع کی گئی، اور پھر وقت کے طوفانوں میں‌ گم ہوئی، اگر اچانک آپ کے سامنے آ جائے، سن 2019 میں، تو مسرت اور حیرت کے احساسات بیک وقت آپ کو اپنے حصار میں لے لیں گے۔

    کچھ یہی معاملہ 1936 میں‌ شایع ہونے والے ممتاز ادبی جریدے ساقی کے جاپان نمبر کا ہے، جسے ایک دیوانے کی کھوج نے فیس بک اور ٹویٹر کے اس دور میں‌ ہمارے سامنے پھر پیش کر دیا.

    81 برس قبل منصہ شہود پر آنے والے ساقی کے جاپان نمبر کی اشاعت ایک معنوں میں اس کلاسیک کی بازیافت ہے، مگر بہت سے افراد کے لیے یہ دریافت ہی ہے کہ اکثریت اس سے لاعلم تھی۔

    ہاں، چند نے اس کا نام سنا تھا، چند نے اسے پڑھا تھا، یہ نمبر چند کتب خانوں میں بھی ضرور موجود ہوگا، مگر شاید اپنی اہمیت کے پیش نظر اسے ان کتب خانوں کے تاریک گوشوں ہی میں محفوظ خیال کیا گیا، اسی لیے یہ بہت محدود ہوگیا۔

    البتہ اب یہ ہمارے سامنے آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوا، جاپان قونصل خانے، ادبی تنظیم ’’پاکستان جاپان ادبی فارم‘‘ اور خرم سہیل کے وسیلے۔

    سن 1936 میں ساقی کے جاپان نمبر میں شایع ہونے والے اشتہارات

    اپنے صحافتی سفر کا انٹرویو نگاری سے آغاز کرنے والے خرم سہیل نے خود کو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رکھا، کالم لکھے، انتظامی امور، ریڈیو، ڈیجیٹل میڈیا کا تجربہ کیا، اپنے خیالات و نظریات کی وجہ سے کچھ متنازع بھی ٹھہرے، مگر اپنے ارادے، استقامت اور لگن کے وسیلے وہ ایک کے بعد ایک دل لبھانے والی کتابیں ہمارے سامنے لاتے رہے۔ جہاں ان کے ہم عصر اپنی تخلیقات ناشر تک لے جانے کی بابت سوچتے رہے، انھوں نے ناشر کو خود تک پہنچنے کے لیے قائل کر لیا۔ ساقی کا جاپانی نمبر بھی ایسی ہی کوشش ہے۔

    خرم سہیل

    جسے مکمل طور پر، قدیم ہجے کے ساتھ، اس زمانے میں شایع ہونے والے اشتہارات سے سجا کر پورے اہتمام سے پیش کیا گیا ہے۔

    جب ہم اس بیش قیمت نمبر کو دیکھتے ہیں، تو ہمارے دل شاہد احمد دہلوی اور ان کے ساتھیوں کے لیے احترام سے بھر جاتے ہیں۔ اس زمانے میں جب یوٹیوب نہیں تھا، وکی پیڈیا اور گوگل نہیں تھا، جاپان سے متعلق معلومات کا حصول سہل نہیں تھا، ان کی ٹیم نے انتھک محنت کی۔

    اس کتاب کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں شاہد احمد دہلوی کو خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش ہمکنے لگتی ہے، ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ آج پھر ایک جاپان نمبر نکالا جائے، جو دوسری جنگ عظیم، سرد جنگ اور 9/11 جیسے تاریخ بدل دینے والے واقعات پر جاپانی ادیبوں‌ کا نقطہ نگاہ، ردعمل اور تخلیقات ہم تک پہنچائے کہ ان ہی واقعات نے دنیا بھر کے ادب کو وہ رنگ دیا، وہ رخ دیا، جس نے ہمیں گروہدہ بنایا۔

    آج پھر ایک جاپان نمبر نکالنے کا خیال ناممکن تو نہیں، مگر مشکل ضرور ہے. یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے ارادے، استقامت اور لگن سے، کیوں‌ کہ یہ تین جادوئی عناصر ہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں.

    اور ان ہی عناصر کے طفیل شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم جاپان نمبر، سن 2019 میں ہمارے سامنے آجاتا ہے.

  • پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کے انٹرویوزپرمشتمل کتاب کی تقریبِ رونمائی

    پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کے انٹرویوزپرمشتمل کتاب کی تقریبِ رونمائی

    کراچی: معروف صحافی ’خرم سہیل ‘ کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’ ان کنورسیشن ود ھ لیجنڈز‘‘ کی تقریبِ رونمائی ‘ کراچی کے فرانسیسی ثقافتی مرکز میں منعقد کی گئی ‘ انٹرویوز کو انگریزی قالب میں افراح جمال نے ڈھالا ہے ۔

    یہ کتاب پاکستانی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی 50 نامور شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے، جن کا انگریزی ترجمہ افراح جمال نے کیا ہے۔ ان دونوں صحافیوں نے، اس کتاب کو بین الاقوامی دنیا کے سامنے، پاکستان کے ثقافتی تعارف کو پیش کرنے کی غرض سے، مشترکہ منصوبے پر ایک ساتھ کام کیا۔

    ان کنورسیشن ودھ لیجنڈز

    یہ تقریب فرانسیسی ثقافتی مرکز کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان کے معروف ستارنواز استاد رئیس خان اور گٹارسٹ عامر ذکی کو تراب علی ہاشمی (ستارنواز) اور آصف سنین(گٹارسٹ) نے، اپنے فن کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔

    In conversation with legends

    خرم سہیل اور افراح جمال نے اس مشترکہ منصوبے پر کام کرنے کے دوران آنے والی دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے تجربات بیان کیے۔ اس کتاب کے مصنف اورصحافی خرم سہیل کی 10سالہ صحافتی جدوجہد مکمل ہونے پر ایک دستاویز ی فلم بھی حاضرین کو دکھائی گئی۔

    اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خرم سہیل کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ان کے دس سالہ صحافتی سفر کا احاطہ کرتی ہے اوربالخصوص بین الاقوامی قارئین یعنی غیر ملکیوں کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ ہم پاکستان کی ثقافت کو مختصر اورجامع انداز میں دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرسکیں۔

    In conversation with legends
    خرم سہیل کتاب پر دستخط کرتے ہوئے

    افراح جمال اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کہتی ہیں کہ اس کتاب کو مرتب کرنے کا مقصد بین الاقوامی دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان بھی اپنی مضبوط ثقافت اور فن کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے ان کی چار سال کی محنت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر*

     تقریب کے حاضرین میں فرانسیسی ثقافتی مرکز کے ڈائریکٹر”جے فرانسیز شینا“، جاپان کے نائب قونصل جنرل”کازوسکادا“، جمیل دہلوی(فلم ساز) جاوید جبار(دانشور)، علی ٹم(موسیقار) ، آئلہ رضا(ڈائریکٹرکل پاکستان موسیقی کانفرنس) ، عمرفرید(مصور) اکبرسبحانی(اداکار) ، عاطف بدر(تھیٹر) سبوحہ خان(قلم کار)، اقبال صالح محمد(چیئر مین پیرا ماؤنٹ بکس) ، شمیم باذل اور شاہد رسام(مصور) کے علاوہ بھی، ثقافت اور صحافت سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

    In conversation with legends
    خرم سہیل اور افراح جمال بین الا قوامی فلم ساز جمیل دہلوی کو اپنی کتاب پیش کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں اور سرورق پر بھی موجود ہیں

    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔