Tag: khuwaja sira

  • چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی

    چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی

    لاہور: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خواجہ سراؤں کو 15 دن میں شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے ایسا نظام بنائیں گے ان کو حق دہلیز پر ملے۔

    تفصیلات کے مطابق خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کے حصول سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ ون ونڈو طریقے سے بننے چاہئیں۔

    میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ تمام اقدامات خود مانیٹر کرے گی، میں خود سپروائز کروں گا، خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، خواجہ سراؤں کو عدالتی تحفظ نہیں ملے گا تو معاملات حل نہیں ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کئے جائیں، خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی برداشت نہیں کی جاسکتی، شناختی کارڈ ہولڈرز خواجہ سراؤں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے، خواجہ سرا معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔

    میاں ثاقب نثار نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، چھٹی میں عدالت لگانے کا مقصد خواجہ سرا کے مسائل آرام سے سننا ہے، ایسا نظام ضروری ہے جہاں چیف جسٹس کو فون کرکے توجہ دلانا نہ پڑے۔

    قبل ازیں فاونٹین ہاؤس کے دورے کے دوران خواجہ سراؤں نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل کی تھی اور بتایا کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود ان کو بنیادی حقوق حاصل نہیں نادرا انہیں شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہا۔اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا فاؤنٹین ہاؤس آکر دلی سکون ملا، جب کوئی کام نہیں کرے گا تو مجبوراً کسی کوتو قوم کے لیے نکلنا پڑے گا، قوم کو قرض سے نجات، پانی فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دینی ہے۔

     انتخابات 2018 کے کاغذات نامزدگی  وصول کرنے کے لیے  سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے علاوہ پہلی بار خواجہ سرا بھی فارم وصول کرنے کے لیے  ریٹرننگ آفیسرکے پاس پہنچے تھے ۔ تاہم  نامزدگی فارم میں خواجہ سراؤں کے لیے الگ خانہ نہ ہونے سے بھی انہیں شدید مایوسی ہوئی تھی ، کیونکہ قانون کے مطابق اب یہ ان کا حق ہے کہ وہ  الیکشن میں حصہ لے سکیں اور ووٹ کاسٹ کرسکیں۔

    یاد  رہے کہ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے رواں برس فروری میں خوجہ سراؤں کے حقوق اور تحفظ کے قانون کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی جس کے بعد وہ بھی الیکشن لڑنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کے اہل قرار پائے تھے۔قانون کی منظوری کے بعد خواجہ سراؤں کو الیکشن لڑنے، سرکاری عہدہ رکھنے اور وراثت کا حق حاصل ہوا جبکہ اس قانون کی بھی منظوری دی گئی کہ اگر انہیں کوئی شخص بھیک مانگنے پر مجبور کرے گا تو اُسے قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

    بعد ازاں فروری میں ہی خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں نے ووٹ کا حق مانگنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف رٹ درخواست دائر کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
  • خواجہ سراؤں کا مذہب میں مقام اور معاشرتی رویہ

    خواجہ سراؤں کا مذہب میں مقام اور معاشرتی رویہ

    اے آروائی نیوز کے شو الیونتھ آور میں معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ روا رکھے سلوک پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، شو کی بنیاد اے آروائی ڈیجیٹل پرنشر ہونے والا ڈرامہ سیریل ’خدا میرا بھی ہے‘ بنا جس میں معاشرے کے رویوں پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

    یقیناً پاکستانی معاشرے میں کسی بھی میڈیا چینل کے لیے ایسے موضوع پر ڈرامہ پیش کرنا انتہائی دشوار ہے کہ جسے معاشرے میں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔


    مکمل شو دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کیجئے


    گزشتہ برسوں میں تیسری جنس کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی میں پیشرفت ہوئی ہے اور انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا ہے تاہم انہیں انسان سمجھنے اور انہیں برابر کے حقوق دینے کے لیے ایک طویل سفر ہے جو کہ معاشرے نے طے کرنا ہے اور یقیناً گھٹن کے ماحول میں اے آروائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’خدا میرا بھی ہے‘ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہورہا ہے۔


    یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں


    الیونتھ آور کی میزبانی وسیم بادامی کرتے ہیں جبکہ معزز مہمانوں میں معروف اسکالر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی‘ ڈاکٹر مہرین خانزادہ ( کلینکل سائیکاٹرسٹ)‘ اقرار الحسن ( سرِ عام کے میزبان)‘ رفعی خان ( حکومتِ پاکستان کی فوکل پرسن‘) اور الماس بوبی جو کہ شی میل ایسوسی ایشن کی صدر ہیں شامل ہیں۔

    waseem-post-5

    ڈاکٹرمہرین خانزادہ


    ڈاکٹرمہرین خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسےبیماری یا نقص کے طور پر تو لیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے‘ اس کو عیب تصور کرنا غلط ہے۔

    یہ ایک قدرتی بیماری ہے جو کہ ہارمونز میں پیدا ہونے والے تغیر کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور اسے ماں یا باپ کی جانب منسوب کرنا غلط ہے۔

    waseem-post-1

    اقرار الحسن


    اقرارالحسن کا کہنا تھا کہ جو مکمل صحت مند ہیں اس میں ان کا کوئی کمال نہیں اور جو کسی نقص کے ساتھ پیدا ہونے میں کیس کاکوئی قصور نہیں ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو ایک غیر ماورائی مخلوق کی شکل دے دی گئی ہے اور ان کے بارے میں مختلف قسم کی لغویات پھیل گئی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ علمائے کرام سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ خواجہ سراؤں کی نماز ِ جنازہ ان کی غالب خصوصیات کی بنیاد پر ہوتی ہے‘ جس کی خصوصیات مردوں کی طرح ہوں ان کا جنازہ مردوں کی طرح اور جن کی خصوصیات خواتین کی طرح ہوں ان کا جنازہ عوتوں کی طرح پڑھائی جاتی ہے۔

    جاوید غامدی


    ڈاکٹر جاوید غامدی کا کہنا تھا خواجہ سرا بحیثیت انسان یکساں احترام اور عزت کے مستحق ہیں ‘ یہ بھی ہماری طرح اللہ کے دین کو قبول کرتے ہیں اور احادیث میں ان کا تذکرہ آیا ہے۔

    انہوں مزید کہا کہ خواجہ سرا ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا دین کی رو سے غلط اور گناہ کا سبب ہے، انہیں کسی بھی قسم کی تضحیک کا نشانہ بنانا کسی طور پر درست ہے۔

    جاوید غامدی کا کا کہنا تھا فقہی معاملات میں خواجہ سراؤں پر ان کے جسمانی رحجان کی بنا پر شرعی احکامات لاگو ہوں گے جیسے گواہی ‘ وراثت اور نماز جنازہ وغیرہ۔ جو ماں باپ اپنے ایسے بچوں کو خود سے علیحدہ کردیتے ہیں‘ وہ مذہب کی جانب سے عائد کردہ ذمہ داری کو پوری نہ کرنے کے مجرم ہوں گے۔

    waseem-post-4

    رفعی خان


    گورنمنٹ فوکل پرسن رفعی خان جو کہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے خاندان نے بحیثیت شی میل تسلیم کیا اور حوصلہ افزائی کی کہ وہ تعلیم حاصل کریں لیکن اس سپورٹ کے باوجود انہیں معاشرےسے مطابقت پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتا رہا ۔

    waseem-post-2

    الماس بوبی


    صدر شی میل فاؤنڈیشن الماس بوبی کا کہنا تھا کہ معاشرے میں اچھے برے لوگ ہر جگہ ہیں جولوگ برے ہیں وہ ہمیں کیا عزت دیں گے؟ لیکن بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں جو ہماری عزت کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے اپنے گھر والے ہمیں اپنانے پر تیار نہیں ہوتے تو معاشرہ پھر کیسے تسلیم کرے گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت ہمیں روزگار نہیں دے سکتی تو کم از کم پولیس کو پابند کرے کہ ہمارے فنکشنوں میں آکر ہمیں تشدد کا نشانہ بنا کر رشوت طلب نہ کرے۔

    waseem-post-3


    مکمل شو دیکھئے