Tag: kids

  • دوپہر میں بچوں کو سلانے کا فائدہ سامنے آگیا

    دوپہر میں بچوں کو سلانے کا فائدہ سامنے آگیا

    اکثر افراد کا خیال ہے کہ بچوں کو دن کے اوقات میں کچھ دیر نیند ضرور کروانی چاہیئے، اور اب حال ہی میں ایک تحقیق میں اس کے فوائد بھی ثابت ہوگئے۔

    آسٹریلیا کی میک کوائر یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ دن کے وقت میں بچوں کا سونا ان کے حروف کی آواز پہچاننے کی صلاحیت کے لیے فائدہ مند ہے، یہ صلاحیت پڑھنے کی ابتدائی صلاحیت کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔

    میک کوائر یونیورسٹی میں اسکول آف ایجوکیشن کی لیکچرر ہوا چین وینگ کا کہنا تھا کہ پڑھنے کے بعد نیند لینا ممکنہ طور پر سیکھی گئی نئی معلومات کو نئے کاموں میں استعمال کرنے کی صلاحیت میں مدد دے سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ماہرین نے نیند کے بچوں کے حروف کی آواز پہچاننے پر مثبت اثرات پائے اور بالخصوص اس علم کو ناآشنا الفاظ کو پڑھنے کے لیے استعمال کرنے میں۔

    یاد رہے کہ اب تک نیند اور پڑھنے کی صلاحیت کے درمیان تعلق کی معلومات بہت کم تھیں، اس نئی تحقیق میں سڈنی کے دو ڈے کیئر سینٹرز کے 3 سے 5 سال کی عمر کے 32 بچوں کا مطالعہ کیا گیا۔

  • اومیکرون کی ذیلی قسم بچوں کے لیے خطرہ

    اومیکرون کی ذیلی قسم بچوں کے لیے خطرہ

    ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی ذیلی قسم بی اے 2 بچوں پر انفلوائنزا کے مقابلے میں زیادہ سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا کہ یہ فی الحال ابتدائی نتائج ہیں، ہانگ کانگ میں کرونا کی قسم بی اے 2 (اومیکرون کی ذیلی قسم) کی لہر سے متعدد افراد متاثر ہوئے اور کیسز و اموات کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا۔

    ہانگ کانگ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کا موازنہ سابقہ اقسام (جنوری 2020 سے نومبر 2021) سے متاثر بچوں سے کیا گیا۔

    اسی طرح جنوری 2015 سے دسمبر 2018 تک انفلوائنزا اور پیرا انفلوائنزا سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کا ڈیٹا بھی جانچا گیا، فروری 2022 میں بی اومیکرون کی لہر کے دوران 11 سو 47 بچے بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے جبکہ 4 کا انتقال ہوا۔

    جن بچوں کا انتقال ہوا ان کی صحت بیماری سے قبل اچھی تھی جن میں سے 2 کی ہلاکت دماغی سوجن کے باعث ہوئی۔ یہ ہانگ کانگ میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران بچوں کیاولین ہلاکتیں تھیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا  گیا کہ بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کی ہلاکت کا امکان فلو کے باعث اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کے مقابلے میں 7 گنا جبکہ پیرا انفلوائنزا کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح بی اے 2 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں آئی سی یو میں داخلے کا خطرہ 18 گنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ فلو کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح بی اے 2 سے متاثر بچوں میں دماغی سوجن کا خطرہ پیرا انفلوائنزا کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے مگر فلو سے متاثر بچوں کے برابر ہوتا ہے۔

    نظام تنفس کی پیچیدگیوں کے حوالے سے بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے 5 فیصد بچوں کو خںاق (شور کے ساتھ سانس آنا یا ہوا کی نالی تنگ ہوجانا) کا سامنا ہوا جبکہ کرونا کی دیگر اقسام میں یہ شرح 0.27 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ اومیکرون بی اے 2 کی بچوں میں شدت معمولی نہیں جیسا اموات اور سنگین پیچیدگیوں سے ثابت ہوتا ہے، اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے ہیں۔

  • بچوں کے سروں پر منڈلاتا خطرہ، جس سے والدین بے خبر ہیں

    بچوں کے سروں پر منڈلاتا خطرہ، جس سے والدین بے خبر ہیں

    بچوں میں اسمارٹ فون کا استعمال بے حد بڑھ گیا ہے اور یہ ایسا خطرہ ہے جسے والدین جانے یا انجانے میں نظر انداز کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کا اسکرین ایکسپوژر اس وقت دنیا کے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آرہا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ان میں ضدی پن، چڑچڑاہٹ، بھوک میں کمی اور ارتکاز اور توجہ کی کمی جیسے مسائل سامنے آرہے ہیں۔

    عام مشاہدہ یہی ہے کہ بچے اسمارٹ فون کی روشی کو فل کر کے بہت نزدیک سے گھنٹوں تک گیم کھیلنے یا ویڈیوز دیکھنے میں صرف کر دیتے ہیں۔

    جسمانی سرگرمیوں کے بجائے سارا دن اسمارٹ فون پر گیم کھیلنے والے بچوں کو آنکھوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب جسمانی طور پر کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے وہ موٹاپے، یادداشت اور توجہ میں کمی جیسی بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔

    اس حوالے سے برطانیہ کی اینجلیا رسکن یونیورسٹی (اے آر یو) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گھنٹوں اسکرین کے سامنے رہنے کی وجہ سے بچے آنکھوں کی ڈیجیٹل بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جن میں آنکھوں کا خشک ہونا، سرخ ہونا اور آنکھوں کی تھکاوٹ شامل ہے۔

    اے آر یو کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے بچوں کا اسکرین ٹائم کافی حد تک بڑھ گیا ہے اور اس کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس کے مضر اثرات سے نوزائیدہ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

    تیونس میں ہونے والی تحقیق کے مطابق 5 سے 12 برس تک کے بچوں میں اسکرین ٹائم 111 فیصد بڑھ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسکرین ٹائم بڑھنے کی وجہ سے آنکھوں کی خشکی، سرخی اور تناؤ بڑھتا ہے۔

  • کورونا سے متاثر ہونے والے بچوں کے حوالے سے اہم انکشاف

    کورونا سے متاثر ہونے والے بچوں کے حوالے سے اہم انکشاف

    ایک تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں میں کووڈ اینٹی باڈیز کی سطح بالغ افراد کے مقابلے میں بہت کم ہونے کا انکشاف سامنے آیا۔

    عالمی وبا کورونا وائرس سے دنیا بھر میں بڑوں کے ساتھ بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے اور ان میں سے کچھ کو پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا سے متاثر بچوں کے اندر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بننے کی سطح بالغ افراد کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں (اوسط عمر 4 سال) اور 51 بالغ افراد (اوسط عمر 37 سال) کو شامل کیا گیا، جو 10 مئی سے 28 اکتوبر 2020 کے درمیان کووڈ کا شکار ہوئے تھے۔

    ان افراد میں بیماری کی علامات کی معمولی شدت کی تھی اور انھیں سردرد اور بخار جیسی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

    محققین نے وائرل آر این اے کی سطح کی جانچ پڑتال کے لیے ان افراد کے ناک اور حلق سے نمونے اور امیونوگلوبلن جی اینٹی باڈیز کا جائزہ لینے کے لیے خون کے نمونے حاصل کیے۔

    جس سے یہ بات سامنے آئی کہ صرف 37 فیصد بچوں میں اینٹی باڈیز بنیں ، جو دوبارہ بیمار ہونے سے بچانے میں مدد دیتی ہے جبکہ بالغ افراد میں یہ تعداد 76 فیصد تھی۔

    نتائج سے یہ سوال سامنے آیا کہ بچوں کو مستقبل میں بیماری سے کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    محققین نے خدشہ ظاہر کیا کہ بچوں میں کورونا سے دوبارہ بیمار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے مگر ابھی اس حوالے سے مزید معلومات کی ضرورت ہے۔

    یاد رہے اس سے قبل امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ کووڈ کے خلاف بچوں میں اینٹی باڈی ردعمل بالغ افراد کے مقابلے میں مختلف ہوتا ہے۔

  • فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    کرونا ویکسین اب دنیا بھر میں بچوں کو بھی لگائی جارہی ہے، تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں بچوں اور بڑوں پر اس کے مختلف اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 5 سے 11 سال کے بچوں میں، نوجوانوں اور بالغ افراد کے مقابلے میں کم مؤثر ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ پبلک ہیلتھ کے تحت ہونے والی تحقیق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون کی لہر کے دوران ہوئی تھی۔

    تحقیق میں 13 دسمبر 2021 سے 30 جنوری 2022 کے دوران کووڈ کیسز اور اسپتال میں داخلے کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ان میں سے 8 لاکھ 52 ہزار 384 کیسز ویکسی نیشن کروانے والے 12 سے 17 سال کی عمر کے بچے تھے جبکہ 5 سے 11 سال کی عمر کے ویکسی نیشن کروانے والے بچوں کی تعداد 3 لاکھ 65 ہزار 502 تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون کی لہر کے دوران 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد اسپتال میں داخلے کے خطرے سے تحفظ کی شرح 85 فیصد سے گھٹ کر 73 فیصد ہوگئی۔

    مگر 5 سے 11 سال کی عمر میں ویکسین کی یہ افادیت نمایاں حد تک کم ہوگئی جو 100 فیصد سے گھٹ کر 48 فیصد رہ گئی۔

    اسی طرح 12 سے 17 سال کی عمر میں بیماری سے تحفظ کی شرح 65 سے کم ہو کر 51 فیصد ہوگئی جبکہ 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 68 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد تک پہنچ گئی۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کے امیونولوجسٹ فلورینا کرامر نے بتایا کہ دونوں گروپس میں ویکسین کی افادیت کا فرق چونکا دینے والا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 12 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسین کی 30 ملی گرام مقدار استعمال کروائی جاتی ہے جبکہ اس سے کم عمر کے گروپ میں یہ مقدار 10 ملی گرام ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ ڈپٹی ڈائریکٹر آف سائنس ایلی روسنبرگ نے بتایا کہ ویکسین کی افادیت میں کمی مایوس کن ضرور ہے مگر یہ تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ فائزر ویکسین وائرس کے ابتدائی ورژن کے ردعمل میں تیار ہوئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ بچوں کی کتنی مقدار میں ویکسین کی خوراک دینا بہتر ہوسکتا ہے۔

  • بچوں کے بال تیزی سے کیسے بڑھائے جاسکتے ہیں؟

    بچوں کے بال تیزی سے کیسے بڑھائے جاسکتے ہیں؟

    اکثر والدین بچوں کے بالوں کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں، خصوصاً بچیوں کے بالوں کے لیے کہ انہیں کیسے بڑھایا جائے، تاہم یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ بال بڑھانے کے لیے بچپن ہی سے صحت مند غذا اور بھرپور خیال رکھنا ضروری ہے۔

    بالوں کی نشونما کے لیے سب پہلے بچوں کی غذا کا خیال رکھیں، بال چونکہ کیروٹین سے بنے ہوتے ہیں لہٰذا اسی کی مناسبت سے غذا کا انتخاب کریں۔

    یہاں چھوٹے بچوں کے بال بڑھانے کے لیے کچھ ایسے طریقے بتا ئے جارہے ہیں جن پر عمل کر کے بچوں کے بال بڑھنے کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

    نرمی سے برش کریں

    بالوں کو تیزی سے بڑھانے کے لیے بچپن ہی سے خیال رکھنا شروع کریں، اکثر بچے جب چند ماہ کے ہوتے ہیں تو ان کے بال بہت کم ہوتے ہیں جنہیں دیکھ والدین پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کس طرح بڑھیں گے تو یہ بات جان لیں کہ چھوٹے بچوں کے بال کم ہوتے ہیں۔

    چند ماہ کے بچوں کے بالوں میں نرم برش پھیریں، اس طرح سر میں خون کی روانی بڑھے گی جس سے بالوں کی نشوونما میں اضافہ ہوگا۔

    چھوٹے بچوں کے بالوں میں کنگھی کرنے سے پہلے تیل ضرور لگائیں اور ہلکے ہاتھوں سے مساج بھی کریں۔

    ناریل کا تیل

    ناریل کا تیل ہر عمر کے افراد کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔

    بچوں کے سر میں روز ناریل کا تیل لگائیں، یہ بال بڑھانے کے ساتھ بچوں کے سر کے دیگر مسائل سے بھی نجات دے گا۔

    کوشش کریں روز تیل لگا کر ہلکے ہاتھ سے مساج کریں، اس طرح بالوں کی مضبوطی کے ساتھ چمک میں بھی اضافہ ہوگا۔

    بالوں کی پونی نہ بنائیں

    بچیوں کے بال بڑے ہوتے ہیں تو مائیں ان کی پونی یا کلپ لگا دیتی ہیں، اس طرح بال کمزور ہونے لگتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کی بالوں کی جڑیں نہایت کمزور ہوتی ہیں، انہیں اس طرح باندھنے سے گریز کریں۔

    شیمپو

    بچوں میں بال بڑھانے کے لیے ان کا صاف ہونا بھی نہایت ضروری ہے، اس کے لیے بے بی شیمپو کی مدد سے بچوں کا سر دھوئیں اور سر کو صاف رکھیں۔

    اگر ڈاکٹر باقاعدگی سے دھونے سے منع کریں تو ان کی ہدایت کے مطابق سر دھلوائیں تاکہ میل اور خشکی جمع نہ ہونے پائے۔

    ایلو ویرا

    ایلو ویرا جلد کے ساتھ بالوں کے لیے بھی بہت افادیت رکھتا ہے، ایلو ویرا کاجیل تھوڑا سا ہاتھوں میں لے کر بچوں کے سر پہ مساج کریں، اس سے بال تیزی سے بڑھنے لگیں گے۔

  • مالک مکان کی جانب سے بچوں کو جلانے کا مقدمہ درج

    مالک مکان کی جانب سے بچوں کو جلانے کا مقدمہ درج

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مالک مکان کی جانب سے بیوہ خاتون کے 2 بچوں کو آگ لگانے کے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا، مالک مکان نے جھگی خالی نہ کرنے پر جھگی کو آگ لگائی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں جھگیاں جلنے سے بیوہ خاتون کے 2 بچوں کی موت کا مقدمہ ماں کی مدعیت میں سہراب گوٹھ تھانے میں درج کرلیا گیا۔

    ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) میں قتل اور جھگی کو آگ لگانے سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔

    ایف آئی آر میں خاتون کا کہنا ہے کہ وہ بیوگی کے بعد 2 سال سے اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، کچھ عرصے سے انہیں جھگی خالی کرنے کی دھمکی دی جارہی تھی۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ خالد، محمد گل، سعید، باچا خان اور خاستہ گل نامی افراد نے جھگی خالی کرنے کا کہا، نئی جھگی کی تلاش کے دوران پتہ چلا کہ گھر کو آگ لگ گئی۔

    مقدمے کے متن کے مطابق آگ لگنے سے 8 سالہ بیٹا فوری طور پر جاں بحق ہوگیا جبکہ دوسرے 17 سالہ بیٹے کی موت اسپتال میں دوران علاج ہوئی، اسپتال میں زیر علاج بیٹے نے ماں کو جھگی کو آگ لگائے جانے کا بتایا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز مالک مکان نے جھگی خالی نہ کرنے پر جھگی کو آگ لگا دی تھی جس میں موجود 2 بچے بھی جھلس کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    خاتون کے مطابق ان کے بچے بسوں میں پانی فروخت کرتے تھے، مالک مکان نے پچھلے مہینے گھر خالی کرنے کا کہا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ مالک مکان نے کل مجھے بہانے سے ایک گھر دیکھنے کے لیے بھیجا، میں جیسے ہی گئی پیچھے سے بچوں کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔

  • دبئی: 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو کرونا ویکسین لگانے کا اعلان

    دبئی: 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو کرونا ویکسین لگانے کا اعلان

    دبئی: متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو کووڈ 19 ویکسین لگانے کا اعلان کردیا گیا، 12 سے 15 سال کی عمر تک کے بچوں کو گزشتہ برس مئی سے ویکسین لگوائی جارہی ہے۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق دبئی ہیلتھ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) نے 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو کووڈ 19 کی فائزر بیونٹیک ویکسین لگانے کا اعلان کیا ہے۔

    اتھارٹی کا کہنا ہے کہ 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کے والدین، ڈی ایچ اے کی ایپ یا واٹس ایپ کے ذریعے بچوں کے لیے کووڈ 19 کی ویکسی نیشن کے لیے پیشگی اپائنٹ منٹ لے سکتے ہیں۔

    فائزر بیونٹیک ویکسین 12 سے 15 سال کے بچوں کے لیے مئی 2021 سے لگائی جارہی ہے۔

    پانچ سال اور اس سے زائد عمر کے بچوں کی ویکسی نیشن شروع کرنے کا فیصلہ کووڈ 19 کے قومی ویکسی نیشن پلان اور متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت (ایم او ایچ اے پی) کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط کے مطابق کیا گیا ہے۔

    یہ اقدام عالمی سائنسی شواہد پر مبنی اور بین الاقوامی پروٹوکول کے عین مطابق ہے۔

    ڈی ایچ اے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شہریوں اور رہائشیوں کی صحت اور حفاظت اولین ترجیح ہے اور یہ اقدام کووڈ 19 ویکسین کے ذریعے اس عمر کے گروپ تک تحفظ کو بڑھانے میں مدد کرے گا۔

    5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو ڈی ایچ اے کے جن مراکز سے ویکسین لگوائی جاسکتی ہے، ان میں عود ميثا ویکسی نیشن سینٹر، الطوار ہیلتھ سینٹر، المزہر ہیلتھ سینٹر، ندالحمر ہیلتھ سینٹر، المنخول ہیلتھ سینٹر، البصيلی ہیلتھ سینٹر، ندالشبا ہیلتھ سینٹر، زعبيل ہیلتھ سینٹر اور البرشا ہیلتھ سینٹر شامل ہیں۔

  • سعودی عرب: کرونا ویکسی نیشن کے لیے بچوں کا خوف کیسے دور کیا جارہا ہے؟

    سعودی عرب: کرونا ویکسی نیشن کے لیے بچوں کا خوف کیسے دور کیا جارہا ہے؟

    ریاض: سعودی عرب میں بچوں کے لیے مختص کرونا ویکسی نیشن سینٹرز میں نہایت خوشگوار ماحول فراہم کیا گیا ہے تاکہ بچے ویکسین لگانے سے خوفزدہ نہ ہوں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 5 سے 11 برس کے بچوں کی ویکسی نیشن کے لیے توکلنا اور صحتی ایپ پر پہلے سے اپائنٹمنٹ کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مملکت کے تمام ریجنز میں 5 سے 11 برس کے بچوں کے لیے ویکسی نیشن کے دو مرحلے بنائے گئے ہیں۔

    پہلے مرحلے میں ایسے بچوں کو ویکسین فراہم کی گئی جو کسی قسم کے امراض کا شکار تھے جبکہ دوسرے مرحلے میں عام بچوں کو ویکسین لگانے کا آغاز کیا گیا ہے۔

    وزارت صحت نے بچوں کو ویکسین لگانے کے لیے سینٹرز میں خصوصی انتظامات کیے ہیں جہاں کارٹون کرداروں کی تصاویر اور رنگ برنگے اسٹیکرز چسپاں کر کے خوشنما ماحول بنایا گیا ہے۔

    ویکسین کے حوالے سے وزارت صحت نے ٹویٹر پر خصوصی شارٹ فلم بھی اپ لوڈ کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے لیے جانے والے بچے وہاں کے ماحول سے خوش ہیں۔

    سینٹر کے عملے کو اس بات کی خصوصی تربیت دی گئی ہے کہ وہ انجیکشن کا خوف بچوں سے کس طرح دور کریں، جس کے لیے سینٹرز میں موجود عملہ بچوں کو رنگ برنگے کارٹون کرداروں کے اسٹیکرز بھی فراہم کرتا ہے جبکہ انہیں مختلف کھلونے بھی دیے جاتے ہیں تاکہ بچے کسی خوف کے بغیر سینٹر میں آئیں۔

    سینٹر کے باہر بچوں کا استقبال کرنے کے لیے بھی خصوصی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جو آنے والے بچوں سے انتہائی نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور انہیں ویکسی نیشن بوتھ میں لے جاتے ہیں۔

    وزارت کی جانب سے بچوں کے لیے بنائی گئی ویڈیو غیر معمولی طور پر مقبول ہورہی ہے جسے دیکھ کر بچے ویکسین لگوانے کے لیے فوراً تیار ہوجاتے ہیں۔

  • سعودی عرب: بچوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے حکام کی وضاحت

    سعودی عرب: بچوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے حکام کی وضاحت

    ریاض: سعودی وزارت صحت نے اسکولوں میں کرونا ویکسی نیشن کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت کے تمام ریجنز میں ویکسی نیشن سینٹرز قائم ہیں جہاں مفت ویکسین فراہم کی جاتی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں طلبا کو ویکسین لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں، مملکت کے تمام ریجنز میں ویکسی نیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں ویکسین مفت فراہم کی جارہی ہے۔

    ویکسین لگوانے کے لیے پیشگی وقت حاصل کرنے کے لیے توکلنا اور صحتی ایپ پر سہولت موجود ہے جس کا مقصد ویکسی نیشن کے عمل کو منظم بناتے ہوئے سینٹرز میں رش نہ ہونے دینا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی وزارت تعلیم نے نرسری اور پرائمری جماعتوں کے طلبا کے لیے اسکولوں میں باقاعدہ حاضری کے لیے 23 جنوری کی تاریخ دی ہے۔

    اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ دنوں سے افواہیں گردش کر رہی تھیں جن میں کہا جارہا تھا کہ طلبا کو اسکولوں میں ویکسین لگائے جانے کا امکان ہے۔

    وزارت صحت نے ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن سینٹرز میں آنے والوں کو ہی ویکسین لگائی جاتی ہے جس کے لیے توکلنا یا صحتی پر اپائنٹمنٹ لینا ضروری ہے۔