Tag: kids

  • بچے کیسے بگڑتے ہیں؟

    بچے کیسے بگڑتے ہیں؟

    کسی شخص کی فطرت و عادات کا تعین بچپن میں کی گئی اس کی تربیت سے ہوتا ہے، تاہم وہ کیا عوامل ہیں جو کسی بچے کی عادات کو خراب کرتے ہیں اور بعد ازاں یہ بچہ بڑا ہو کر معاشرے کا ایک نقصان دہ حصہ بنتا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں چائلڈ سائیکولوجسٹ سیدہ دانش احمد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ والدین اکثر بچوں کے سامنے ایسی عادات کا مظاہرہ کرتے ہیں جو بچوں کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہیں۔

    جیسے وہ انہیں جھوٹ بولنے کا کہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے ہیں یا اونچی آواز میں ان سے بات کرتے ہیں۔

    سیدہ دانش کا کہنا تھا کہ بچوں کا ایک دوسرے سے تقابل کرنا نہایت غلط عمل ہے، ہر بچے کی ذہنی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، اگر وہ کسی ایک معاملے میں کمزور ہوگا تو دوسرے شعبے میں نہایت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا ان میں بچپن میں احساس کمتری اور بڑے ہونے کے بعد حسد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

    سیدہ دانش نے کہا کہ بچوں میں اسمارٹ فونز کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے، اس کا استعمال محدود کرنے کے لیے والدین کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے کہ کس طرح اس کے نقصانات سے بچا جائے اور بچوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے۔

  • فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بچوں کی بھی کووڈ 19 کی ویکسی نیشن کروائی جارہی ہے، فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین بچوں کو لگائے جانے کے حوالے سے ایک نئی تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فائزر اور بائیو این ٹیک نے کہا ہے کہ ان کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو بیماری سے طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس عمر کے بچوں کو ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 4 ماہ بعد بھی 100 فیصد تحفظ حاصل تھا۔

    اس تحقیق میں 12 سے 15 سال کی عمر کے 2 ہزار 228 بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور کمپنی کی جانب سے اس ڈیٹا کے ذریعے اس عمر کے گروپ کے لیے ویکسین کی مکمل منظوری حاصل کرنے کی درخواستیں امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جمع کرائی جائے گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دوسری خوراک کے استعمال کے کم از کم 6 ماہ بعد بھی ان بچوں میں تحفظ کے سنجیدہ تحفظات کا مشاہدہ نہیں ہوسکا۔

    فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت جب دنیا بھر میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافی ڈیٹا بچوں میں ہماری ویکسین کے محفوظ اور مؤثر کے حوالے سے اعتماد کو بڑھائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس عمر کے بچوں میں کووڈ 19 کی شرح میں اضافے کو دیکھا گیا ہے جبکہ ویکسی نیشن سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

    امریکا میں مئی 2021 کو 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی گئی تھی اور اب کمپنیوں کی جانب سے جلد مکمل منظوری کے حصول کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    امریکا میں 16 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے اس ویکسین کی مکمل منظوری دی گئی ہے۔

  • 6 ماہ کے بچوں کے لیے کون سی کووڈ ویکسین محفوظ ہے؟

    6 ماہ کے بچوں کے لیے کون سی کووڈ ویکسین محفوظ ہے؟

    چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 6 ماہ اور اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے بھی مؤثر اور محفوظ قرار دے دی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 6 ماہ یا اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے محفوظ قرار دے دی گئی۔

    کمپنی کے حکام نے بتایا کہ سائنو ویک کی جانب سے اکتوبر میں 3 سے 17 سال کی عمر کے بچوں پر ویکسین کی آزمائش کے ٹرائلز کے ابتدائی 2 مراحل کے نتائج ہانگ کانگ حکومت کے پاس جمع کروائے گئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ٹرائلز میں بچوں کے مدافعتی ردعمل اور ویکسین محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    چین میں 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی ویکسی نیشن کو بھی ویکسین کے محفوظ ہونے کے ڈیٹا میں شامل کیا گیا تھا۔ سائنو ویک کے میڈیکل افیئرز ڈائریکٹر ڈاکٹر گاؤ یونگ جون نے بتایا کہ اب تک ہم نے بچوں میں کسی قسم کے مضر اثرات دریافت نہیں کیے جو ایک اچھی بات ہے۔

    سائنو ویک کی جانب سے اکتوبر میں ہانگ کانگ حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ ویکسی نیشن کے لیے بچوں کی عمر کی حد کم کی جائے جو ابھی 3 سال سے شروع ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر گاؤ یونگ نے بتایا کہ ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ویکسین بچوں کے لیے بہت زیادہ محفوظ ہے اور اس سے کسی قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    تیسرے مرحلے کے ٹرائل کا آغاز ستمبر 2021 میں جنوبی افریقہ، چلی، فلپائن اور ملائیشیا میں ہوا تھا اور اس میں 6 ماہ سے 17 سال کی عمر کے 14 ہزار بچوں کو شامل کیا جائے گا۔

    ان میں ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت، مدافعتی ردعمل اور محفوظ ہونے کو جانچا جارہا ہے۔ اب تک 2 ہزار 140 بچوں کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں اور 684 میں ویکسین کے محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    18.6 فیصد میں ویکسین سے جڑے مضر اثرات دریافت ہوئے جن میں سردرد اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف نمایاں ہیں۔ یہ شرح ٹرائلز کے ابتدائی 2 مراحل کی 26.6 فیصد سے کم ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسین کی افادیت کے ڈیٹا کے تجزیے کے لیے مزید وقت درکار ہے اور عبوری رپورٹ آئندہ سال دستیاب ہوگی۔

  • بچوں کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار دینے والا واحد ملک

    بچوں کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار دینے والا واحد ملک

    وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بچوں کے لیے کووڈ ویکسی نیشن لازمی قرار دے دی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کوسٹا ریکا کی حکومت نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ بچوں کو ویکسین لگانے کا معاہدہ کرلیا، جس کے تحت 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کو لازمی ویکسین لگائی جائے گی۔

    کوسٹا ریکا حکام کے مطابق مارچ 2022 سے کرونا وائرس کی ویکسین کو لازمی ویکسی نیشن کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔

    ملک میں پہلے ہی بچوں کو متعدد موذی امراض سے تحفظ کی ویکسین لگائی جا رہی ہیں اب بچوں کو کرونا سے تحفظ کی فائزر ویکسین بھی دی جائے گی۔

    معاہدے کے تحت کوسٹا ریکا کی حکومت 15 لاکھ ڈوز 5 سال سے زائد عمر بچوں کے لیے خریدے گی جبکہ باقی 20 لاکھ ڈوز بالغ افراد کو لگانے کے لیے خریدے جائیں گے۔

    حکومت کے مطابق اس وقت تک کوسٹا ریکا میں مجموعی طور پر 70 فیصد آبادی کو ایک ڈوز لگ چکی ہے جب کہ 55 فیصد لوگ مکمل طور پر ویکسی نیشن کروا چکے ہیں۔

    کوسٹا ریکا کی حکومت نے ویکسین کو بچوں کے لیے ایک ایسے وقت میں لازمی قرار دیا ہے جبکہ حال ہی میں امریکی حکومت نے 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کو فائزر ویکسین لگانے کی اجازت دی تھی۔

    کوسٹا ریکا کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک نے تاحال بچوں کے لیے کرونا کی ویکسین کو لازمی قرار نہیں دیا، البتہ وبا سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کو ضروری قرار دے رکھا ہے۔

     

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔

  • شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ کیوں دیا؟

    شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ کیوں دیا؟

    معروف گلوکار و سماجی کارکن شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ دے دیا، انہوں نے کہا کہ گو کہ بڑے کنچے کھیلنے سے منع کرتے ہیں لیکن بزرگ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شہزاد رائے نے ایک بچے کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں بچے کو کنچے کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    شہزاد رائے نے لکھا کہ جب میں چھوٹا تھا تو میں نے ہمیشہ اپنے بڑوں سے یہی سنا کہ گندے بچے کنچے کھیلتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حقیقت میں، یہ کھیل ہاتھوں سے آنکھوں کو ہم آہنگ کرنے میں مدد کرتا ہے اور چھوٹے بچوں میں مہارت پیدا کرتا ہے۔

    شہزاد رائے کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتے لہٰذا احترام کے ساتھ سوالات پوچھیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

  • کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کرونا وائرس سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو بالکل ویسے ہی پھیلا سکتے ہیں جیسے کووڈ 19 سے متاثرہ کوئی بالغ شخص۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بچے کووڈ 19 سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو آگے بالغ افراد کی طرح ہی پھیلا سکتے ہیں۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل، برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل اور ریگن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں سابقہ نتائج کی تصدیق کی گئی کہ نومولود بچے، چھوٹے اور بڑے بچوں کے نظام تنفس میں کرونا وائرس کی تعداد بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے اور ان کے جسموں میں اسی شرح سے وائرس کی نقول بنتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 2 ہفتے سے 21 سال کی عمر کے 110 بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے بچوں میں چاہے ان میں بیماری کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں، وائرل لوڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سوال پہلے سے موجود تھا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور زندہ وائرس کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب ٹھوس جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں کہ یہ زیادہ وائرل لوڈ متعدی ہوتا ہے یعنی بچے بہت آسانی سے کووڈ 19 کو اپنے ارگرد پھیلا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر بچے اس وائرس کو جسم میں لے کر پھر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طالب علم اور اساتذہ اب اسکول لوٹ رہے ہیں مگر اب بھی بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے، جیسے
    بیشتر بچوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے یہ غلط خیال پیدا ہوا کہ بچوں سے اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کے وائرل فیچرز کی جانچ پڑتال سے زیادہ بہتر پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

  • اسکول سے واپس آئے بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

    اسکول سے واپس آئے بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

    نئی دہلی: بھارت میں ایک گھر میں ہونے والی ڈکیتی اس وقت خونریز واردات میں بدل گئی جب ڈاکوؤں نے گھر میں موجود خاتون کو قتل کردیا، بچے اسکول سے گھر لوٹے تو ماں کو مردہ حالت میں پا کر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ واقعہ غازی آباد میں پیش آیا جہاں 35 سالہ خاتون اپنے 3 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر پر اکیلی تھی۔ ان کا شوہر کام پر گیا ہوا تھا جبکہ 13 سالہ بیٹی اور 10 سالہ بیٹا اسکول گئے ہوئے تھے۔

    دن میں کسی وقت ڈکیت گھر میں داخل ہوئے اور خاتون اور بچے کو یرغمال بنا کر گھر میں موجود 70 ہزار روپے مالیت کے زیورات اور 50 ہزار روپے نقد اپنے ساتھ لے گئے، خاتون نے ممکنہ طور پر مزاحمت کی جس پر ڈاکوؤں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    بچے جب اسکول سے گھر پہنچے تو انہوں نے ماں کو بے حس و حرکت صوفے پر پڑا ہوا پایا جبکہ چھوٹا بھائی فرش پر بیٹھا رو رہا تھا۔

    خاتون کے شوہر دلشاد کو پڑوسی کی جانب سے فون کیا گیا جس کے بعد وہ فوری طور پر گھر پہنچا۔

    دلشاد نے پولیس کو بتایا کہ اس نے قرض کی واپسی کے لیے کچھ رقم گھر میں جمع کر رکھی تھی جو ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے۔

    پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کردی، اب تک پولیس آس پاس کے 30 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرچکی ہے لیکن تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے ممکنہ طور پر خاتون کے منہ پر تکیہ رکھا اور دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے جس سے مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

  • ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    بیجنگ: چینی کمپنی کین سائنو کی کووڈ 19 کی ایک خوراک والی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار دی گئی ہے، تحقیق کے مطابق ویکسین کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی کین سائنو کی ایک خوراک والی کووڈ 19 ویکسین کو کم مقدار میں بچوں کو دینا محفوظ اور بیماری سے بچاؤ کے لیے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے۔

    چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں ویکسین کی کم خوراک کا استعمال کروایا گیا تھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ بہت کم بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد بخار اور سر درد کی علامات ظاہر ہوئیں جن کی شدت لیول 2 تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی خوراک کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔ اس تحقیق میں 150 بچوں اور 300 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں علم ہوا کہ ویکسین کی کم مقدار والی ایک خوراک سے ہی بچوں میں ویکسی نیشن کے 56 دن بعد بالغ افراد کے مقابللے میں زیادہ طاقتور اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا۔

    مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ ویکسین سے بچوں کو کووڈ 19 کے خلاف کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    کین سائنو کو ابھی تک چین میں بچوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی گئی بلکہ سائنو ویک اور سائنو فارم کو 3 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو استعمال کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

  • چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چین میں تیار کی جانے والی ایک کووڈ 19 ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار دی گئی ہے، چین میں اس ویکسین کا استعمال فی الحال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے محفوظ ہے، یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج میں سامنے آئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق یہ ویکسین 3 سے 17 سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت ہوئی۔

    چین میں اس ویکسین کا استعمال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ 2 خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔

    کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا جہاں 3 سال کے بچوں کو ویکسی نیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

    چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسی نیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسی نیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اب بھی 12 سال سے کم عمر بچوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوسکی ہے اور ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیئے۔

    ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں 288 جبکہ دوسرے مرحلے میں 720 بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے والا مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل تھا، بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی کی تاریخ تھی۔