Tag: kids

  • بچوں میں کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ

    بچوں میں کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ

    واشنگٹن: امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ کیسز کی شرح میں اضافے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی اکثریت کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ایک تحقیق کی گئی جس میں طبی ماہرین کی جانب سے بچوں اور بالغ افراد میں کووڈ 19 کی بیماری کی شدت میں فرق کی جانچ کی گئی۔

    بالغ افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بڑھانے والے عوامل تو کافی حد تک سامنے آچکے ہیں مگر بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کے عناصر کے بارے میں زیادہ تفصیلات موجود نہیں۔

    اسی کو جاننے کے لیے وینڈر بلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے منرو کاریل جونیئر چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے بچوں کے 45 ہسپتالوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جہاں 20 ہزار مریض زیر علاج رہے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ امریکا بھر میں بچوں میں کووڈ کیسز کی شرح میں اضافے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی اکثریت کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔

    تحقیق میں بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا باعث بننے والے عناصر کا تعین کیا گیا۔

    تحقیق کے مطابق زیادہ عمر اور مختلف طبی مسائل جیسے موٹاپا، ذیابیطس اور دماغی امراض بچوں میں کووڈ کی شدت سنگین بڑھانے والے عناصر ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان عناصر سے بیماری کے خلاف کمزور بچوں کی شناخت کرنے میں مدد مل سکے گی جن میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ نتائج سے ان بچوں کے لیے ویکسی نیشن کو ترجیح بنانے کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ کے باعث اپریل سے ستمبر 2020 کے دوران ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے ہر 4 میں سے ایک بچے کو سنگین شدت کا سامنا ہوا اور انہیں آئی سی یو نگہداشت کی ضرورت پڑی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کچھ بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہے اور ان میں سے بیشتر ویکسی نیشن پروگرام کے لیے اہل نہیں۔

  • کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    اکثر اوقات ہمیں اپنے گھر میں یا ارد گرد موجود بچے کچھ کچھ بیمار سے لگتے ہیں، والدین بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچہ بالکل صحت مند ہے اور اسے کوئی بیماری نہیں۔

    لیکن اس کے باوجود بچہ بیمار اور سست سا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے لیے یہ جاننا باعث حیرت ہوگا کہ کسی بچے کے بیمار ہونے کی وجہ اس کا جسمانی طور پر غیر فعال ہونا بھی ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں ہر 4 میں سے 1 بچہ مناسب طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کی زد میں ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے کچھ عرص قبل ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خاص طور پر بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ بچوں کو جسمانی طور پر فعال کرنے کے لیے ہمیں خاص کوششوں کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ تعلیم دی جائے یا کوئی طویل المدتی منصوبہ بنایا جائے۔ اس کے لیے صرف ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی دنیا کو ایسا بنائیں جہاں جسمانی سرگرمیاں فروغ پاسکیں۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد (بچے اور بالغ) افراد ایسے ہیں جو جسمانی طور پر سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق ہمیں لاحق ہونے والی کئی بیماریاں ایسی ہیں جن سے صرف جسمانی طور پر حرکت کے ذریعے باآسانی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے کے لیے پیدل چلنا اور سائیکل چلانا بہترین طریقہ کار ہیں۔

  • 2 سال میں ہزاروں بچوں کو آئی ٹی کی جدید ٹریننگ دیں گے: صوبائی وزیر

    2 سال میں ہزاروں بچوں کو آئی ٹی کی جدید ٹریننگ دیں گے: صوبائی وزیر

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر عاطف خان کا کہنا ہے آئندہ 2 سال میں 25 ہزار بچوں کو آئی ٹی کی جدید ٹریننگ دیں گے، وفاقی ادارے نے سیاحتی مقامات پر انٹرنیٹ سروس کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی عاطف خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کاروبار کے میدان میں خواتین کو آگے لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا تھا کہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ناگزیر ہے، صوبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ 2 سال میں 25 ہزار بچوں کو آئی ٹی کی جدید ٹریننگ دیں گے، ٹریننگ پر 3 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں آئی ٹی زونز بنانے جا رہے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا تھا کہ سرکاری دفاتروں کو ڈیجیٹلائز کرنا ضروری ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں رواں سیزن ہزاروں لوگ سیاحتی مقامات پر آئے، رواں سیزن میں 66 بلین روپے کا کاروبار ہوا۔ وفاقی ادارے نے سیاحتی مقامات پر انٹرنیٹ سروس کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

  • ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    کرونا وائرس بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو کم متاثر کرسکتا ہے تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے نیا انکشاف ہوا ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے بچوں کا نوجوانوں کے مقابلے میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے تاہم اگر وہ کووڈ کے شکار ہوجائیں تو وہ اس وائرس کو اپنے گھر کے افراد میں پھیلا سکتے ہیں۔

    تحقیق میں اس بحث کا واضح جواب تو نہیں دیا گیا کہ بچے بھی بالغ افراد کی طرح اس وبائی مرض کو پھیلا سکتے ہیں یا وبا میں ان کا کردار ہے یا نہیں، مگر نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یکم جون سے 31 دسمبر 2020 کے دوران کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں ریکارڈ ہونے والے کووڈ کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے پھر ان گھرانوں میں اس پہلے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ 19 کی علامات نمودار ہوئی تھیں یا وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا تھا۔

    بعد ازاں ایسے 6 ہزار 820 گھرانوں پر توجہ مرکوز کی گئی جہاں اس وائرس سے پہلے متاثر ہونے والے مریض کی عمر 18 سال سے کم تھی، جس کے بعد اسی گھر کے دیگر افراد میں کیسز کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ بیشتر کیسز میں وائرس کا پھیلاؤ متاثرہ بچے پر رک گیا مگر 27.3 فیصد گھرانوں میں بچوں نے وائرس کو گھر کے کم از کم ایک رکن میں منتقل کیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 14 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی جانب سے وائرس کو گھر لانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا کم از کم اس تحقیق میں کسی گھرانے میں سب سے پہلے متاثر ہونے والے 38 فیصد افراد کی عمریں یہی تھیں۔

    جن گھرانوں میں 3 سال یا اس سے کم عمر بچے سب سے پہلے بیمار ہوئے ان کی شرح محض 12 فیصد تھی مگر ان کی جانب سے وائرس کو آگے پھیلانے کا امکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق 3 سال یا اس سے کم عمر بچوں سے گھر کے دیگر افراد میں وائرس پھیلنے کاامکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ ننھے اور زیادہ عمر کے بچوں کے رویوں میں فرق ہے۔

    ننھے بچے گھر سے باہر بہت زیادہ گھومتے پھرتے نہیں اور جسمانی طور پر گھر والوں کے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے وائرس پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہو یا وہ زیادہ مقدار میں وائرل ذرات کو جسم سے خارج کرتے ہوں۔

  • کیا ڈیلٹا کرونا بچوں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتا ہے؟

    کیا ڈیلٹا کرونا بچوں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور متعدی ثابت ہورہی ہے اور اب بچوں پر بھی اس کے خطرناک اثرات سامنے آرہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم بچوں میں بالغ افراد جتنی ہی متعدی ہوسکتی ہے۔

    چلڈرنز ہاسپٹل ایسوسی ایشن اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے ڈیٹا کے مطابق امریکا میں ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے ساتھ بچوں میں کووڈ کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    ڈیٹا کے مطابق 22 سے 29 جولائی کے دوران 18 سال سے کم عمر بچوں میں 71 ہزار سے زیادہ کووڈ کیسز رپورٹ ہوئے، ہر 5 میں سے ایک نیا کیس بچوں یا نوجوانوں کا تھا۔

    جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے بتایا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم مریض بچوں کی نگہداشت میں بہت مصروف رہے، وبا کے آغاز کے بعد سے ہم نے اپنے اسپتال میں کووڈ کیسز کی سب سے زیادہ شرح کو دیکھا۔

    تاہم بچوں میں ڈیلٹا سے بیماری کی شدت کے حوالے سے رپورٹس ملی جلی ہیں۔

    امریکی ریاستوں کے ڈیٹا کے مطابق کووڈ سے متاثر بچوں کے اسپتال میں داخلے کی شرح اتنی ہی ہے جتنی سابقہ اقسام کے پھیلاؤ کے دوران تھی یعنی 0.1 سے 1.9 فیصد۔

    جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کی نائب صدر اینجلا گرین نے بتایا کہ اگرچہ مجموعی کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر کووڈ سے ہسپتال میں داخلے کی شرح پہلے جیسی ہی ہے۔

    امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے مطابق اس بار بھی ایسا ہی نظر آتا ہے کہ بچوں میں کووڈ 19 سے بیماری کی سنگین شدت زیادہ عام نہیں۔

    ممفس کے لی بون ہیور چلڈرنز ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر نک ہاشمٹ کے مطابق ماضی میں عموماً بچوں میں کووڈ کی تشخیص کسی اور طبی مسئلے کے علاج کے دوران ہوتی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی بیماری کے علاج کے دوران معمول کے ٹیسٹ سے کووڈ کی بغیر علامات والی بیماری کا انکشاف ہوتا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا سے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور حالیہ ہفتوں کے دوران ہم نے بچوں میں کووڈ کو دیکھا اور اسپتال میں داخل کیا، انہیں نظام تنفس کی علامات اور سانس لینے میں دشواری کے باعث ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

    ان کے خیال میں ڈیلٹا میں کچھ ایسا ہے جو سابقہ اقسام سے کچھ مختلف ہے۔

  • بچوں کی حفاظت کے لیے انسٹاگرام کے نئے فیچرز

    بچوں کی حفاظت کے لیے انسٹاگرام کے نئے فیچرز

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام نے نئے فیچرز متعارف کروائے ہیں جن کا مقصد بچوں کو محفوظ ڈیجیٹل اسپیس فراہم کرنا ہے۔

    انسٹاگرام کی ملکیت رکھنے والی کمپنی فیس بک نے گزشتہ روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے تین نئے فیچرز کا اعلان کیا ہے۔

    پہلے فیچر یہ ہے کہ اگر 13 سال یا اس سے کم عمر کا کوئی بھی بچہ انسٹا گرام پر اکاؤنٹ بنائے گا تو خود کار طور پر وہ پرائیویٹ ہوگا یعنی اس اکاؤنٹ پر لگائی جانے والی پوسٹس صرف دوسرے کم عمر بچے ہی دیکھ سکیں گے۔

    ان کے علاوہ صرف ان ہی بڑوں کی نظروں سے یہ پوسٹس گزر سکیں گی جنہیں یہ بچہ (صارف) خود اجازت دے گا۔

    دوسرے فیچر کے ذریعے انسٹاگرام پر مشکوک حرکتیں کرنے والے اکاؤنٹس کی نگرانی میں زیادہ سختی کی جائے گی اور انہیں کم عمر بچوں کو براہ راست پیغامات بھیجنے یا ڈی ایم کرنے سے بھی باز رکھا جائے گا۔

    تیسرے فیچر کے ذریعے اشتہار دینے والے اداروں کےلیے بھی آپشنز محدود کیے جائیں گے تاکہ انسٹاگرام استعمال کرنے والے بچوں تک صرف وہی اشتہارات پہنچیں جو ان کی عمر کے حساب سے ہیں۔

    اس اعلان سے منسلک ایک اور پوسٹ میں فیس بُک کی نائب صدر یوتھ پروڈکٹس پاؤنی دیوانجی نے واضح کیا ہے کہ اکاؤنٹ بنانے والے فرد کی درست عمر کا پتہ لگانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے گا۔

  • بچوں کو ورزش کروانے کا ایک اور فائدہ

    بچوں کو ورزش کروانے کا ایک اور فائدہ

    بچوں سمیت ہر عمر کے شخص کے لیے جسمانی سرگرمیاں نہایت اہمیت رکھتی ہیں اور حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے ماہرین نے نیا انکشاف کیا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈیلا ویئر یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کچھ دیر کی ورزش بچوں کے ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    طبی جریدے جرنل آف اسپیچ لینگوئج اینڈ ہیئرنگ ریسرچ میں شائع تحقیق میں جسمانی سرگرمیوں یا ورزش کے بچوں کی زبان دانی پر اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔

    تحقیق میں 6 سے 12 سال کے بچوں کو سوئمنگ، کراس فٹ ایکسر سائز یا ڈرائنگ کرنے سے پہلے چند نئے الفاظ سکھائے گئے۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کو تیراکی کا موقع ملا، انہوں نے ان الفاظ کے ٹیسٹوں میں 13 فیصد زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابل فہم ہے کیونکہ ورزش سے دماغی نشوونما تیز ہوتی ہے اور نئے الفاظ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    تاہم کراس فٹ کے مقابلے میں تیراکی زیادہ مؤثر کیوں ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے محققین نے بتایا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی جسمانی سرگرمی کے لیے دماغ کو کتنی توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔

    سوئمنگ ایک ایسی سرگرمی ہے جو بچے آسانی سے کرلیتے ہیں بلکہ ان کو زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، جبکہ کراس فٹ ایکسرسائز ان کے لیے بالکل نئی ہوتی ہے اور انہیں اس کو سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے ذہنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم تحقیق کے نتائج کے حوالے سے بہت پرجوش ہیں کیونکہ اس کا اطلاق آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور والدین، استاد اور دیگر بچوں کو اس کی مشق کراسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سادہ عمل ہے اور اس کے لیے کچھ بھی غیر معمولی درکار نہیں ہوتا، بس بچوں کو جسمانی سرگرمیوں کی جانب مائل کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔

  • اسلام آباد: 9 ہزار بچوں میں کرونا وائرس کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: 9 ہزار بچوں میں کرونا وائرس کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرونا وائرس کیسز ایک بار پھر بڑھ گئے، 1 سے 10 سال کی عمر کے بھی 9 ہزار 454 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرونا وائرس کیسز میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ ڈی ایچ او اسلام آباد کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے میں 125 کرونا کیسز رپورٹ ہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ شہر میں مثبت کرونا کیسز کی شرح 6.2 فیصد ہے، اسلام آباد کے اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 149 مریض زیر علاج ہیں۔

    ڈی ایچ او کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 16 سو 61 ہے، 1 سے 10 سال کی عمر کے 9 ہزار 454 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز 23 بچوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

  • بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا شکار ہونے کی شرح کم ہوتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی لیور پول یونیورسٹی اور لندن کالج یونیورسٹی کی نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ اس حوالے سے اب تک کی سب سے جامع اور بڑی تحقیق تھی جس میں عوامی طبی ڈیٹا کا منظم انداز سے تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے کسی بیماری سے متاثر ہوں، تاہم مجموعی طور پر یہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی وبا کے ایک سال کے دوران (فروری 2021 کے آخر تک) برطانیہ میں 18 سال سے کم عمر 251 افراد اس بیماری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

    ماہرین نے یہ تعین کرنے کی کوشش کی کہ اس عمر کے گروپ میں خطرات بڑھانے والے عناصر کون سے ہوتے اور دریافت کیا کہ اس عمر کے گروپ میں 50 ہزار میں سے صرف ایک میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں داخلے کا امکان ہوتا ہے۔

    کووڈ سے بچوں میں ورم کے ایک سینڈروم پی آئی ایم ایس ٹی ایس کا الگ سے جائزہ لینے پر محققین نے دریافت کیا کہ 309 بچوں کو اس عارضے کے باعث آئی سی یو میں داخل کیا گیا اور یہ خطرہ ہر 38 ہزار 911 میں سے ایک کو ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس عمر کے گروپ میں وہ افراد زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں جن کو موسم سرما کے کسی وائرس یا دیگر بیماریوں کے بہت زیادہ خطرے کا بھی سامنا ہوتا ہے، مختلف بیماریوں اور معذوریوں کے شکار بچوں اور نوجوانوں میں یہ مرض خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج بہت اہم ہیں اور اس سے بچوں اور نوجوانوں میں ویکسنیشن کے حوالے سے فیصلے کرنے میں نہ صرف برطانیہ بلکہ بین الاقوامی سطح پر رہنمائی مل سکے گی۔