Tag: kids

  • بچوں کو سبزیاں کیسے کھلائی جائیں؟

    بچوں کو سبزیاں کیسے کھلائی جائیں؟

    بچوں کو سبزی کے علاوہ ہر کھانا بے حد پسند ہوتا ہے لیکن سبزیاں جسم کے لیے بے حد ضروری ہیں جنہیں کھانے کی عادت بچوں کو بچپن سے ہی ڈال دینی چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عائشہ عباس نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران بتایا کہ بچوں کو سبزیاں کھلانا از حد ضروری ہے تاکہ ان کا ہاضمہ ٹھیک رہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ بچوں کو چاول، نوڈلز یا پاستہ اور پیزا وغیرہ بہت پسند ہوتے ہیں، کوشش کریں کہ ان اشیا میں سبزیوں کا استعمال ضرور کریں، بچوں کو گوشت کھانا پسند ہوتا ہے اس میں بھی سبزیاں شامل کریں۔

    انہوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے دوران کوشش کریں کہ بچوں کا فوکس مکمل طور پر کھانے کی طرف ہو اور اس دوران ٹی وی یا موبائل فون استعمال نہ ہورہا ہو۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اسکول کے لیے لنچ دیتے ہوئے الگ الگ خانوں والا لنچ باکس استعمال کریں تاکہ بچوں کو بھرپور غذا دی جاسکے، اس میں پھلوں اور سبزیوں سمیت دو تین اشیا شامل کریں۔

    ماں باپ خود بھی سبزیاں کھائیں تاکہ بچوں کو انہیں دیکھ کر عادت ہو، علاوہ ازیں شیر خوار بچے کو پہلی غذا سبزی دیں تاکہ اسے سبزی کھانے کی عادت پڑے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ آلو بچوں کے لیے قابل ہضم سبزی ہے اور وہ بچے شوق سے بھی کھاتے ہیں لہٰذا آلو کو مختلف طریقوں سے بچوں کو کھلائیں۔

  • ایک گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کے لیے خطرناک

    ایک گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کے لیے خطرناک

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے کہا ہے کہ والدین اپنے اسکول جانے والے بچوں کو ایک گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون استعمال نہ کرنے دیں ورنہ اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں والدین اور بچوں کو بتایا گیا کہ وہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو اسکول جانے والے دنوں میں ایک گھنٹے تک اور ویک اینڈ پر چار گھنٹے تک استعمال کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں ٹین ایجر بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کا جائزہ لیا گیا، جس میں سوشل میڈیا یا تفریحی ویڈیو گیمز شامل تھیں۔

    محققین نے والدین کو آگاہ کیا کہ اسکول جانے والے دنوں میں بچوں کو ایک گھنٹے سے زیادہ یہ تفریحی ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنے دیں۔

    تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر، اسکول آف سوشل ورک اینڈ ریسرچ ایسوسی ایٹ، ویوین انتھونی کے مطابق انٹر ایکٹو ٹیکنالوجی کو زیادہ تر بچوں میں تعلیمی رسائی کے بہترین نتائج کے حصول کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران اسے دور سے بیٹھ کر تعلیم دینے کے لیے اہم سہولت کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے تفریحی مقصد کے طور پر بھی استعمال کیا گیا جس سے بچوں پر تعلیم کے حوالے سے مضر اثرات مرتب ہوئے۔

  • کرونا وائرس: بچوں کے لیے خطرات میں اضافہ

    کرونا وائرس: بچوں کے لیے خطرات میں اضافہ

    کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد بالغ افراد میں لانگ کووڈ کے بے شمار کیسز سامنے آئے تاہم اب بچوں میں بھی ایسے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والے بچوں میں مسلسل تھکاوٹ اور لانگ کووڈ کی دیگر علامات کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے روسی دارالحکومت ماسکو کے ایک اسپتال میں اپریل سے اگست 2020 کے دوران کووڈ کے باعث زیر علاج رہنے والے 500 سے زائد بچوں کے والدین سے انٹرویو کیے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایک چوتھائی کے قریب بچوں میں گھر لوٹنے کے 5 ماہ بعد بھی علامات کا تسلسل برقرار رہا تھا، ان میں سب سے عام تھکاوٹ، نیند اور سانس کے مسائل سب سے عام تھے۔

    ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے متاثر بچوں میں ابتدائی بیماری کے بعد بھی لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق میں شامل 518 بچوں میں سے 24 فیصد میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 7 سے 9 گھنٹے بعد بھی علامات کا تسلسل موجود تھا۔

    10 فیصد نے تھکاوٹ اور 7 فیصد نے نیند میں خلل کے مسائل کو رپورٹ کیا۔

    لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں میں چھوٹے بچوں کے مقابلے میں لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ نظر آتا ہے یا الرجی کی تاریخ بھی اس خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ نتائج ابتدائی ہیں مگر ڈاکٹروں کو بچوں میں لانگ کووڈ کے امکان کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے، تھکاوٹ سب سے عام مسئلہ ہے، ہم ایک یا 2 دن کی تھکاوٹ کی بات نہیں کررہے بلکہ ایسی تھکاوٹ کی بات کررہے ہیں جو مسلسل برقرار رہتی ہے اور اس کی وجہ کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد 8 فیصد سے زیادہ بچوں کو سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ بہتری آئی مگر 7 ماہ بعد بھی لگ بھگ 6 فیصد نے اس مسئلے کو رپورٹ کیا۔

    دیگر اسپتالوں جیسے سوئیڈن اور اٹلی میں بھی حال ہی میں بچوں میں لانگ کووڈ کے کیسز رپورٹ کیے گئے جس کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس وائرس کی بچوں پر اثرات کی تحقیق کی جانی ضروری ہے۔

  • خون میں لوتھڑے بننے کی شکایات، بچوں پر ویکسین کا ٹرائل روک دیا گیا

    خون میں لوتھڑے بننے کی شکایات، بچوں پر ویکسین کا ٹرائل روک دیا گیا

    لندن: برطانوی آکسفورڈ / ایسٹرا زینیکا کی کرونا ویکسین کا بچوں پر ٹرائل روک دیا گیا ہے، برطانوی ریگولیٹری اتھارٹی نے ویکسین لگائے جانے والے افراد کے خون میں لوتھڑے بننے کی شکایات پر یہ قدم اٹھایا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی / ایسٹرا زینیکا کی کرونا ویکسین کا بچوں پر ٹرائل روک دیا گیا ہے، ٹرائل برطانوی ریگولیٹری اتھارٹی نے روکا ہے۔

    ایسٹرا زینیکا ویکسین کے بڑی عمر کے افراد میں بلڈ کلاٹس کی شکایات پر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

    برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق طبی ماہرین اور سائنسدان انسانی جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    برطانوی ویکسین ریگولیٹری اتھارٹی کو 18 ملین میں سے 30 افراد میں بلڈ کلاٹس بننے کی شکایت موصول ہوئی تھیں۔

    خیال رہے کہ اب تک کرونا وائرس نے بچوں کو متاثر نہیں کیا تھا لیکن اب کرونا وائرس کی نئی اقسام بچوں کو بھی اپنا شکار بنا رہی ہے۔

    ایسٹرا زینیکا نے 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا تھا۔

    اس سے قبل فائزر نے بھی فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ 5 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں پر ایک کووڈ ویکسین کی آزمائش کرے گی جبکہ امریکی کمپنی موڈرنا نے بھی 6 سے 12 سال تک کے بچوں پر کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل شروع کردیا ہے۔

  • انسٹاگرام نے بچوں کو خوشخبری سنا دی

    انسٹاگرام نے بچوں کو خوشخبری سنا دی

    سوشل نیٹ ورکنگ سروس انسٹاگرام کی موجودہ پالیسی 12 برس سے کم عمر بچوں کو یہ پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکتی ہے، تاہم اب اسے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فیس بک کی فوٹو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے تصدیق کی ہے کہ 13 برس سے کم عمر بچوں کے لیے مقبول ایپ کے نئی ورژن کی تیاری پر کام جاری ہے۔

    ایڈم موسیری کا کہنا ہے کہ فیس بک کی زیر ملکیت کمپنی یہ جانتی ہے کہ بہت سے بچے انسٹاگرام استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس حوالے سے ابھی تک تفصیلی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ نوجوان افراد یا بچوں کے لیے انسٹاگرام کا ایک نیا ورژن تیار کیا جائے جہاں والدین کے پاس ٹرانسپیرنسی یا کنٹرول ہو۔

    خیال رہے کہ انسٹاگرام کی موجودہ پالیسی 12 برس سے کم عمر بچوں کو پلیٹ فارم کے استعمال سے روکتی ہے۔

    فیس بک کے ترجمان جو اوسبورن کا کہنا ہے کہ بچوں کی بڑی تعداد اپنے والدین سے پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ اپنے دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لیے ایپس جوائن کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم انسٹاگرام میں پیرنٹ کنٹرولڈ تجربہ لانے پر کام کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رہ سکیں، انہیں نئی مشغلے اور دلچسپیاں ڈھونڈنے میں مدد مل سکے۔

  • کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کرونا وائرس نے درمیانی اور بڑی عمر کے افراد کو خاصا متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنی ویکسینز بنائی گئیں انہیں اسی عمر کے افراد پر آزمایا گیا، اب کووڈ ویکسین کا بچوں پر ٹرائل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی کمپنی موڈرنا نے 6 سے 12 سال تک کے بچوں پر کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل شروع کردیا ہے، کمپنی کی جانب سے اس ٹرائل میں 6 ہزار 750 بچوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

    کمپنی کے سی ای او اسٹیفن بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ ہم ایم آر این اے 1273 کووڈ ویکسین کا ٹرائل امریکا اور کینیڈا میں صحت مند بچوں پر شروع کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بچوں پر ہونے والی اس تحقیق سے اس عمر کی آبادی میں کووڈ 19 ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کے مقابلے میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے، مگر وہ اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں اور وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

    اس سے قبل فائزر نے بھی فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ 5 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں پر ایک کووڈ ویکسین کی آزمائش کرے گی جبکہ آکسفورڈ / ایسٹرا زینیکا نے بھی 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔

    اسی طرح جانسن اینڈ جانسن بھی نومولود سے لے کر 18 سال کی عمر کے بچوں پر ایک سنگل ڈوز کووڈ ویکسین کی آزمائش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • تیونس میں سینکڑوں بچے کرونا وائرس کا شکار

    تیونس میں سینکڑوں بچے کرونا وائرس کا شکار

    تیونس میں کرونا وائرس سے 600 سے زائد بچے متاثر ہوگئے، وزات صحت کا کہنا ہے کہ اگر بچے کسی مرض میں مبتلا ہوں تب ہی وہ کرونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق تیونس کی وزارت صحت کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے 600 سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔

    تیونس کی سوسائٹی برائے صحت اطفال کے سربراہ ڈاکٹر محمد الدوعاجی کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار کرونا وائرس کے ہیں جبکہ اسی طرح کے ایک وائرس سے گزشتہ 15 برس کے دوران 6 ہزار بچے وائرس کا شکار ہوئے اور 8 بچوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔

    ڈاکٹر محمد الدوعاجی کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس شیر خوار اور بچوں کی موت کا باعث صرف اس صورت میں بنتا ہے جب وہ سینے کے امراض میں مبتلا ہوں یا ان کے دل میں کوئی پیدائشی خرابی ہو یا کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ مارچ سے یہ بات ریکارڈ پر آئی کہ بچے بھی کرونا وائرس میں مبتلا ہو سکتے ہیں تاہم بڑوں کے مقابلے میں بچوں پر وائرس کی علامتیں ہلکی ہوتی ہیں، البتہ اگر بچے سینے کے امراض میں مبتلا ہوں تب بچوں اور بڑوں کی علامتوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

    سینے کے مرض کی وجہ سے وائرس پھیپھڑوں میں منتقل ہوجاتا ہے اس لیے صورتحال سنگین ہوجاتی ہے۔

    ڈاکٹر الدوعاجی کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کی صحت کے حوالے سے لاپرواہی نہ برتیں اور انہیں وائرس لگنے سے بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر اپنائیں۔

    تیونس کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ تیونس برطانوی کرونا ویکسین ایسٹرا زینیکا تیار کرنے جا رہا ہے اور یہیں سے افریقی ممالک میں یہ ویکسین تقسیم کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ ان دنوں ملک میں وائرس کی چوتھی لہر آئی ہوئی ہے، حالیہ ایام میں وائرس سے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

  • روس میں کم عمر بچوں کے والدین کے لیے معاوضے کا اعلان

    روس میں کم عمر بچوں کے والدین کے لیے معاوضے کا اعلان

    ماسکو: روس میں صدارتی فرمان جاری کیا گیا ہے کہ جس کے مطابق حکومت کو والدین، بچہ گود لینے والے والدین اور 7 سال سے کم عمر بچوں کے سرپرستوں کو معاوضے کی ادائیگی کرنا ہوگی، ہر بچے کے لیے 5 ہزار روبل دیے جائیں گے۔

    روسی میڈیا کے مطابق روس کے پنشن فنڈ (پی ایف آر) نے ایک بار پھر ادائیگیوں کے حصول کے طریقہ کار کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ بچوں کو نئے سال میں ادائیگی 5 ہزار روبل ہوگی جو ان تمام خاندانوں کو فراہم کی جائے گی جو 31 مارچ 2021 تک بچوں کی پیدائش کا اندراج کروائیں گے۔

    صدارتی فرمان کے مطابق روس میں حکومت کو والدین، بچہ گود لینے والے والدین اور 7 سال سے کم عمر بچوں کے سرپرستوں کو معاوضے کی ادائیگی کرنا ہوگی، ہر بچے کے لیے 5 ہزار روبل دیے جائیں گے۔

    جن خاندانوں نے 3 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے ماہانہ ادائیگی یا سنہ 2020 میں 3 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے ایک سال کا معاوضہ وصول کیا تھا، ان کو دسمبر میں پنشن فنڈ کے ذریعے رقم خود بخود فراہم کردی گئی ہیں۔

    اس اطفال فنڈ کی رقم حاصل کرنے کی درخواست میں ہر بچے کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی تفصیلات اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات بتانا ہوں گی جس میں رقوم کی منتقلی کی جائے گی۔

    پنشن فنڈ حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر والدین کا بینک اکاؤنٹ بند ہوچکا ہو جس سے وہ پہلے بچوں کی ادائیگی حکومت سے وصول کر رہے تھے تو اس صورت میں انہیں ایک اضافی درخواست دینے کی بھی ضرورت ہوگی۔

  • بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    آج کل کے بچے اپنا زیادہ تر وقت مختلف اسکرینز کے سامنے گزارتے ہیں، اس کے بے شمار نقصانات کے ساتھ ایک نقصان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹچ اسکرین استعمال کرنے والے بچوں میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی لندن یونیورسٹی، کنگز کالج لندن اور باتھ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا کہ جب بچے زیادہ وقت ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہیں، تو ان میں ڈیوائسز سے دور رہنے والے بچوں کے مقابلے میں کسی کام کے دوران دھیان بھٹکنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج سے بچوں کی نشوونما پر اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کے اثرات کی اہمیت سامنے آتی ہے، خاص طور پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کا استعمال زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 12 ماہ کے بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے مختلف دورانیے کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ تحقیق میں ان بچوں کا جائزہ ڈھائی سال تک لیا گیا اور انہیں لیبارٹری میں 3 بار یعنی پہلے 12 ماہ، پھر 18 ماہ اور آخری بار ساڑھے 3 سال کی عمر میں بلایا گیا۔

    ہر بار ان بچوں کی توجہ کو جانچنے کے لیے کمپیوٹر ٹاسکس میں ایک آئی ٹریکر کو استعمال کیا گیا۔

    ان ٹاسکس میں اشیا اسکرین کے مختلف حصوں میں رکھ کر دیکھا گیا کہ بچے کتنی تیزی سے ان اشیا کو دیکھتے ہیں اور کس حد تک توجہ بھٹکانے والی اشیا سے خود کو بچاتے ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ٹچ اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے اشیا کو بہت تیزی سے دیکھتے ہیں مگر توجہ بھٹکانے والی اشیا کو نظرانداز نہیں کرپاتے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم یہ حتمی نتیجہ نکالنے سے قاصر ہیں کہ ٹچ اسکرین کا استعمال توجہ کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتی ہے، کیونکہ جن بچوں کی توجہ جلد بھٹک جاتی ہے، وہ ٹچ اسکرین کے توجہ کھینچنے والے فیچرز کو بھی بہت پسند کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم تحقیق کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیا حقیقی دنیا میں بھی بچوں کی توجہ آسانی سے بھٹک جاتی ہے یا نہیں۔

  • سینی ٹائزر سے بچوں کو خطرہ، والدین ہوشیار

    سینی ٹائزر سے بچوں کو خطرہ، والدین ہوشیار

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران سینی ٹائزر کا استعمال لازمی بن چکا ہے تاہم ماہرین نے سینی ٹائزر کو بچوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ سینی ٹائزر کا غلط استعمال بچوں کی آنکھوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور بعض سینی ٹائزرز بے حد خطرناک ہوتے ہیں۔

    طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سینی ٹائزر کے ڈراپس براہ راست آنکھوں میں جانے یا سینی ٹائزر کے استعمال کے بعد ہاتھوں کو آنکھوں سے لگانے سے بچوں کے لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

    فرانسیسی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ اپریل سے لے کر اگست 2020 تک سینی ٹائزر استعمال کرنے والے زیادہ تر بچوں کی آنکھوں کے پردے (کورنیا) پھٹ گئے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کی سرجری کرنی پڑی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جن بچوں کی آنکھوں کے کورنیا پھٹے ان میں سے زیادہ تر بچوں کی آنکھوں میں سینی ٹائزرز کے ڈراپس چلے گئے تھے، تاہم بعض بچوں نے سینی ٹائزر کے استعمال کے بعد آنکھوں پر ہاتھ بھی لگائے تھے۔

    مذکورہ تحقیق میں بھارتی ماہرین نے بھی فرانسیسی ماہرین کی معاونت کی اور انہوں نے بھی ایسے واقعات بتائے، جن سے ثابت ہوا کہ سینی ٹائزر بچوں کی آنکھوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ تر سینی ٹائزرز میں الکوحل کی ہلکی قسم ایتھنول یا ایتھنائل ہوتی ہے، جسے عام طور پر مشروبات میں بھی آمیزش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس مادے میں شامل بعض ذرات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں کے پردوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ بچوں کو سینی ٹائزر کے بجائے صابن استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے یا پھر سینی ٹائزر کے بعد سادہ پانی سے بچوں کے ہاتھ دھو دیے جائیں۔