Tag: kids

  • بچوں میں کرونا وائرس کی اہم علامت کون سی ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کی اہم علامت کون سی ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے اور بچوں اور بزرگوں سمیت ہر عمر کے افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے بچوں میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی ایک اہم علامت کے بارے میں بتایا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حال ہی میں آئر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر بچوں میں بدہضمی کووڈ 19 کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہیضہ اور الٹیوں کی شکایت بچوں میں وائرس کی اولین علامات ہوسکتی ہیں، اس وقت برطانیہ میں بچوں میں کرونا وائرس کی علامات میں تیز بخار، مسلسل کھانسی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی مشاہدے میں آئی ہیں۔

    کوئنز یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا کہ نظام ہاضمہ کے مسائل ممکنہ طور پر بچوں میں کووڈ 19 کی اہم ترین علامت ہوتی ہے، تحقیق میں کیا گیا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ کھانسی، سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلیوں سے زیادہ ہیضہ اور الٹیاں کووڈ 19 کی اہم علامت ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے برطانیہ بھر میں 990 سے زائد بچوں کے ٹیسٹ کیے گئے جن کی عمریں 2 سے 15 سال کے درمیان تھی، نتائج میں 68 بچوں میں اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا اور ممکنہ طور پر وہ پہلے ہی کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے۔

    50 فیصد بچوں نے علامات کو رپورٹ کیا تھا جن میں سے 19 فیصد ہیضے، الٹیوں اور پیٹ درد سے متاثر ہوئے تھے، محققین کا کہنا تھا کہ متعدد بچے اس موسم سرما میں بہتی ناک اور چھینکوں کے شکار ہوں گے مگر یہ کوئی علامت نہیں۔

    اس سے قبل ڈھائی لاکھ کے قریب بچوں پر کنگز کالج لندن کی ایک تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ بالغ افراد کے برعکس بچوں میں کھانسی، کووڈ 19 کی عام علامت نہیں بلکہ نظام ہاضمہ کے مسائل زیادہ عام ہوتے ہیں۔

  • بچوں کی ذہانت ماں سے منتقل ہوتی ہے

    بچوں کی ذہانت ماں سے منتقل ہوتی ہے

    ذہانت ایک تحفہ خداوندی ہے اور اگر کوئی شخص اپنی ذہانت کو محنت، مستقل مزاجی اور دور اندیشی کے ساتھ ملا کر استعمال کرے تو ایسے شخص کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

    ایک عمومی خیال ہے کہ ذہانت موروثی ہوسکتی ہے اور یہ خاندان کے مختلف افراد سے منتقل ہوسکتی ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں کی ذہانت انہیں ان کی ماں کی طرف سے ملنے والا تحفہ ہوتا ہے۔

    جرمنی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی بچے کی ذہانت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کا والدہ کتنی ذہین ہیں، یعنی ذہانت والد یا کسی اور سے نہیں بلکہ ماں سے منتقل ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ذہانت کے جینز کروموسوم ایکس میں واقع ہوتے ہیں اور خواتین میں 2 ایکس کروموسومز موجود ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بچوں میں ماں کی جانب سے ذہانت کی منتقلی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس مردوں میں صرف ایک ایکس کروموسوم ہوتا ہے لہٰذا والد سے ذہانت کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے، تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باپ کے ذہانت کے جینز غیر فعال ہو جاتے ہیں۔

    سنہ 1994 میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ بچوں کی ذہانت یا آئی کیو کی پیشگوئی ماں کے آئی کیو سے کی جاسکتی ہے۔

    جینیاتی عوامل کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو بچوں کی زندگی کا وہ وقت جب ان کا دماغ نشونما پارہا ہوتا ہے، یعنی بچپن کا وقت، زیادہ تر ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔ ایسے میں ماں کی ذہانت، عادات و فطرت بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    چنانچہ ایک ذہین ماں بچوں کی پرورش بھی نہایت دانشمندانہ انداز میں کرتی ہے۔ بچوں کی شخصیت و دماغ کی تعمیر والدہ کی ذہانت کا عکس ہوتی ہے۔

  • سعودی عرب: بچوں پر عائد پابندی ختم

    سعودی عرب: بچوں پر عائد پابندی ختم

    ریاض: سعودی عرب میں بازاروں اور تجارتی مراکز میں بچوں کو لانے کی پابندی ختم کر دی گئی ہے، 15 برس سے کم عمر بچوں کو حفاظتی تدابیر کے ساتھ آنے کی اجازت ہوگی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں اتوار سے 15 برس سے کم عمر کے بچوں کو بھی تجارتی مراکز میں آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

    وزارت تجارت کے ترجمان عبد الرحمٰن الحسین کے مطابق اتوار 31 مئی سے بازاروں اور تجارتی مراکز میں 15 برس سے کم عمر کے بچوں کو بھی حفاظتی تدابیر کے ساتھ آنے کی اجازت ہوگی۔

    ترجمان نے بتایا کہ تجارتی مراکز اور مالز کو صارفین کے لیے خصوصی پیشکشیں جاری کرنے کی بھی ہدایت دے دی گئی ہے، یہ اجازت سعودی عرب میں صحت حالات معمول پر آنے والے اقدامات کے تحت دی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے جمعہ کو کرونا وائرس کو پھیلنے اور لگنے سے بچانے کے لیے متعدد اقدامات اور شرائط کا اعلان کیا تھا، ان پر اتوار 31 مئی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔

    سعودی حکام نے بچوں کو کرونا وائرس سے بچانے کے لیے عوامی مقامات خصوصاً تجارتی مراکز آنے پر پابندی عائد کردی تھی تاہم اب جبکہ مملکت بھر میں وائرس کے حوالے سے صورتحال قابو میں آگئی ہے تو بچوں پر عائد پابندی اٹھا لی گئی ہے۔

  • گھر میں رہنے سے بور ہوئے بچوں نے 46 گاڑیاں چرا لیں

    گھر میں رہنے سے بور ہوئے بچوں نے 46 گاڑیاں چرا لیں

    امریکا میں آئسولیشن سے تنگ آئے ہوئے چند نوجوانوں نے 40 سے زائد گاڑیاں چرا لیں، کم عمری کی وجہ سے پولیس انہیں گرفتار نہیں کرسکتی۔

    کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں لوگ گھروں میں رہتے ہوئے مختلف سرگرمیاں اپنا رہے ہیں وہیں چند کھلنڈرے نوجوانوں نے گاڑیاں چرانا شروع کردیں۔

    امریکی ریاست نارتھ کیرولینا سے تعلق رکھنے والے 19 نوجوان جن کی عمریں 9 سے 16 سال کے دوران ہیں، تفریحاً گاڑیاں چرا رہے تھے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ تمام افراد گھر میں آئسولیشن سے بور ہوچکے تھے جس کے بعد انہوں نے گاڑیاں چرانے کا ایک مقابلہ طے کیا۔ سب سے زیادہ چرائی ہوئی گاڑیوں کے ساتھ تصاویر کھینچنے والا اس مقابلے کا فاتح قرار پاتا۔

    پولیس نے 46 چوری شدہ گاڑیوں میں سے 40 برآمد کرلی ہیں جن میں آڈی، فورڈ، ہونڈا اور شیورلیٹ وغیرہ شامل ہیں، ان کی مالیت 1.1 ملین ڈالر ہے۔

    ان تمام ملزمان کی عمریں نہایت کم ہیں لہٰذا پولیس انہیں گرفتار نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

  • ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    کیا آپ والدین ہیں اور چاہتے ہیں کہ روز رات کو سونے سے قبل آپ کا بچہ چپ چاپ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے سوئے؟ تو جان لیں کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک غیر ضروری سرگرمی میں مصروف کر رکھا ہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔

    ایک طویل عرصے تک بے شمار تحقیقوں اور رد و کد کے بعد بالآخر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہوم ورک یعنی اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام ایک ایسی شے ہے جس کا بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    سنہ 1989 سے مختلف اسکولوں اور طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالنے کے باوجود ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہوم ورک نے بچے کی کارکردگی یا شخصیت پر کوئی مثبت اثر مرتب کیا ہو۔

    ماہرین نے اس ضمن میں طالب علموں کو 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان کی طویل تحقیق کے مطابق ایلیمنٹری اسکول کے بچے یعنی 6 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہوم ورک بالکل غیر ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچے تعلیم اور نصاب سے متعلق جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسکول میں ہی سیکھتے ہیں، ہوم ورک ان کے لیے صرف ایک اضافی مشقت ہے جو انہیں تھکا دیتا ہے۔

    یہی کلیہ مڈل اسکول کے بچوں کے لیے ہے۔ ہائی اسکول میں جا کر ہوم ورک کے کچھ فوائد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس ہوم ورک کا وقت صرف 2 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ 2 گھنٹے سے زیادہ ہوم ورک بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ان میں تعلیم، پڑھنے، مطالعہ کرنے اور نیا سیکھنے سے محبت پیدا ہو۔ لیکن ہوم ورک الٹا اثر کرسکتا ہے اور بچوں میں ان تمام ضروری اشیا سے محبت کے بجائے چڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔

    ان کے دل میں اسکول سے متعلق منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہونے تک برقرار رہ سکتے ہیں یعنی پڑھائی ان بچوں کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہوم ورک بچوں کے کھیلنے کا وقت بھی محدود کرتا ہے چنانچہ وہ کھلی فضا میں جانے اور جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوم ورک کسی خاندان کے رشتے کو بھی کمزور کرسکتا ہے۔ روز رات میں ہوم ورک کروانے کے لیے والدین کی آپس میں بحث، بچوں کا رونا، ضد کرنا اور والدین کی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ان کے تعلق کو خراب کرسکتی ہے۔

    دن کے اختتام کا وہ وقت جب پورا خاندان مل بیٹھ کر، گفتگو کر کے اور ہنسی مذاق کر کے اپنے رشتے کو بہتر اور مضبوط بنا سکتا ہے، اس جھنجھٹ کی نذر ہوجاتا ہے، ’کیا تم نے اپنا ہوم ورک کرلیا‘؟

    ماہرین نے ہوم ورک کے مزید مضر اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوم ورک کے لیے بچوں کو کسی بڑے کی مدد درکار ہوتی ہے، یہ مدد بچے کی خود سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کرتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    اسی طرح دن کے اختتام پر والدین کو بھی صرف یہی سننا ہے کہ ہوم ورک مکمل ہوگیا۔ اس ہوم ورک سے ان کے بچے نے کیا نیا سیکھا، اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بچوں کو ہوم ورک دینے کے بجائے گھر پر مطالعہ کرنے کا کہا جائے۔ یہ مطالعہ باآواز بلند ہو جس سے گھر کے دیگر افراد بھی اس سرگرمی میں شامل ہوجائیں گے۔

    یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں کچھ دن بچے خود مطالعہ کریں، اور کچھ دن کسی اور سے مطالعہ کروائیں اور خود صرف سن کر آئیں۔ اس سرگرمی سے وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو ہم اپنی دانست میں ہوم ورک سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

  • اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اکثر بچوں کو جب کوئی کام کہا جائے تو وہ سستی و آلکسی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں اور پھر نظر بچا کر اس کام کو چھوڑ کر دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    اگر آپ بھی ایسے ہی بچوں کے والدین ہیں تو پھر یقیناً آپ کو اس معاملے میں اپنی کوششیں تیز کردینی چاہئیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر کا کام کرنے والے بچے بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، جن میں برتن دھونا، صفائی کرنا (خاص طور پر اپنے کمرے کی صفائی کرنا) یا اپنے کپڑے دھونا تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

    ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

    کون والدین ایسے ہوں گے جو اپنے بچوں کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے، یقیناً آپ بھی اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہوں گے تو پھر آج ہی سے کامیابی کی طرف بڑھنے والا یہ قدم اٹھائیں۔

  • بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ہمارے یہاں اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے اپنے کمرے کو بے ترتیب رکھتے ہیں، اپنا کوئی کام نہیں کرتے اور معمولی سے کام کے لیے بھی انہیں امی یا بہن کی مدد درکار ہوتی ہے۔

    یہ عادت نوجوانی تک ساتھ رہتی ہے اور کئی افراد بڑے ہونے کے بعد بھی اپنا کوئی ذاتی کام تک ڈھنگ سے انجام نہیں دے پاتے۔

    دارصل مائیں شروع میں تو لاڈ پیار میں بچوں کے سارے کام انجام دے دیتی ہیں لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ کام کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور اس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچے کو نہایت بدسلیقہ اور کاہل بنا دیا ہے۔

    ایسے بچے اس وقت پریشانی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب انہیں ملک سے باہر اکیلے رہنا پڑے اور سارے کام خود کرنے پڑیں تب انہیں بھی احساس ہوتا ہے انہیں تو کچھ کرنا نہیں سکھایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو بچپن ہی سے نظم و ضبط میں رہنے کی عادت سکھائی جائے تو وہ آگے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات سے بچ جاتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس طرح سے گھر کے کام سکھائیں جائیں؟ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک خاتون جینی اس کا بہت شاندار طریقہ تجویز کرتی ہیں۔

    جینی 16 عدد بچوں کی والدہ ہیں، جی ہاں 16 بچے۔ جینی کا کہنا تھا کہ جب ان کے بچوں کی تعداد 7 ہوگئی تو انہوں نے سوچا کہ وہ تو سارا وقت ان کے کام کرنے میں مصروف رہیں گی اور ان کی زندگی میں کچھ باقی نہیں بچے گا۔

    چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کاموں میں مصروف کریں۔

    جینی کا کہنا تھا کہ اتنے سارے بچوں کی موجودگی کے باعث وہ انفرادی طور پر کسی پر توجہ نہیں دے سکتیں تھیں اور انہیں ڈر تھا کہ جب بچے بڑے ہو کر خود مختار زندگی گزاریں گے تو ان کے لیے زندگی مشکل ہوگی۔

    اب جبکہ جینی کے گھر میں 4 سے 28 سال تک کی ہر عمر کے افراد موجود ہیں، تو ان کے گھر میں ایک ہفتہ وار شیڈول تیار کیا جاتا ہے۔ اس شیڈول میں ہر شخص کو کام دیے جاتے ہیں کہ کس دن اس نے کون سا کام سر انجام دینا ہے۔

    یہ شیڈول دیوار پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو ہر بار نئے کام دیے جاتے ہیں تاکہ ہر بچہ تمام کام کرنا سیکھ جائے۔

    جینی کی اس حکمت عملی کی بدولت اب ان کا 12 سالہ بیٹا 20 افراد کے لیے باآسانی ڈنر تیار کرسکتا ہے اور اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    جینی کا کہنا ہے کہ جب بچے چھوٹے تھے تب انہیں سکھانے کی ضرورت پڑی تھی، اب بڑے بچے چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں یوں تمام کام باآسانی انجام پاجاتے ہیں۔

    جینی دوسری ماؤں کو بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کے بچے عملی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں، بلکہ وہ گھر کے کاموں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

    کیا آپ اس حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیں گے؟

  • وہ پروٹین شیک جو آپ کے بچے کو سپر ہیرو بنا دیں

    وہ پروٹین شیک جو آپ کے بچے کو سپر ہیرو بنا دیں

    بچوں کو کھلانے کے لیے ماؤں کا ان کے پیچھے بھاگنا عام بات ہے۔ ماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو ایسی غذائیں کھلائی جائیں جو مزیدار بھی ہوں اور انہیں جسمانی توانائی بھی فراہم کرسکیں۔

    تاہم ماؤں کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بچوں کی پسندیدہ غذا جنک فوڈ ہوتی ہے جو غذائیت سے خالی ہوتی ہے۔ وہ عموماً غذائیت سے بھرپور اشیا جیسے دودھ، انڈے، پھل اور سبزیاں وغیرہ نہیں کھاتے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے آج ہم آپ کو ایسے مزیدار پروٹین شیکس بتا رہے ہیں جو آپ کے بچوں کو مزیدار بھی لگیں گے اور انہیں بالکل سپر ہیروز جیسی توانائی فراہم کریں گے۔

    آلمنڈ بٹر اینڈ بنانا پروٹین شیک

    بادام، مکھن اور کیلے کا یہ شیک آپ کے بچوں کو بے حد لذیذ لگے گا۔ بادام چکنائی، وٹامن ای، فائبر، آئرن اور پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔

    اسی طرح کیلا بھی غذائیت سے بھرپور غذا ہے اور فوری توانائی حاصل کرنے کا منبع ہے۔

    تاہم یہ مزیدار شیک بنا کر اسے اپنے بچوں کو ہی دیں، مائیں خود اسے پینے سے گریز کریں کیونکہ یہ بہت جلدی ان کا وزن بڑھا سکتا ہے۔

    پائن ایپل کوکونٹ ملک اسموتھی

    ناریل سے حاصل ہونے والا کوکونٹ ملک اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اسے انناس کے ساتھ ملا کر بنائی جانے والی اسموتھی آپ کے بچوں کو تمام کھیل کود چھوڑ کر اسے پینے پر مجبور کردے گی۔

    چاکلیٹ پی نٹ بٹر شیک

    بچے ویسے ہی چاکلیٹ کے دیوانے ہوتے ہیں۔ پی نٹ بٹر کے ساتھ چاکلیٹ کا شیک آپ کے بچوں کو بے حد پسند آئے گا اور وہ اسے روز پینے کی فرمائش کریں گے۔

  • بچوں پر چیخنا ان پر بدترین اثرات مرتب کرنے کا باعث

    بچوں پر چیخنا ان پر بدترین اثرات مرتب کرنے کا باعث

    والدین بننا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر اپنے بچے کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری عائد کرتی ہے۔

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، لیکن اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب بچہ ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند ہو۔

    بعض والدین بچوں کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ہوئے صرف ان کی جسمانی صحت پر دھیان دیتے ہیں لیکن ایسے موقع پر وہ ذہنی صحت کو بھول جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    جی ہاں، کم عمر اور کمسن بچے کی ذہنی صحت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی آگے چل کر اس کی زندگی کا رخ متعین کرتی ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں پر آپ کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟

    جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔

    اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو یہ عادات ضرور سکھائیں

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس کے برعکس ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آئیں اور پرسکون ہو کر ان کے مسائل کو حل کریں، ان والدین کے بچے خود بھی ذمہ دار اور ٹھنڈے مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    ڈیجیٹل دور کی آمد کے ساتھ ہی ہماری زندگی میں ہر شے ڈیجیٹل انداز سے غلبہ پا رہی ہے اور ہماری نئی آنے والی نسل ان چیزوں سے ناواقف ہے جو ان کے بڑوں نے اپنے ادوار میں سیکھیں۔

    ایسی ہی ایک شے وال کلاک بھی ہے جس میں چند عرصے قبل تک بچوں کو وقت دیکھنا اور اس کا حساب لگانا سکھایا جاتا تھا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل گھڑیاں وجود میں آگئیں جس میں براہ راست لکھے ہندسے وقت بتا دیتے ہیں۔ تاہم ان گھڑیوں کا نقصان یہ ہوا کہ نئی نسل پرانی گھڑیوں سے بالکل ہی ناواقف ہوگئی۔

    بچوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے انگلینڈ کے اسکولوں میں اینالوگ یعنی روایتی گھڑیوں کا استعمال ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل گھڑیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    امریکا کے معروف ٹی وی شو کے میزبان جمی کیمل نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا۔ ان کے پروگرام کے دوران چند بچوں کو روایتی گھڑی دکھا کر ان سے وقت پوچھا گیا۔

    یہ گھڑیاں چونکہ ان بچوں کے لیے نہایت اجنبی تھیں لہٰذا انہوں نے اپنی فہم کے مطابق الٹا سیدھا وقت بتایا۔

    ان بچوں میں سے صرف ایک بچہ بالکل درست وقت بتا سکا جس کے لیے حاضرین نے بے شمار تالیاں بجائیں۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں کہ بچوں نے اس گھڑی میں دیکھ کر کس طرح سے وقت بتایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔