Tag: KP govt

  • خیبر پختونخوا میں دنیا کی سب سے اونچی اور طویل فاصلے تک کیبل کار چلانے کا منصوبہ تیار

    خیبر پختونخوا میں دنیا کی سب سے اونچی اور طویل فاصلے تک کیبل کار چلانے کا منصوبہ تیار

    پشاور : خیبر پختونخواحکومت نے اپردیرتا لوئرچترال سیاحتی اضلاع میں کیبل کار چلانے کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ، منصوبے کی تکمیل پرسالانہ 8 ملین ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے اہم منصوبہ تیار کرلیا گیا ، اپردیرتا لوئرچترال سیاحتی اضلاع میں کیبل کار منصوبہ شروع کیا جائے گا۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کیبل کار کی مجموعی لمبائی 14 کلومیٹر اور رفتار6 میٹرفی سیکنڈہوگی جبکہ کیبل کار میں فی مسافر کے آنے جانے کا کرایہ 500روپے مقرر کیا گیا ہے۔

    کیبل کار میں یومیہ 30 ہزار سیاح سفر کرسکیں گے، ہر کیبل کار میں 10 سیاحوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی اور 38 منٹ کے یک طرفہ ٹرپ میں 250 سیاح سفر کرسکیں گے۔

    منصوبے کی تکمیل پر سالانہ 8 ملین ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی آمد متوقع ہے ، جب کہ منصوبے میں اسٹیشنز پر کار پارکنگ اور ریسٹورنٹ کی سہولت بھی ہوگی اور منصوبہ کے لیےہائیڈرو جنریشن پلانٹ سےبجلی فراہم کی جائے  گی۔

  • خیبر پختونخواہ حکومت کا معذور کان کنوں کو فی کس تین لاکھ روپے دینے کا اعلان

    خیبر پختونخواہ حکومت کا معذور کان کنوں کو فی کس تین لاکھ روپے دینے کا اعلان

    پشاور:صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کان کنی میں معذور ہونے والے مالاکنڈ ڈویژن کے 49 افراد کی مالی معاونت کے لیے تین لاکھ روپے فی کس دیئے جانے کا اعلان کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کان کنوں کے بارے میں ان خیالات کا اظہار وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے تقریب تقسیم آفر لیٹرز سوات ریجن میں خطاب کرتے ہوئے کیا-اس موقع پر مقامی افسران ،کان کنوں اور مشران کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔

    امجد علی خان نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں معدنیات کے بیش بہا ذخائر موجود ہیں جن سے مستفید ہوکر پورے ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔

    انہوں نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اس لئے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی سطح پر محکمہ معدنیات میں میں میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، ایسا کرنے والوں ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی ۔

    وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ معدنی وسائل پر پہلا حق مقامی افراد کا ہے اس لئے کان کنی کے عمل میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی اور یہی صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کا منشور ہے۔

    اس تقریب میں ہی ادنیٰ معدنیات میں کامیاب ہونے والے دس بولی دہندگان کو آفر لیٹرز بھی جاری کیے گئے ۔ تقریب کے بعد کان کنوں نے مالی امداد کے اعلان پر خوشی کا اعلان کیا۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کان کنوں کے ساتھ اکثر رونما ہونے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کان کنی کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار اور سیفٹی کی اشیا ء نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے مزدوروں کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور ہر وقت جان سولی پر لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

    اس وقت پورے ملک میں کان کنی کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک کان کن پورے مہینے میں زیادہ سے زیادہ کام کی صورت میں بھی اوسطً 16 سے 18 ہزار روپے بناتا ہے اور زیادہ تر کان کن اپنے خاندانوں کی واحد کفیل ہیں۔

    ان محنت کشوں کی اکثریت غربت اوربیروزگاری سے تنگ آ کر کانوں کی شکل میں بنے موت کے کنوؤں میں جان گنوانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کان کنی کے شعبے میں محنت کشوں کی کوئی لیبر یونین نہیں ہے اور مالکان ان کو یونین بنانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ کوئی مزدور اپنے حق کے لئے آواز بلند نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اس طرح کرتا بھی ہے تو مالک اسے فورًا نوکری سے فارغ کردیتا ہے۔

    حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف یہ کہ موجودہ متاثرین کو فوری ریلیف ملے گا بلکہ کان کے مالکان پر بھی ملازمین کی سیفٹی بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔

  • سرکاری ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    سرکاری ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    پشاور: خیبرپختونخواحکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دے دی، بلاسود قرضےگھر،گاڑی ،موٹرسائیکل خریدنے کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخواہ میں سرکاری ملازمین کیلئے خوشخبری آگئی ، کے پی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دے دی۔

    بلاسود قرضےگھر،گاڑی ،موٹرسائیکل خریدنے کے لیے فراہم کیےجائیں گے ، دستاویز کے مطابق گریڈ 1 سے17 تک کے ملازمین قرضے لینے کے اہل ہوں گے، کم سے کم 5 سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال مدت ملازمت والے قرض لے سکیں۔

    یاد رہے جون میں خیبرپختونخوا حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا ، ذرائع کے مطابق خیبرپختونخواہ حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کا اضافہ کرے گی، جس کے بعد سرکاری ملازمین 60 کے بجائے 63 برس میں ملازمت سے سبکدوش ہوں گے۔

    فیصلہ ریٹائڑد سرکاری ملازمین کے پنشن اخراجات میں مسلسل اضافے کے پیش نظر کیا گیا تھا ، ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے حکومت پر پنشن کی مد میں پڑنے والا بوجھ کم ہو گا۔

    بعد ازاں وزیراعظم نے سیکریٹری خزانہ کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے معاملے پر مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے وزرائے اعلی اور چیف سیکرٹریز سے بھی رائے طلب کی تھی۔

  • اب کوئی شوہر الزام لگا  کربیوی کو طلاق نہیں دے سکے گا، شوکت یوسف زئی

    اب کوئی شوہر الزام لگا  کربیوی کو طلاق نہیں دے سکے گا، شوکت یوسف زئی

    پشاور:خیبر پختونخوا حکومت نے مسیحی برادری کی شادی اور طلاق سے متعلق قانونی ترامیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب کوئی شخص محض الزام لگا کر بیوی کو طلاق نہیں دے سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی نے پشاور میں ایک فلاحی تنظیم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

    صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی و ضلعی سطح پر مشائخ کونسل کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے، بجٹ میں شادی، طلبہ اور بیواوں کے لیے وضائف رکھے گئے ہیں، صوبائی کابینہ میں مسیحی شادی ترمیمی بل اور طلاق ترمیمی بل پیش کیے جارہے ہیں اور 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کی عمر پر پابندی لگائی جارہی ہے۔

    شوکت یوسف زئی نے کہا کہ طلاق کے حوالے سے خواتین کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، پہلے شوہر کوئی بھی الزام لگاکر بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لیتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اور شوہر کو طلاق کے لیے بیوی پر الزام لگاکر اسے ثابت بھی کرنا ہوگا۔

     یاد رہے کہ مسیحی برادری میں کوئی بھی شخص اپنی بیوی پر بد کرداری کا الزام لگا کر اسے طلاق دے سکتا ہے ، اس حوالے سے ماضی میں ایک کیس لاہور ہائی کورٹ کے جج منصورعلی شاہ کی عدالت میں آچکا ہے جس پر انہوں نے مسیحی قوانین کو پاکستان کے آئین سے ہم آہنگ کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ الزام لگانے والے شخص کو اپنا الزام ثابت بھی کرنا ہوگا ، بصورت دیگر طلاق کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

    اس فیصلے کے خلاف درخواست گزار ایمونئیل فرانسز نے ایک درخواست دائر کررکھی ہے جس کی سماعت جسٹس عائشہ اے ملک کی سربراہی میں ڈیویژن بنچ کررہا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ عیسائی مذہب میں مداخلت کے مترادف ہے ۔