Tag: KPK

  • علی امین گنڈاپور کی وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلی ملاقات، کے پی واجبات کی ادائیگی کی یقین دہانی

    علی امین گنڈاپور کی وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلی ملاقات، کے پی واجبات کی ادائیگی کی یقین دہانی

    اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے آج وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی، جس میں انھوں نے صوبے کے 1500 ارب روپے کے واجبات کلیئر کرنے کا مطالبہ کیا۔

    ملاقات کے بعد احسن اقبال کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وزیر اعظم سے صوبے کی صورت حال پر گفتگو ہوئی، انھوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہائی کرائی ہے، معاشی صورت حال کا ہمیں بھی پتا ہے لہٰذا اس کو دیکھ کر ہی مطالبات کریں گے۔

    انھوں نے کہا بات چیت ہوگی تو سیاسی معاملات بھی بہتر ہوں گے، پاکستان ہمارا ملک ہے کے پی کے وسائل ملک کے لیے استعمال ہوئے، خوشی کی بات ہے۔ علی امین گنڈاپور نے وضاحت کی کہ ہمارا مؤقف یہ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو فنڈز فراہم نہ کرے، ہمارا مؤقف تھا کہ جو انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اس کی تحقیقات ہوں۔

    ن لیگی رہنما احسن اقبال نے اس موقع پر کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد کے پی واجبات کے مسائل حل کیے جائیں گے، وزیر اعظم نے وزارت خزانہ کے افسران کو ہدایت کی ہے واجبات کے مسائل حل کریں۔ اس سلسلے میں وفاقی وزارت خزانہ اور خیبر پختون خوا وزارت خزانہ کے افسران مل کر کام کریں گے۔

    انھوں نے کہا وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے قیدیوں سے متعلق بھی گفتگو کی، بے گناہ قید شہریوں کی رہائی سے متعلق بھی بات چیت ہوئی ہے۔ ہم سب اپنی سیاست کرتے رہیں گے لیکن ملک کے لیے خطرات کا مل کر مقابلہ کرنا ہے، پاکستان کے لیے ہر وہ کام کریں گے جس کی امید عوام ہم سے رکھتے ہیں۔

  • پشاور : صحت کارڈ سے 24 گھنٹے میں 700 آپریشن ہوچکے

    پشاور : صحت کارڈ سے 24 گھنٹے میں 700 آپریشن ہوچکے

    پشاور : خیبر پختونخوا کے وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے کہا ہے کہ کے پی میں رات12بجے سے صحت کارڈ بحال ہوچکا ہے،۔

    انہوں نے بتایا کہ رات 12 بجےسے اب تک 700 مختلف مریضوں کے آپریشنز ہوچکے، صحت کارڈ کی ماہانہ لاگت 3 بلین تک پہنچ چکی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ اب صحت کارڈ کے بند ہونے کی نوبت دوبارہ نہیں آئے گی، صحت کارڈ میں1800 سے زائد امراض کا علاج شامل ہے۔

    قاسم علی شاہ نے کہا کہ اووربلنگ کے معاملے پر نگرانی خود کروں گا، صحت کارڈ پر پہلے 180اسپتال تھے اب118ہوگئے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ادویات کی کمی پوری کرنے کیلئےاقدامات کریں گے، انکوائری مکمل ہونے پر ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ کے پی کے میں مالی بحران کی وجہ سے ایم ٹی آئیز اسپتالوں میں صحت کارڈ پر علاج 19 اکتوبر 2023ء سے بند تھا، تاہم اب صوبے کے تمام بڑے اسپتالوں میں صحت کارڈ کے ذریعے مریضوں کا علاج مفت کیا جائے گا۔

  • الیکشن 2024: کے پی اسمبلی کی تمام 115 نشستوں پر پی ٹی آئی امیدواروں کی فہرست جاری

    الیکشن 2024: کے پی اسمبلی کی تمام 115 نشستوں پر پی ٹی آئی امیدواروں کی فہرست جاری

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبر پختون خوا اسمبلی کی تمام 115 نشستوں پر امیدواروں کی فہرست جاری کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق پی کے 1، اپر چترال سے ثریا بی بی، پی کے 2، لوئر چترال سے فتح الملک علی ناصر، پی کے 3 سوات ون سے میاں شرافت علی، پی کے 4 سوات ٹو سے علی شاہ ایڈووکیٹ کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔

    پی کے 5 سوات تھری سے اختر خان، پی کے 6 سوات فور سے فضل حکیم خان، پی کے 7 سوات فائیو سے ڈاکٹر امجد علی خان، پی کے 8 سوات سکس سے حمید الرحمان، پی کے 9 سوات سیون سے سلطان روم، پی کے 10 سوات آٹھ سے محمد نعیم، پی کے 11 اپر دیر ون سے گل ابراہیم خان، پی کے 12 اپر دیر ٹو سے محمد یامین پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 13 اپر دیر تھری سے محمد انور خان، پی کے 14 لوئر دیر ون سے محمد اعظم خان، پی کے 15 لوئر دیر ٹو سے ہمایوں خان، پی کے 16 لوئر دیر تھری سے شفیع اللہ، پی کے 17 لوئر دیر فور سے عبیرالرحمان، پی کے 18 لوئر دیر فائیو سے لیاقت علی خان، پی کے 19 باجوڑ ون سے حمید الرحمان، پی کے 20 باجوڑ ٹو سے انور زیب خان، پی کے 21 باجوڑ تھری سے امجد خان، پی کے 22 باجوڑ فور سے گل داد خان پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    الیکشن 2024: اے این پی کو انتخابی نشان الاٹ

    پی کے 23 مالاکنڈ ون سے شکیل احمد، پی کے 24 مالاکنڈ ٹو سے مصور خان، پی کے 25 بونیر ون سے ریاض خان، پی کے 26 بونیر ٹو سے سید فخر جہاں، پی کے 27 بونیر تھری سے کبیر خان ایڈووکیٹ، پی کے 28 شانگلہ ون سے شوکت علی، پی کے 29 شانگلہ ٹو سے عبدالمنیم، پی کے 30 شانگلہ تھری سے صدر رحمان، پی کے 31 اپر کوہستان سے تہمینہ فہیم، پی کے 32 لوئر کوہستان سے کفایت اللہ، پی کے 33 کولائی پالس کوہستان سے مومنہ باسط، پی کے 34 بٹگرام ون سے زبیر خان، پی کے 35 بٹگرام ٹو سے تاج محمد تراند، پی کے 36 مانسہرہ ون سے منیر لغمانی ایڈووکیٹ پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کیلیے امیدواروں کی فہرست جاری کر دی

    پی کے 37 مانسہرہ ٹو سے بابر سلیم خان، پی کے 38 مانسہرہ تھری سے زاہد چن زیب، پی کے 39 مانسہرہ فور سے اکرام غازی، پی کے 40 مانسہرہ فائیو سے عبدالشکور خان، پی کے 41 تور غر سے شکیلہ ربانی، پی کے 42 ایبٹ آباد ون سے نظیر عباسی، پی کے 43 ایبٹ آباد ٹو سے رجب علی عباسی، پی کے 44 ایبٹ آباد تھری سے افتخار خان جدون، پی کے 45 ایبٹ آباد فور سے مشتاق غازی، پی کے 46 ہری پور ون سے اکبر ایوب خان، پی کے 47 ہری پور ٹو سے ارشد ایوب خان، پی کے 48 ہری پور تھری سے ملک عدیل، پی کے 49 صوابی ون سے رنگیز خان، اور پی کے 50 صوابی ٹو سے عاقب اللہ پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 51 صوابی تھری سے عبدالکریم خان، پی کے 52 صوابی فور سے فیصل خان تراکئی، پی کے 53 صوابی فائیو سے مرتضیٰ خان، پی کے 54 مردان ون سے زرشاد خان، پی کے 55 مردان ٹو سے طفیل انجم، پی کے 56 مردان تھری سے عامر فرزند، پی کے 57 مردان فور سے محمد ظاہر شاہ، پی کے 58 مردان فائیو سے محمد عبدالسلام، پی کے 59 مردان 6 سے طارق تریانی، پی کے 60 مردان 7 سے افتخار مشوانی، پی کے 61 مردان 8 سے احتشام خان ایڈووکیٹ، پی کے 62 چارسدہ ون سے خالد خان، پی کے 63 چارسدہ ٹو سے ارشد عمیر زئی، پی کے 64 چارسدہ تھری سے حمزہ نصیر خان پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 65 چارسدہ فور سے فضل شکور، پی کے 66 چارسدہ فائیو سے عارف احمد زئی، پی کے 67 مہمند ون سے محبوب شیر، پی کے 68 مہمند ٹو سے ڈاکٹر اسرار شفیع، پی کے 69 خیبر ون سے عدنان قادری، پی کے 70 خیبر ٹو سے محمد سہیل آفریدی، پی کے 71 خیبر تھری سے عبدالغنی خان، پی کے 72 پشاور ون سے محمود جان، پی کے 73 پشاور ٹو سے علی زمان ایڈووکیٹ، پی کے 74 پشاور تھری سے ارباب جہانداد، پی کے 75 پشاور فور سے شہاب خان ایڈووکیٹ، پی کے 76 پشاور فائیو سے سمیع اللہ، پی کے 77 پشاور 6 سے شیر علی آفریدی، پی کے 78 پشاور 7 سے ارباب عاصم پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 79 پشاور 8 سے تیمور جھگڑا، پی کے 80 پشاور 9 سے حمیدالحق، پی کے 81 پشاور 10 سے نورین عارف، پی کے 82 پشاور 11 سے کامران بنگش، پی کے 83 پشاور 12 سے مینہ خان آفریدی، پی کے 84 پشاور 13 سے فضل الہٰی، پی کے 85 نوشہرہ ون سے زرعالم خان، پی کے 86 نوشہرہ ٹو سے ادریس خان، پی کے 87 نوشہرہ تھری سے خلیل الرحمان، پی کے 88 نوشہرہ فور سے میاں عمیر کاکاخیل، پی کے 89 نوشہرہ فائیو سے اشفاق احمد، پی کے 90 کوہاٹ ون سے آفتاب عالم ایڈووکیٹ پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 91 کوہاٹ ٹو سے داؤد آفریدی، پی کے 92 کوہاٹ تھری سے شفیق جان، پی کے 93 ہنگو سے شاہ تراب، پی کے 94 اورکزئی سے اورنگزیب خان، پی کے 96 کرم ٹو سے سید ارشاد حسین، پی کے 97 کرک ون سے خورشید عالم، پی کے 98 کرک ٹو سے سجاد خٹک، پی کے 99 بنوں ون سے زاہد اللہ، پی کے 100 بنوں ٹو سے پختون یار، پی کے 101 بنوں تھری سے شاہ محمد خان، پی کے 102 بنوں فور سے ملک عدنان، پی کے 103 شمالی وزیرستان ون سے علامہ اقبال داوڑ، پی کے 104 شمالی وزیرستان ٹو سے نیک محمد خان پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

    پی کے 105 لکی مروت ون سے جوہر خان، پی کے 106 لکی مروت ٹو سے نور سلیم، پی کے 107 لکی مروت تھری سے طارق سعید، پی کے 108 ٹانک سے محمد عثمان، پی کے 109 اپر جنوبی وزیرستان آصف خان، پی کے 110 لوئر جنوبی وزیرستان عجب گل وزیر، پی کے 111 ڈی آئی خان ون سے کامران شاہ، پی کے 112 ڈی آئی خان ٹو سے علی امین گنڈاپور/فیصل امین گنڈاپور، پی کے 113 ڈی آئی خان تھری سے علی امین گنڈاپور/فیصل امین گنڈاپور، پی کے 114 ڈی آئی خان فور سے اسماعیل خان بلوچ، اور پی کے 115 ڈی آئی خان فائیو سے روشن بی بی پی ٹی آئی امیدوار ہوں گے۔

  • سیاسی جماعتوں نے کے پی میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں امیدوار بٹھانے سے انکار کر دیا

    سیاسی جماعتوں نے کے پی میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں امیدوار بٹھانے سے انکار کر دیا

    اسلام آباد: سیاسی جماعتوں نے خیبر پختون خوا میں میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں امیدوار بٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔

    ذرائع پیپلز پارٹی کے مطابق خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششیں ناکام ہو گئیں، سیاسی جماعتوں نے پی پی کے مقابلے امیدوار بٹھانے سے انکار کر دیا۔

    پیپلز پارٹی نے آئندہ دو روز میں کے پی سے امیدواروں کے اعلان کا فیصلہ کر لیا ہے، قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے نام فائنل کر لیے گئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی اور جے یو آئی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے لچک نہیں دکھائی، پی پی نے پشاور ڈویژن کے اضلاع میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششیں کی تھیں، لیکن سیاسی جماعتیں اہم حلقوں پر سیٹ چھوڑنے پر رضامند نہیں ہوئیں، اے این پی اور جے یو آئی نے حلقے چھوڑنے سے معذرت کر لی۔

    ذرائع کے مطابق پی پی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پشاور ڈویژن کی تنظیم کو اختیار دیا تھا، پیپلز پارٹی نے پشاور ڈویژن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کئی تجاویز دیں، اگر پشاور ڈویژن میں کامیابی مل جاتی تو پھر دیگر ڈویژنز میں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونی تھی، اس سلسلے میں مردان، مالاکنڈ، کوہاٹ ڈویژنز میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تجویز تھی۔

    پیپلز پارٹی نے پشاور ڈویژن میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت 2018 الیکشن کے رنر اپ جماعت کے لیے سیٹ چھوڑنے کی تجویز دی تھی، یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر ہونی تھی۔ واضح رہے کہ پشاور ڈویژن میں ضلع چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مہمند، خیبر شامل ہیں، جب کہ قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 13 نشتیں ہیں۔

  • کے پی سیاست کئی دہائیوں سے سابق وزرائے اعلی کے خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے

    کے پی سیاست کئی دہائیوں سے سابق وزرائے اعلی کے خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے

    پاکستان میں موروثی سیاست ہمیشہ سے زیر بحث رہی ہے لیکن خیبر پختونخوا کی سیاست میں موروثیت کا عنصر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ساتھ صوبے میں حکومت کرنے والے سابق وزرائے اعلیٰ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے سابق وزرائے اعلی کے خاندانوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

    ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمود مرحوم اس سلسلے میں سرفہرست ہیں، جن کے صاحب زادے مولانا فضل الرحمان جے یو آئی ف کے سربراہ بھی ہیں۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان، ان کے صاحب زادوں مولانا اسعد محمود اور مولانا اسجد محمود کے علاوہ بھائی مولانا لطف الرحمان بھی امیدوار ہیں، جب کہ ایک بھائی مولانا عطاء الرحمان سینیٹر اور سمدھی غلام علی صوبے کے گورنر اور ان کے صاحب زادے زبیر علی پشاور کے میئر ہیں۔

    ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی تحصیل کلاچی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ سردار عنایت اللہ خان گنڈاپور کے بیٹوں کے بعد اب ان کا نوجوان پوتا سردار آغاز اکرام اللہ گنڈاپور اپنے دادا کی سیاست سنھبال رہا ہے، اور گزشتہ اسمبلی میں سردار اکرام اللہ گنڈاپور کی شہادت کے بعد کم عمر ترین رکن کے پی اسمبلی کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں، 2002 میں سردار عنایت اللہ گنڈاپور اور سردار اسرار اللہ گنڈاپور واحد باپ بیٹے تھے جو انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اسمبلی پہنچے تھے۔

     

    پشاور سے سابق وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر خان خلیل مرحوم کے صاحب زادے اور پی پی پی رہنما ارباب عالمگیر خان خود قومی اسمبلی جب کہ بیٹا صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے، ارباب عالمگیر کی اہلیہ عاصمہ ارباب بھی مخصوص نشستوں پر پہلی ترجیح کے طور پر موجود ہیں۔

     

    چارسدہ سے تعلق رکھنے والے آفتاب شرپاؤ دو بار صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنا کر وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور اب وہ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین ہیں جب کہ ان کے صاحب زادے سکندر حیات شیرپاؤ پارٹی کے صوبائی صدر اور دونوں باپ بیٹے گزشتہ کئی انتخابات سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے قسمت آزمائی کرتے آ رہے ہیں، جس میں کبھی کامیاب تو کبھی شکست ان کا مقدر بنی ہے۔

    اسی طرح ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان جو کہ صوبے کے گورنر بھی رہے ہیں، وہ بھی دو بار اپنے صاحب زادے سردار شمعون یار خان کو انتخابی میدان میں اتار چکے ہیں، جس میں ایک بار انھیں کامیابی بھی ملی اور وہ کے پی اسمبلی کی رکنیت کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔

    بنوں سے جمیعت علماء اسلام ف کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی بھی موروثی سیاست کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ خود بنوں سے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دو صاحب زادے زیاد اکرم درانی اور ذوہیب اکرم درانی کے علاوہ کزن اعظم خان درانی بھی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔

    نوشہرہ سے سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی پی کے چیئرمین پرویز خٹک جو کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی ائی کے صوبائی صدر تھے اور اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے موروثی سیاست کے خلاف ایک توانا آواز تھے، مگر وزیر اعلیٰ بنتے ہی موروثی سیاست کے علم بردار بنتے نظر آئے۔ ایک وقت میں وہ خود وزیر دفاع جب کہ بھائی اور بیٹا رکن کے پی اسمبلی اور داماد اور بھابھی رکن قومی اسمبلی تھے اور 8 فروری کے انتخابات میں بھی اب خود ایک قومی جب کہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں۔ ان کے دو صاحب زادے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک صوبائی جب کہ داماد ڈاکٹر عمران خٹک قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ پرویز خٹک کا ایک بیٹا اسحاق خٹک نوشہرہ کا تحصیل ناظم بھی ہیں۔

    لیکن خیبر پختونخوا کی عملی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے والے ایک سابق وزیر اعلیٰ ایسے بھی ہیں جو پارٹی میں ایک طاقت ور پوزیشن ہونے کے باوجود نہ تو اپنے بھائی بیٹے یا قریبی عزیز کے لیے ٹکٹ لیتے ہیں اور نہ ہی مخصوص نشست پر ان کی فیملی سے کوئی خاتون رکن اسمبلی بنتی ہے۔ وہ ہیں اے این پی کے مرکزی نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی جو صوبے اور بالخصوص مردان کی سیاست میں ایک شائستہ اور متحرک سیاسی قیادت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی انہی خوبیوں کی وجہ سے ان کی عزت کرتی ہے۔

  • مقامی لوگوں میں شعور کی بیداری، کے پی میں مار خور کی تعداد میں اضافہ

    مقامی لوگوں میں شعور کی بیداری، کے پی میں مار خور کی تعداد میں اضافہ

    پشاور: محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں میں شعور کی بیداری کی وجہ سے صوبے میں مار خور کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا میں مارخور کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے، گزشتہ 37 سال کے دوران مار خور کی تعداد میں 5 گناہ اضافہ ہوا۔

    اس سلسلے میں محکمہ وائلڈ لائف کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے خیبر پختون خوا میں مار خور کی تعداد 5 ہزار 621 ہو گئی ہے، جب کہ 1985 میں خیبر پختونخوا میں مارخور کی تعداد 961 تھی۔

    رپورٹ کے مطابق سوات اور کوہستان میں بھی مارخور کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، چترال میں مارخور کی تعداد 2427 ہے، چترال گول میں 2375 ہے، کوہستان میں 660، اور سوات میں 159 مارخور ہیں۔

    محکمہ وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں میں شعور بیدار ہوا ہے کہ مارخور کا غیر قانونی شکار جرم ہے۔

  • کسانوں کو ناقص بیج فروخت کرنےکا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا

    کسانوں کو ناقص بیج فروخت کرنےکا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا

    پشاور: مردان میں گودام سے گندم کے ناقص اور جعلی بیج کا ذخیرہ برآمد ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا میں کسانوں کو ناقص بیج فروخت کرنےکا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا ہے، ریجنل سیڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے مردان میں گودام سے گندم کے ناقص اور جعلی بیج کا ذخیرہ برآمد ہونے پر محکمہ زراعت کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔

    ریجنل سیڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے مراسلے میں استفسار کیا ہے کہ سرکاری سیڈ انڈسٹری کے پرنٹ شدہ بیگ نجی گودام تک کیسے پہنچے؟ ڈائریکٹر سید عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ ناقص بیج کے باعث فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

    سیڈ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے محکمہ زراعت میں سہولت کاروں کی نشان دہی اور حقائق جاننے کے لیے انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے، مراسلے میں کہا گیا کہ ملزمان سیڈ انڈسٹری کے پرنٹ شدہ بیگز میں عام گندم بھر کر فروخت کر رہے تھے، اور گودام سے غیر تصدیق شدہ گندم کی 38 بوریاں اور ہزار سے زائد بیگز برآمد کیے گئے ہیں۔

  • خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ایک سال میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 43 کا ریپ ہوا جب کہ 19 نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔

    خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہو رہے ہیں، خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل پر بات تو کی جاتی ہے، حکومت قانون سازی بھی کرتی ہے، لیکن پھر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

    عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، خواتین پر تشدد کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مختلف طریقوں سے خواتین کے ہراسانی کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں ذہنی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    قتل یا خود کشی؟

    شبینہ ایاز نے بتایا کہ سوات اور چترال میں خاص طور پر خواتین میں خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں، اور گزشتہ 5 ماہ کے دوران 19 خواتین نے خود کشی کی ہے، لیکن پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مبینہ خود کشی کرنے والی بیش تر خواتین کو قتل کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور جب تشدد میں خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

    قوانین موجود پھر بھی واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ 2021 میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم ہو اور اس میں روح نہ ہو، کیوں کہ اس ایکٹ کی روح ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز ہے لیکن ابھی تک یہ کمیٹیز نوٹیفائی نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انھوں نے کہا کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج کرنا چاہتی ہے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، زیادہ سے زیادہ پولیس روزنامچہ درج کر دیتی ہے اور ایک دو دن بعد اس شخص کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تشدد کرنے والا جب جیل سے واپس گھر آتا ہے تو خاتون پر اور بھی تشدد شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے، اس کا سدباب صرف پروٹیکشن کمیٹیز ہیں۔

    خواتین کے ساتھ ساتھ پولیس بھی قانون سے بے خبر

    سماجی کارکن صائمہ منیر نے بتایا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹرین اسمبلی سے بل منظور کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کرانا بھول جاتے ہیں۔ صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد بل کو منظور ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی کیس تھانے میں درج نہیں ہوا کیوں کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور نہ پولیس کو پتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے۔

    مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ بھی صائمہ منیر کی بات سے اتفاق کرتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ قانون بنایا جاتا ہے لیکن قانون سازی کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا، گھریلو تشدد بل اسمبلی سے منظور ہوا ہے لیکن پولیس کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اب پولیس کو اس حوالے سے ٹریننک دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوئی ہے تو اس ایکٹ کے تحت ملزمان کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے مسائل پر ہونے والی قانون سازی پر صوبے کے مختلف پولیس لائنز جا کر اہلکاروں کو لیکچر بھی دے رہی ہیں۔

    مہوش کے مطابق تشدد کی روک تھام اس وقت تک مشکل ہے جب تک لوگوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سے آگاہی نہ ہو، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ پہلے تو اس کی رپورٹ درج نہیں کرتی اور اگر کوئی خاتون رپورٹ درج کرنا چاہے تو پھر پولیس اس کی رپورٹ نہیں لیتی، جب تک معاشرے میں اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوگی یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

    جرم ثابت ہونے پر سزا کتنی ہوگی؟

    گھریلو تشدد کے قانون کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے ملزم کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک سزا ہوگی، اس کے علاوہ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو ملزم خاتون کو خرچہ بھی دے گا اور اگر بچے بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بچوں کا خرچ بھی وہی مرد برداشت کرے گا۔

    ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز کیوں ضروری ہیں اور یہ کام کیسے کریں گی؟

    جب کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی کو شکایت درج کرے گی، پروٹیکشن کمیٹی پہلے فریقین کے درمیان مصالحت سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جرگہ میں ہوتا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

    مسئلے کا حل نہیں نکلتا تو پھر کمیٹی متاثرہ خاتون کا بیان لے گی اور دوسرے فریق کو نوٹس جاری کرے گی، کمیٹی میں ایک سیکریٹری ہوگا جس کی اپنی ذمہ داریاں ہوں گی، جتنے سروس فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے ہوں گے ان کی ایک ڈائریکٹری کمیٹی میں ہوگی، کسی بھی متاثرہ خاتون کو مدد کی ضرورت ہوگی تو سیکریٹری ان کو فراہمی کے لیے اقدامات کرے گا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹیز ہے نہیں، کمیٹیز نوٹیفائی ہو جاتی ہیں تو خواتین کو بڑی آسانی ہوگی۔

    بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

    ریجنل ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن شبینہ ایاز نے بتایا کہ مختلف تنازعات کے حل کے لیے تھانوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آرسیز) میں خواتین نمائندگی بڑھانی چاہیے اور ضم اضلاع میں بھی فوری طور پر ڈی آرسیز قائم ہونی چاہیئں، تاکہ ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش وراثت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

    الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تو کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہو سکتی ہے

    خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما صائمہ منیر نے بتایا کہ اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہے ہیں، اب الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں قائم رہتی ہیں تو اس سے گھریلو تشدد بل کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔

  • بی آر ٹی کے لیے کے پی محکمہ ٹرانسپورٹ نے 1 ارب روپے مانگ لیے

    بی آر ٹی کے لیے کے پی محکمہ ٹرانسپورٹ نے 1 ارب روپے مانگ لیے

    پشاور: محکمہ ٹرانسپورٹ خیبر پختونخوا نے بی آر ٹی کے لیے 1 ارب روپے مانگ لیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ ٹرانسپورٹ خیبر پختون خوا نے سیکریٹری محکمہ خزانہ کو خط ارسال کر کے بی آر ٹی کے لیے ایک ارب روپے مانگ لیے ہیں۔

    خط کے مطابق محکمہ خزانہ نے سال 23-2022 میں بی آر ٹی کے لیے 66 کروڑ 24 لاکھ روپے جاری کیے تھے تاہم بی آر ٹی چلانے کے لیے جاری کی گئی رقم استعمال نہ کی جا سکے اور فنڈز لیپس ہو گئے ہیں۔

    محکمہ ٹرانسپورٹ نے خط میں کہا کہ بی آر ٹی کے لیے محکمے کو اس وقت فوری طور پر 1 ارب روپے درکار ہیں۔

  • موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے پہلی بار سیڈ بم کا تجربہ

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے پہلی بار سیڈ بم کا تجربہ

    رپورٹر: عثمان علی

    پشاور: خیبر پختون خوا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے پہلی بار سیڈ بم کا تجربہ کیا گیا، کم درختوں والے پہاڑوں پر اب سیڈ بم کے ذریعے پودے اگائے جائیں گے۔

    موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، ہلال احمر خیبر پختونخوا اور بین الاقومی تنظیم برائے انسانیت آئی سی آر سی نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مقامی لوگوں کی آگاہی کے لیے وادی کمراٹ میں گلوبل کلائیمٹ ویک کا انعقاد کیا۔

    مہم کے دوران سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں درخت لگائے گئے، اور پہلی بار درخت لگانے کے لیے سیڈ بم بنا کر ایسے پہاڑیوں میں پھینکے گئے، جہاں عام طور پر درخت لگانے کے لیے جانا مشکل ہوتا ہے۔

    مقامی آبادی کو آفات کے دوران انسانی جانیں بچانے کے لیے فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی دی گئی اور گھروں میں کچن گارڈن تیار کرنے کے ساتھ بارش کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے طور طریقے بھی سیکھائے گئے۔

    ایک ہفتے تک جاری رہنے والی مہم میں اسپورٹس گالا کا اہتمام بھی کیا گیا جسے لوگوں نے خوب سراہا۔