Tag: LAB-GROWN MEAT

  • مصنوعی گوشت کی تیاری پر ہزاروں یورو کا جرمانہ

    مصنوعی گوشت کی تیاری پر ہزاروں یورو کا جرمانہ

    اٹلی نے مصنوعی گوشت کی تیاری پر ہزاروں یورو کا جرمانہ لگا دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اٹلی نے تجربہ گاہوں یعنی لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت پر پابندی لگا دی ہے، خلاف وزری پر 60 ہزار یورو (تقریباً 55 لاکھ روپے) جرمانہ لگایا جا سکتا ہے۔

    یورپ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب لیبارٹری میں تیار مصنوعی گوشت پر پابندی لگائی گئی ہے، اس کے لیے اٹلی کی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کی گئی۔

    159 اراکین پارلیمنٹ مصنوعی گوشت کی تیاری پر پابندی کی حمایت کی، جب کہ 53 اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے صرف دو ملک امریکا اور سنگاپور میں لوگوں کو لیبارٹری میں تیار شدہ گوشت کھانے کی اجازت ہے۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس پابندی سے متعلق اٹلی کا کہنا ہے کہ ملک میں کھانے کی ثقافت کو خطرہ تھا اس لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ واضح رہے کہ اٹلی وہ یورپی ملک ہے جس کا مغربی ثقافت اور کھانوں پر بہت گہرا اثر ہے۔

    اٹلی میں کسانوں کی لابی بھی بہت مضبوط ہے اور وہ طویل مدت سے مصنوعی گوشت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے، اس لیے پابندی کے فیصلے پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے تاہم دوسری طرف ایسی تنظیموں کو شدید صدمہ ہوا ہے مویشیوں کی بہبود کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔

  • مصنوعی گوشت سے تیار ڈشیں اب مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی

    دنیا بھر میں گوشت خوری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس کی ضروریات پورا کرنے کیلئے صرف مویشیوں کی پیداوار اور افزائش میں اضافہ کرنا ہی کافی نہیں ہوگا۔

    اس بحران پر قابو پانے کیلئے سائنسدان اپنی کوششوں میں مصروف عمل ہیں اور کافی حد تک مختلف ذرائع سے گوشت کو مصنوعی طریقے سے تیار کرنے کیلئے کامیابی بھی حاصل کرلی ہے۔

    اس حوالے سے سائنسدانوں نے لیبارٹری میں جانوروں کے خلیوں سے گوشت تیار کیا ہے جو بہت جلد لوگوں کے دسترخوانوں کی زینت بنے گا اور آنے والے دنوں میں اس کی تیاری میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔

    اس گوشت کو کلین میٹ، کلچرڈ میٹ اور ان وٹرو میٹ بھی کہا جاتا ہے جو مصنوعی طور پر تیار کیے جانے والا اصلی گوشت ہے جسے براہ راست جانوروں کے خلیوں سے لیباٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔

    ایک صحت مند جانور سے اس کے خلیات لینے کے بعد جسے اس عمل میں کوئی نقصان نہیں پہنچتا، انہیں ایک بڑے ٹینک میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں غذائی اجزاء فراہم کیے جاتے ہیں جب تک کہ وہ تقسیم در تقسیم اور بڑھتے نہ جائیں۔

    مصنوعی گوشت تیار کرنے والی کمپنیوں کے سربراہان پُرامید ہیں کہ وہ جلد ہی اس گوشت کو مختلف ریستورانوں میں گاہکوں کو پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کیلئے انہوں نے اعلیٰ درجے کے ماہر باورچیوں کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں۔

    سربراہان کا کہنا ہے کہ اس کامیابی تک پہنچنے اور بڑی مارکیٹوں میں مصنوعی گوشت کو پہچانے کیلئے کچھ رکاوٹوں کا سامنا ہے، کمپنیوں کو پیداوار بڑھانے کے لیے مزید فنڈز کی بھی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے بیف اسٹکس اور چکن بریسٹ زیادہ سستی قیمت پر گاہکوں کو پیش کرسکیں گے۔

    اس کے علاوہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ابتداء میں مصنوعی گوشت کی فروخت کیلئے خریداروں کو راغب کرنے میں بھی دشواری ہوسکتی ہے کیونکہ لوگ اسے خریدنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریںگے۔

    واضح رہے کہ مذکورہ مصنوعی گوشت مویشیوں سے جمع کردہ خلیوں کے ایک چھوٹے سے نمونے سے اخذ کیا جاتا ہے جس میں بعد میں دیگر غذائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں جو اسٹیل کے بڑے برتنوں میں تیار کیے جاتے ہیں اس عمل کو بائیو ری ایکٹر کہا جاتا ہے تیاری کے بعد یہ گوشت بالکل اصلی گوشت کی طرح نظر آتا ہے جو اسی طرح ذائقہ دار اور غذایئت سے بھرپور بھی ہوتا ہے۔

    گزشتہ سال نومبر میں خوراک اور ادویات کے امریکی نگران ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی جانب سے کیلیفورنیا کی ایک کمپنی کے تیار کردہ مصنوعی گوشت کو انسانی استعمال کے لیے محفوظ قرار دینے کے بعد لیب میں بنائی گئیں گوشت کی مصنوعات اب جلد برطانیہ کی سپر مارکیٹوں کے شیلف میں نظر آ سکتی ہیں۔

    ابھی صرف سنگاپور ہی ایسا ملک ہے جہاں اس مصنوعی گوشت کی خرید و فروخت کی قانونی طور پر اجازت دی گئی ہے تاہم ان امریکا میں بھی بہت جلد یہ گوشت فروخت کیلئے مارکیٹوں میں دستیاب ہوگا۔

    یاد رہے کہ بھارت میں لوگوں کی اکثریت اپنے مذہبی عقائد کے پیش نظر گوشت کھانا پسند نہیں کرتی لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مصنوعی گوشت ان لوگوں کے لیے بھی کھانے کے قابل ہے۔