Tag: lady reading hospital

  • اسپتال کے کورونا وارڈ میں یوٹیوبر نے اچانک آکر کیا کردیا؟ انتظامیہ پریشان

    اسپتال کے کورونا وارڈ میں یوٹیوبر نے اچانک آکر کیا کردیا؟ انتظامیہ پریشان

    پشاور: خیبر پختونخوا کے ایک اسپتال میں یوٹیوبر نے اچانک آکر کورونا کے تمام مریضوں پر پھونک مار کر دم کیا، غیر متعلقہ شخص کی آمد پر ذمہ داران کیخلاف تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے ایک اسپتال میں عجیب واقعہ پیش آیا ہے، جس میں ایک شخص بغیر کسی روک ٹوک کے لیڈی ریڈنگ اسپتال آیا اور کورونا وارڈ مین داخل مریضوں پر دم کیا اور چلتا بنا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قاری افتخار نامی یوٹیوبر رات گئے ایک سیکیورٹی گارڈ کے ہمراہ کورونا کمپلیکس آیا، قاری افتخار نے کورونا کے تمام مریضوں کو پھونک مار کردم کیا۔

    قابل ذکر بات یہ ہے کہ کورونا کمپلیکس کے سیکیورٹی انچارج نائٹ ایڈمن اس واقعہ سے بےخبر رہے، ڈیوٹی پر موجود ذمہ داران کی اس مجرمانہ غفلت پر اسپتال انتظامیہ نے اس واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں جہاں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے وہیں اس کے علاج کیلئے ویکسین کے ساتھ ساتھ کچھ دیسی طریقہ علاج کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔

    ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے بہت سارے ممالک اور بہت بڑ ی بڑی کمپنیا ں کوویڈ 19کے علاج کے لیے مؤثر دوا تیار کرنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہیں۔

    کہیں کوئی سنامکی کی بات کرتا ہے تو کہیں ادرک کی چائے اور کلونجی کے استعمال کو کورونا وائرس کا علاج قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت میں تو کچھ لوگ اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہوں نے گئو موتر ( گائے کا پیشاب) کو اس وبا کا مؤثر علاج بتا رہے ہیں۔

  • لیڈی ریڈنگ اسپتال میں بیرون ملک سے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کا تقرر

    لیڈی ریڈنگ اسپتال میں بیرون ملک سے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کا تقرر

    پشاور: بیرون ملک تربیت حاصل کرنے کے بعد وہیں کام کرنے والے 20 ماہرین طب نے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات فراہم کردیں۔

    لیڈی ریڈنگ اسپتال میں گزشتہ روز 43 ماہرین طب کا تقرر کیا گیا جن میں سے 20 بیرون ملک سے اپنی ملازمتیں چھوڑ کر آنے والے ڈاکٹرز شامل ہیں۔

    ان ڈاکٹرز نے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دی جانے والی بہترین تنخواہوں، مراعات، سہولیات اور بہترین ماحول کو دیکھتے ہوئے اپنی غیر ملکی ملازمتیں چھوڑ کر یہاں ملازمت شروع کردی ہے۔

    ڈاکٹر حامد شہزاد بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جو گزشتہ 15 سال سے برطانیہ کے کوئین الزبتھ اسپتال برمنگھم میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب لیڈی ریڈنگ اسپتال میں شعبہ ایمرجنسی و حادثات میں بطور ڈائریکٹر ان کا تقرر کیا گیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں اور خدمات اپنے ملک کے لوگوں کے لیے صرف کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ بہترین وقت کا انتظار کر رہے تھے، ’وہ وقت اب آچکا ہے کیونکہ اب حالات پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہوگئے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: بیرون ملک لاعلاج مریض پاکستان میں صحت یاب

    ڈاکٹر حامد شعبہ حادثات میں ان افراد کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں جو بم دھماکوں کا شکار ہوئے ہوں اور اب وہ اس شعبے میں واحد ڈاکٹر ہیں جو بیرون ملک سے تربیت یافتہ ہیں۔

    اسپتال میں تعینات کیے جانے والے دیگر ڈاکٹرز برطانیہ سمیت امریکا، آئرلینڈ، دبئی، سنگاپور، ملائیشیا اور برونائی دارالسلام سے اپنی ملازمتیں چھوڑ کر آئے ہیں۔ ان سب کا تقرر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدوں پر کیا گیا ہے۔

    ان ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں کام کرنے کی اصل وجہ شہر میں امن و امان کے حالات میں بہتری آنا ہے۔

    لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ڈین پروفیسر ارشد جاوید کا کہنا ہے کہ ان ڈاکٹرز کا یہاں پر کام کرنا نہ صرف اسپتال بلکہ پورے شہر میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر کو ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر کو 3 لاکھ جبکہ پروفیسر کو ساڑھے 3 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے۔

    ان کے مطابق اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 3 ہزار کے قریب مریض آتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مریض اسپیشلسٹ کو دکھائے جانے ضروری ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پشاوراسکول حملہ، لیڈی ریڈنگ اسپتال میں افراتفری کا عالم

    پشاوراسکول حملہ، لیڈی ریڈنگ اسپتال میں افراتفری کا عالم

    پشاور: اسکول پر حملے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں افراتفری کا عالم دیکھا گیا، ڈاکٹرز زخمیوں کی زندگی بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں،اسپتال عملے نے شہریوں سے خون کےعطیات کی اپیل کی ہے۔  پشاور فائرنگ کی خبر سنتے ہی والدین دیوانہ وار اسکول پہنچ گئے۔

    پشاور کے اسکول میں دہشتگردوں کے حملے نے آن کی آن درجنوں معصوم طلبہ کو خون میں نہلادیا، واقعے کے بعد شہر میں ایمبولینسیں دوڑتی نظر آئیں، زخمیوں کو فوری طبی امداد کے لئے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا، ہر طرف افراتفری کے مناظر اور بس چیخ و پکار تھی، بچوں کو تیار کرکے اسکول بھیجنے والے والدین اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں اسپتال پہنچے۔

    غم سے نڈھال باپ نے فوج کو مدد کیلئے پکار لیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ماں باپ کی بیس بیس سال کی کمائی، بیس منٹ میں لٹ گئی ہے
    پشاور کے نجی اسکول میں سید طاہرعلی کے پڑھنے والے دو بھتیجوں میں ایک کی لاش مل گئی، انکا کہنا تھا کہ میں اس جنازے کا کیا کروں گا، ماں باپ کی بیس بیس سال کی کمائی، بیس منٹ میں لٹ گئی ہے۔

    طاہرعلی نے شکوہ کیا کہ حکمرانوں کی طرح ہمارے بچوں کو سیکیورٹی کیوں نہیں ملتی۔

      اسپتال میں جا بجا رقت آمیز مناظر ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین شدت غم سے نڈھال تھے۔

  • دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    کراچی (ویب ڈیسک)- پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اوریہاں لاوارث میتوں کی بھی اسلامی عقائد کے مطابق آخری رسومات ادا کیں جاتی ہیں لیکن ایک ریسرچ شائع کرنے والی ویب سائٹ پرشائع شدہ رپورٹ کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی اکثریت جنازے کی رسوم سے محروم رہتی ہے۔

    یہ رپورٹ شدت پسندی سے متاثرہ صوبے خیبرپختونخواہ سے متعلق ایسے اشخاص کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو کہ کسی بھی شخص کی موت کے بعد کے مراحل میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں یعنی ڈاکٹرزاورمذہبی پیشوا اورانہی اشخاص نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جنت کے لالچ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد دنیامیں اپنی آخری رسومات سے کیوں محروم رہتے ہیں۔

    خیبر میڈیکل کالج سے وابستہ ڈاکٹر جاوید احمد کے مطابق 14 اگست کو ہلاک ہونے والے چار دہشت گردوں کی لاشیں ان کے گھروالوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کی شناخت تحریک ِطالبان کے مقامی کمانڈرز کے طورپرہوئی حالانکہ کالج نے لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اوردیگرتمام قانونی کاروائی مکمل کرلی تھی۔

    لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور سے وابستہ ڈاکٹر حنیف کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں تیس سے زائد ایسی لاشیں آچکی ہیں جن کے ورثا انہیں وصول کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

    پشاور کی ایک مسجد میں نماز کی امامت کرانے والے مولانا شکور نے بتایا کہ عام حالات میں ایک مسلمان کی نعش کو اس کے عزیز غسل دیتے ہیں جس کے بعد اس کا جنازہ پڑھا جاتا ہے، تاہم مرنے والے دہشت گردوں کی اکثریت کو یہ رسوم مہیا نہیں کی جاتیں، جو ان کے لواحقین کے لیے زندگی بھرکی ذہنی اذیت کا باعث بن سکتا ہے۔

    مولانا شکور نے 19 سالہ جمال شاہ کی مثال دی جو 2007 میں ٹی ٹی پی میں شامل ہوا تھا اوراس سال کے اواخر میں ضلع مردان میں ہلاک ہو گیا تھا اوراس کے رشتہ دار اورگاؤں والے اس کے غمگین والدین سے کسی قسم کا اظہار افسوس کرنے نہیں پہنچے۔

    چارسدہ میں مقیم ایک مذہبی معلم محمد سمیع نے کہا کہ سب سے بڑا المیہ شاید یہ ہے کہ عسکریت پسند، کچے ذہن کے نوجوانوں کو جنت میں جانے کے جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

    تاہم جنازے کی مسنون رسوم سے محروم رہ جانے والے جنگجوؤں کو کبھی بھی جنت کا وہ مقام حاصل نہیں ہوگا جن کا ان کے نام نہاد رہنماؤں نے ان سے وعدہ کر رکھا تھا، سمیع نے کہا۔

    "درحقیقت، عسکریت پسندوں کے مقدر میں اللہ کے غضب کا سامنا لکھا ہے کیونکہ اسلام میں معصوم لوگوں کے قتل کی اجازت نہیں،” انہوں نے بتایا، اور کہا کہ الہی احکامات کے تحت، دہشت گرد جہنم میں جائیں گے۔

    عسکریت پسندی اختیار کرنے کا مطلب ہے اسلام کو ترک کر دینا، جو یہ سکھاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے، نوشیرہ میں قائم ایک مدرسے کے معلم قاری محمد شعیب نے کہا۔

    ہم کیسے لوگوں سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کو احترام سے دفن کریں؟” انہوں نے سوال کیا۔ "اسلام محبت، امن، اور احترام کا مذہب ہے اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔”

    مندرجہ بالا اوران جیسے کئی اورواقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی اکثریت شدت پسنی کو پسند نہیں کرتی اور اس کی مخالف ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے جو کہ نوجوان نسل کی رگوں میں دہشت گردی کا رس گھولتے ہیں تاکہ پاکستان کے حقیقی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلانے والے دھوکہ باز افراد میں واضح تمیز کی جاسکے۔