Tag: Lahore High Court

  • لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل نے استعفیٰ دے دیا

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل نے استعفیٰ دے دیا

    لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس شاہد جمیل خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج شاہد جمیل نے ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دیا، جسٹس شاہد جمیل سنیارٹی میں 11ویں نمبر پر تھے۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردیا۔

    واضح رہے کہ جسٹس شاہد جمیل نے 2028 میں ریٹائرہونا تھا۔

  • شہری بڑا دعویٰ‌ لے کر زہر پینے کی اجازت کے لیے عدالت پہنچ گیا

    شہری بڑا دعویٰ‌ لے کر زہر پینے کی اجازت کے لیے عدالت پہنچ گیا

    لاہور: زندہ دلان لاہور کا ایک شہری بہت بڑا دعویٰ‌ لے کر زہر پینے کی اجازت کے لیے عدالت پہنچ گیا، جہاں لوگ اس کی بات سن کر حیران رہ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں بادامی باغ کے ایک رہائشی سرور تاج نے درخواست دی کہ اسے زہر پینے کی اجازت دی جائے، اسے کچھ نہیں ہوگا، لیکن عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ درخواست صرف سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے دائر کی ہے، ایسے کسی فعل کی بھلا کوئی کیسے اجازت دے سکتا ہے۔ سرکاری وکیل نے بھی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔

    درخواست گزار سرور تاج کا مؤقف تھا کہ انھوں نے سیکریٹری ہوم اور ڈی سی لاہور کو بھی زہر پینے کی اجازت کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں، جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس کینسر سمیت دیگر بیماریوں کے علاج کے فارمولے ہیں، اور یہ کہ وہ خود پر تجربہ کرنا چاہتا ہے اس لیے موچی گیٹ پر زہر پینے کی اجازت دی جائے۔

    سرور تاج کی جانب سے ڈی سی لاہور کو دی جانے والی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ زہر سے بھرا گلاس پی جائے گا اور اسے کچھ نہیں ہوگا، اور اس کے بعد وہ کینسر کے علاج کی دوا فی سبیل اللہ حکومت پاکستان کو فراہم کر دے گا۔

  • سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

    سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

    لاہور: سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی گٸی۔

    تفصیلات کے مطابق گریس بائبل فیلوشپ چرچ پاکستان نے شہباز فضل سورایہ ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے شریک ملزمان کو گرفتار کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    یہ درخواست گریس بائبل فیلوشپ چرچ پاکستان کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، آئی جی پنجاب و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ جڑانوالہ واقعے میں 25 چرچ اور 200 سے زائد گھروں کو جلایا گیا، مسیحی برادری کے گھروں کو لوٹنے کے بعد تباہ کیا گیا، واقعے پر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل پا چکی ہے مگر اس سلسلے میں عمل میں دیر لگ سکتی ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وقوعے کے دو ہفتوں بعد بھی کئی متاثرین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے شریک ملزمان کو گرفتار کیا جائے، اور سی سی ٹی وی کیمروں میں آنے والے ملزمان کو دھمکیاں دینے سے روکنے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ مسیحی برادری کے متاثرین کی نارمل زندگی کی بحالی کے لیے فوری انتظامی اور مالی معاونت بھی کی جائے۔

  • لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات روک دیے، حکم امتناع جاری

    لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات روک دیے، حکم امتناع جاری

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات روک دیے، اور حکم امتناع جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے انتخابات پر حکم امتناعی جاری کر دیا، اور جسٹس انوار حسین نے وفاقی حکومت اور پی سی بی الیکشن کمشنر و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔

    درخواست گزار کی جانب سے عدالت میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مینجمنٹ کمیٹی کی منظوری سے بنائے گئے بورڈ آف گورنرز کو پی سی بی الیکشن کمشنر نے عہدوں سے ہٹایا، االیکشن کمشنر نے غیر آئینی اقدام کر کے بورڈ آف گورنرز کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا۔

    درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پی سی بی الیکشن کمشنر نے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پی سی بی الیکشن کمشنر کا ازخود نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دینے کا اقدام غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    عدالت نے درخواست پر سماعت کے بعد چیئرمین پی سی بی کے انتخابات روک دیے، اور حکم امتناع جاری کر دیا۔

  • لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف قائم جے آئی ٹی پر قانونی سوال اٹھا دیے

    لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف قائم جے آئی ٹی پر قانونی سوال اٹھا دیے

    لاہور: ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف قائم جے آئی ٹی پر قانونی سوال اٹھا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں سے تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جے آٸی ٹی کی تشکیل پر قانونی سوال اٹھا دیے، اور فوری حکم امتناعی کی استدعا مسترد کر دی۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فواد چودھری اور مسرت جمشید چیمہ کی درخواستوں پر سماعت کی، فواد چودھری نے کہا کہ جتنے مقدمات بنائے گئے ان میں غیر قانونی طور پر دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

    پی ٹی آئی رہنما نے عدالت کو بتایا کہ مقدمات میں بھونڈے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، ایک ہی وقوعہ کے ایک سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔

    عدالت نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا جے آٸی ٹی کی تشکیل قانونی داٸرہ اختیار کے تحت ہوٸی؟ ابھی تو تفتیش کا آغاز ہوا ہے کیا اس اسٹیج پر عدالت دہشت گردی کی دفعات کا جائزہ لے سکتی ہے؟

    عدالت نے سوال کیا کہ صوبائی حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی ہے، تو وفاقی حکومت کے جن اداروں کے افسران کو جے آئی ٹی میں رکھا گیا ہے اُن کی اجازت کس سے لی گئی ہے؟

    فواد چوہدری نے عدالت سے جے آئی ٹی کے سلسلے میں فوری حکم امتناع کی استدعا کی، تاہم عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوٸے سماعت ملتوی کر دی، اور کہا کہ درخواستوں پر مزید کارروائی کل ہوگی۔

  • لاہور ہائیکورٹ: قیام پاکستان سے قبل کے 78 برس پرانے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے قیام پاکستان سے قبل کے 78 برس پرانے اراضی سے متعلق ایک کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اراضی سے متعلق 78 برس پرانے تنازعے کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی، جسٹس مزمل اختر شبیر اور جسٹس محمد اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

    کیس کا پس منظر

    درخواست کے مطابق سنہ 1944 میں فضل محمود اور اسلم نامی افراد نے لائل پور میں 19 کنال اراضی دھنا سنگھ نامی شخص کو فروخت کی، دھنا سنگھ 1947 میں آزادی کے بعد بھارت چلا گیا۔

    سنہ 1951 میں فضل محمود کے بیٹے خالد محمود نے زمین فروخت کرنے پر اپنے والد اور دھنا سنگھ کے خلاف سول کورٹ میں دعویٰ دائر کردیا، سول عدالت نے دھنا سنگھ کے پیش نہ ہونے پر 1952 میں زمین کا فیصلہ خالد محمود کے حق میں دے دیا۔

    1962 میں زمین فروخت کرنے والے دوسرے شخص اسلم کے بیٹے نجیب نے خالد محمود کے نام زمین کرنے کے فیصلے کو منسوخ کرنے کی درخواست دے دی جسے سول عدالت نے منظور کر لیا۔

    بعد میں خالد محمود نے فیصلے کے خلاف اپیل کی جو مسترد ہو گٸی، نجیب کے ورثا نے سنہ 2018 میں سول عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دے دی۔

    اب عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ آزادی کے بعد پاکستان سے جانے والے غیر مسلموں کی زمین سینٹرل گورنمنٹ پاکستان کی ملکیت تھیں، خالد نے سنہ 1951 میں بدنیتی پر مبنی دعویٰ سول کورٹ میں دائر کیا اور سینٹرل گورنمنٹ پاکستان کو فریق نہیں بنایا۔

    عدالت نے کہا کہ سول کورٹ کا آرڈر غیر قانونی تھا، اراضی بنیادی طور پر وقف املاک بورڈ، حکومت پاکستان کی ہوچکی تھی، دونوں درخواست گزاروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

    عدالت نے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور چیف سیٹلمنٹ کمشنر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) لاہور کو ہدایت کی کہ معاملے کو دیکھیں اور اس کے حوالے سے ضروری کارروائی کریں۔

    2 رکنی بینچ نے اپیل دائر کرنے والے مرحوم نجیب اسلم کے وارثان پر بھی 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

  • وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست: بینچ رکن کا سماعت سے انکار

    وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست: بینچ رکن کا سماعت سے انکار

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت جاری ہے، بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت شروع ہوگئی ہے، لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

    بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا ہے، پرویز الٰہی کی درخواست واپس چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی گئی۔

    لارجر بینچ کا کہنا ہے کہ جسٹس فاروق حیدر کچھ کیسز میں پرویز الٰہی کے وکیل رہ چکے ہیں، جسٹس فاروق حیدر اس کیس کی سماعت نہیں کرنا چاہتے۔

    جسٹس عابد عزیر شیخ نے کہا کہ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ بنایا جائے۔

    کیس کی سماعت جاری ہے۔

  • وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست: سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی

    وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست: سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی، عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل کو ہدایات لینے کی مہلت دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت شروع ہوتے ہی بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا، لارجر بینچ کا کہنا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر کچھ کیسز میں پرویز الٰہی کے وکیل رہ چکے ہیں، جسٹس فاروق حیدر اس کیس کی سماعت نہیں کرنا چاہتے۔

    بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیر شیخ نے کہا کہ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ بنایا جائے۔

    نیا بینچ بنانے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی گئی۔

    پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر اور عامر سعید اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے۔

    پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی الیکشن کے نتیجے میں جولائی 2022 میں وزیر اعلیٰ بنے، پرویز الٰہی نے 186 ووٹ لیے جس میں سے اسپیکر نے 10 ووٹ منہا کیے، ڈپٹی اسپیکر کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت نے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے روکا ہے۔

    علی ظفر کے مطابق اس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے جس کے کامیاب ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ہٹایا جائے گا، گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے، اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلایا جاتا ہے جس میں یہ کارروائی ہوتی ہے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر مدت کا تعین نہیں کر سکتا، گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دینا چاہیئے۔ اسملبی اسپیکر دن مقرر کرے، وزیر اعلیٰ کہے ووٹ نہیں لیتا پھر کارروائی ہو تو الگ بات ہے، لیکن اسپیکر نے اجلاس ہی نہیں بلایا اور گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔

    انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی میں تنازع ہے، سپریم کورٹ اس معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے کہ اس تنازع کی اہمیت نہیں۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ اگر اسمبلی کا سیشن چل رہا ہو تب کیا کیا جائے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے اسپیکر کو اجلاس ختم کرنا ہوگا۔

    عدالت نے کہا کہ اگر سیشن چل رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے، جب پہلے ہی سیشن چل رہا ہو تو پھر رولز کا کیا مسئلہ رہ جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ آئینی تقاضہ ہے کہ اجلاس بلایا جائے۔

    عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ اسمبلی نے ہی حل کرنا ہے، اسپیکر گورنر کے حکم کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر منتخب ہو کر نہیں آتا بلکہ وزیر اعظم کی سفارش پر بنتا ہے، اب گورنر نے صرف پرویز الٰہی کو اگلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک کام کرنے کی اجازت دی، کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک لیٹر سے منتخب وزیر اعلی اور کابینہ کو باہر نکال دیا جائے۔

    عدالت نے کہا کہ ہم یہ آرڈر معطل کر دیں اور کابینہ بحال کر دیں تو کیا آپ ووٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دیں گے؟ کیا آپ اس پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں۔

    عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کچھ پابندیوں کے ساتھ اس پر حکم دیں گے، نوٹیفکیشن پر عملدر آمد روک دیں اور آپ اسمبلیاں توڑ دیں تو نیا بحران پیدا ہوگا۔

    ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کے وکیل کو ہدایات لینے کے لیے مہلت دے دی، سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

  • قتل کیس میں سزائے موت پانے والا ملزم 6 سال بعد بری

    قتل کیس میں سزائے موت پانے والا ملزم 6 سال بعد بری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے ملزم کو 6 سال بعد بری کردیا، عدالت نے ملزم کی اپیل پر فیصلہ دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے ملزم کو 6 سال بعد بری کردیا۔

    ملزم کی اپیل پر سماعت جسٹس شہرام سرور کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔

    ملزم پر سنہ 2006 میں جائیداد کے تنازعے پر شہری کو قتل کرنے کا الزام تھا، ملزم کے خلاف تھانہ فیصل آباد پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کیا۔

    اپیل کی سماعت کرتے ہوئے ہائیکورٹ نے ملزم محمد عامر کو گواہوں کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر بری کیا۔

    خیال رہے اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کے ورثا کو 32 سال بعد انصاف فراہم کیا تھا۔

    سنہ 1990 میں حراست میں لیے جانے والے نوجوان پر پولیس کی تحویل میں بدترین تشدد کیا گیا تھا، واقعے کی جوڈیشل انکوائری میں پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

  • فیول ٹیکس چھوڑ کر بجلی کے بل کی صرف اصل رقم جمع کروائی جائے: عدالت کا حکم

    فیول ٹیکس چھوڑ کر بجلی کے بل کی صرف اصل رقم جمع کروائی جائے: عدالت کا حکم

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے شہریوں کو بجلی کے بل میں سے فیول ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس منہا کر کے باقی رقم جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسمنٹ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

    عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسمنٹ کی منظوری دی، وفاقی حکومت کی بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی منظوری سے بجلی مزید مہنگی ہوگئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسمنٹ قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسمنٹ کا اقدام کالعدم قرار دے اور کیس کے حتمی فیصلے تک فیول ایڈجسمنٹ کی رقم بجلی کے بلوں سے منہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

    عدالت نے درخواست گزاروں کو فیول ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس منہا کر کے بجلی کے بلوں کی باقی رقم جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے وفاقی حکومت، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرلیا۔

    ہائی کورٹ نے 14 ستمبر کو اس نوعیت کی تمام درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔