Tag: lawyers strike

  • وکیل کے بھائی کے مبینہ قاتلوں کی رہائی پر وکلا کا ہڑتال کا اعلان

    وکیل کے بھائی کے مبینہ قاتلوں کی رہائی پر وکلا کا ہڑتال کا اعلان

    اوکاڑہ: پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں وکیل کے بھائی کے مبینہ قاتلوں کی رہائی پر وکلا نے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ بار اوکاڑہ کے ایک رکن عاطف بلوچ ایڈووکیٹ کے بھائی کے قتل کے ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے پر اوکاڑہ، ساہیوال اور پاکپتن ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

    وکلا ایسوسی ایشنز کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں بار ایسوسی ایشنز کے وکلا احتجاجاً عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

    اعلامیے کے مطابق ایس ایچ او تھانہ شاہ مقیم نے ملزمان سے ساز باز کر کے انھیں بے گناہ قرار دیا اور رہا کر دیا، وکلا نے نے کہا کہ ملوث پولیس افسران کی معطلی تک وکلا کی ہڑتال جاری رہے گی۔

    اوکاڑہ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ پولیس افسران نے عاطف بلوچ ایڈووکیٹ کے بھائی کے قاتلوں کو رہا کیا ہے، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن پولیس کے اس رویے کی شدید مذمت کرتی ہے۔

  • ڈسکہ : پولیس گردی کیخلاف ملک بھرمیں وکلاء برادری سراپا احتجاج

    ڈسکہ : پولیس گردی کیخلاف ملک بھرمیں وکلاء برادری سراپا احتجاج

    ڈسکہ: وکلاء کی ہلاکت کے خلاف وکلاء برادری ملک بھر میں سوگ منارہی ہیں، بارکونسلوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے ہیں، وکلاء نے عدالتی کارروائیوں کو بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔

    ڈسکہ میں پولیس گردی اور وکلاء کی ہلاکت پر ملک بھر میں وکلاء برادری سراپا احتجاج ہیں، بار کونسلوں میں سیاہ پرچم لہرائے گئے ہیں، وکلاء عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔

    پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل کی جانب سے تین روزہ سوگ کے اعلان کے بعد آج یوم سوگ منایا جا رہا ہے، مختلف شہروں میں حالات کشیدہ ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈسکہ واقع پر تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ اور لاہور بار کے وکلاء ہڑتال پر ہے۔عدالتی احاطے میں سیاہ پرچم لہرائے گئے ہیں ۔ ڈسٹرکٹ بار گوجرانوالہ، رحیم یارخان ،فیصل آباد ،ملتان ،اوکاڑہ، دیپالپور سمیت پنجاب بھر میں وکلا احتجاج پر ہیں۔

    ڈسکہ واقعے کیخلاف بلوچستان بار کی کال پر صوبہ بھرمیں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا ہے، سندھ بار کونسل نے بھی سانحہ ڈسکہ کے خلاف عدالتی امور کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے، وکلاء برادری کا مطالبہ ہے کہ قاتلوں کو فی الفورگرفتار کیا جائے اور سزا دی جائے۔

    کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں وکلاء کی جانب سے ڈسکہ واقعہ کے خلاف عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔

    بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر گزشتہ روز ڈسکہ میں پولیس کی وکلاء پر فائرنگ سے جان بحق ہونے والے وکلاء سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے احتجاجا کوئٹہ میں ہائی کورٹ ، ضلعی کچہری سمیت صوبے بھر کی ماتحت عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جارہا ہے ۔ اس دوران بار رومز پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے جبکہ وکلاء نے ہاتھوں میں سیاہ پٹیاں بھی باندھی۔

    وکلاء کسی بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے اور عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنے، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی کا کہنا ہے کہ وکلاء پر پولیس کی فائر نگ اور تشدد سے جان بحق وکلاء کے لئے وہ بھی سراپہ احتجاج ہیں اور واقعہ کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کی جائے۔

    گذشتہ روز ڈسکہ میں پولیس کی فائرنگ سے صدر ڈسکہ بار سمیت دو وکلاء کے قتل کے خلاف گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار کے وکلاء نے ہڑتال کرتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اس موقع پر کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا جبکہ دوردراز علاقوں سے آنے والے سائیلین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    دوسری جانب سیشن کورٹ کے احاطہ میں پولیس کا کوئی اہلکار موجود نہیں جبکہ سیشن کورٹ کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار بھی ڈیوٹی سے غائب ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے گیارہ بجے قتل ہونے والے وکلا کا غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی۔


    ڈسکہ تحصیل بار کے صدر رانا خالد اور ساتھی وکیل کی نمازِ جنازہ ادا


    ڈسکہ تحصیل بار کے صدر رانا خالد اور ساتھی وکیل کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، شہر سوگ میں ڈوبا ہوا ہے اور دفاتر سمیت وکلاء کے گھروں پر بھی سیاہ پرچم لہرا رہے ہیں۔

    ڈسکہ واقعہ میں جاں بحق تحصیل بار کے صدر رانا خالد اور ایڈوکیٹ عرفان کی نمازِجنازہ اداکردی گئی ہے۔ نمازِجنازہ میں علاقہ مکینوں اورسیالکوٹ، گوجرانوالہ سمیت دیگرکئی شہروں سے بڑی تعداد میں وکلاء برادری نے شرکت کی۔

    سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی نمازِجنازہ میں شریک تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ایم این اے، ایم پی ایز اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بھی نمازِجنازہ میں شرکت کی۔

    واقعے پر شہر بھر میں کرفیو کا سماں ہے، تجارتی مراکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی معمول سے کم ہے۔

    واقعے کے خلاف وکلاء برادری نے ڈسٹرکٹ بار کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور دفاتر سمیت وکلاء کے گھروں پر بھی سیاہ پرچم لہرائے جارہے ہیں۔

    گزشتہ روز سیالکوٹ میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ساتھیوں کی ہلاکت پر پنجاب سمیت ملک بھر کے وکلاء بپھر گئے،  لاہور میں پنجاب بار کونسل کے وکلا نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مال روڈ بلاک کردیا، وکلاء نے حکومت اور پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی،  ملتان کے وکلاء نے ساتھیوں کی ہلاکت پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

    وکلاء کی پولیس سے مڈ بھیڑ ہوئی تو پولیس موبائل کے شیشے ٹوٹ گئے، فیصل آباد میں بھی کالے کوٹ والے مشتعل ہوگئے، پولیس اور وکلا میں کشیدگی بھی سامنے آئی، احتجاج کے دوران تھا نہ سول لائن پر پتھراؤ بھی کیا گیا، گوجرانوالہ کے وکلاء بھی سڑکوں پر نکلے اور غم و غصے کا اظہار کیا، ایک وکیل نے خالی کھڑی پولیس موبائل کا شیشہ بھی توڑ ڈالا۔

  • سانحہ 12مئی کے 8سال مکمل، پاکستان بارکونسل کا آج یومِ سیاہ

    سانحہ 12مئی کے 8سال مکمل، پاکستان بارکونسل کا آج یومِ سیاہ

    کراچی: سانحہ بارہ مئی کی یاد میں ملک بھر میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے، وکلا آج احتجاجی جنرل باڈی اجلاس کریں گے اور سندھ میں آج وکلا عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

    سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار چوہدری کے انکار نے ملک میں آمریت کے خلاف تحریک کی داغ بیل ڈالی، چیف جسٹس نے کسی بھی سیاسی رہنما کیطرح شہر شہر دورے کئے لیکن کراچی کا دورہ خون ریز ثابت ہوا۔

    روشنیوں کا شہر دن بھر سلگتا رہا، گاڑیاں جلتی رہیں اور زمین انسانی خون سے نم ہوتی گئی لیکن مدد کے لئے کوئی مسیحا نہیں آیا۔

    سانحہ بارہ مئی میں معصوم سیاسی کارکنوں اور وکلاء کے قتل عام کو ہوئے آٹھ سال بیت گئے مگر کوئی کوئی دہشت گرد یا قاتل تاحال سزا وار نہیں ٹھرا ہے۔

    وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سانحہ بارہ مئی پاکستان کی تاریخ میں آمریت کے خلاف جدو جہد کرنے والوں کی لازوال قربانیوں کی اعلی مثال ہے۔

    سانحہ بارہ مئی2007 ملکی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے، جس نے سیاسی جماعتوں کی عدم برداشت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قلعی کو کھول کر رکھ دیا۔

    واضح  رہے کہ آج سے  آٹھ سال قبل کراچی میں شدید فسادات ہوئے، جن میں چند گھنٹوں کے دوران 50 سے ذیادہ شہری ہلاک اور 150 کے قریب زخمی ہوئے۔

    اس خون ریزی کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معطل شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لئے کراچی پہنچے، جہاں انہیں اس وقت کی حکومت نے ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔