Tag: laziness

  • کاہلی یا کاموں کے ٹالنے کی عادت پر کیسے قابو پایا جائے؟

    کاہلی یا کاموں کے ٹالنے کی عادت پر کیسے قابو پایا جائے؟

    کسی بھی کام کو جان بوجھ کر ملتوی کرنا یا اس کے کرنے میں سُستی اور تاخیر کا مظاہرہ کرنا یقیناً نامناسب فعل ہے، تاہم موجودہ دور میں یہ ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

    اس عادت کے پڑنے اور بڑھنے کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اس کی وجوہات کو سمجھنا بےحد ضروری ہے۔

    سست روی کا مظاہرہ کرنا یا کسی بھی کام کو کرنے میں تاخیر کرنا ہماری تخلیقی صلاحیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس عادت کے آغاز میں ہم خود کو قصور وار تو محسوس کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ عادت غیر محسوس طریقے سے پختگی میں بدل جاتی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کب ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔

    Put Off Everything

    ہم کاموں کو ملتوی کیوں کرتے ہیں؟

    عام طور پر کاموں میں تاخیر کی وجہ، بوریت، سستی، کاہلی، خوف، خدشات یا کام کا غیر دلچسپ ہونا یا مشکل ہونا ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ التواء کی بڑھتی ہوئی عادت کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن پر نظر ڈالنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    معلومات کی زیادتی : موجودہ ڈیجیٹل دور نے ہمیں معلومات کی مسلسل فراہمی مہیا کی ہے، مسلسل اطلاعات، ای میلز اور سوشل میڈیا کی تازہ ترین اطلاعات کا سلسلہ ہمیں مغلوب کر دیتا ہے، جس سے کسی ایک کام پر توجہ مرکوز کرنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

    ناکامی کا خوف : لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے یا غلطیاں کرنے کا خوف ہمیں مفلوج کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہم کاموں کو اکثرملتوی کردیتے ہیں۔

    کمال پسندی : بہترین اور اچھے سے اچھا کام کرنے کی خواہش بیک وقت فائدہ اور نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے، یہ چیز ہمیں زیادہ منصوبہ بندی اور تجزیے کی طرف لے جاسکتی ہے جس سے اصل کام تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔

    حوصلے کی کمی : اندرونی تحریک کی کمی، خاص طور پر جب کام بورنگ یا مشکل ہو، اس کام کو شروع کرنے اور مکمل کرنے میں مشکل پیدا کردیتی ہے۔

    وقت کی کمی : وقت کی مؤثر منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ کاموں کو ترجیح دینے اور وقت کو مؤثر انداز میں مختص کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کریں؟

    التواء ایک مستقل عادت بن سکتی ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا، آئیے جانتے ہیں کہ اس عادت سے کیسے چھٹکارا ممکن ہے؟

    اس پر قابو پانے کے لیے درج ذیل حکمت عملیوں کو اپنائیں :

    اپنے ذمہ کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں : بعض اوقات کام بہت طویل ہوتا ہے لہٰذا بڑے اور مشکل کاموں کو چھوٹے اور قابلِ انتظام حصوں میں بانٹیں، اس سے یہ کم مشکل بلکہ آسان لگنے لگتے ہیں۔

    اپنے کاموں کی لسٹ بنائیں اور جو کام سب سے اہم ہیں ان کو سرفہرست رکھیں، سرفہرست کاموں کو مکمل کرنے کا لائحہ عمل تیار کریں اور اس کو مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کریں۔

    Procrastination

    حقیقی اہداف مقرر کریں : قابلِ حصول اہداف مقرر کریں اور ایک حقیقی وقت کی حد بنائیں، بہت زیادہ مشکل اہداف مقرر کرنے سے بچیں، جو آپ کیلئے مایوسی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    اپنے کاموں کی ترجیحات مقرر کریں : سب سے اہم کاموں کی نشاندہی کریں اور انہیں ترجیحی طور پر انجام دیں۔ اس کے لیے ایزن ہاور میٹرکس جیسی تکنیک استعمال کریں، جو کاموں کو اہمیت اور ضرورت کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہے۔

    پیداواری ماحول بنائیں : اپنے ارد گرد توجہ کو منتشر کرنے والی چیزوں کو کم کردیں اور ایک خاموش اور صاف ماحول میں کام کریں، ویب سائٹ بلاکرز کا استعمال کریں تاکہ کام پر توجہ برقرار رہے۔

    اپنے آپ کو انعام دیں : خود کو انعام دینے کا نظام بنائیں تاکہ ہر مکمل ہونے والے کام پر پیداواری صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی ہو، چاہے وہ کام کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، خود کو انعام دیں۔

    ذہنی سکون کی مشق کریں : ذہنی سکون کی تکنیک جیسے مراقبہ پر عمل کریں تاکہ آپ موجودہ لمحے میں رہ سکیں اور کام پر توجہ مرکوز رہ سکے۔ اس سے تناؤ اور بےچینی کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے جو التواء کا باعث بنتی ہیں۔

    جسمانی آرام : بعض اوقات تھکاوٹ بھی کام کی تاخیر کا باعث بن جاتی ہے اس لیے 10 سے 15 منٹ کی نیند لے لیں اس سے آپ کا ذہن اور جسم فریش ہوجائے گا اور کام بہترین انداز میں ہوپائے گا۔

    مدد حاصل کریں : دوستوں، خاندان، یا کسی معالج سے مدد لینے سے نہ ہچکچائیں، اپنے چیلنجز پر بات کرنا آپ کو سمجھنے اور حل تلاش کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    ان حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے اور التواء کی اہم اور بنیادی وجوہات کو سمجھتے ہوئے، آپ اپنے وقت اور صلاحیت پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔

  • لاپرواہی اور سُستی سے کیسے بچا جائے؟

    لاپرواہی اور سُستی سے کیسے بچا جائے؟

    ہر انسان بہت سی اچّھی اور بُری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اُسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں، نقصان دینے والی عادتوں میں سے ایک سُستی اور لاپرواہی بھی ہے جس کا اظہار ہم بہت سے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں کہ آج نہیں تو چلو کل کرلیں گے۔

    مشہور مقولہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو کیونکہ اگر آج کا کام وقت پر نہ کیا تو دوسرے دن کل والا کام بھی کرنا پڑے گا جو نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے شرمندگی سے دوچار کردے گا۔

    ہم بحیثیت انسان کسی نہ کسی حد تک سُستی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقیناً نقصان ہی ہوگا لیکن ہم پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔

    سستی

    ٹال مٹول اور کاہلی کی عادت اگر پکی ہوجائے تو اس کے برے اثرات آپ صحت پر بھی پڑسکتے ہیں، آپ مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔

    تو کیا نفسیات کے شعبے میں ہونے والی کوئی تحقیق اس عادت سے ہماری جان چھڑا کر وقت پر کام کرنے کا جذبہ اجاگر کرسکتی ہے؟ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کچھ مشوروں اور ٹوٹکوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

    لاپرواہی

    صرف قوت ارادی پر انحصار نہ کریں

    ایک برطانوی نفسیاتی ماہر ایئن ٹیلر کا کہنا ہے کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کرلیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

    لیکن ایئن پیٹر کے بقول قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔

    مثلاً اگر آپ آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فِٹ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔

    جس کام کو ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں

    کیا کسی کام کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے، یونیورسٹی آف شفیلڈ کی محقق فوچیا سیروس کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔

    اگر آپ کو یہ فکر ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔

    اس قسم کی سوچ پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو تلاش کریں ہوسکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ آنے لگے۔

    وقت

    وقت سے پہلے منصوبہ بندی کریں

    اگر آپ جانتے ہیں کہ کوئی ایسی خاص چیز ہے جو آپ کو ٹال مٹول پر مجبور کرسکتی ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ وہ نفسیاتی حکمت عملی استعمال کریں، اگر آپ وقت سے پہلے کام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سوچ لیتے ہیں کہ ’اگر‘ یہ ہوا تو میں ’پھر‘ کیا کروں گا۔

    اپنی تکلیف کو کم کریں

    کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔ کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ جب آپ خریداری کر کے دکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

    ہم یہ طریقہ خود پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ناشتے کے بعد دوڑنے کے لیے جانے کا سوچ رہے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ ورزش کے کپڑے پہن لیں۔ اسی طرح جو کام آپ نے صبح کرنا ہے اس کی چیزیں ایک رات پہلے سامنے میز پر رکھ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صبح آپ کی نطر سب سے پہلے جس چیز پر پڑے گی آپ وہی کام شروع کر دیں گے۔

    خود کو انعام دیں

    امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی سے منسلک کیٹلِن وُولی کی ایک نئی تحقیق کے مطابق لوگوں کو اگر اپنے کام کا پھل فوراً ملنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ محنت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بنسبت اس وقت جب انہیں اپنے کام کا صلہ انتظار کے بعد ملتا ہے۔

    ہمیں لیت و لعل سے کام لینا اچھا اس لیے لگتا ہے کہ ہم پیچیدہ کام ملتوی کرکے خوش ہونے لگتے ہیں کہ چلو یہ مصیبت تو ٹلی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ خود کو لیت و لعل کا انعام دینے کی بجائے کوئی بہتر انعام دیں۔

    آپ بھی سوچیے کہ آپ کے لیے کیا چیز بہترین ہو سکتی ہے اور خود سے یہ تہیہ کر لیں کہ آپ نے کام ختم کر کے دم لینا ہے۔

    حقیقت پسندانہ تصویر سامنے رکھیں

    ہم سے اکثر لوگوں کو یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے پاس وقت زیادہ ہوگا، یوں ہمیں امید ہوتی ہے مستقل میں ہم زیادہ منظم طریقے سے کام کریں گے اور ہم سوچتے ہیں کہ پھر ہمارے اندر توانائی بھی زیادہ ہوگی اور ہم ایک ایسی زندگی جی رہے ہوں گے جہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی۔

    صاف ظاہر ہے ایسا ہو گا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ کوئی کام کتنا وقت لے گا۔ اس کیفیت کو ’پلانِنگ فیلیسی‘ یا منصوبہ بندی کا مغالطہ کہتے ہیں۔

    خود پر رحم کریں

    اگر آپ آج کا آدھا دن پہلے ہی انٹرنیٹ پر ضائع کرچکے ہیں اور آپ کو جا کر اپنا کام کرنا چاہیے، ہماری اس تجویز کی کوئی تُک نہیں بنتی کہ خود پر رحم کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو کام کرنے کی بجائے بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں، اپنا لحاظ کم کرتے ہیں۔

    اور چونکہ یہ لوگ پہلے ہی کام نہ کرنے کی وجہ سے خود کو کوس رہے ہوتے ہیں، ایسے میں اگر ان پر مزید منفی سوچ حاوی ہو جائے تو ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگی۔

    اپنے بارے میں صحیح طریقے سے بات کریں

    آپ اپنے بارے میں کس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں، یہ چیز بھی بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو ایک شخص کے طور پر پیش نہ کریں جو کبھی کبھی بھاگنے چلا جاتا ہے اور ڈائیٹنگ بھی کر لیتا ہے بلکہ خود کو ’ورزش کرنے والا‘ اور ’صحت افزا خوراک کھانے والے شخص‘ کے طور پر پیش کریں۔ یوں اس بات کے امکانات شاید زیادہ ہوجائیں کہ آپ واقعی بھاگنا اور اچھی چیزیں کھانا شروع کر دیں۔

    ائین ٹیلر کہتے ہیں کہ یہ ترکیب کام کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یوں کہنے سے آپ کی ذات اور اُس رویے کے درمیان ایک رابطہ بن جاتا ہے۔ یوں آپ محض وہ رویہ نہیں جی رہے ہوتے، بلکہ آپ وہ زندگی گزارنے لگتے ہیں جیسی آپ کی خواہش ہوتی ہے۔

  • سست ملازمین اداروں کا سب سے اہم سرمایہ ہیں

    سست ملازمین اداروں کا سب سے اہم سرمایہ ہیں

    برطانوی ماہرین کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہرادارے میں موجود چندانتہائی سست ملازمین کمپنی کے لئے درحقیقت انتہائی کارآمد ہوتے ہیں۔

    ماہرین کی تحقیق کے مطابق ہرادارے میں کچھ نہ کچھ سست ملازم ہوتے ہیں جن سے باقی ملازم بھی نالاں ہوتے ہیں لیکن نئی تحقیق کا کہنا ہے کہ سست ملازم ہی کمپنی کے لئے سب سے زیادہ مفید ہوتے ہیں کہ ان کے پاس مشکل سے مشکل کام کرنے کا بھی بہترین طریقہ موجود ہوتا ہے۔

    تحقیق کے دوران سستی کے کچھ فوائد بھی سامنے آگئے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

    سست ملازمین جب فارغ بیٹھے ہوں تو وہ فارغ اس لئے بیٹھتے ہیں کہ وہ کام کرنے کا کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈ چکے ہوتے ہیں جس سے کمپنی کا بہت وقت بچ جاتا ہے۔ بس اب کرنا یہ ہے کہ ان کی مہارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقی افراد کو بھی بتایا جائے۔

    سست ملازمین جب بور ہوں اگر وہ بوریت کا شکار ہوں تو جان لیں کہ وہ کسی گہری سوچ میں ہے لہٰذا انہیں ایسا کام دیں کہ نہ صرف ان کی بوریت دور ہوجائے بلکہ کمپنی کو بھی فائدہ ہوجائے۔ جب وہ مزید سست نظر آئیں ایسی صورت میں انہیں مزید ایسے کام دیں جن میں مزہ ہو، جن کو کرنے سے انہیں کسی مہم کا حصہ بننا پڑے یقین جانئے کہ اس طرح انہیں کام کا بہت مزہ آئے گا۔

    جب وہ دن میں کچھ نہ کریں تو ان کے لئے ایسے کام ڈھونڈیں جن سے انہیں احساس ہو کہ وہ کمپنی کا اہم حصہ ہیں اور ان کے کام سے کمپنی کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

    ایک بات دھیان میں رکھیں کہ یہاں ہم ایسے ملازمین کی بات کررہے ہیں جو بہت اچھا کام کرسکتے ہیں لیکن اپنی سست طبیعت کی وجہ سے ایسا نہیں کرپاتے۔ ایسے ملازمین جن کی کارکردگی باوجود کوشش کے بہترنہ ہورہی ہو ان کے لئے یہ نسخے کام نہیں کریں گے۔

  • اعصابی کمزوری سےنجات کیلیےہلدی کااستعمال مفید ہے

    اعصابی کمزوری سےنجات کیلیےہلدی کااستعمال مفید ہے

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعصابی کمزوری سےنجات کے لیے ہلدی کا استعمال مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی جدید طبی تحقیق کےمطابق ہلدی کواعصابی کمزوری میں مبتلا افراد کے لیے مفید قرار دیا گیا ہے،ہلدی میں موجود بائیو ایکٹو مرکب دماغ کے بنیادی پھیلاؤ کوفروغ دیتا ہے۔

    ہلدی کا استعمال دماغ کی شریان پھٹنے اور الزائمر کے خدشے کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔