Tag: LHC hears

  • نواز شریف کی درخواست قابل سماعت قرار ، وفاق کی درخواست مسترد

    نواز شریف کی درخواست قابل سماعت قرار ، وفاق کی درخواست مسترد

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے نوازشریف کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو کل پیش ہونے کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط اجازت کے خلاف درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔

    نواز شریف کی درخواست پر وفاقی حکومت اورنیب نے جواب جمع کرایا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق چوہدری نے وفاقی حکومت کا جواب پیش کیا، وفاقی حکومت کا جواب 45 صفحات اور نیب کا جواب 4 صفحات پر مشتمل تھا۔

    وفاقی حکومت کا جواب


    تحریری جواب میں وفاقی حکومت نے نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کردی اور کہا نواز شریف سزا یافتہ ہیں، بغیر شیورٹی بانڈ اجازت نہیں دی جاسکتی، استدعا ہے کہ ضمانتی بانڈ کی شرط کو قائم رکھا جائے۔

    وفاق نے جواب میں کہا نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں، حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی، نواز شریف کا نام نیب کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا، لاہور ہائی کورٹ کو اس درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں، عدالت درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔

    عدالت نے حکومت اور نیب کے جوابات کی نقول نواز شریف کے وکلاء کو دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا نواز شریف کے وکلابھی جوابات پڑھ کر بحث کریں، جوابات کا جائزہ لے کر ہی سماعت آگے بڑھائی جائے گی۔

    وفاقی حکومت اور نیب کے جوابات کے جائزے کے لئے سماعت ایک گھنٹے کے لئے ملتوی کردی گئی ، لاہور ہائی کورٹ کا 2رکنی بینچ ساڑھے3 بجے درخواست پر دوبارہ سماعت کرے گا۔

    نیب کا جواب


    نیب نے اپنے جواب میں عدالتی دائرہ اختیار چیلنج کردیا اور کہا ہائی کورٹ کواس درخواست کی سماعت کااختیارنہیں، ای سی ایل سےنام نکالنا وفاقی حکومت کا کام ہے، سزایافتہ شخص کوہرسماعت پرپیش کرناحکومت کی ذمہ داری ہے۔

    سماعت شروع ہوئی تو نوازشریف کے وکیل امجدپرویزایڈووکیٹ نے عدالتی دائرہ اختیار پر دلائل میں کہا آرٹیکل199کےتحت ہائیکورٹ سماعت کر سکتی ہے ، اعلیٰ عدلیہ کےفیصلوں کے مطابق ہائی کورٹ کوسماعت کااختیار ہے۔

    وکیل نواز شریف کا کہنا تھا کہ وفاقی اداروں کےدفاترپورےملک میں ہوتےہیں، آرٹیکل199کے تحت ہائی کورٹ وفاقی ادارے کے خلاف درخواست سن سکتی ہے، نام ای سی ایل سے نکالنے کے ہائی کورٹس کے فیصلے موجود ہیں، پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مثال موجود ہے، نواز شریف کے وکیل  نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے فیصلوں کی مثالیں دیں۔

    وکیل نے مزید کہا کہ نیب نے کہانام ای سی ایل سے نکالنے کا اختیار وفاقی حکومت کاہے، اداکارہ ایان علی کیس میں بھی نام ای سی ایل سےنکالا گیا، نواز شریف کی صحت خراب ہے وہ شدید علیل ہیں، نیب کی سوچ میڈیا ذرائع اور رپورٹس پرکھڑی ہے اور وفاق نے نواز شریف کی تشویشناک حالت پر اعتراض نہیں کیا۔

    عدالت نے ایڈیشنل اے جی سے استفسار کیا درخواست کیسےقابل سماعت نہیں، درخواست گزار کراچی کا ہو تو کیا قریبی ہائی کورٹ سےرجوع کرسکتاہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد نے بتایا ہر کیس کو حالات کے مطابق دیکھا جائے گا، احتساب عدالت جج نے سزا دی، اپیل ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے۔

    سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ امجدپرویزایڈووکیٹ نےجن کیسزکاحوالہ دیاانکی نوعیت مختلف ہے ، نواز شریف،مریم نواز،حسن،حسین کانام ای سی ایل میں ڈالاگیا، شریف فیملی کے ممبرز کا نام ایون فیلڈ کیس میں ڈالا گیا، سپریم کورٹ نے نواز شریف و دیگر کیخلاف ریفرنس کا کہا تھا ، نوازشریف کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ ہی سن سکتی ہے۔

    وکیل وفاقی حکومت نے مزید کہا قانونی تقاضے پورے کرکے نواز شریف کانام ای سی ایل میں ڈالا گیا، ایڈیشنل اےجی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیخلاف کارروائی اسلام آبادنیب میں چل رہی ہے، نیب لاہور کے پاس صرف چوہدری شوگر ملز کی انکوائری ہے، نیب اسلام آباد کو آگاہ کرنے کے لئے نیب لاہور نے ایک خط لکھا تھا، اسی خط کو بنیاد بنا کر کہا جارہا ہے نواز شریف کیخلاف کارروائی نیب لاہور کررہا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کیسز کو کراچی میں ڈیل نہیں کیا جاسکتا۔

    عدالتی ریمارکس / حکم


    عدالت نے کہا نیب لاہور میں چوہدری شوگر ملز کیس زیر التوا ہے، ایسے میں کیسے آپ کے مؤقف کی حمایت ہو گی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نے شیورٹی بانڈز نہیں انڈیمنٹی بانڈز مانگے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا معطل کی گئی، کیس میں نواز شریف کو جرمانہ ہو چکا ہے، نواز شریف کے جرمانے کے برابر انڈیمنٹی بانڈز مانگے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے، پہلے یہ دیکھ لیں ہم سماعت کر سکتے ہیں یا نہیں، جس کے بعد نوازشریف کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں ،لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی اور عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق وفاق کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا لاہور ہائی کورٹ نوازشریف کی درخواست سن سکتی ہے اور پیر کو وکلا کو بحث کے لیے طلب کیا البتہ شہباز شریف کے وکلا کی درخواست پر عدالت نے دن اور تاریخ تبدیل کی اور فریقین کو کل ساڑھے گیارہ بجے طلب کرلیا۔

    گذشتہ روز سماعت میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا تھا نوازشریف کے بیرون ملک جانے کے لیے حکومت کی جانب سے عائد کردہ 4ہفتے کی پابندی اور  سیکیورٹی بانڈ جمع کرانے کی شرط کو غیرقانونی قراردیا جائے۔

    نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے کچھ ٹیسٹ کرانے کےلیےکہا گیا، میڈیکل بورڈکاکہناہےٹیسٹ ملک سےباہرہو سکتے ہیں، میڈیکل بورڈ نےنواز شریف کی حالت کو تشویشناک قراردیا جب کہ وفاقی حکومت کہتی ہے عدالت نے کچھ پابندیاں عائدکی ہیں، وفاقی حکومت کا عمل سیاسی بنیادوں پر ہےقانونی نہیں لہذا عدالت نام غیرمشروط طورپرای سی ایل سےنکالنےکاحکم دے۔

    جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ وفاقی حکومت نے نام ای سی ایل میں ڈالا لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت، وفاقی حکومت سے جواب طلب

    عدالت نے سوال کیا کہ یہ بتائیں نواز شریف کا نام کس نیب بیورو کے کہنے پر ڈالا گیا ؟ حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ابھی دیکھنا ہے کہ کس بیورو کے کہنے پر نام ڈالا گیا، نواز شریف کی ابھی سزا معطل ہوئی ہے بری نہیں ہوئے۔

    یاد رہے ذیلی کمیٹی نے وفاقی کابینہ کے فیصلے پر قائم رہتے ہوئے نوازشریف کو بیرون ملک جانے کے لیے عائد کردہ شرائط کو برقرار رکھا تھا، کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ فروغ نسیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوازشریف کو4 ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی ون ٹائم اجازت ہوگی جبکہ نوازشریف یا شہبازشریف 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈزجمع کرائیں گے۔

    بعد ازاں مسلم لیگ ن نے حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے لئے حکومت کی انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی تھی۔

  • مریم نواز کی قسمت کا فیصلہ 4 نومبر کو سنایا جائے گا

    مریم نواز کی قسمت کا فیصلہ 4 نومبر کو سنایا جائے گا

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، جو 4 نومبر کو سنایا جائے گا، نیب وکیل نے کہا مریم والد کی تیمارداری کیلئے ضمانت چاہتی ہیں، قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں، مریم کی درخواست ناقابل سماعت ہے، مسترد کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی،

    نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا مریم نواز والد کی تیمارداری کے لیے ضمانت چاہتی ہیں، قانون میں ایسی گنجائش نہیں کہ تیمارداری کیلئے ضمانت مانگی جائے، درخواست قابل سماعت نہیں، مسترد کی جائے۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ کہتےہیں مریم نوازکےپاس کبھی عوامی عہدہ نہیں رہا، مریم نوازکے خلاف متعددانکوائریاں،مقدمات چل رہے ہیں، مریم کے خلاف جج بلیک میلنگ کیس کی انکوائری بھی جاری ہے، مریم سےمتعلق کہا جاتا ہے خاتون ہونے کی بنیاد پر ضمانت منظور کی جائے، ایسے حالات نہیں جن میں مریم کو گرفتاری کے بعد عبوری ضمانت دی جائے۔

    وکیل نیب نے کہا فلیگ شپ،العزیزیہ کیسزمختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیں، مریم نوازچوہدری شوگرملزمیں شیئرہولڈررہیں، مجھے بتایا گیا مریم نواز گزشتہ روزسروسز اسپتال میں رہیں، مریم نوازکی ان کے والد سے ملاقات بھی کرادی گئی تھی، مریم نواز کو غیرمعمولی حالات کا سامنا نہیں جس پرضمانت دی جا سکے۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نےمریم نوازکی گرفتاری کےلئےوارنٹ جاری کئے، مریم نوازچوہدری شوگرملزکےجعلی اکاؤنٹس چلانےمیں کردار ادا کرتی رہی، نیب قانون کےمطابق اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کےتحت کارروائی کرسکتاہے۔

    جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کیامریم نوازبھی کسی ریفرنس میں سزایافتہ ہیں، جس پر نیب وکیل نے کہا مریم نوازایون فیلڈریفرنس میں سزایافتہ ہیں، سات سال قید کی سزاسنائی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نوازکی سزا معطل کررکھی ہے۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کہا مریم نواز کیخلاف مشکوک ٹرانزکشن کا الزام ہے، بینکوں نے مریم نوازکی مشکوک ٹرانزکشن کی تفصیل فراہم کی، رپورٹ کےمطابق شریف خاندان کے اکاؤنٹس میں مشکوک ترسیلات ہوئیں، جس پر عدالت نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تو نیب نے ضمنی ریفرنسز دائر کرنا تھے،
    ہمیں جوسمجھ آئی ہے آپ یہاں مشکوک ترسیلات کی بنیاد پر آئے ہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا ناصرعبد اللہ لوتھا آپ کا گواہ ہے؟آپ نے اس کا کیا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ جس پر وکیل نیب نے بتایا ناصرلوتھا دبئی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبارکرتا ہے، ان کا بیان 3 اگست کو اسلام آباد میں ریکارڈ کیا تھا، وہ اومنی گروپ میں بھی وعدہ معاف گواہ ہے، ناصرلوتھا کے بیان کے مطابق اس نے 49لاکھ ڈالر یوسف عباس کو بھجوائے۔

    نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد لاہورہائی کورٹ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت کی جانب سے فیصلہ چار نومبر کو سنایا جائے گا۔

    گذشتہ روز مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میاں شریف نے بنائی تھی ، نیب نے الزام لگایا مریم نواز نے نوازشریف سے ملکرمنی لانڈرنگ کی، نیب نے آٹھ ٹرانزیکشنز کو مشکوک قرار دیا ۔

    وکیل امجد پرویز نے مزید کہا تھا کہ مریم نواز کا چوہدری شوگر ملز میں کبھی بھی متحرک کردار نہیں رہا ایک عرصے سے مریم نواز کے پاس مل کے کوئی شئیرز نہیں ہیں ، 1991 میں جب چوہدری شوگر ملز قائم ہوئی تو اس وقت مریم مواز چھوٹی تھی ، چوہدری شوگر ملز کا تمام طرح کنٹرول ان کے دادا محمد شریف کے پاس تھا محمد شریف کے انتقال کے بعد مل کا انتظام عباس شریف کے پاس تھا اب ان کے بیٹے یوسف عباس اسے دیکھتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : مریم نواز درخواست ضمانت ، نیب پراسیکیوِٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت

    خیال رہے نیب کی جانب سے درخواست ضمانت پر جواب جمع کروایاجاچکا ہے، جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مریم نواز کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم نواز کے خلاف تحقیقات کا آغاز جنوری2018 میں کیا، تحقیقات کا آغاز مشکوک ٹرانزکشنز کی بنیاد پر کیا گیا۔

    تحریری جواب میں کہا گیا تھا جنوری 2018 میں مریم نواز پارٹی میں برسراقتدار تھی، مریم ، نوازشریف و دیگر کیخلاف قانون کے مطابق تحقیقات کررہے ہیں، نیب بیورو کے قیام کا مقصد معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ہے ، نیب ملزمان کے خلاف بلا امتیاز کاررروائی کرتا ہے۔

    واضح رہے 8 اگست کو نیب نے چوہدری شوگرملز منی لانڈرنگ کیس میں مریم نوا ز کو تفتیش کے لئے بلایا گیا تھا لیکن وہ نیب دفتر میں پیش ہونے کے بجائے والد سے ملنے کوٹ لکھپت جیل چلی گئیں تھیں، تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے پر نیب ٹیم نے انھیں یوسف عباس کو گرفتار کرلیا تھا۔

  • مریم نواز درخواست ضمانت ،  نیب پراسیکیوِٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت

    مریم نواز درخواست ضمانت ، نیب پراسیکیوِٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی درخواست ضمانت پر نیب پراسیکیوِٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ مریم نواز کو کب گرفتار کیا گیا ، جس پر وکیل امجد پرویز نے بتایا مریم نواز کو 8 اگست کو کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا گیا، نیب کی جانب سے منی لانڈرنگ کے الزامات لگائےگئے اور مریم نوازکا 48 دن کاریمانڈ لیا گیا۔

    وکیل مریم نواز کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میاں شریف نے بنائی تھی ، نیب نے الزام لگایا مریم نواز نے نوازشریف سےملکرمنی لانڈرنگ کی، نیب نے آٹھ ٹرانزیکشنز کو مشکوک قرار دیا ۔

    وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ مریم نواز کا چوہدری شوگر ملز میں کبھی بھی متحرک کردار نہیں رہا ایک عرصے سے مریم نواز کے پاس مل کے کوئی شئیرز نہیں ہیں ، 1991 میں جب چوہدری شوگر ملز قائم ہوئی تو اس وقت مریم مواز چھوٹی تھی ، چوہدری شوگر ملز کا تمام طرح کنٹرول ان کے دادا محمد شریف کے پاس تھا محمد شریف کے انتقال کے بعد مل کا انتظام عباس شریف کے پاس تھا اب ان کے بیٹے یوسف عباس اسے دیکھتے ہیں۔

    امجد پرویز نے بتایا مریم نواز کا بطور ڈائریکٹر اور سی ای او کردار رسمی نوعیت کا تھا، 2017 میں پانامہ جے آئی ٹی میں تمام آثاثوں کی چھان بین کی گئی جس میں ایک پورا والیم مریم نواز کے حوالے سے تھا تاہم سپریم کورٹ نے مریم نواز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنانے کا نہیں کہا، مریم پر الزام ہے کہ انہوں نے والد کی معاونت جبکہ نواز شریف 1999 تک کمپنی میں شئیر ہولڈر نہیں رہے۔

    انہوں نے کہا کہ جتنے فوجداری مقدمات درج ہوئے کسی اور کے خلاف نہیں ہوئے، استدعا ہے ملزمہ کے آج تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا لہذا ضمانت پر.رہا کیا جائے۔

    عدالت نے مریم نواز کے وکیل کے دلائل مکمل.ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے نیب پراسیکیوِٹر کو دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔

    گزشتہ روزا سپیشل پراسیکیوٹر کی عدم دستیابی کے باعث سماعت ملتوی کی گئی تھی۔

    خیال رہے نیب کی جانب سے درخواست ضمانت پر جواب جمع کروایاجاچکا ہے اور عدالت نے مریم نواز کے وکلا کو نیب کا جواب پڑھ کر بحث کرنے کی ہدایت ہے۔

    مزید پڑھیں : اسپیشل پراسیکیوٹر کی عدم حاضری ، مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کل تک ملتوی

    یاد رہے نیب نے ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مریم نواز کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم نواز کے خلاف تحقیقات کا آغاز جنوری2018 میں کیا، تحقیقات کا آغاز مشکوک ٹرانزکشنز کی بنیاد پر کیا گیا۔

    تحریری جواب میں کہا گیا تھا جنوری 2018 میں مریم نواز پارٹی میں برسراقتدار تھی، مریم ،نوازشریف و دیگر کیخلاف قانون کے مطابق تحقیقات کررہے ہیں، نیب بیورو کے قیام کا مقصد معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ہے ، نیب ملزمان کے خلاف بلا امتیاز کاررروائی کرتا ہے۔

    واضح رہے 8 اگست کو نیب نے چوہدری شوگرملز منی لانڈرنگ کیس میں مریم نوا ز کو تفتیش کے لئے بلایا گیا تھا لیکن وہ نیب دفتر میں پیش ہونے کے بجائے والد سے ملنے کوٹ لکھپت جیل چلی گئیں تھیں، تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے پر نیب ٹیم نے انھیں یوسف عباس کو گرفتار کرلیا تھا۔

    نیب کے تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مریم نواز، نوازشریف اور شریک ملزموں نے 2000ملین کی منی لانڈرنگ کی، ملزمان کےاثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے

  • مریم نواز کی درخواست ضمانت ، نیب حکام نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرادیا

    مریم نواز کی درخواست ضمانت ، نیب حکام نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرادیا

    لاہور : چوہدری شوگرملز کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی درخواست ضمانت پر نیب حکام نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں 2رکنی بینچ نے چوہدری شوگرملز کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز  کی درخواست  ضمانت پر سماعت کی۔

    نیب حکام نے درخواست ضمانت پر اپنا جواب عدالت میں جمع کرادیا ، وکیل نے کہا مریم نوازجسمانی ریمانڈ کے بعد جوڈیشل ریمانڈپرجیل میں ہیں ، مریم نواز سے جوتفتیش کرنی تھی کی جاچکی ہے ، جس پر عدالت نے کہا ہمارے پاس یہ کیس پہلی بار آیا ہے ، نیب کا جواب پڑھ لیں اس کے بعد اس پر بحث کر لیں، ہمیں وقت دیا جائے تاکہ اس جواب کو پڑھ لیا جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ سماعت میں نیب کی جانب سے مریم نوازکی متفرق درخواست ضمانت پر جواب جمع کرایا گیا تھا ، وکیل نے کہا تھا والدکی حالت تشویشناک ہے ،مریم  نواز کوتیمارداری کرنی چاہیے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کیا مریم نواز کو والد سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔

    وکیل مریم نواز نے بتایا اجازت تو دی گئی مگر بعد میں واپس جیل لے گئے ، مریم نواز پاکستان میں اپنے والد کے پاس واحد اولاد ہیں ،اگر کچھ ہو گیا تو وقت کو  واپس نہیں لایا جا سکتا، جس پر نیب نے کہا ایسا قانون نہیں کہ قیدی کو والدین کی تیمارداری کیلئے ضمانت دی جائے۔

    مزید پڑھیں : مریم نواز کی درخواست ضمانت پرنیب سے تفصیلی جواب طلب

    عدالت نے نیب کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا بتایا جائے کیا مریم کو والد کے ساتھ رہنےکی اجازت دی جا رہی ہے یا نہیں ، حتمی طور پر بتایا  جائےکیانوازشریف اورمریم کانام ای سی ایل میں ہے یا نہیں؟

    خیال رہے چوہدری شوگرملز کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا آج تک کے جوڈیشل ریمانڈ پر ہے۔

    واضح رہے 8 اگست کو نیب نے چوہدری شوگرملز منی لانڈرنگ کیس میں مریم نوا ز کو تفتیش کے لئے بلایا گیا تھا لیکن وہ نیب دفترمیں پیش ہونے کے بجائے  والد سے ملنے کوٹ لکھپت جیل چلی گئیں تھیں، تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے پر نیب ٹیم نے انھیں یوسف عباس کو گرفتار کرلیا تھا۔

    نیب کے تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ مریم نواز، نوازشریف اور شریک ملزموں نے2000ملین کی  منی لانڈرنگ کی، ملزمان کےاثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

  • مولانا فضل الرحمان کیخلاف بغاوت کی کارروائی ، تقاریر کاتحریری متن پیش کرنے حکم

    مولانا فضل الرحمان کیخلاف بغاوت کی کارروائی ، تقاریر کاتحریری متن پیش کرنے حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف بغاوت کی کارروائی کے لیے درخواست  پر تقاریر کاتحریری متن پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس محمد امیر بھٹی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف بغاوت کی کارروائی کے لیے مقامی شہری کی درخواست پر سماعت کی۔

    درخواست گزار نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اشتعال انگیز تقاریر کرکے لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسارہے ہیں . مولانا فضل الرحمان کی تقاریر سے انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا آسیہ بی بی کا فیصلہ بیرونی دباو میں دیا گیا، جو توہین عدالت ہے، مولانا نے آزادی مارچ کے لیے ڈنڈا بردار کارکن تیارکئےجوقانون کے منافی ہے، وہ اسلام آباد میں مارچ کی تیاریوں پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔

    درخواست گزار نے استدعا کی عدالت مولانا فضل الرحمان کےخلاف بغاوت کی کاروائی اور الیکشن کمیشن کو مولانا فضل الرحمان کو ہونے والی فنڈنگ سے متعلق تحقیقات کا حکم دے جبکہ پیمرا کو مولانا فضل الرحمان کی تقاریر نشر کرنے سے روکے۔

    مزید پڑھیں : مولانا فضل الرحمان بڑی مشکل میں پھنس گئے

    عدالت نے درخواست گزار کومولانا فضل الرحمن کی تقاریر کاتحریری متن پیش کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28اکتوبرتک ملتوی کر دی۔

    یاد رہے پاک فوج کےخلاف تقریر پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دائر کردی گئی
    تھی اور درخواست میں استدعا کی تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی تقاریر اور ان کی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی جائے۔

    واضح رہے جے یو آئی (ف) نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے، مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مظاہروں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ شروع ہوگا۔