Tag: LHR high court

  • قانون کے بغیر سیف سٹی اتھارٹی ای چالان کیسے کررہی ہے؟ لاہور ہائیکورٹ

    قانون کے بغیر سیف سٹی اتھارٹی ای چالان کیسے کررہی ہے؟ لاہور ہائیکورٹ

    لاہور : سیف سٹی کیمروں سے کیے جانے والے ای چالان پر لاہور ہائی کورٹ نے سوالات اٹھا دیئے، عدالت کا کہنا ہے کہ قانون بنا نہیں تو اتھارٹی ای چالان کس طرح کررہی ہے؟

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سیف سٹی کیمروں سے کیے جانے ای چالان کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر عدالت نے سیف سٹی اتھارٹی کے ذریعے ای چالان کرنے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے سیکریٹری قانون ،سی ای او سیف سٹی اور سیکریٹری ٹرانسپورٹ کو 21 مارچ کو طلب کرلیا۔

    عدالت نے پنجاب حکومت کو بھی تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے بغیر سیف سٹی اتھارٹی کے پاس کیا ای چالان کا اختیارہے؟

    لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پرگاڑی کو کیسے بند کیا جاسکتا ہے؟ ڈرائیور کےجرم کی سزا گاڑی کے مالک کو کیسےدی جاسکتی ہے،؟

    جسٹس طارق نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی قانون بنا ہی نہیں تو کس طرح سیف سٹی اتھارٹی ای چالان کررہی ہے، کیا عدالتی حکم پر قانون سازی کے بغیر ای چالان کئے جاسکتےہیں ؟

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ قانون سازی کے بغیر اس طرح کےاقدامات غیر قانونی ہیں، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ تحریری جواب دینے کیلئے مہلت دی جائے۔

  • لاہور ہائی کورٹ میں پی ایس ایل میڈیا رائٹس کیس کی سماعت

    لاہور ہائی کورٹ میں پی ایس ایل میڈیا رائٹس کیس کی سماعت

    لاہور : ہائی کورٹ میں پی ایس ایل میڈیا رائٹس کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت نے جیو کے وکیل کو بار بار غیر متعلقہ دلاٸل دینے سے روک دیا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیس پر کوٸی سٹے آرڈر جاری نہیں ہوا۔

    جسٹس شاہد وحید نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے مزید سماعت 24جنوری تک ملتوی کرتے ہوٸے پی ٹی وی کے وکیل احمد پنسوتہ کو دلائل کے لئے طلب کرلیا ۔

    جیو کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلئے، عدالت میں اے آر واٸی کے وکیل اعتزاز احسن، پی سی بی کے تفضل رضوی اور پی ٹی وی کی جانب سے احمد پنسوتہ پیش ہوٸے۔

    محمد احمد پنسوتہ نے عدالت کو بتایا کہ اس پٹیشن کےمتعلق خبریں چلا کر تاثر دیا جارہے جیسےعدالت نے سٹے دے رکھا ہے۔

    فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے تو ایسا کوئی سٹے آرڈر جاری نہیں کیا، جو آپ سے پوچھے اسے بتاٸیں کہ عدالت نے کوٸی سٹے نہیں دیا۔

    احمد پنسوتہ نے کہا کہ کیس کو عدالتوں میں لڑنا چاہئیے میڈیا پر نہی، جیو ٹی وی کیس کے حوالے سے غلط تاثر دے رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی مجبوراً وضاحت دینی پڑتی ہے۔

    جیو کی منفی مہم سے پی ایس ایل میں ہونے والی سرمایہ کاری اور کرکٹ کے نقصان کا خدشہ ہے، جیو ٹی وی کے وکیل باربار غیر متعلقہ دلائل دے رہے تھے جس پر فاضل جج نے انہیں روک دیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو معاملہ عدالت کے سامنے ہے صرف اسی پر دلائل دیے جائیں، قانونی دلائل دیں میڈیا پر چلنے والی باتیں نہ کی جائیں۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ پیپرا رولز کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ثابت کریں،عدالت سب کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔

  • سوشل میڈیا پر تحریف شدہ قرآن کی اشاعت کے ملزمان کی ضمانت مسترد

    سوشل میڈیا پر تحریف شدہ قرآن کی اشاعت کے ملزمان کی ضمانت مسترد

    لاہور : عدالت نے سوشل میڈیا پر تحریف شدہ قرآن پاک کی اشاعت کے ملزمان کی ضمانت مسترد کردی، عدالت نے قرار دیا کہ اظہارِ رائے کی آزادی بھی حدود میں رہ کر استعمال ہوگی اور اظہار رائے کی آڑ میں دوسروں کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے17صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں ملزمان ظہیر احمد، شیراز احمد اور محمود اقبال ہاشمی کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے واٹس ایپ گروپوں میں تحریف شدہ قرآن کی تشہیر پر مقدمہ درج کیا گیا، پاکستان ایک اسلامی ریاست اور آئین میں اسلام اور مسلمان کی تشریح موجود ہے۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ مسلمان کا اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺکےآخری نبی ہونے پر ایمان لازمی ہے، آئین میں ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔

    تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانون میں قرآن پاک کے الفاظ، ترجمہ میں تحریف قابلِ سزا جرم ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی غلطیوں سے پاک اشاعت کا حکم دیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق تحریف قرآن پاک کی کسی بھی شکل یا ذریعے سے تشہیر قابلِ تعزیر جرم ہے، قانون میں کسی بھی مذہب کی تضحیک کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان نے مقدمے کو آزادی اظہار رائے پر قدغن کہا، اظہار رائے کی آزادی بھی حدود میں رہ کر استعمال ہوگی، اظہار رائے کی آڑ میں جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

    تحریری فیصلہ کے مطابق آزادی اظہار کی آڑ میں ایسے واقعات سے انتشار، بگاڑ اور افراتفری پھیلے گی، پاکستان میں نفرت آمیز مواد اور تقریر پرمختلف قوانین موجود ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قوانین میں متوازن آزادی اظہار رائے اور تقاریر تشریح موجود ہے، قانون میں کسی عقیدے، نسلی، لسانی بنیاد پر نفرت آمیز مواد کی تشہیر کی اجازت نہیں۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان کا قادیانیت کی تشہیر کیلئے سندھ سلامت گروپ بنانا غیر قانونی ہے، گروپ میں تحریف شدہ قرآن پاک، مذہبی منافرت پر مبنی کتب شیئر کی گئیں۔

    آئین اور قانون میں قادیانیوں کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کہنا اور تشہیر جرم ہے، تحقیقات میں ملزمان گناہ گار پائے گئے، ایف آئی اے معاملے کی مزید تحقیقات کرے۔

  • ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز ایڈمنسٹریٹرز کو ملیں گے، لاہور ہائی کورٹ

    ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز ایڈمنسٹریٹرز کو ملیں گے، لاہور ہائی کورٹ

    لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کی فراہمی کیلئے درخواست کی سماعت کی۔

    عدالت نے فریقین کو مزید دلائل کیلئے 26جنوری کو طلب کرلیا، اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کی مقررہ مدت ختم ہوگئی ہے اب کیا ہوسکتا ہے؟

    انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں آپ کی درخواست زائدالمیعاد ہوچکی ہے، آپ اس بات کو ذہن میں رکھ کر دلائل دیں، اب بلدیاتی نمائندوں کی بجائے ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز ایڈمنسٹریٹرز کو ملیں گے۔

    اس موقع پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت نے جو کیا وہ اب وہی کرے گی؟ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیوں کررہی ہے؟

    سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ حلقہ بندیوں کے لیےانتظامات کیے جارہے ہیں، اس کام کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں شیڈول بعد میں جاری ہوگا،12دسمبرکو نیا آرڈیننس جاری ہوا اس وجہ سے تاخیر ہوئی۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ آرڈیننس 3ماہ میں ختم ہوجائے گا تو پھر کیا ہوگا، پھر پرانا قانون بحال ہوجائے گا یا پھرآرڈیننس جاری ہوگا؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت کی معاونت کریں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ قانون سازی نہ کرکے آئین کا مذاق اڑایا جارہا ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور چیف  سیکرٹری پنجاب کو بلا لیتے ہیں، یہ آرڈیننس کہاں پر ہے کیا قانون سازی پر کام کا آغاز ہوا؟

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس پڑا ہے پاس پر کام جاری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت قانون سازی کیلئےحکم جاری نہیں کرسکتی بتایا جائے آرڈیننس کب تک قانون بن جائے گا؟

  • سرکاری افسران نے تماشہ بنا رکھا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ برہم

    سرکاری افسران نے تماشہ بنا رکھا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ برہم

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے نارووال روڈ کی تعمیر میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری افسران نے تماشہ بنا رکھا ہے، پنجاب حکومت آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔

    لاہور ہائی کورٹ میں نارووال روڈ کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے سماعت کی، اس موقع پر وفاقی سیکرٹری پلاننگ اور سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب پیش ہوئے۔

    وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ صوبائی حکومت 10ارب تک منصوبے کی منظوری دےسکتی ہے، وفاق نے معاملے کو دیکھنا ہے تو پبلک سیکٹرڈیولپمنٹ پروگرام میں شامل کرنا ہوگا۔

    وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ پنجاب حکومت نے نارووال روڈ کی تعمیر کا منصوبہ ارسال کیا تھا، اس کے علاوہ مزید 23منصوبے منظوری کیلئے بھیجے تھے۔ سیکرٹری پلاننگ پنجاب کے مطابق26ترقیاتی اسکیموں کی تفصیلات وفاق کو ارسال کی تھیں۔

    اس موقع پر چیف جسٹس نے7افسران کو توہین عدالت کےنوٹس جاری کردیے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کہا کہ سرکاری افسران نے تماشہ بنا رکھاہے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دے رہا ہوں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت آنکھ مچولی کھیل رہی ہے، تقریباً ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ان حربوں کو۔ وکیل پنجاب حکومت  نے کہا کہ منصوبوں پر صوبائی ورکنگ پارٹی کے اجلاس میں مشاورت ہوئی، درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ تمام سروے مکمل ہوچکے ہیں، عدالت کو گمراہ کیا جارہا ہے۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ باباگرو نانک کی پیدائش کی 500 سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں، پوری دنیا سے سکھ برادری کے لوگ ان مذہبی مقامات پر آرہے ہیں، حکومت پنجاب اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی، درخواست گزار کے وکیل نے حکومتی تاخیری حربوں سے متعلق آگاہ کیا ہے۔

  • شہباز شریف اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کیلئے سرگرم

    شہباز شریف اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کیلئے سرگرم

    لاہور : مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا، درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ، ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہبازشریف کی جانب سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے عدالت میں پٹیشن دائر کی گئی ہے۔شہباز شریف کی جانب سے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

    شہبازشریف کی جانب سے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے، جس میں استدعا کی گئی گئی ہے کہ ان کا نام بلیک لسٹ سے نکالا جائے۔

    درخواست میں شہباز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مجھے آشیانہ اقبال ریفرنس، رمضان شوگر ملز ریفرنس میں عدالت سے ضمانت ملی، جس کے بعد بیرون ملک گیا اور پھر وطن واپس بھی آگیا۔

    درخواست گزار کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے نام بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، نام بلیک لسٹ میں شامل کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، وفاقی حکومت کو درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ سےنکالنے کا حکم دیا جائے۔

  • پیٹرول بحران : اوگرا چیئرمین کام نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں، لاہور ہائیکورٹ

    پیٹرول بحران : اوگرا چیئرمین کام نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں، لاہور ہائیکورٹ

    لاہور : پٹرولیم مصنوعات کی قلت کےخلاف درخواست کی سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے چیئرمین اوگرا پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کام نہیں کرسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کےخلاف درخواست کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کی درخواست کی سماعت کی،۔

    اس موقع پر عدالت نے چیئرمین اوگرا کے پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ اوگرا چیئرمین کام نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں۔

    انہوں نے کہا کہ اوگرا والوں کی نااہلی کی وجہ سے ہی ملک میں پیٹرول کا بحران ہوا ہے۔ اس محکمہ نے بیڑہ غرق کیا ہوا ہے، چیئرمین اوگرا کاعہدہ انجوائے کرنے کے لئے نہیں ہے، اگر ادارے کام نہ کریں تو پھر عدالتوں کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ نے اس معاملے پر جو فیصلہ کیا یہ اچھی مثال نہیں، یوں لگتاہے کہ جیسے کابینہ کو قانون کا علم ہی نہیں، جب تک آپ کسی پر ذمہ داری عائد نہیں کریں گے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

  • لاہور : سزائے موت کے دو مجرموں کی سزا کالعدم، بری کردیا

    لاہور : سزائے موت کے دو مجرموں کی سزا کالعدم، بری کردیا

    لاہور : سزائے موت کے دو قیدیوں کو نئی زندگی مل گئی، لاہور ہائی کورٹ نے بری کردیا، ملزمان کے وکیل کا مؤقف تھا کہ سابقہ عدالت نے میرٹ سے ہٹ کر مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں پھانسی کے دو سزا یافتہ مجرموں کی سزائے موت کو ختم کرکے انہیں بری کردیا، سزائے موت کیخلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے جج جسٹس سردار نعیم اور جسٹس شہرام سرور چوہدری نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سزائے موت کے قیدی مطلوب احمد اور محمد رشید کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت مدعیان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ قصور نے میرٹ سے ہٹ کر موت کی سزا سنائی، وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو گواہ پیش کیے ان کی موقع پر موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ گواہوں کی موقع پر موجودگی ثابت نہ ہونے پر لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کے 2 قیدیوں کو بری کر دیا۔

    جسٹس سردار نعیم اور جسٹس شہرام سرور چوہدری نے فیصلہ سناتے ہوئے موت کے قیدیوں مطلوب احمد اور محمد رشید کو بری کرنے کا حکم دیا۔

  • نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانت پر رہائی کا حکم

    نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانت پر رہائی کا حکم

    لاہور : عدالت نے اثاثہ جات کیس میں گرفتار نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کراکے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتارسابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی، ملزم کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل کو سال 2018 میں گرفتارکیا گیا تھا۔

    نیب نے جو ان پر الزامات لگائےان کا ثبوت بھی پیش نہیں کرسکا اور ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی، اس کے علاوہ تفتیش میں اربوں کی جائیداد کا الزام لگایا گیا جبکہ ریفرنس میں108 ملین کاالزام عائد کیا گیا۔

    ملزم کے وکیل نے بتایا کہ نیب نے پہلے کہا کہ فواد حسن فواد کےایک پلازہ کی قیمت5ارب روپے ہے، اب نیب کہتا ہے ان کےخاندان کے کل اثاثے1ارب8کروڑ ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے نام پر ایک جائیداد بھی نہیں ہے، نیب بیوی اور بھائی کے نام پرجائیداد پر بےنامی کا الزام لگارہا ہے لہٰذا انہیں ضمانت پر رہا کیاجائے۔

    دوران سماعت دلائل کے بعد عدالت نے نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی ک اپروانہ تھما دیا، لاہور ہائی کورٹ نے فوادحسن فواد کو ایک کروڑ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

  • مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نہ نکانے پر حکومت سے جواب طلب

    مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نہ نکانے پر حکومت سے جواب طلب

    لاہور : عدالت نے مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے اور پاسپورٹ واپسی کی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا، حکومت نام شامل کرنے پر جواز پیش کرے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی سماعت کی۔

    اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے مریم نواز کے وکلاء نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے حوالے سے مریم نواز کی درخواست کسی جواز کے بغیر مسترد کر دی ہے۔

    وکلاء کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے والد کی طبیعت سخت خراب ہے اور وہ بیرون ملک زیر علاج ہیں، میاں نواز شریف کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری ہے، اس سے پہلے بھی سزا کے باوجود مریم نواز بیمار والدہ کو چھوڑ کر بیرون ملک سے والد کے ساتھ واپس آئیں۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے موقف سنے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا، مریم نواز نے عدالتی حکم پر پاسپورٹ جمع کرایا، ضمانت منظور ہوچکی ہے لہٰذا عدالت پاسپورٹ واپس کرنے کا حکم جاری کرے۔

    اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت درخواست پر فیصلہ کر چکی ہے لہٰذا درخواست غیر مؤثر ہوچکی ہے، مریم نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں گزشتہ روز علم ہوا کہ مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست حکومت نے مسترد کردی ہے۔

    دلائل سننے کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت سے استفسار کیا کہ مریم نواز کا نام کس بنیاد پر ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے جواز پیش کیا جائے، عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے21 جنوری کو جواب طلب کرلیا۔