Tag: Life Story

  • بیوی کو قتل کرنے پر پھانسی پانے والا کرکٹر، کیا آپ اسے جانتے ہیں؟

    بیوی کو قتل کرنے پر پھانسی پانے والا کرکٹر، کیا آپ اسے جانتے ہیں؟

    دولت اور شہرت بظاہر تو بہت پرکشش لگتی ہیں لیکن دولت مند اور شہرت یافتہ افراد بھی اپنی ذاتی زندگی میں کئی مسائل سے گزرتے ہیں، کچھ مشہور افراد جرائم بھی کر بیٹھتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک سابق کرکٹر کے ساتھ ہوا جنہوں نے غصے میں بے قابو ہو کر اپنی بیوی کو فائرنگ کر کے قتل کردیا جس کے بعد انہیں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    یہ کہانی جمیکا سے تعلق رکھنے والے سابق فاسٹ بولر لیسلی جارج ہیلٹن کی ہے جنہوں نے 1935 سے 1939 کے درمیان ویسٹ انڈیز کے لیے 6 ٹیسٹ میچز کھیلے۔

    29 مارچ 1905 میں پیدا ہونے والے ہیلٹن کو بچپن سے ہی کرکٹ کا کافی شوق تھا، تاہم نوجوانی میں کلب کرکٹ کھیلتے کھیلتے انہوں نے اپنی کارکردگی بہتر بنائی اور 1927 میں جمیکا کرکٹ ٹیم کے باقاعدہ رکن بن گئے۔

    اگرچہ کئی مواقع پر ہیلٹن ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کے لیے مضبوط امیدوار تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہیں نظر انداز کیا گیا، لیکن انہوں نے محنت جاری رکھی اور آخر کار 1935 میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کے خلاف انہیں ویسٹ انڈین ٹیم میں منتخب کیا گیا۔

    8 جنوری 1935 میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور 4 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں ویسٹ انڈیز کو فتح دلانے میں مدد کی۔

    اس کے بعد انہیں 1939 میں دوبارہ انگلینڈ کے دورے کے لیے منتخب کیا گیا لیکن بعد ازاں آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا جس کے بعد ہیلٹن نے فرسٹ کلاس کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

    1942 میں ہیلٹن نے ایک پولیس انسپکٹر کی بیٹی لور لائن روز سے شادی کی اور جوڑے کا 1947 میں ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    رپورٹس کے مطابق 1950 کی دہائی کی شروعات میں ہیلٹن کی بیوی فیشن ڈیزائنر بننے کے لیے نیویارک کے فیشن اسکول گئیں جہاں ان کی ملاقات ایک نوجوان روئے فرانسس سے ہوئی اور بعد ازاں دونوں کا مبینہ افیئر شروع ہوگیا۔

    1954 میں ہیلٹن کو ایک مبینہ خط میں بیوی کے افیئر کا معلوم ہوا تو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا، سابق کرکٹر نے غصے میں آکر بیوی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا اور پھر انہیں پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    لیسلی کا مؤقف تھا کہ بیوی نے پہلے اسے گولی مارنے کی کوشش کی لیکن گولی غلط فائر ہوئی، اپنے آپ کو بچانے کے لیے سابق کرکٹر نے گولیاں ماریں۔

    رپورٹس کے مطابق 1954 کے آخر میں جیوری نے ہیلٹن کو مجرم قرار دیا، رحم کی درخواست کے باوجود جج نے سابق ویسٹ انڈین کرکٹر کو موت کی سزا سنائی، تاہم اپیلوں اور درخواستوں کے بعد ہیلٹن کو 17 مئی 1955 کو پھانسی دی گئی۔

    لیسلی جارج ہیلٹن دنیا کے واحد ایسے ٹیسٹ کرکٹر ہیں جنہیں پھانسی دی گئی۔

    ہیلٹن نے ویسٹ انڈیز کی جانب سے 6 ٹیسٹ میچز میں 16 وکٹیں حاصل کیں اور 70 رنز اسکور کیے جبکہ انہوں نے فرسٹ کلاس کیریئر کے 40 میچز میں 120 وکٹیں لیں۔

  • سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    ’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔

    ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘

    یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔

    ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔

    اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔

    اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟

    جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔

    سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔

    والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔

    11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔

    18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔

    دا بیل جار

    سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔

    سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔

    تصویر: ٹیڈ ایکس

    دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔

    سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔

    یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔

    ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری

    سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔

    اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔

    ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔

    سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔

    اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔

    خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔

    اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔

    ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟

    محبت، جو اسے موت تک لے گئی

    سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔

    جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔

    لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔

    سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔

    اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔

    ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔

    5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔

    بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔

    سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔

    سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔

    سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔

    دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔

    سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔

  • فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    امریکی مصنفہ مشل سی ہل سٹورم نے لکھا ہے، درد یا تکلیف، تخیل اور فن کو بڑھاوا دیتا ہے، جو اپنے درد کو گلے لگاتا ہے، وہ اپنے فن کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

    دنیا میں جتنے بھی فنکار گزرے، ان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی دکھ ایسا ضرور تھا جس نے پوری زندگی انہیں بے چین اور مضطرب رکھا، اور اسی درد، بے چینی اور اضطراب نے انہیں فن کی کسی نہ کسی جہت کی عروج پر پہنچا دیا۔

    میکسیکن آرٹسٹ فریڈا کاہلو کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی گزری جس نے اسے برش اور رنگوں سے جوڑ دیا، اور آج اسے ایک ایسی مصورہ قرار دیا جاتا ہے، جس نے مصوری میں نئی جہت پیش کی۔

    فریڈا 6 جولائی 1907 کو میکسیکو میں پیدا ہوئی، 6 برس کی عمر میں وہ پولیو وائرس کا شکار ہوگئی اور بیماری کے حملے کے باعث وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی۔ پولیو نے اسے کم عمری میں معذوری کا شکار بنا دیا۔

    ایک یہی بیماری کافی نہ تھی کہ سنہ 1925 میں 18 برس کی عمر میں فریڈا بس میں سفر کے دوران ایک ہولناک حادثے کا شکار ہوئی، اس حادثے میں وہ مرتے مرتے بچی لیکن اس کی ریڑھ، کولہے، کندھے اور پاؤں کی ہڈیاں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ساری عمر ان کے درد میں مبتلا رہی۔

    اس ایکسڈنٹ کے بعد بھی وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی، اس دوران اس نے مصوری کے لیے ایک ایزل اپنے بستر کے قریب رکھ لیا اور مصوری کی مختلف تکنیکوں پر کام کرنے لگی۔

    پہلا سیلف پورٹریٹ ۔ سنہ 1926

    صحت یابی کے بعد اس نے باقاعدہ مصوری شروع کردی، اور وہ کہتی تھی کہ مصوری نے میری زندگی کو مکمل کیا۔ اس نے اپنے قریبی دوستوں، اہل خانہ اور مختلف اشیا کی تصاویر بنانی شروع کیں لیکن جس چیز نے دنیا کی توجہ حاصل کی، وہ اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    فریڈا نے نہ صرف زندگی کے ہر رنگ، اور خود پر گزرنے والے ہر غم، دکھ درد اور خوشی کے جذبے میں اپنی تصویر کشی کی بلکہ لاشعور سے شعور میں آنے والے ہر بے ربط خیال میں بھی خود کو پیش کیا۔

    اپنے پہلے سیلف پورٹریٹ میں فریڈا نے خود کو سرخ مخملی لباس میں ملبوس دکھایا۔

    19 سال کی عمر میں فریڈا کے پہلے پورٹریٹ کو ایک عام سی نوعمر لڑکی کا شوخ و چنچل تخیل تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کم عمری میں وہ بہت سی تکالیف جھیل چکی تھی لیکن اس کا مخملی سرخ لباس نوعمری کی خواہشات کا جھلک ضرور دکھاتا ہے۔

    فریڈا زندگی بھر جسمانی تکالیف کا شکار رہی، اور اس سے عارضی نجات کے لیے اس نے آرٹ میں پناہ ڈھونڈ لی تھی۔ اس نے 200 کے قریب پینٹنگز بنائیں، جن میں سے 55 اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    وہ کہتی تھی کہ میں خود کو اس لیے پینٹ کرتی ہوں کہ کیونکہ میں تنہا ہوں، کیونکہ یہ وہ واحد انسان ہے جسے میں سب سے اچھی طرح جانتی ہوں۔

    دو فریڈا ۔ سنہ 1939

    اس کی تصاویر میں ایک طرف تو عام زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نہایت شوخ رنگوں میں دیکھنے کو ملتیں، (غالباً اپنی تکلیف دہ زندگی کو رنگین اور خوبصورت بنانے کی خواہش اس نے اپنی پینٹنگز میں پوری کی)، تو دوسری طرف اس نے غیر حقیقی خیالات یا سریئلزم بھی اپنی تصاویر میں پیش کیا۔

    تاہم اس کا سریئلزم دیگر مصوروں کی طرح بالکل ہی غیر حقیقی اور بے ربط نہیں تھا، بلکہ اس کی زندگی کے تجربات پر ہی مشتمل تھا۔

    اس بارے میں وہ کہتی تھی، کہ مجھے سریئلسٹ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ میں نہیں ہوں، میں خواب پینٹ نہیں کرتی، میں اپنی حقیقت پینٹ کرتی ہوں۔

    فریڈا کو اپنی میکسیکن شناخت اور ثقافت سے بے حد محبت تھی، چنانچہ اس نے اپنی ہر پینٹنگ میں میکسیکن ثقافت کو، اور اپنے ہر سیلف پورٹریٹ میں خود کو روایتی میکسیکن لباس میں پینٹ کیا۔

    سنہ 1929 میں فریڈا نے اس وقت کے معروف میکسیکن مصور ڈیاگو رویرا سے شادی کی۔ یہ تعلق فریڈا کے لیے نہایت ہنگامہ خیز اور اونچ نیچ کا شکار رہا۔ ڈیاگو، فریڈا سے عمر میں خاصا بڑا تھا لیکن دونوں کے نظریات و خیالات ملتے تھے۔

    دونوں نے ایک ساتھ دنیا کا سفر کیا اور اس دوران بہترین پینٹنگز تخلیق کیں، دونوں کمیونسٹ سیاست میں بھی خاصے سرگرم تھے، لیکن ڈیاگو ایک مشکل شخص تھا۔

    فریڈا کاہلو اور ڈیاگو رویرا ۔ ڈیاگو کی بے وفائی فریڈا کی زندگی کا ایک اور دکھ تھا

    دونوں کی شادی 10 سال کا عرصہ چلی جس کے بعد دونوں الگ ہوگئے، لیکن ایک سال بعد ہی دونوں نے دوبارہ شادی کرلی اور پھر یہ تعلق فریڈا کی موت تک قائم رہا، تاہم اس دوران ڈیاگو کی بے وفائی اور بے التفاتی نے فریڈا کو بے حد جذباتی نقصان پہنچایا۔

    اس کے پورٹریٹس، جو اس کے دکھوں کا آئینہ ہیں، اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ڈیاگو سے محبت نے اسے توڑ دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اس سے محبت کیے جارہی تھی۔

    وہ کہتی تھی، ڈیاگو کی بیوی ہونا ایک حیرت انگیز تجربہ ہے، اگرچہ وہ کسی ایک کا ہو کے نہیں رہ سکتا، پھر بھی وہ بہت اچھا ساتھی ہے۔

    اس کی دا ٹو فریڈاز نامی پینٹنگ اسی دکھ کی جھلک دکھلاتی ہے جو اس نے اپنی طلاق کے بعد بنائی۔

    اس پینٹنگ میں 2 فریڈا موجود ہیں، ایک فریڈا کا دل زخمی ہے جس سے رستا خون اس کے روایتی لباس کو رنگین کر رہا ہے، یہ فریڈا ایک تکلیف دہ ماضی کا اشارہ ہے۔ دوسری فریڈا جدید لباس میں صحت مند حالت میں ہے جس کے ہاتھ میں ڈیاگو کی ننھی سی تصویر ہے۔

    یہ تصویر اس کی شخصیت اور اس کی خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ڈیاگو سے محبت کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک دیکھنا چاہتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس محبت سے نہایت اذیت میں ہے۔

    یہ پینٹنگ اس کی انفرادیت، خود مختاری اور جذباتی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش، اور اصل میں اس کے ٹوٹ جانے اور محبت میں کسی پر منحصر ہوجانے کی حقیقت کی تصویر ہے۔

    ود آؤٹ ہوپ ۔ سنہ 1945

    فریڈا کی جسمانی خستہ حالی نے اسے زندگی بھر اذیت میں رکھا، 47 سال کی عمر میں موت تک اس کے 30 آپریشن ہوچکے تھے۔ سنہ 1944 میں وہ ایک نہایت تکلیف دہ آپریشن سے گزری جس کی کامیابی سے اس کی صحت یابی کی کچھ امید تھی، لیکن یہ آپریشن ناکام ہوگیا۔

    اس تکلیف کا اظہار فریڈا نے دا بروکن کالم نامی ایک پورٹریٹ پینٹ کر کے کیا، اس پینٹنگ میں فریڈا کے جسم میں جابجا میخیں گڑی ہوئی دکھائی گئیں جو اس کے درد اور اذیت کی طرف اشارہ ہے۔

    ایک اور پینٹنگ ود آؤٹ ہوپ میں اس نے خود کو ہر امید سے مایوس قرار دیا۔ اس پینٹنگ میں وہ اسپتال کے بستر پر ہے جو اس کا تکلیف دہ ساتھی بن چکا ہے۔

    وہ کہتی تھی، تکلیف، خوشی اور موت، کسی وجود کے نمو پاتے رہنے کا حصہ ہے۔ اس عمل سے جدوجہد کرتے اور گزرتے رہنا عقل و خرد کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔

    فریڈا سنہ 1954 میں 47 سال کی عمر میں چل بسی، زندگی بھر جس طرح وہ غم و اندوہ اور تکلیف کا شکار رہی، موت یقیناً اس کے لیے جائے پناہ تھی، اور خود اس نے موت کے لیے کہا تھا، مجھے امید ہے کہ روانگی کا سفر خوش کن ہو، اور مجھے امید ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی واپسی نہ ہو۔


    مواد اور تصاویر بشکریہ:
    www.fridakahlo.org

  • لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن آپ اس مقبول مصنف سے ضرور ملنا چاہیں گے جس کی ایک کتاب نے کروڑوں زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    یہ مصنف لوگوں کی زندگیوں میں امید کی نئی کرن جگانے والا پائلو کوئیلو ہے جس کی کتاب ’الکیمسٹ‘ نے پڑھے جانے کے ریکارڈز توڑ دیے۔ کوئیلو کی ابتدائی زندگی بے حد نشیب و فراز سے گزری۔

    کوئیلو کو اس کے والدین لکھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ ان کی بات بظاہر تو مان لیتا، لیکن وہ چھپ چھپ کر لکھتا رہا۔ 17 سال کی عمر میں کوئیلو کو اس کے والدین نے پاگل خانے میں داخل کروا دیا۔

    اس نے یہاں سے 3 دفعہ فرار ہونے کی کوشش کی اور اپنی آخری کوشش میں کامیاب رہا۔ اپنی عمر کی دوسری اور تیسری دہائی اس نے ہپیز کی طرح گزاری۔ وہ بغیر کسی مقصد کے کئی شہروں کا سفر کرتا رہا۔

    بالآخر اس نے زندگی کے معنوں کی طرف توجہ کی اور اسے کھوجنے کے لیے اسپین کا سفر کیا۔ یہاں اس نے ایک مقدس مذہبی مقام پر چند دن گزارے۔ کوئیلو نے بدھا کی طرح مراقبے بھی کیے جو روحانی طور پر اس کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔

    30 سال کی عمر کے بعد اسے خیال آیا کہ اپنے خوابوں کی تکمیل کی جائے، اس نے پھر سے قلم سنبھالا اور 40 سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی۔

    اس کے بعد کوئیلو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ لکھی، یہ کتاب اس نے صرف 2 ہفتوں میں لکھی تاہم اس کتاب کو ذرا بھی پذیرائی نہ ملی۔ کوئیلو اس ناکامی سے اداس تو ہوا تاہم اس نے ہمت نہ ہاری۔

    وہ اپنی کتاب لے کر گھر گھر جاتا اور لوگوں سے اسے پڑھنے کی درخواست کرتا۔ جیسے جیسے لوگوں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا، کتاب میں چھپے سحر انگیز پیغام نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔

    لوگوں کو محسوس ہوا کہ یہ ان کی اپنی زندگی کی روداد ہے، وہ خود بھی ساری عمر کسی ایسے خزانے کی تلاش میں رہتے ہیں جو پلک جھپکتے ان کی زندگی بدل دے۔

    اس وقت کوئیلو کی قسمت کا ستارہ چمکا اور کتاب آہستہ آہستہ مقبول ہونے لگی۔ کتاب کی فروخت میں اضافے کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی ضرورت پیش آئی لیکن ابھی کوئیلو کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی۔

    بالآخر اس نے ایسا پبلشر ڈھونڈ لیا جس نے اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کی ہامی بھری۔ لیکن اس پبلشر کا ماننا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے لیے ہامی بھر بیٹھا تھا، اس کے اندر سے کسی آواز نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

    آج اس کتاب کی دنیا بھر میں ساڑھے 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کا 80 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ادب کی دنیا کا ایک ریکارڈ تھا جس کے بعد اس کتاب کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل کرلیا گیا۔

    دنیا بھر میں 15 کروڑ افراد کا ماننا ہے کہ اس کتاب نے ان کی زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کیے اور اس وقت انہیں امید کی کرن دکھائی جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکے تھے۔

    کوئیلو سمجھتا ہے کہ جب آپ کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پوری کائنات اسے حاصل کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔

    کامیاب ہونے کے بعد کوئیلو نے اپنے والدین سے بھی تعلقات بحال کرلیے جو ایک وقت میں اسے غیر ضروری جان کر پاگل خانے میں چھوڑ گئے تھے۔

    کوئیلو کہتا ہے، ’زندگی میں خطرات (رسک) مول لینے پڑتے ہیں، ہم زندگی کے معجزات کو صرف اسی وقت مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم غیر متوقع چیزوں کو رونما ہونے دیتے ہیں‘۔

    کیا آپ نے اس شاندار کتاب کو پڑھا ہے؟