Tag: lived

  • چین کا بنکر سٹی 10 لاکھ شہریوں کا مسکن

    چین کا بنکر سٹی 10 لاکھ شہریوں کا مسکن

    بیجنگ : 1960 اور 70 کی دہائی میں تیار کیے گئے بنکر کو اپارٹمنٹس کی صورت میں بنایا گیا تھا جو ایٹمی دھماکوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جہاں زمین کے اوپر ایک شہر آباد ہے وہیں بیجنگ کی سڑکوں کے نیچے بھی ایک شہر آباد ہے۔ یہ شہر دراصل زیرِ زمین بنکرز ہیں جو سرد جنگ کے زمانے میں شہریوں کو ایٹمی حملے سے محفوظ رکھنے کےلیے بنائے گئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اِس وقت ان بنکرز میں 10 لاکھ سے زائد چینی شہری آباد ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، چین کو اپنے دارالحکومت پر ایٹمی حملے کا خطرہ درپیش تھا، چنانچہ اس خطرے سے نمٹنے اور اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے چیئرمین ماؤ نے بیجنگ کی سڑکوں کے نیچے یہ بنکرز تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ مزکورہ بنکرز اپارٹمنٹس کی شکل میں بنائے گئے جو اس قدر مضبوط ہیں کہ ایٹم بم کے دھماکے کو برداشت کر سکتے ہیں، یہ بنکر چین کے کئی شہروں میں بنائے گئے۔ صرف بیجنگ میں ہی ان بنکرز کی تعداد 10ہزار سے زائد ہے جو انتہائی کم وقت میں تعمیر کیے گئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 1980ء کی دہائی میں جب جنگ اور ایٹمی حملے کا خطرہ کم ہوا تو چین کے محکمہ دفاع نے یہ بنکرز نجی لینڈ لارڈز کو لیز پر دے دیئے تاکہ ان سے آمدنی حاصل کی جا سکے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ اب یہ بنکرز رہائشی اپارٹمنٹس میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ان میں زیادہ تر غیر ملکی ورکرز، طالب علم اور دیہی علاقوں سے شہر آنے والے چینی شہری قیام پذیر ہیں۔

  • ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    آدیس بابا : ایک کتاب "سیکرٹ لائف آف ملا عمر ” میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملاعمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر مقیم تھے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔

    ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب ‘دس سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔

    بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے، جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی، انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی ، جنھوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔

    صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 تک پناہ دی تھی، جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔

    کتاب کے مطابق امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی، ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔

    صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔

    اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے، البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔

    خیال رہے گذشتہ ماہ ڈچ زبان میں شائع ہونے والی کتاب بہت جلد اب انگریزی زبان میں بھی شائع ہونے والی ہے۔