Tag: liver transplant

  • پاکستان میں پہلی بار لبلبے اور ایک جگر کی 2 مریضوں میں پیوند کاری

    پاکستان میں پہلی بار لبلبے اور ایک جگر کی 2 مریضوں میں پیوند کاری

    لاہور: پاکستان میں پہلی بار لبلبے اور ایک جگر کی 2 مریضوں میں پیوند کاری کا کامیاب آپریشن کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں پہلی بار اسپلٹ لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے، یہ آپریشن پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ لاہور میں کیا گیا، جہاں لبلبے کی پیوند کاری بھی کی گئی۔

    سپلٹ لیور ٹرانسپلانٹ میں عطیہ کردہ جگر کا ایک بڑا والا حصہ لاہور کے 50 سالہ عتیق الرحمٰن کو لگایا گیا، جب کہ دوسرا حصہ کوہاٹ کے 6 سالہ ہمدان کو لگایا گیا۔ عطیہ کردہ لبلبہ لاہور کے 23 سالہ حسنین کو لگایا گیا۔

    بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے عزیر بن یاسین نے اپنے اعضاعطیہ کیے تھے، 31 سالہ عزیر نے مرنے کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی، عطیہ کردہ اعضا سے پی کے ایل آئی میں 3 افراد کی جان بچائی گئی۔

  • سندھ: جگر کے 50 ٹرانسپلانٹ مفت کرنے کا اعلان

    سندھ: جگر کے 50 ٹرانسپلانٹ مفت کرنے کا اعلان

    کراچی: سندھ میں جگر کی 50 پیوندکاریاں مفت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے ڈاؤ یونیورسٹی میں بلا معاوضہ جگر کی پیوندکاری شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

    صوبائی محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے ساڑھے 14 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، یونیورسٹی میں اس مالی سال کے دوران پچاس لیور ٹرانسپلانٹ بلا معاوضہ کیے جائیں گے۔

    وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے بتایا کہ لیور ٹرانسپلانٹ ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا اسپتال میں نامور ڈاکٹر فیصل مسعود ڈار کی نگرانی میں کیے جا رہے ہیں۔

    جگر کے 200 ٹرانسپلانٹ بالکل مفت، سندھ کے سرکاری اسپتال کا منفرد ریکارڈ

    انھوں نے کہا ڈاؤ یونیورسٹی میں ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کی زیر نگرانی اب تک 17 کامیاب لیور ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں، لیور ٹرانسپلانٹ ٹیم ڈاکٹر جہانزیب حیدر، ڈاکٹر کرن ناز اور ڈاکٹر محمد اقبال پر مشتمل ہے۔

    صحت حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی بھی بلا معاوضہ جگر کی پیوند کاری شروع کر رہی ہے، پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں جگر کی پیوند کاری کے اخراجات 35 سے 50 لاکھ کے درمیان ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم 8 ہزار افراد کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔

  • انشاء اللہ ! علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی‌ضرورت نہیں پڑے گی

    انشاء اللہ ! علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی‌ضرورت نہیں پڑے گی

    معروف گلوکار علی نور سے متعلق جگر کے عطیے کی اپیل گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے لیکن پاکستانی قوانین کے تحت ایسا ممکن نہیں ہے، اہل خانہ پر امید ہیں کہ اس ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

    گزشتہ روز علی نور کے آفیشل انسٹا گرام اکاؤنٹ اور نوری بینڈ کے آفیشل پیج سے اپیل کی گئی تھی کہ علی نور کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے ڈونر درکا ر ہے ، اس اپیل کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔

    پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ علی نور کے پاس صرف اڑتالیس گھنٹے ہیں اور ان کا کوئی بھی دوست ، رشتے دار، سسرالی رشتے دار جس کی عمر 18 سے 45 سال کے درمیان اور بلڈ گروپ بی پازیٹو، بی نیگیٹو، او پازیٹو یا او نیگیٹو ہے، وہ جگر کا عطیہ دے سکتا ہے۔

    اسی پوسٹ کے مطابق علی نور اسلام آباد کے الشفاء اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ انہیں پیپاٹائٹس اے کا عارضہ لاحق ہے ، جس کے جگر پر اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
    ابتدائی اپیل بنیادی طور علی نور کے خاندان والوں سے ہی کی گئی تھی ، تاہم یہ جانے بغیر کہ پاکستانی قانون کے تحت جگر کا عطیہ کو ئی رشتے دار ہی دے سکتا ہے ، سوشل میڈیا پر یہ اپیل دھڑا دھڑ شیئر ہونے لگی ، میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے ناموں نے بھی اسے شیئر کیا۔

    صورتحال کو دیکھتے ہوئے علی نور کے بھائی نے معاملے کی وضاحت کرتےے ہوئے کہا کہ ’’دوستو! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ، علی نور جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ ان پر یرقان کی ٹائپ اے کا شدید حملہ ہوا ہے اور امکان ہے کہ اس نے ان کے جگر کو نقصان پہنچایا ہو، لیکن ان کی نگہداشت بہترین ڈاکٹرز کررہے ہیں‘‘۔

    ’’ جہاں تک جگر کے عطیے کی بات ہے تو ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ہمیں لوگ اسٹینڈ بائی پر درکار ہیں لیکن عطیہ کنندہ صرف خاندان میں سے ہی ہوسکتا ہے – کہ ہمارے ملک کے قوانین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ خاندان سے باہر کا کوئی شخص عطیہ دے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انشا اللہ انشاللہ ہمیں اس رستے پر نہیں جانا پڑے گا‘‘۔

    انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلے ہی ان کی حالت میں بہتری دیکھ رہے ہیں اور ہمیں ان کے مداحوں سے اپنے اسٹار کے لیے بس دعائیں درکار ہیں۔

    علی نور کے بھائی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر معروف گلوکار کے مداحوں کو قرار آیا ورنہ اس سے قبل ساری شوبز انڈسٹری اور ان کے مداح صدمے کی حالت میں تھے اور بغیر سوچے سمجھے جگر کے عطیے کی اپیل شیئر کررہے تھے ۔ اس وقت انہیں اپنی مداحوں کی دعاوں کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر ایک بار پھر پہلے کی طرح دلوں کو گرماتے نظر آئیں گے۔

  • پاکستان میں جگرکی پیوند کاری ممکن ہے

    پاکستان میں جگرکی پیوند کاری ممکن ہے

    پاکستان جگرٹرانسپلانٹ کے شعبے میں ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جوکامیابی کے مراحل طے کررہے ہیں۔

    پاکستان میں جگرکی پیوندکاری کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے ملکی تاریخ کا پہلا لیور ٹرانسپلانٹ 2006 میں لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں کیا گیا تھاجبکہ سرکاری سطح پر پہلی بارجگر کی پیوند کاری لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں دو سال قبل بھارتی ڈاکٹروں کی ٹیم نے کی تھی۔

    مئی 2012میں وفاقی دارالحکومت کے پمز ہسپتال میں لندن سے آئی ہوئی ڈاکٹروں کی ٹیم نے پہلا اور آخری لیور ٹرانسپلانٹ کیا جو کامیاب نہ ہو سکا۔

    دوسری جانب اسلام آباد میں واقع نجی ہسپتال سرکاری اور نجی سطح پرجگر کی پیوندکاری کرنےوالا واحد ملکی ادارہ ہے جو 30اپریل2012سے اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے ۔جہاں پاکستانی ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم اب تک 123 مریضوں کے جگرکی کامیاب پیوندکاری کرچکی ہے۔

    لیور ٹرانسپلانٹ سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر فیصل ڈاراپنی کامیابی کو پاکستان کے نام کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔

    دوسری جانب ڈائریکٹر برائےلیورٹرانسپلانٹ ڈاکٹر نجم الحسن نجی سطح پر جگر کی کامیاب پیوندکاری عالمی سطح پر پاکستان کےلئے قابل فخر ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سرکاری سطح پر جگر کی پیوندکاری کے لئے بھی سنجیدہ اقدامات کرے ۔