Tag: London

  • لندن: ماسک نہ پہننے پر پولیس اہلکار نے لڑکی کا گلا دبا دیا

    لندن: ماسک نہ پہننے پر پولیس اہلکار نے لڑکی کا گلا دبا دیا

    لندن: برطانوی دارالحکومت میں لندن پولیس کے ایک اہلکار نے ماسک نہ پہننے پر ایک لڑکی کا گلا اتنی زور سے دبایا کہ اسے سانس لینے میں مشکل ہوگئی، سوشل میڈیا پر پولیس کے اس رویے پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق لندن پولیس نے ایک لڑکی کو ماسک نہ پہننے کی اتنی سخت سزا دی کہ وہ مرتے مرتے بچی۔

    لندن پولیس نے وحشی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسک نہ پہننے پر ایک لڑکی کا گلا دبا دیا جس کی وجہ سے اس لڑکی کو سانس لینے میں پریشانی ہونے لگی۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اہلکار تھوڑی دیر اور خاتون کا گلا دبائے رہتا تو اس کی موت بھی ہو سکتی تھی۔ سوشل میڈیا پر پولیس اہلکار کی اس حرکت پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی کرونا وائرس ایک بار پھر زور پکڑنے لگا ہے، برطانیہ میں کرونا وائرس کیسز کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 46 ہزار 156 ہوچکی ہے۔

    برطانیہ میں اب تک کوویڈ 19 سے 42 ہزار 72 اموات ہوچکی ہیں۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 3 کروڑ 38 لاکھ 72 ہزار 977 ہوچکی ہے جبکہ دنیا بھر میں 10 لاکھ 13 ہزار 146 اموات ہوچکی ہیں۔

  • گیراج سے ملنے والی چائے کی کیتلی نے زندگی بدل ڈالی

    گیراج سے ملنے والی چائے کی کیتلی نے زندگی بدل ڈالی

    لندن : برطانیہ میں لاک ڈاﺅن کے دوران جب گھر پر فارغ بیٹھنے کے سوا کوئی کام نہ تھا، ایک آدمی کو اپنے گھر کے گیراج کی صفائی ستھرائی کا خیال آیا اور صفائی کے دوران اسے وہاں سے ایسی چیز مل گئی کہ جس سے اس کی زندگی ہی بدل گئی گویا لاٹری نکل آئی۔

    غیرملکی خبر رساں ادارےکے مطابق اس 51سالہ آدمی کو گیراج میں پڑے کاٹھ کباڑ سے ایک چائے کی کیتلی مل گئی جو تاریخی طور پر اہمیت کی حامل تھی اور اس کی مالیت 1لاکھ پاﺅنڈ (تقریباً 2کروڑ 13لاکھ روپے) تھی۔

    رپورٹ کے مطابق یہ چائے کی کیتلی چین کے ایک قدیم بادشاہ شیان لونگ کی تھی جب یہ کیتلی اس آدمی کو ملی تو وہ اسے ایک نیلام گھر کے ماہر کے پاس لے گیا جس نے اسے اس کیتلی کی اصلیت بتائی تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔

    اس آدمی کا کہنا ہے کہ یہ کیتلی ہمارے خاندان میں نسلوں سے چلی آ رہی ہے، مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو میری ماں اس کیتلی کو الماری میں سجا کر رکھتی تھی۔

    میرا خیال ہے کہ یہ کیتلی میرا دادا چین سے لایا تھا وہ فوج میں تھا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ چین میں رہا تھا، واضح رہے کہ یہ کیتلی ہینسن آکشنیرز پر نیلام کی جارہی ہے اور اس کی بولی 24ستمبر کو ہوگی۔

  • ٌجب برطانوی شاھی خاندان کی دیورانی اور جٹھانی لڑ پڑیں، کتاب میں بڑے انکشافات

    ٌجب برطانوی شاھی خاندان کی دیورانی اور جٹھانی لڑ پڑیں، کتاب میں بڑے انکشافات

    لندن : شاہی خاندان میں تنازعات کی خبریں برطانیہ میڈیا میں زیر گردش ہیں تاہم رائل فیملی نے اس حوالے سے اب تک باقاعدہ کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

    شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کی زندگی پر لکھی گئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے شاہی خاندان میں بھی عام گھرانوں جیسے جھگڑے ہیں۔

    برطانیہ چھوڑنے کے باوجود ان کے شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن کے ساتھ تعلقات سے متعلق مختلف خبروں کا سلسلہ رک نہیں سکا۔

    فائنڈنگ فریڈم نامی کتاب پبلش ہوتے ہی شاہی خاندان میں ایک بار پھر کشمکش شروع ہوگئی ہے۔ کتاب میں شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔

    مصنف نے دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہزادی کیٹ مڈلٹن میگھن مارکل کو پسند نہیں کرتی تھیں اور دونوں کے درمیان ہمیشہ ان بن رہی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ میگھن مارکل کو شاہی خاندان میں الوداعی پارٹی کے دوران کیٹ مڈلٹن نے ڈانٹا تھا۔

    کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ شہزادی کیٹ مڈلٹن، میگھن مارکل کو پسند نہیں کرتی تھیں اور ان سے کم گفتگو کرتی تھیں۔ کیٹ مڈلٹن نے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں جب کہ ہیری اور میگھن مارکل نے بھی کتاب کے لیے انٹرویو دینے کی تردید کی ہے۔

    دوسری جانب کیٹ اور ولیم کے دوستوں کا کہنا ہے کہ شاہی جوڑے نے میگھن مارکل کو شاہی خاندان میں کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا ۔اس کتاب کی اشاعت سے شہزادہ ولیم کی دل آزاری ہوئی ہے۔

    برطانوی شہزادی کا کہنا ہے کہ میگھن مارگل کو شاہی خاندان میں قبول نہ کرنے کا الزام غلط ہے۔ میگھن کا کھلے دل کے ساتھ شاہی خاندان میں استقبال کیا گیا تھا۔ شاہی خاندان کا کہنا ہے کہ کتاب محض مصنف کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر لکھی گئی ہے۔

    فائنڈنگ فریڈم نامی کتاب میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ اس کا صحیح اندازہ تو آنے والے وقت میں ہوگا لیکن آج سے تین ماہ قبل شاہی خاندان سے الگ ہونے والی میگھن مارکل نے علیحدگی کا ذمہ دار شاہی خاندان کے رویئے کو قرار دیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق میگھن مارکل نے اپنی دوست کو بتایا کہ انہیں کیٹ مڈلٹن کے مقابلے میں تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔

    بقول میگھن شاہی خاندان میں کیٹ کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ شہزادہ ہیری کی اہلیہ کے مطابق میڈیا نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا لیکن شاہی خاندان خاموش رہا۔ میگھن نے کہا اگر کیٹ مڈلٹن کے ساتھ ایسا ہوتا تو میڈیا قوانین ہی بدل دیئے جاتے۔

    ماضی میں ہونے والے چند واقعات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ شہزادہ ہیری اور ان اہلیہ شاہی خاندان میں خوش نہیں تھے۔

    اکتوبر2019 میں ڈیلی میل اخبار نے میگھن کا ایک خط شائع کردیا تھا جو انہوں نے اپنے والد کو لکھا۔ میگھن مارکل نے اس حرکت پر ڈیلی میل کیخلاف قانونی کارروائی کی تھی۔

    شہزادہ ہیری نے اس رویے کا موازنہ اپنی والدہ شہزادی ڈیانا کے ساتھ روا رکھے گئے رویے سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، جس بات پر انہیں انتہائی افسوس ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت آتا ہے جب آپ ایسے رویے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسے عام الفاظ میں ہراساں کرنا کہتے ہیں، جو لوگوں کی خاموشی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ اس قسم کا رویہ ہر سطح پر ناقابل قبول ہے۔ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔

    تجزیہ نگاروں نے شاہی خاندان کی حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی باتیں پہلے کبھی باہر نہیں آئیں اور اگر کبھی کوئی غلط خبر آئی بھی تو اُس کی فوری تردید کی گئی۔

    یاد رہے کہ رواں برس19 مئی کو برطانوی شاہی خاندان کے چھوٹے شہزادے ہیری اور امریکی اداکارہ میگھن مرکل رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے، اس شادی کو سال کی سب سے بڑی شادی قرار دیا گیا تھا۔

  • برطانیہ میں پولیس اہلکاروں کا سیاہ فام شخص پر بہیمانہ تشدد

    برطانیہ میں پولیس اہلکاروں کا سیاہ فام شخص پر بہیمانہ تشدد

    لندن: برطانیہ میں پولیس اہلکاروں نے ایک سڑک پر سیاہ فام شخص کو گھیرے میں لے کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے شہر ساؤتھ لندن اسٹریٹ میں 8 پولیس اہلکاروں نے سیاہ فام شخص کو گھیرے میں لے کر اس پر لاتوں اور مکوں کی برسات کردی، میٹروپولیٹن پولیس نے واقعے کی تصدیق کردی۔

    ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ 26 جون کو لندن کے کروڈن کے علاقے ویلسلی روڈ پر سیاہ فام شخص کو فرش پر باندھ دیا گیا تھا اور قریب آٹھ پولیس اہلکار اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔

    میٹروپولیٹن پولیس نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عوامی شکایات درج کرلی گئی ہیں اور فوٹیج میں موجود ہر افسر کے اس اقدام کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔

    برطانوی پولیس اہلکاروں کے اس رویے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی اور صارفین کی جانب سے اسے ہیش ٹیگ بلیک لائیو میٹر (بی ایل ایم) کے تحت شیئر کیا جارہا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں پولیس اہلکار کی جانب سے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے، 46 سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلائیڈ کے گلے پر پولیس اہلکار 9 منٹ تک گھٹنا رکھ کر بیٹھا رہا تھا جس کے سبب وہ ہلاک ہوگیا تھا۔

    مذکورہ واقعے کے خلاف برطانوی شہریوں نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا تھا اب برطانوی پولیس کے اس اقدام پر شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

  • برطانیہ : معذور خاتون کے ساتھ انہونی ہوگئی، دیکھنے والے حیران

    برطانیہ : معذور خاتون کے ساتھ انہونی ہوگئی، دیکھنے والے حیران

    لندن : بولنے کی طاقت سے محروم ہونے والی خاتون نے ٹھیک ہونے کے بعد قدرتی طور پر پانچ زبانوں کے لہجوں پر عبور حاصل کرلیا، ڈاکٹرز بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اچانک قوت گویائی سے محروم ہونے والی خاتون کئی ماہ بعد بولنے لگی لیکن اس کی قوت گویائی کی واپسی کوئی عام نہیں بلکہ ایک خاص طرز کی ہوئی ہے۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ خاتون اچانک قوت گویائی سے محروم ہونے کے کچھ ماہ بعد ٹھیک ہوئی تو 5 مختلف زبانوں کے لہجوں میں گفتگو کرنے لگی، خاتون کے موڈ کے مطابق اس کے لہجے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    بورن ماؤتھ چلڈرن ہوم کی منیجر 31 سالہ ایملی ایگن ایسیکس کے لہجے میں بات کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ اچانک بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوئیں تاہم اب ان کی قوت گویائی ایک منفرد انداز میں واپس آگئی ہے۔

    کئی مہینے کی خاموشی کے بعد ایملی اب پولش لہجے میں بات کرتی ہیں، بعض اوقات وہ بروکن انگلش لہجے میں بولتی ہیں جبکہ کبھی کبھار ان کا لہجہ فرینچ یا اٹالین بھی ہوجاتا ہے۔ ایملی جب انتہائی پریشان ہوتی ہے تو روسی لہجے میں بات کرتی ہے ، جب بہت زیادہ تھکی ہو تو اس کی بولنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔

    ڈاکٹرز کئی مہینے تک ایملی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کے دماغ کو نقصان پہنچا ہے، ڈاکٹرز یہ نہیں بتاسکے کہ دماغ کو چوٹ لگی کیسے ہے، البتہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسے فارن ایکسنٹ سنڈروم لاحق ہوگیا ہے۔

  • کورونا وائرس : برطانیہ سے اچھی خبر آگئی

    کورونا وائرس : برطانیہ سے اچھی خبر آگئی

    لندن : برطانیہ میں کورونا وائرس سے گزشتہ3ماہ کے عرصہ میں ایک دن میں کم ترین اموات رپورٹ ہوئی ہیں، گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران صرف 36افراد کوویڈ میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے اور لاک ڈاؤن کے مقابلے میں آج سب سے کم اموات رپورٹ ہوئیں۔

    برطانیہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے 36 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جو کہ تین ماہ سے بھی زیادہ عرصے کی کم ترین تعداد ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق برطانیہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 41 ہزار 698 تک پہنچ گئی ہے۔

    اس حوالے سے برطانوی محکمہ صحت نے کہا ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ3ماہ کے عرصہ میں ایک دن میں کم ترین اموات ہوئی ہیں۔24گھنٹے میں36افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے جبکہ آج کے روز برطانیہ میں1514نئے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔

    واضح رہے کہ آج بروز پیر سے برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کردی جائے گی، تاہم نائی کی دکانیں، بیوٹی پارلرز، ریسٹورنٹس اور کلب ابھی نہیں کھلیں گے، اس کے علاوہ تعلیمی ادارے گرمیوں کی چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد مکمل طور پر کھلیں گے۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد 18 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اب تک اس سے ایک لاکھ نو ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی ملک میں لاک ڈاؤن میں وقت سے پہلے نرمی اس عالمی وبا کی واپسی کی وجہ بن سکتی ہے۔

    اعداد وشمار کے مطابق امریکہ اموات کی تعداد کے حوالے سے سب سے آگے ہے جہاں 19،701 ہلاکتیں ہوئی ہیں، کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیس موجود ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس کا زور واقعی ٹوٹ رہا ہے؟

    کیا کرونا وائرس کا زور واقعی ٹوٹ رہا ہے؟

    لندن : عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اور دیگر سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس بات میں فی الحال کوئی حقیقت نہیں کہ کورونا وائرس اپنی طاقت کھو رہا ہے، سائنسی تحقیق کے بعد ہی کوئی حتمی بات کہی جاسکتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کی ماہر صحت اریا وان کیروف اور دیگر متعدی امراض کے متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہا کہ گزشتہ روز میلان کے سین رافیل اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو کے دعوے کے سائنسی شواہد نہیں ملے ہیں اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس اپنی طاقت کو کھو رہاہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی ٹھوس شواہد یا مربوط اعداو شمار نہیں ہیں کہ نئے کورونا وائرس میں کوئی تبدیلی ظاہر ہورہی ہے یا اس کی شکل اور بیماری کی شدت میں کوئی کمی آئی ہو، کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے دوران اس میں تغیر اور موافقت پانا غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔

    لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں کے ماہر پروفیسر مارٹن ہائبرڈ نے کہا کہ سارس کویو ٹو وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں پر غور کرنے کے بعد اس خیال کی حمایت نہیں کی جاسکتی کہ کورونا وائرس کم طاقتور ہوتا جارہا ہے یا کسی بھی طرح سے کمزور ہورہا ہے۔

    اپنے ایک تبصرے میں ان کا کہنا ہے کہ کہا پورے 35،000 سے زیادہ وائرس کروموسوم کے اعداد و شمار کے ساتھ فی الحال اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شدت سے متعلق کوئی خاص فرق یا کمی موجود ہے۔”

    واضح رہے کہ اٹلی کے ایک سینئر ڈاکٹر البرٹو زنگریلو نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ نیا کورونا وائرس اپنی تباہ کاریوں کے بعد آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھوتا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : کورونا وائرس کا زور آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا ہے، سینئر ڈاکٹر کا دعویٰ

    ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں یہ وائرس اب طبی طور پر اٹلی میں موجود نہیں ہے،21 فروری کو اس وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد سے اٹلی میں کوویڈ 19 سےدنیا بھر میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں، گزشتہ ماہ مئی میں نئے انفیکشن اور اموات میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔

    یاد رہے کہ نئے کورونا وائرس کوویڈ 19 وبائی بیماری نے دنیا بھر میں اب تک 370،000 سے زیادہ افراد کو ہلاک اور 60 لاکھ سے زائد کو متاثر کیا ہے۔

  • کیا کورونا وائرس کی ویکسین کبھی تیار نہیں ہوگی؟

    کیا کورونا وائرس کی ویکسین کبھی تیار نہیں ہوگی؟

    لندن: عالمی اداراہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر چہ اس وقت سو سے زائد ویکسین کی تجربہ گاہ میں جانچ اور آزمائش جاری‌ ہے مگر کرونا ویکسین دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہر نے خبردار کیا کہ ایچ آئی وی اور ڈینگی کی بیماریوں پر بھی گزشتہ کئی سالوں سے تحقیق جاری ہے، ان میں سے کچھ انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل بھی ہوگئی ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت سو سے زائد ویکسین پری کلینیکل ٹرائلز اوراُن میں سے چند انسانوں پر آزمائی جاچکی ہیں
    مگر خوفناک بات یہ ہے کہ ہمیں کرونا کی ویکسین کے اثرات ابھی نظر نہیں آرہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ نیبرو کا کہنا تھا کہ ‘چند وائرس ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم حتمی بات نہیں کرسکتے، اسی وجہ سے اُن کی ویکسین پر کام شروع نہیں ہوسکا۔

    امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کرونا کے کیسز میں ہوشربا اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، نئی اطلاعات کے مطابق کچھ ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی بھی کی گئی ہے جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں ایچ آئی وی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں 3 کروڑ بیس لاکھ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈینگی وائرس کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    کچھ ممالک میں ڈینگی سے بچنے کے لئے ایک ویکسین (ڈینگ ویکسیا) دستیاب ہے جو 9-45 سال کی عمر کے لوگوں کے لئے ہے۔

    لیکن ڈبلیو ایچ او نے سفارش کی ہے کہ یہ ویکسین صرف ایسے افراد کو دی جائے جو پہلے سے تصدیق شدہ ڈینگی وائرس کے انفیکشن میں مبتلا رہ چکے ہوں، کوویڈ19 بیماری مستقبل میں ہمارے ساتھ کئی سال رہ سکتی ہے اور معاشی طور پر لاک ڈاؤن پائیدار نہیں ہے۔

  • تکیے کے غلاف میں چھپائے گئے سانپوں کا معمہ مزید گھمبیر ہوگیا

    تکیے کے غلاف میں چھپائے گئے سانپوں کا معمہ مزید گھمبیر ہوگیا

    لندن : برطانیہ کے ایک علاقے میں رواں سال فروری میں نامعلوم شخص تکیے کے غلاف میں چھپائے گئے13 نایاب سانپوں کو ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ کر چلا گیا، کچھ دن بعد مزید 16سانپ بھی اسی طرح چھوڑنے کا واقعہ پیش آیا۔

    تفصیلات کے مطابق شمال مشرقی انگلینڈ کے علاقے سندرلینڈ میں تکیے کے غلاف میں چھپائے گئے پراسرار سانپوں کا معمہ مزید گھمبیر ہوگیا ہے۔

    سانپوں کو اس طرح چھوڑ کر فرار ہونے والے مجرم کی تلاش تو ابھی جاری ہے جو اس سال فروری میں 29 قیمتی سانپوں کو چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا لیکن اس کیس نے سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے، تکیے کے غلاف کے اندر کسی چیز کا حرکت کرنا ظاہر کر رہا تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق  شمال مشرقی انگلینڈ کے علاقے سندر لینڈ میں ویلنٹائن ڈے سے ایک دن پہلے فائر فائٹرز کو ایک غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کہا گیا۔

    وہاں ٹرین اسٹیشن کے پیچھے ایک تکیے کے غلاف کے اندر 13 رائل پائتھن سانپ چھپا کے رکھے گئے تھے جو دو سے چار فٹ تک لمبے تھے۔

    جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم  آر ایس پی سی اے کا اہلکار  انہیں اینیمل ہوم لے گیا تا کہ انھیں آرام دہ گرم ماحول میں رکھا جائے۔

    اگلی صبح یعنی 14 فروری کو جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر نے ان سانپوں کا معائنہ کیا جو سب بہتر حالت میں تھے سوائے ایک سانپ کے جو بعد میں مر گیا۔

    سانپوں کو باحفاظت پہنچانے کے بعد واکر اپنے گھر کے معاملات میں مصروف ہوگئے لیکن اگلے روز انہوں نے اپنے آئی پیڈ پر دیکھا کہ انھیں ایک اور کال موصول ہوئی ہے۔

    کوئی بالکل اسی جگہ پر مزید سانپوں چھوڑ گیا تھا، اس مرتبہ ایک رائل پائتھن اور 15 دوسرے سانپوں کو دو مختلف تکیہ غلافوں میں رکھا گیا تھا۔

    نارتھ ایسٹ ریپٹائل ریسکیو نامی ادارے کے اہلکار ایلک وڈ کہتے ہیں کہ کسی بھی شریف آدمی کو یہ دیکھ کر جھٹکا لگے گا۔

    یہ ظالمانہ حرکت ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ دیکھنا نہیں چاہتا کہ کسی بھی جانور کے ساتھ ایسا ہو۔ سانپوں کی اتنی بڑی تعداد کا ملنا غیر معمولی بات ہے۔

    اتنی بڑی تعداد میں سانپوں کے ملنے کا مطلب ہے کہ ان کی تجارت ہو رہی ہے، شاید پالتو جانوروں کی کوئی دوکان ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی دوکان والا اتنے قیمتی سانپوں کو اس طرح کیوں چھوڑ دے گا۔

    آر ایس پی سی اے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن ان میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ سی سی ٹی کی کوئی فوٹیج موجود نہیں ہے۔
    جانوروں کے حقوق کی مہم چلانے والے ایک گروپ پیٹا نے اس بارے میں معلومات پہنچانے والے کے لیے ڈھائی ہزار پاونڈ کا انعام رکھا ہے، ایسی معلومات جن سے اس کام میں ملوث افراد کو گرفتار اور سزا دی جا سکے۔

  • برطانیہ، کرونا وائرس میں مبتلا نرس قرنطینہ میں دم توڑ گیا

    برطانیہ، کرونا وائرس میں مبتلا نرس قرنطینہ میں دم توڑ گیا

    لندن: برطانیہ میں کرونا وائرس میں مبتلا ہیمر اسمتھ اسپتال کا نرس قرنطینہ میں دم توڑ گیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 51 سالہ کیموتھراپی نرس ڈونلڈ سیلٹا کی لاش پولیس نے 7 اپریل کو لندن میں ان کے فلیٹ سے برآمد کی، وہ مریض کے علاج کے دوران کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے تھے۔

    ڈونلڈ سیلٹا کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس اسپتال میں 111 پر وہ فون کررہے تھے لیکن لائن مصروف ہونے کے سبب کوئی جواب نہیں دیا گیا اور وہ تن تنہا دم توڑ گئے۔

    رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ سیلٹا کا تعلق فلپائن سے تھا وہ مغربی لندن کے ہیمر اسمتھ اسپتال میں فرائض انجام دے رہے تھے، وہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد آئسولیشن میں تھے۔

    اہلخانہ کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ وہ کرونا وائرس کے مریض کے علاج کے دوران پی پی ای نہیں پہنے ہوئے تھے جس کے سبب وہ کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے۔

    ڈونلڈ سیلٹا کی 38 سالہ بھتیجی ایملین روبٹسن کا کہنا ہے کہ وہ دمہ کی تکلیف میں مبتلا تھے، پی پی ای کی کمی کے بارے میں شکایت کرتے تھے، انہوں نے 18 سال این ایچ ایس کی خدمت میں گزارے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس کے سبب مرنے والے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار 743 ہوچکی ہے اور کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔