Tag: Long Covid 19

  • دبئی: لانگ کووڈ سے متاثرہ افراد کو نئی سہولت فراہم کردی گئی

    دبئی: لانگ کووڈ سے متاثرہ افراد کو نئی سہولت فراہم کردی گئی

    دبئی: متحدہ عرب امارات نے لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے لئے خصوصی اعلان کیا ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق دبئی میں حکام نے کووڈ نائنٹین کے مریضوں کے لئے خصوصی کلینک کا اعلان کیا ہے، یہ کیلنک ان مریضوں کے لئے ہیں ، جن میں کرونا وائرس کی تشخیص کے چار ہفتے بعد بھی علامات برقرار رہی، جسے عام الفاظ میں ‘طویل کووڈ’ کہلاتی ہے۔

    دبئی ہیلتھ اتھارٹی (ڈی ایچ اے ) کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ کیلنک منگل کو البرشا ہیلتھ سینٹر اور جمعرات کو نادالحمر میں ہونگے، یہ سروس حاملہ خواتین اور چھ سال سے کم عمر بچوں کے لئے نہیں ہے۔

    فیملی میڈیسن کنسلٹنٹ اور ڈی ایچ اے کے پرائمری ہیلتھ کیئر سیکٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان الحمدی نے طبی امور کی کلینک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کلینک کا مقصد پوسٹ کووڈ نائنٹین مریضوں کی مدد کرنا ہیں جو بیماری سے چھٹکارا پانے کے بعد ہفتوں یا مہینوں تک علامات کا تجربہ کرتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: یواے ای نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا

    کلینک کا مقصد مکمل تحقیقات کرنا، تمام ضروری ٹیسٹ کروانا اور مریضوں کو ایسے کیسز میں ماہرین کے پاس بھیجنا ہے جہاں انہیں مخصوص شعبوں جیسے پلومونولوجی ، کارڈیالوجی، دماغی صحت یا نیورولوجی میں خاص طبی مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر الحادی نے مزید کہا کہ کیلنک کا مقصد طبی مسائل کی تشخیص کرنا ہے جن میں مداخلت کی ضرورت ہوتی ہےاور مریض کو صحت یابی اور تندرسی کے راستے کی طرف بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔

    مریض ڈی ایچ اے کال سینٹر (800-342) کے زریعے اپائٹمنٹ بک کرواسکتے ہیں یا ڈی ایچ اے اسپتال یا ہیلتھ سینٹر میں ڈی ایچ اے کے ڈاکٹر برائے شہری سروس سے ٹیلی میڈیسن ریفرل حاصل کرسکتے ہیں۔

  • کورونا سے صحتیاب افراد کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ جانیے

    کورونا سے صحتیاب افراد کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ جانیے

    نیو یارک : کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کے بارے میں دنیا بھر میں تیزی سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔ ایسے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    اب امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کورونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔

    اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کرانا پڑا۔

    ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔

    دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیااں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم ریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس تحققیق میں جن مریضوں کے ریکارڈ کو دیکاھ گیا تھا ان میں کووڈ کی تشخیص فروری سے دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور ان کی مانیٹرنگ فروری 2021 تک کی گئی۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ 4 لاکھ 54 ہزار 477 افراد نے بیماری کے 30 دن یا اس کے بعد ڈاکٹروں سے مختلف علامات کی وجہ سے رجوع کیا۔ اس تحقیق کے نتائج کو کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ ایک ویب سائٹ پر جاری کیے گئے۔

     

  • کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    لندن: کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اس کے اثرات اور نقصانات سامنے آرہے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایک اور تشویشناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو کئی ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔

    اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کر کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔ تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔

    نئی تکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بنا کر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا اسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔

    اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کوویڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر نئے اسکین سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصان کی شناخت ہوگئی تو یہ ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کے پیچھے چھپا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔