Tag: Long Covid

  • کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • کیا ویکسی نیشن کے بعد بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا ویکسی نیشن کے بعد بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کووڈ 19 کی ویکسین لگوا لیے جانے کے بعد بھی اس مرض کا شکار ہوجانے کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں تاہم اب ویکسی نیٹڈ افراد میں لانگ کووڈ کے حوالے سے نئے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو اگر کووڈ 19 کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں لانگ کووڈ کا امکان 49 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے زوئی کووڈ سمپٹم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جو 8 دسمبر 2020 سے 4 جولائی 2021 تک جمع کیا گیا۔

    یہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12 لاکھ 40 ہزار 9 افراد نے ویکسین کی ایک خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9 لاکھ 71 ہزار 504 نے 2 خوراکیں استعمال کی تھیں۔

    ماہرین نے مختلف عناصر بشمول عمر، جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے کووڈ کا شکار ہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ویکسی نیشن نہ کروانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49 فیصد کم ہوتا ہے۔

    اسی طرح ویکسی نیشن کے بعد بیماری پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ 73 فیصد تک کم ہوتا ہے اور بیماری کی شدید علامات کا خطرہ 31 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    ان افراد میں عام علامات ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے ملتی جلتی ہے جن میں سونگھنے کی حس سے محرومی، کھانسی، بخار، سر درد اور تھکاوٹ قابل ذکر ہیں۔

    ان تمام علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور ویکسی نیشن والے افراد کی جانب سے ان کو رپورٹ کرنے کی شرح بھی کم ہوتی ہے اور بیماری کے پہلے ہفتے میں متعدد علامات کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    بریک تھرو انفیکشن کا سامنا کرنے والے افراد میں چھینکیں واحد علامت تھی جس کو زیادہ تر مریضوں نے رپورٹ کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب علاقوں کے رہنے والے ہوتے ہیں ان میں ویکسین کی ایک خوراک کے بعد بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، جبکہ عمر بذات خود خطرہ بڑھانے والا عنصر نہیں، مگر پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد میں ویکسینیشن کے بعد کووڈ کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ لانگ کووڈ کے بوجھ کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ ویکسی نیشن مکمل کرانے پر کووڈ سے متاثر ہونے اور بدقسمتی سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد علامات کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    مگر کمزور اور بزرگ افراد میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر ویکسین کی دوسری یا بوسٹر ڈوز دی جانے کی ضرورت ہے۔

  • لانگ کووڈ: موٹاپے کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    لانگ کووڈ: موٹاپے کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موٹاپے کا شکار افراد میں کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی اس تحقیق میں کووڈ کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کے خطرے کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں اس کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا کہ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان میں کووڈ کے دائمی مسائل کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ایسے 3 ہزار کے قریب افراد کا جائزہ لیا گیا جو کووڈ کو شکست دے چکے تھے اور ان کی مانیٹرنگ جنوری 2021 تک جاری رکھی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کی دائمی پیچیدگیاں بہت زیادہ عام ہوتی ہیں، بیماری کو شکست دینے والے لگ بھگ 40 فیصد افراد کو مختلف مسائل کا سامنا تھا۔

    نتائج سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کووڈ کے ابتدائی مرحلے میں اسپتال میں داخل ہونے کا خطرہ موٹاپے کے شکار افراد میں دیگر کے مققابلے میں 30 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی ثابت ہوا تھا کہ موٹاپا کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھانے والا ایک عنصر ہے جس کے باعث اسپتال اور آئی سی یو میں داخلے اور وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت زیادہ ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ اور اس کی دائمی پیچیدگیوں سے بچنے کا بہترین طریقہ ویکسی نیشن کروانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ویکسینز موٹاپے کے شکار افراد کو کووڈ سے بیمار ہونے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔ کن مریضوں میں طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہے، یہ جان کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مریضوں کے لیے ویکسینز ناگزیر ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد میں ویکسی نیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    اس تحقیق پر ابھی کام جاری ہے اور محققین کی جانب سے یہ تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کووڈ 19 کے شکار افراد کو کس طرح کی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

  • کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس صحت یاب ہونے والے افراد کی جان نہیں چھوڑتا بلکہ ایک سال بعد بھی دوبارہ حملہ آور ہوسکتا ہے اس بات کا انکشاف تحقیق کے بعد ہوا۔

    اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد مریضوں کو ایک سال بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ کوویڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کورونا وائرس کی وبا سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اس نئی تحقیق میں وہاں اس بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 12 سو میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بیماری کے ایک سال بعد بھی مختلف علامات کا سامنا تھا۔

    بیجنگ اور ووہان کے ہسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے چین کے صوبے ہوبئی کے مریضوں پر توجہ مرکوز کی تھی جس کے شہر ووہان میں 2019 کے آخر میں کووڈ کے اولین کیسز سامنے آئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 20 فیصد مریض 12 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے تھکاوٹ یا مسلز کی کمزوری کا سامنا کر رہے تھے۔

    اسی طرح 17 فیصد کو نیند کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ 11 فیصد کو بالوں سے محرومی کی علامت نے پریشان کیا۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ متعدد مریض صحتیاب ہوگئے ہیں مگر کچھ کی علامات کا تسلسل برقرار رہا بالخصوص ان افراد کو جو کوود سے بہت زیادہ بیمار ہوئے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مکمل صحتیاب نہیں ہوپاتے اور ایسے افراد کے لیے طویل المعیاد طبی نگہداشت کی سہولیات کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے ایسے مریضوں پر اب تک سب سے بڑے سروے تھا جو ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 1276 افراد کو شامل کیا گیا تھا جو جنوری سے مئی 2020 کے دوران  ووہان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔

    تحقیق میں شامل مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان کی صحتیابی کے 6 ماہ اور 12 ماہ مکمل ہونے پر طبی معائنے، لیبارٹری ٹیسٹ اور 6 منٹ کی چہل قدمی کے ٹیسٹ ک ذریعے صھت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ایک سال مکمل ہونے پر 6 ماہ کے مقابلے میں بہت کم افراد نے علامات کے تسلسل کو رپورٹ کیا، جبکہ 88 فیصد بیماری سے قبل کی ملازمتوں پر واپس لوٹ گئے۔

    تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر یہ مریض ووہان کے ان افراد کے مقابلے میں کم صحت مند ثابت ہوئے جن کو کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ ہر 10 میں سے 3 افرد کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ ان کو کسی حد تک ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کا بھی سامنا تھا۔4 فیصد مریضوں کو سونگھنے کے مسائل کا سامنا ریکوری کے ایک سال بعد بھی تھا۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایک سال بعد بیماری کی متعدل شدت کا سامنا کرنے والے 20 سے 30 فیصد مریضوں کو خون میں آکسیجن گزرنے کے مسئلے کا بھی سامنا تھا جبکہ وینٹی لیٹر سپورٹ پر رہنے والے 54 فیصد مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا تھا۔

    محققین نے کہا کہ کووڈ کے طویل المعیاد نتائج کو سمجھنے کے لیے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک مکمل طور پر نفسیاتی علامات جیسے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے جن کی شرح 6 ماہ کے مقابلے میں ایک سال بعد کچھ زیادہ تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس سے ہونے والی بیماری کے حیاتیاتی عمعل کا حصہ بھی ہوسکتا ہے یا جسمانی مدافعتی ردعمل اس کے پیچھے ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

  • لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد طویل عرصے تک برقرار رہنے والی اس کی علامات یعنی لانگ کووڈ مریضوں کی زندگی مشکل بنائے رکھتی ہے، تاہم اب اس کا ایک فائدہ بھی سامنے آگیا۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جن افراد کو کرونا وائرس کی سنگین شدت یا طویل المعیاد علامات (لانگ کووڈ) کا سامنا ہوتا ہے ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے جو مستقبل میں بیماری سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    اس تحقیق میں 548 ہیلتھ ورکرز اور 248 دیگر افراد کا جائزہ کرونا کی وبا کے آغاز سے اب تک لیا گیا۔

    مجموعی طور پر 837 میں سے 93 افراد یا 11 فیصد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی یا ان میں تحقیق کے آغاز سے 6 ماہ کے اندر اینٹی باڈیز بن گئیں۔ ان میں سے 24 میں علامات کی شدت سنگین تھی جبکہ 14 میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ایک تہائی مریضوں میں تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی جیسی علامات دیکھی گئیں جو کم ازکم ایک ماہ تک برقرار رہیں۔ 10 فیصد مریضوں میں علامات کا دورانیہ کم از کم 4 ماہ تک برقرار رہا۔

    کووڈ سے متاثر زیادہ تر افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں، اینٹی باڈیز کی سطح کا انحصار علامات کی شدت پر رہا۔

    سنگین علامات کا سامنا کرنے والے 96 فیصد مریضوں میں آئی جی جی اینٹی باڈیز دریافت ہوئیں جبکہ معمولی سے معتدل علامات کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 89 فیصد اور بغیر علامات والے مریضوں میں 79 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغی تبدیلیاں بشمول دماغی دھند، یادداشت یا بینائی کے مسائل متاثرہ افراد میں مختلف تھے مگر یہ علامات کئی ماہ تک برقرار رہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد میں علامات کا تسلسل وقت کے ساتھ برقرار رہا ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بھی وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ اینٹی باڈی کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی معمول کا حصہ ہوتی ہے، مگر یہ اینٹی باڈیز جسم کو دوبارہ بیماری سے بچانے میں طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

  • لانگ کوویڈ کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ نئی تحقیق

    لانگ کوویڈ کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ نئی تحقیق

    کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس حوالے سے کئی ماہ سے مسلسل تحقیقی کام جاری ہے۔

    دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بچوں میں کورونا کی طویل المیعاد علامات نظر آنے کے امکان کم ہوتے ہیں۔ وہیں دیگر مطالعہ کے مطابق بالغوں میں کووڈ 19 کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر آتے ہیں۔

    زیادہ تر ماہرین اور ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ بالغوں کے مقابلے میں بچے کورونا وائرس کے انفیکشن کا کم شکار ہوتے ہیں اور اگر وہ اس بیماری کا شکار ہو بھی جاتے ہیں تو عام طور پر ان میں ہلکے انفیکشن نظر آتے ہیں اور وہ جلد صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں۔ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی کنگز کالج لندن کی ایک حالیہ تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    بالغوں میں لانگ کووڈ( کووڈ کی طویل المیعاد علامات کا سامنا کرنا) کے حوالے سے متعدد طبی مطالعے کیے گئے ہیں لیکن حالیہ طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں لانگ کووڈ انفیکشن ہونے کے امکانات بالغوں کے مقابلے کم ہیں۔

    کووڈ سے متاثر بیشتر بچوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں 6 دن کے بعد کووڈ کی علامات ختم ہوجاتی ہیں۔ اس مطالعے کا ڈیٹا کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کے والدین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی دائی ماؤں کے ذریعہ ایپ پر شیئر کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

    کنگز کالج لندن کے محققین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق کے مطابق طویل عرصے تک کورونا وائرس کی علامات یا مضر اثرات کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

    Long COVID symptoms in children - YouTube

    دوسری جانب اگر ہم اسی حوالے سے کیے گئے دوسرے مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بالغوں میں کووڈ 19 کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر آتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 5 سے 17 سال کی عمر کے ڈھائی لاکھ برطانوی بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ستمبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ اسی عرصے میں متاثر ہونے والے 1 ہزار734 بچوں میں آہستہ آہستہ اس بیماری کی علامات نظر آنے لگی۔ ان بچوں کے صحت یاب ہونے تک ان کی صحت کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی۔

    تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ان متاثرہ بچوں میں کووڈ 19 کی علامات محض 6 دن میں کم ہونا شروع ہوگئیں اور وہ جلد ہی صحت یاب بھی ہوگئے۔

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر بچے 4 ہفتوں یعنی ایک ماہ کے اندر مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے، لیکن کچھ بچوں میں اس کے بعد بھی انفیکشن کی علامات نظر آئیں۔ تاہم ان علامات کے اثرات بالغوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔

    اس مطالعے میں ایک اور بات پتہ چلی کہ وہ بچے جو کم وقت میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں، ان میں انفیکشن کے مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہیں لیکن جن بچوں میں انفیکشن ایک ماہ سے زائد عرصے تک نظر آئے ہیں وہ تھکاوٹ اور جسمانی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں۔

  • کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والوں کے لیے حوصلہ افزا خبر

    کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والوں کے لیے حوصلہ افزا خبر

    لندن: برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس ویکسین کی 2 خوراکیں لگوانے والے اگر کووڈ 19 کا شکار ہوجائیں تو انہیں لانگ کووڈ کا سامنا کم ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا ویکسین کی دو خوراکیں لگوانے والے افراد کرونا وائرس کے پیدا کردہ نقصان دہ اثرات (لانگ کووڈ) سے دوسروں کی نسبت 50 فیصد زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔

    تحقیق میںکہا گیا کہ ویکسین کی 2 خوراکیں لگوانے والے افراد چکر، چھاتی کا درد اور توجہ مرکوز کرنے جیسے لانگ کووڈ کے مسائل سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔

    سائنٹفک ایڈوائزری گروپ فار ایمرجنسیز (ایس اے جی ای) نے برطانوی حکومت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے تمام عمر کے افراد میں 28 روز بعد بھی علامات کی موجودگی دوسروں کی نسبت نصف رہ گئی۔

    گروپ کے مطابق خواتین، بڑی عمر کے افراد اور موٹاپے یا زائد وزن کا شکار افراد میں یہ علامات بالخصوص چکر آنے کی شکایت طویل عرصہ رہ سکتی ہیں۔

    ایس اے جی اے نے مزید کہا کہ کرونا وبا کا شکار ہونے والے افراد میں 12 ہفتوں کے بعد بھی علامات کی موجودگی 2.3 تا 37 فیصد تک کا فرق رکھتی ہے، جو سائنس دانوں میں غیر یقینی کا باعث ہے۔

    گروپ کے مطابق اسے تحقیق کے نتائج پر بھرپور اعتماد ہے جو بتاتی ہے کہ 1.2 فیصد نوجوان اور 4.8 فیصد درمیانی عمر کے افراد میں علامات پائی گئیں۔

    برطانیہ کی ایک اور تحقیق کے مطابق مردوں اور عورتوں میں کرونا وبا کی سطح مختلف ہے۔ مردوں میں سانس کی دشواری، تھکن، سردی لگنا، بخار جب کہ خواتین میں بو کا احساس ختم ہو جانا، چھاتی کا درد اور مستقل کھانسی کی شکایت زیادہ ہو سکتی ہے۔

  • کورونا سے صحتیاب مریض کی آنکھیں خطرے کو کیسے ظاہر کرتی ہیں؟

    کورونا سے صحتیاب مریض کی آنکھیں خطرے کو کیسے ظاہر کرتی ہیں؟

    کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے متعدد مریضوں میں صحتیابی کے بعد کچھ ایسی علامات پائی جاتی ہیں کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی وائرس سے متاثر ہے۔

    کوویڈ19کے متعدد مریضوں کو بیماری سے صحتیابی کے بعد بھی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے، ایسے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    ترکی میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ لانگ کوویڈ کے شواہد ممکنہ طور پر صحتیاب مریض کی آنکھوں میں موجود ہوسکتے ہیں۔

    نیکمیٹن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آنکھوں کے قرنیے میں اعصاب کی کمزوری اور مخصوص مدافعتی خلیات کی تعداد بڑھنے سے لانگ کوویڈ کی شناخت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    تحقیق میں 40 ایسے کوویڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو بیمار ہونے کے بعد چکھنے یا سونگھنے کی حسوں سے محرومی، سر چکرانے، اعضا سن ہونے یا اعصابی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہوا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مریضوں میں لانگ کووڈ کو آنکھوں کے مسائل سے شناخت کرسکتے ہیں اور اس سے ایسی تھراپیز تک رسائی کا ذریعہ کھل جائے گا جو اعصاب کی مرمت میں مددگار ثابت ہوگی۔

    ایک تخمینے کے مطابق کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے، جو بیماری کو شکست دینے کے بعد 4 ہفتوں سے زیادہ تک مختلف علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اعصابی کو پہنچنے والا نقصان ممکنہ طور پر لانگ کووڈ میں کردار ادا کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں اسی خیال کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ہائی ریزولوشن امیجنگ لیزر تیکنیک کی مدد لی گئی اور آنکھوں کے قرینے میں اعصاب کو پہچنے والے نقصان اور مدافعتی خلیات کی تعداد کا جائزہ لیا گیا۔ یہ خلیات مدافعتی نظام کے اہم ترین ردعمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ کووڈ سے جسم کے متعدد حصے متاثر ہوسکتے ہیں، تو یہ حیران کن نہیں کہ اس سے آنکھوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس تیکنیک کے ذریعے آنکھوں کا معائنہ کرنا ان تفصیلات کے ایک ٹکڑے طور پر استعمال کیا جاسکے گا جو لوگوں میں لانگ کووڈ کی تشخیص میں معاون ہوں گی۔ تاہم فی الحال ان نتائج سے حتمی نتیجہ نکالا نہیں جاسکتا۔

    محققین کے مطابق ہماری تیکنیک صرف لانگ کوویڈ کے لیے مخصوص نہیں چونکہ یہ اعصاب کو نقصان کو پکڑا جاتا ہے تو یہ متعدد امراض کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے تاہم اگر اعصاب کو دیگر وجوہات کے باعث نقصان نہیں پہنچا تو ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لانگ کووڈ کا نتیجہ ہے۔

    اس تیکنیک کو ذیابیطس سے بینائی میں آنے والی پیچیدگیوں کی تشخیص کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

    یہ نئی تحقیق چند پہلوؤں سے محدود تھی، اس میں شامل افراد کی تعداد بہت کم تھی جبکہ اعصابی مسائل کی دت کے تعین کے لیے مختلف پیمانوں کی بجائے سوالنامے سے مد لی گئی تھی، محققین کے مطابق اس حوالے سے زیادہ تعداد میں مریضوں پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

    تحقیق میں شامل مریض کو کووڈ کو شکست دیئے ایک سے 6 ماہ ہوچکے تھے اور انہوں نے لانگ کووڈ کی علامات کا اظہار 28 سوالوں پر مشتمل فارم میں کیا۔ ان 40 افراد میں سے 22 کو 4 سے 12 ہفتے تک اعصابی علامات کا سامنا ہوا۔

    اعصابی علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے آنکھوں کے معائنے میں اعصاب کے نقصان کو دریافت کیا گیا جبکہ مخصوص مدافعتی خلیات کی تعداد میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا۔

    وہ افراد جن کو اعصابی علامات کا سامنا نہیں تھا ان میں بھی کسی حد تک آنکھوں کے اعصاب کو زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا مگر مدافعتی خلیات کی تعداد صحت مندد افراد کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

  • لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 کا سامنا کر کے اس سے صحت یاب ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد مریضوں میں بیماری کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا امکان ہوتا ہے۔

    زیورخ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 2020 میں عام آبادی میں کووڈ 19 سے بیمار ہونے والے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک چوتھائی سے زائد نے بتایا کہ وہ ابتدائی بیماری کے 6 سے 8 مہینے بعد بھی مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہوسکے۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں محققین کی زیادہ تر توجہ کووڈ 19 کے بوجھ میں کمی لانے پر مرکوز تھی۔ مگر حالیہ مینوں میں ایسے شواہد مسلسل سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بیماری طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

    ان طویل المعیاد اثرات کے لیے پوسٹ کووڈ 19 سنڈروم یا لانگ کووڈ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ اس تحقیق میں 431 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص فروری سے اگست 2020 کے دوران ہوئی تھی۔

    ان افراد سے بیماری کی تشخیص کے 7.2 ماہ بعد صحت کے بارے میں ایک آن لائن سوال نامہ بھرنے کے لیے کہا گیا۔

    بیماری کی تشخیص کے وقت 89 فیصد افراد میں بیماری کی علامات موجود تھیں جبکہ 19 فیصد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، ان افراد کی اوسط عمر 47 سال تھی۔

    مجموعی طور پر 26 فیصد افراد نے بتایا کہ کووڈ 19 کی ابتدائی تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی وہ مکمل طور پر بیماری کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔

    ان میں سے 55 فیصد افراد نے تھکاوٹ کی علامات کو رپورٹ کیا، 25 فیصد کو کسی حد تک سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ 26 فیصد کو ڈپریشن کی علامات نے پریشان کیا۔

    مجموعی طور پر 40 فیصد افرد نے بتایا کہ انہیں کم از کم ایک بار کووڈ 19 سے متعلق کسی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق آبادی پر کووڈ 19 کے اثرات پر مبنی تھی جس سے معلوم ہوا کہ 26 فیصد افراد تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے جبکہ 40 فیصد کو کم از کم ایک بار طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔

  • لانگ کووڈ کی وجہ سامنے آگئی

    لانگ کووڈ کی وجہ سامنے آگئی

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی کچھ افراد کو اس کی علامات کا طویل عرصے تک سامنا رہتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، اب ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ دریافت کرلی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں طبی ماہرین نے لانگ کووڈ کا باعث بننے والی ایک اہم وجہ کو دریافت کرلیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر 10 میں سے 1 یا 3 میں سے ایک مریض کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے، ابھی یہ واضح نہیں کہ لانگ کووڈ کی علامات براہ راست وائرس کا نتیجہ ہوتی ہیں یا بیماری کے نتیجے میں جسم میں تناؤ اور صدمے کی کیفیت اس کا باعث ہے۔

    برطانیہ کے امپریئل کالج لندن نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں اینٹی باڈیز کے ایسے مخصوص پیٹرن کو دریافت کیا ہے جو دیگر مریضوں یا صحت مند افراد میں نظر نہیں آتا۔

    ماہرین نے اسے آٹو اینٹی باڈیز کا نام دیا ہے جو امراض سے لڑنے کے بجائے جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوتی ہیں اور بیماری کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔

    لانگ کووڈ کے مریضوں کو شدید تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، مسلز میں تکلیف اور سر درد سمیت متعدد علامات کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں لانگ کووڈ کے روزانہ کیسز کی تعداد کتنی ہوسکتی ہے مگر یہ جوان افراد کے لیے تباہ کن ہے، جن کی زندگیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    اس آٹو اینٹی باڈیز پیٹرن کی دریافت کے بعد ماہرین کی جانب سے ایسے بلڈ ٹیسٹ کی تیاری پر کام کیا جائے گا جس سے لانگ کووڈ کی تشخیص ہوسکے۔

    پروفیسر آلٹمان کی جانب سے اس بلڈ ٹیسٹ کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ 6 ماہ کے دوران ہمارے پاس ایسا بلڈ ٹیسٹ ہوگا جس سے عام ڈاکٹر بھی لانگ کووڈ کی تشخیص کرسکیں گے۔

    اس مقصد کے لیے متعدد کووڈ کے مریضوں اور اس بیماری سے محفوظ رہنے والے درجنوں افراد کے خون کے نمونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ نمونوں کی جانچ پڑتال میں لانگ کووڈ کے مریضوں میں آٹو اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جو صحت مند افراد میں نہیں تھیں۔

    اگرچہ اینٹی باڈیز بیماریوں سے تحفظ کے لیے اہم دفاعی ہتھیار کا کام کرتی ہیں مگر کئی بار مدافعتی نظام ایسی آٹو اینٹی باڈیز بنا دیتا ہے جو غلطی سے جسم کے صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔