Tag: Long Covid

  • دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بعض مریضوں کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، اب حال ہی میں اس کی ایک اور علامت سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کو دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی جیسی علامت کا بھی طویل المعیاد بنیادوں پر سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں 875 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی جانب سے نظام تنفس کی بیماری کی علامات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 234 میں بعد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور محققین نے ویئر ایبل ڈیوائسز کی مدد سے ان کی بیماری کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچھ مریضوں کی دھڑکن کی رفتار اور نیند کے رجحان کو معمول پر آنے میں 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

    ویئر ایبل ڈیوائسز سے ان کے روزانہ قدموں سے توانائی کی سطح کی جانچ پڑتال سے دریافت ہوا کہ بیماری کی علامات کے آغاز کے بعد کم از کم 30 دن لگے جب ان کی جسمانی توانائی کی سطح معمول پر آسکی۔

    مجموعی طور پر کووڈ 19 کے شکار افراد میں دھڑکن کی رفتار کو معمول پر آنے میں اوسطاً 79 دن اور توانائی کی سطح بحال ہونے میں 32 دن لگے۔ دھڑکن کی بے ترتیبی کا مسئلہ ان افراد میں زیادہ عام تھا جن کو کووڈ کے دوران کھانسی، جسمانی درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا۔

    ماہرین نے کہا کہ تنائج سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے کی وجہ جاننا یہ تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ کس کو کووڈ سے منسلک ورم یا مدافعتی نظام تھم جانے کا سامنا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سنسر ڈیٹا اس وائرس سے لوگوں کے جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کو جاننے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد دل کی کسی قسم کی علامات کو نوٹس نہیں کرتے تاہم دھڑکن کی رفتار کا غیر اطمینان دہ احساس کچھ افراد کو ہوتا ہے۔

    کچھ افراد کو لگتا ہے کہ محض ٹوائلٹ تک جانے سے ہی ان کا دل تیزی سے بھاگنے لگا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ بیشتر افراد چند ہفتوں میں کووڈ کو شکست دے دیتے ہیں اور کسی قسم کے اثرات کا سامنا نہیں ہوتا، مگر جب دھڑکن کی رفتار بڑھتی ہے تو بیشتر افراد کو عدم اطمینان کا احساس ہوتا ہے، مگر اس سے ہٹ کر فی الحال کسی قسم کے سنگین نتائج سامنے نہیں آئے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو ان علامات کا سامنا 3 ماہ سے زیادہ ہوتا ہے یا جسمانی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں تو پھر خدشہ ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

  • لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    واشنگٹن: امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد سامنے آنے والے اثرات یعنی لانگ کووڈ پر ایک مفصل تحقیق کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کرونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔

    اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کروانا پڑا۔

    ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔

    دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیاں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔

    40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں اسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم دریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس تحقیق میں جن مریضوں کے ریکارڈ کو دیکھا گیا تھا ان میں کووڈ کی تشخیص فروری سے دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور ان کی مانیٹرنگ فروری 2021 تک کی گئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ 4 لاکھ 54 ہزار 477 افراد نے بیماری کے 30 دن یا اس کے بعد ڈاکٹروں سے مختلف علامات کی وجہ سے رجوع کیا۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے، اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں اس کے ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کی وجوہات کو شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    یہ دعویٰ امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے کرتے ہوئے بتایا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد کچھ مریضوں کو مختلف علامات جیسے سانس لینے میں دشواری، کھانسی، بخار، تھکاوٹ یا سینے میں تکلیف کا سامنا مہینوں تک ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کووڈ کو شکست دینے والے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی علامات کا سامنا ہوا تھا بالخصوص پھیپھڑوں کے افعال بدتر ہوگئے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 61 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور محقین نے ان کے پھیپھڑوں کے افعال کا جائزہ 2 اہم بنیادوں پر کیا۔

    یعنی کسی فرد کی جانب سے گہری سانس کے ذریعے جسم میں جانے والی ہوا کو خارج کرنے کی مقدار اور پھیپھڑوں میں آکسیجن خون کے سرخ خلیات میں تبدیل کرنا۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ 70 فیصد مریضوں کو مسلسل سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ یہ بھی تصدیق ہوئی کہ کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کا امکان زیادہ تھا۔

    اس کے بعد تحقیقی ٹیم نے مریضوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لے کر پھیپھڑوں کی علامات کے تسلسل کی حیاتیاتی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے 3 پروٹینز کو دریافت کیا جن کو پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا باعث قرار دیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ حیاتیاتی عناصر یا پروٹینز ایک مخصوص مدافعتی خلیات کی وجہ سے متحرک ہوتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ان وجوہات کو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے منسلک پایا تھا، یہ حیران کن تھا کہ ان پروٹینز کی مقدار میں اضافہ بیماری کے بعد بھی رہتا ہے جس سے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں برطانیہ کی ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

  • طویل مدتی کورونا وائرس کی علامات کیا ہوتی ہیں ؟

    طویل مدتی کورونا وائرس کی علامات کیا ہوتی ہیں ؟

    "لانگ کووڈ” یعنی طویل مدتی کورونا وائرس کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد میں تھکاوٹ، سانس کی تنگی سمیت ذہنی مسائل، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات عام ہوتی ہے، جس کے باعث ان کی روزمرہ سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کورونا سے صحتیابی کے بعد ان افراد کو متعدد علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، امریکا میں طویل المیعاد کورونا وائرس میں مبتلا رہنے والے بعض مریضوں پر ایک نئی طبی تحقیق کی گئی ، مایو کلینکل کی اس تحقیق میں 100 مریضوں کو شامل کیا گیا، جو کووڈ 19 کو شکست دے چکے تھے۔

    مایو کلینکل نے اس تحقیق کیلئے کووڈ 19 ایکٹیویٹی ری ہیبلیٹیشن پروگرام کو تشکیل دیا، جس کا مقصد کورونا سے صحتیاب ہونے والے یا لانگ کووڈ کے شکار افراد کا علاج کرنا تھا۔

    تحقیق کے دوران بیماری کے 93 دن بعد ان مریضوں کی جانچ پڑتال اور علاج کیا گیا ، مریضوں کی اوسط عمر 45 سال تھی ، جن میں 68 فیصد خواتین تھیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کورونا سے صحتیابی ہونے والے یا لانگ کووڈ کے شکار مریضوں میں سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی ،تحقیق کے دوران 80 فیصد افراد میں غیر معمولی تھکاوٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 59 فیصد افراد کو سانس کی تنگی سمیت ذہنی و دماغی مسائل کا سامنا ہوا، جس کے باعث مریضوں کے لیے روزمرہ کے کام مشکل ہوگئے۔

    محققین نے بتایا کہ کورونا کی مختلف علامات کے باوجود بیشتر مریضوں کے لیبارٹری اور امیجنگ نتائج معمول کے مطابق تھے، جو طویل مدتی کورونا وائرس کی تشخیص کے چیلنجز میں سے ایک ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کوویڈ کی علامات کے باعث مریضوں پر روزمرہ کی زندگی کی جانب لوٹنے کی کوشش کے دوران نمایاں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بیشتر مریضوں کو جسمانی تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    محققین کے مطابق ایسے مریضوں میں تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ 50 فیصد سے زیادہ اافراد میں یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوا۔

    خیال رہے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے، عموماً کورونا وائرس کی کم علامات والے مریض دو ہفتوں میں صحتیاب ہوجاتے ہیں جب کہ شدید علامات والے مریضوں کو صحتیاب ہونے کے لیے درکار وقت تین ہفتے کا درکار ہوتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ 19 کی علامات کو دیکھا گیا جسے لانگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے، اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زائد کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور لانگ کووڈ کی علامات کو مریضوں میں بیماری کی تشخیص کے 2 یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔

    بعد ازاں 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں علامات کا جائزہ لیا گیا اور 57 ہزار مریضوں میں سے 11 ہزار 400 میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے ان افراد میں 3 سے 6 ماہ بعد اور 6 سے 9 ماہ بعد نئی علامات کو کووڈ کے نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے 3 گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ 65 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان 4 گنا زیادہ تھا جبکہ 6 سے 9 ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان 65 سال کی عمر کے 35 فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اسی طرح 3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان 2.6 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

    6 سے 9 ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔

    اسی عرصے میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں 65 سال سے کم عمر خواتین میں لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

  • کرونا وائرس: بچوں کے لیے خطرات میں اضافہ

    کرونا وائرس: بچوں کے لیے خطرات میں اضافہ

    کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد بالغ افراد میں لانگ کووڈ کے بے شمار کیسز سامنے آئے تاہم اب بچوں میں بھی ایسے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والے بچوں میں مسلسل تھکاوٹ اور لانگ کووڈ کی دیگر علامات کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے روسی دارالحکومت ماسکو کے ایک اسپتال میں اپریل سے اگست 2020 کے دوران کووڈ کے باعث زیر علاج رہنے والے 500 سے زائد بچوں کے والدین سے انٹرویو کیے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایک چوتھائی کے قریب بچوں میں گھر لوٹنے کے 5 ماہ بعد بھی علامات کا تسلسل برقرار رہا تھا، ان میں سب سے عام تھکاوٹ، نیند اور سانس کے مسائل سب سے عام تھے۔

    ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے متاثر بچوں میں ابتدائی بیماری کے بعد بھی لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق میں شامل 518 بچوں میں سے 24 فیصد میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 7 سے 9 گھنٹے بعد بھی علامات کا تسلسل موجود تھا۔

    10 فیصد نے تھکاوٹ اور 7 فیصد نے نیند میں خلل کے مسائل کو رپورٹ کیا۔

    لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں میں چھوٹے بچوں کے مقابلے میں لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ نظر آتا ہے یا الرجی کی تاریخ بھی اس خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ نتائج ابتدائی ہیں مگر ڈاکٹروں کو بچوں میں لانگ کووڈ کے امکان کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے، تھکاوٹ سب سے عام مسئلہ ہے، ہم ایک یا 2 دن کی تھکاوٹ کی بات نہیں کررہے بلکہ ایسی تھکاوٹ کی بات کررہے ہیں جو مسلسل برقرار رہتی ہے اور اس کی وجہ کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد 8 فیصد سے زیادہ بچوں کو سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ بہتری آئی مگر 7 ماہ بعد بھی لگ بھگ 6 فیصد نے اس مسئلے کو رپورٹ کیا۔

    دیگر اسپتالوں جیسے سوئیڈن اور اٹلی میں بھی حال ہی میں بچوں میں لانگ کووڈ کے کیسز رپورٹ کیے گئے جس کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس وائرس کی بچوں پر اثرات کی تحقیق کی جانی ضروری ہے۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    لندن: برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار افراد کو اس کی علامات کا 6 ماہ تک سامنا ہوسکتا ہے، لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار بیشتر افراد کو کووڈ کی علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا ہے اور ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں 56 ممالک کے 3 ہزار 762 افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا جو جون سے قبل کووڈ 19 کا شکار ہوئے تھے اور ان میں بیماری 28 دن سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی تھی۔

    تحقیق کے ابتدائی نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تحقیق میں شامل 93 فیصد افراد بیماری کے 6 سے 7 ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    اس سروے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ انہیں 205 میں سے کسی علامت کا سامنا تو نہیں۔

    تحقیق میں 40 فیصد سے زائد افراد نے دماغی دھند اور مسلز میں تکلیف جیسی علامات کی شکایت کی، جس میں کوئی بہتری اتنے عرصے میں نہیں آئی، محققین کے مطابق لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    رواں ماہ ہی برطانیہ کے محکمہ شماریات نے لانگ کووڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔

    سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی جس کے بعد کھانسی، سر درد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔

    اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب خاتون کو نئے مسئلے کا سامنا!

    کرونا وائرس سے صحت یاب خاتون کو نئے مسئلے کا سامنا!

    انگلینڈ کی رہائشی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں کووڈ 19 کا شکار ہوئے 7 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم ان کی سونگھنے اور چکھنے کی حس تاحال بحال نہیں ہوئی۔

    44 سالہ سارا نامی یہ خاتون رواں برس مئی میں کووڈ 19 کا شکار ہوئی تھیں، ان کے مطابق اب 7 ماہ گزر جانے کے بعد بھی انہیں کافی کی خوشبو گاڑی کے دھوئیں جیسی لگتی ہے جبکہ ٹوتھ پیسٹ کا ذائقہ پیٹرول جیسا لگتا ہے۔

    سارا کے مطابق انہیں مئی میں ابتدائی طور پر تھکن اور گلے کی سوزش کا سامنا ہوا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنا ٹیسٹ کروایا، لیکن ٹیسٹ کی رپورٹ آنے سے قبل ہی وہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوگئیں۔

    سارا کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے صحت یاب ہوجانے کے بعد 6 ہفتے تک وہ دونوں حسوں سے محروم رہیں، اس کے بعد انہیں ایک نئے مسئلے کا سامنا ہوا۔

    ان کے مطابق اب انہیں نمک والی اشیا صابن کے ذائقے جیسی محسوس ہوتی ہیں، کافی کی خوشبو گاڑی کے دھوئیں جیسی جبکہ چاکلیٹ کیک اس قدر کسیلا لگتا ہے کہ وہ بے اختیار اسے تھوک دیتی ہیں۔

    سارا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے کھانا پکانا اور کھانا نہایت مشکل ہے، کھانے سے اٹھنے والی مہک انہیں سخت پریشان کردیتی ہے۔ ہر کھانے سے قبل وہ اسے سونگھتی ہیں، اگر وہ مناسب لگے پھر اسے کھاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کہ اب ان کی غذا چند مخصوص کھانوں پر مشتمل ہے جس میں مچھلی اور پنیر شامل ہے، تاہم انہیں خدشہ ہے کہ جلد وہ ان سے اکتا جائیں گی۔

    یاد رہے کہ ڈاکٹرز کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوجانا عام علامت ہے کیونکہ وائرس ناک کے ریسیپٹرز کو نشانہ بناتا ہے۔

    سارا نے فیس بک پر کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کا ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جس میں لوگ اپنے تجربات شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اس گروپ میں کئی دیگر افراد نے بھی سارا جیسی کیفیات کا سامنا کیا ہے۔