Tag: lucknow

  • بھارت: ٹرین میں پولیس اہلکار کی مسلمان خاتون سے بد سلوکی

    بھارت: ٹرین میں پولیس اہلکار کی مسلمان خاتون سے بد سلوکی

    لکھنؤ : بھارت میں ایک اور مسلمان لڑکی زیادتی کا نشانہ بن گئی۔ لکھنؤ سے چندی گڑھ جانے والی ٹرین میں پولیس اہلکار نے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں مسلمان خواتین کا گھر سے باہر نکلنا عذاب ہوگیا، مودی کے ترقی پذیر بھارت میں ایک اور گھناؤنا واقعہ پیش آیا۔ چلتی ٹرین میں مسلمان لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنادیا گیا۔

    زیادتی کرنے والا پولیس اہلکار نکلا، لکھنؤ سے چندی گڑھ جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار نے مسافر خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی۔

    گارڈ نے پولیس اہلکار کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو دیگر مسافروں نے پولیس اہلکار کی درگت بنادی۔ پولیس نے ملزم کو عوام کے نرغے سے نکال کر حوالات میں بند کردیا، مذکورہ مسلمان لڑکی کا تعلق میرٹھ سے ہے جسے اسپتال منتقل کردیا گیا۔


    مزید پڑھیں : بھارت: چارمسلم خواتین کے ساتھ زیادتی،مزاحمت پر ایک شخص قتل


    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں یو پی میں بھی گاڑی روک کر چار مسلمان خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور گھر کے سربراہ کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

  • آج خدائے سخن میرانیس کی برسی ہے

    آج خدائے سخن میرانیس کی برسی ہے

    آج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخں میر ببرعلی انیس کی تاریخ وفات ہے، انہوں نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لیکے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    .مرزادبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    جو ان کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیۓ ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جاۓ آبگینوں کو