Tag: lungs

  • دانتوں پر چاندی کی تہہ چڑھانے والے شخص کو جان کے لالے پڑ گئے

    دانتوں پر چاندی کی تہہ چڑھانے والے شخص کو جان کے لالے پڑ گئے

    دنیا بھر میں مختلف افراد کو اپنے جسم کے ساتھ عجیب و غریب تجربے کرنے کا شوق ہوتا ہے جو ان کی صحت کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، ایسے ہی ایک نوجوان کو اس وقت جان کے لالے پڑ گئے جب اس کے دانتوں پر چڑھی چاندی کی تہہ جسم کے اندر چلی گئی۔

    امریکی نوجوان کے دانتوں پر چڑھی چاندی کی تہہ حادثاتی طور پر نگلنے کے باعث اس کے پھیپھڑوں میں جا کر پھنس گئی۔

    ریاست وسکونسن سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان کو اس کے بعد شدید کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی اور سانس لینے کے دوران سیٹی بجنے جیسی آواز آنے لگی۔

    اس کیفیت پر جب ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ دانتوں پر چڑھا چاندی کا ملمع اس کے ایک پھیپھڑے میں جا کر پھنس گیا تھا۔

    امریکا کے کیورس میڈیکل جرنل میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے سے مذکورہ بالا کیس سامنے آیا، جس میں مذکورہ نوجوان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ایپی لیپٹک سیزر کے بعد اب روبصحت ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق 4 سینٹی میٹر لمبا ایک ماس اس کے پھیپھڑے میں موجود تھا، جسے ڈاکٹروں نے برونکو اسکوپی پروسیجر کے ذریعے باہر نکال لیا۔

  • زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    لندن: مائیکرو پلاسٹک پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں پایا گیا ہے، یہ انکشاف چند مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا۔

    برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی پائی گئی ہے، اس سلسلے میں جتنے نمونے تجزیے کے لیے لیے گئے تھے، تقریباً تمام نمونوں میں یہ ذرات پائے گئے۔

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی اب پورے کرۂ ارض پر پھیل چکی ہے، جس سے انسان کا بچنا ناممکن نظر آتا ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تشویش بہت بڑھ چکی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے سرجری سے گزرنے والے 13 مریضوں کے ٹشوز سے نمونے لیے تھے، جن میں سے 11 کیسز میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا، لیے گئے نمونوں میں سب سے زیادہ عام ذرات پولی پروپیلین کے تھے، جو پلاسٹک کی پیکیجنگ اور پائپوں میں، اور پولی تھیلین تھیرپٹالیٹ (PET) ذرات جو بوتلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    اس سے قبل 2 تحقیقی مطالعوں کے دوران مردہ افراد کے اجسام کے پوسٹ مارٹم کے دوران بھی پھیپھڑوں کے ٹشوز میں مائکرو پلاسٹک پایا گیا تھا اور اس کی شرح بھی زیادہ تھی۔

    یہ بات پہلے ہی سے علم میں آ چکی ہے کہ لوگ نہ صرف سانس کے ذریعے پلاسٹک کے چھوٹے ذرات اندر لے جاتے ہیں بلکہ کھانے اور پانی کے ذریعے بھی یہ جسم کے اندر جا رہے ہیں، محنت کش افراد سے متعلق بھی یہ معلوم ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار جسم میں جانے سے بیماری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

    مارچ میں پہلی بار انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹکس کا پتا چلا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذرات جسم کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم سکتے ہیں اور مختلف اعضا میں رہ سکتے ہیں، صحت پر اس کے اثرات ابھی تک نامعلوم ہیں، لیکن محققین کو اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے، کیوں کہ لیبارٹری میں مائیکرو پلاسٹک سے انسانی خلیوں کو نقصان پہنچتے دیکھا گیا، جب کہ یہ تو پہلے ہی معلوم کیا جا چکا ہے کہ فضائی آلودگی کے ذرات سال میں لاکھوں ابتدائی اموات کا سبب بنتے ہیں۔

    اس تحقیقی مطالعے کی ایک سینئر مصنف، برطانیہ کے ہل یارک میڈیکل اسکول کی محقق لارا سڈوفسکی نے کہا کہ ہمیں پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ذرات یا اس سائز کے ذرات ملنے کی امید بالکل نہیں تھی، یہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں ہوا کی نالیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہمیں توقع تھی کہ ان سائز کے ذرات اس گہرائی میں جانے سے پہلے فلٹر ہو جائیں گے یا پھنس جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ اس تحقیقی ڈیٹا کو فضائی آلودگی، مائیکرو پلاسٹک اور انسانی صحت کے میدان میں ایک اہم پیش کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے، اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں اس کے ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کی وجوہات کو شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    یہ دعویٰ امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے کرتے ہوئے بتایا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد کچھ مریضوں کو مختلف علامات جیسے سانس لینے میں دشواری، کھانسی، بخار، تھکاوٹ یا سینے میں تکلیف کا سامنا مہینوں تک ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کووڈ کو شکست دینے والے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی علامات کا سامنا ہوا تھا بالخصوص پھیپھڑوں کے افعال بدتر ہوگئے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 61 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور محقین نے ان کے پھیپھڑوں کے افعال کا جائزہ 2 اہم بنیادوں پر کیا۔

    یعنی کسی فرد کی جانب سے گہری سانس کے ذریعے جسم میں جانے والی ہوا کو خارج کرنے کی مقدار اور پھیپھڑوں میں آکسیجن خون کے سرخ خلیات میں تبدیل کرنا۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ 70 فیصد مریضوں کو مسلسل سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ یہ بھی تصدیق ہوئی کہ کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کا امکان زیادہ تھا۔

    اس کے بعد تحقیقی ٹیم نے مریضوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لے کر پھیپھڑوں کی علامات کے تسلسل کی حیاتیاتی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے 3 پروٹینز کو دریافت کیا جن کو پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا باعث قرار دیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ حیاتیاتی عناصر یا پروٹینز ایک مخصوص مدافعتی خلیات کی وجہ سے متحرک ہوتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ان وجوہات کو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے منسلک پایا تھا، یہ حیران کن تھا کہ ان پروٹینز کی مقدار میں اضافہ بیماری کے بعد بھی رہتا ہے جس سے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں برطانیہ کی ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس انسانی جسم کے جس عضو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ پھیپھڑے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے طبی ماہرین نے پہلی بار ایسا تفصیلی ماڈل تیار کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    امریکا کے محکمہ توانائی کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے ماہرین کی تحقیق طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئی۔ تحقیق سے وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور کیسے وہ وہاں سے دیگر اعضا تک پھیل جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ گہرائی میں جاکر تفصیلات سے وضاحت ہوتی ہے کہ اس وائرس سے جسم کو اتنا نقصان کیوں پہنچتا ہے اور اس کی بنیاد پر روک تھام کے ذرائع کی تلاش آسان ہوسکتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک مالیکیولر ماڈل تیار کیا تھا جس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی وائرل پروٹینز کی تحقیق کے لیے بہت زیادہ کارآمد ہے جو دیگر تکنیکوں سے بہت مشکل ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس میں ایسا پروٹین ہوتا ہے جو وائرس کی باہری جھلی میں اسپائیک پروٹین کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ پروٹین ای اس وائرس کو خلیات کے اندر نقول بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے جبکہ انسانی پروٹینز کو ہائی جیک کرکے وائرس کے اخراج اور منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل وائرس کے لیے بہترین ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے بدترین، بالخصوص کووڈ 19 کے معمر اور پہلے سے مختلف امراض کے شکار افراد کے لیے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب پھیپھڑوں کے خلیات میں خلل پیدا ہوتا ہے تو مدافعتی خلیات آ کر نقصان کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے پروٹینز سائٹو کائینز کا اخراج ہوتا ہے، یہ مدافعتی ردعمل ورم کو متحرک کر کے زیادہ بدتر کرتا ہے، جس کو سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے۔

    اس صورتحال میں وائرسز کے لیے پھیپھڑوں سے نکل کر دوران خون کے ذریعے دیگر اعضا بشمول جگر، گردوں اور شریانوں کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس منظر نامے میں مریضوں کو دیگر وائرسز سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا ہے جبکہ زیادہ ای پروٹینز بننے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ایک بار بار ہونے والا سائیکل بن جاتا ہے، یعنی مزید وائرسز ای پروٹٰنز بناتے ہیں اور خلیات کے پروٹینز کو ہائی جیک کرکے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، زیادہ پھیلتے ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم اس تعلقق پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔

    ماہرین نے ای پروٹین اور پھیپھڑوں کے پروٹین پی اے ایل ایس 1 کے درمیان تعلق کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا اور اس کی تصاویر بنائیں اور ان کو علم ہوا کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے، جس کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔

  • کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    لندن: کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اس کے اثرات اور نقصانات سامنے آرہے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایک اور تشویشناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو کئی ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔

    اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کر کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔ تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔

    نئی تکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بنا کر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا اسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔

    اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کوویڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر نئے اسکین سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصان کی شناخت ہوگئی تو یہ ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کے پیچھے چھپا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کرونا وائرس پھیپھڑوں پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟

    کرونا وائرس پھیپھڑوں پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟

    بیجنگ: چین میں کرونا وائرس کا شکار مریض کے پھیپھڑوں کے ایکسرے نے ڈاکٹرز کو تشویش میں مبتلا کردیا، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    چین کے شہر لاژو کے ایک اسپتال میں آنے والی 33 سالہ خاتون کے ایکسرے نے ڈاکٹروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔

    33 سالہ خاتون 102 بخار میں مبتلا تھیں اور انہیں سانس لینے میں مشکل کا سامنا تھا، انہیں گزشتہ 5 روز سے کھانسی کی بھی شکایت تھی۔ بعد ازاں ان میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔

    ڈاکٹرز کی جانب سے ان کے پھیپھڑوں کا ایکسرے لیا گیا تو ان کے پھیپھڑوں پر سفید دھبے پائے گئے۔ یہ دراصل وہ مائع تھا جو پھیپھڑوں کی خالی جگہوں پر جمع ہوگیا تھا اور اس سے سانس کی آمد و رفت مشکل ہوگئی تھی۔

    دو دن بعد جب مریضہ کا دوبارہ ایکسرے لیا گیا تو یہ سفید دھبے مزید نمایاں اور بڑھ چکے تھے۔ ڈاکٹرز نے اس مائع کو صاف کر کے سانس کی آمد و رفت کی جگہ بنائی جس سے مریضہ کی حالت میں کچھ بہتری واقع ہوئی۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس، وائرسز کی ان اقسام میں سے ہے جو پھیپھڑوں کو ہلکے نوعیت کے انفیکشنز میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    حالیہ کرونا وائرس کا شکار افراد کو سر درد اور گلے کی سوزش جیسی معمولی علامات کا سامنا ہے، اس سے شدید علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف شامل ہے۔

    بہت کم تعداد شدید ترین علامات یعنی انفیکشن، پھپیھڑوں کی خرابی اور نمونیا کا شکار ہورہی ہے جو موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ چین میں کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 304 ہوگئی ہے، کروناسے ایک ہلاکت فلپائن میں بھی سامنے آئی ہے۔ چین میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

  • خبردار! تمباکو نوشی بینائی کو متاثر کرسکتی ہے

    خبردار! تمباکو نوشی بینائی کو متاثر کرسکتی ہے

    لندن : ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ تمباکونوشی کی عادت میں مبتلا لاکھوں افراد اپنی بینائی کو داؤ پر لگا رہے ہیں، ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس نے بتایا ہے کہ سگریٹ میں کافی مہلک کیمیکلز ہائے جاتے ہیں جو آنکھوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اگرچہ تمباکو نوشی کا بینائی پر اثرانداز ہونا ایک معلوم حقیقت ہے تاہم ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق ہر پانچ تمباکو نوش افراد میں سے صرف ایک فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تمباکو نوشی اندھے پن کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

    برطانیہ کے رائل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلائنڈ پیپل کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد میں بینائی کھو دینے کی شرح ایسا نہ کرنے والے افراد کی نسبت دگنی ہوتی ہے۔

    بلائنڈ پیپل کا کہنا تھا کہ سگریٹ میں کافی مہلک کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو آپ کی آنکھوں کو متاثر کر سکتے ہیں یا ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر دھاتیں جیسا کہ سیسہ اور تانبا آنکھ کے پردے میں اکھٹی ہو سکتی ہیں۔ آنکھ کے پردے کا کام آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کو فوکس کرنا ہے۔ آنکھ کے پردے کا متاثر ہونا بصارت میں دھندلے پن کی بنیادی وجہ ہے۔

    بلائنڈ پیپل نے بتایا کہ تمباکو نوشی ذیابیطس کی وجہ سے بینائی میں پیدا ہو جانے والے مسائل میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آنکھ کے پیچھے موجود خون فراہم کرنے والی رگیں متاثر ہوتی ہیں۔تمباکو نوش افراد میں عمر کے ساتھ بینائی میں آنے والا انحطاط تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کی نسبت تین گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بینائی میں انحطاط کے باعث انسان ہر چیز کو واضح اور صاف انداز میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے، علاوہ ازیں تمباکو نوش افراد میں نظر کے اچانک کمزور ہو جانے کا اندیشہ تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد سے 16 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نظر کا اچانک کمزور ہونا بصری اعصابی نظام میں بگاڑ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دو ہزار سے زائد افراد سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں 18 فیصد کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی اندھے پن یا نظر کے کمزور ہونے کا باعث بنتی ہے جبکہ 76 فیصد کو پتا تھا کہ تمباکو نوشی کا تعلق کینسر سے ہے۔

    ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کا کہنا تھا کہ بینائی کی حفاظت کے لیے سب سے بہترین آپشن تمباکو نوشی کو مکمل ترک کرنا یا اس عادت کو کم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنی نظر کو باقاعدگی سے چیک کروائیں۔

    ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس سے وابسطہ ماہر بصارت آئیشاہ فضلین کا کہنا تھا کہ لوگوں کا عمومی خیال یہ ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی کا تعلق کینسر سے ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر افراد بینائی پر اس کے اثرات سے آگاہ ہی نہیں ہیں،تمباکو نوشی بینائی کے لیے خطرے کا باعث بننے والی کیفیات میں اضافے کرتی ہے جیسا کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ نظر متاثر ہونا۔ اور یہ وہ خاص وجہ ہے جس کے باعث تمباکو نوشی کرنے والوں کو اس عادت کو ترک کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔

  • خبردار! زہریلی اسموگ آںے کو ہے

    خبردار! زہریلی اسموگ آںے کو ہے

    ملک بھر کے بالائی علاقوں میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ میدانی علاقوں جیسے لاہور اور کراچی میں بھی ہلکی ہلکی ٹھنڈ شروع ہوچکی ہے جو خصوصاً صبح اور شام کے وقت زیادہ محسوس ہورہی ہے۔

    چند روز قبل بھی پنجاب کے مختلف شہروں میں دھند پھیل گئی تاہم رہائشیوں کا کہنا تھا کہ وہ دھند نہیں زہریلی اسموگ تھی جس کا زہریلا دھواں اور بدبو انہیں متاثر کر رہی تھی۔

    یاد رہے کہ ماہرین موسمیات و ماحولیات رواں برس ایک بار پھر لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں کے بھی زہریلی اسموگ کا شکار ہونے کی پیشن گوئی کر چکے ہیں۔

    اس زہریلی اسموگ نے گزشتہ برس لاہور اور بھارتی شہر نئی دہلی سمیت دنیا بھر کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہوگیا تھا اور اسکول کالجز بند کردیے گئے تھے۔

    یہ زہریلی اسموگ دراصل دھند ہی تھی جو بدترین فضائی آلودگی اور کاربن کے اخراج کے ساتھ مل کر جان لیوا زہریلی اسموگ کی شکل اختیار کر گئی۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق گزشتہ برس پاکستان اور بھارت میں اسموگ کی وجہ بھارتی کسانوں کا بڑی تعداد میں بے کار فصلوں کو جلانا تھا جس کا زہریلا دھواں بڑی مقدار میں فضا میں پھیل گیا۔

    ماہرین نے فضائی آلودگی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے رواں برس بھی اسموگ کے پھیلنے کی پیشن گوئی کی ہے۔

    صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تو اس اسموگ کا تقریباً آغاز ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ یہ زہریلی اسموگ آپ کے پھیپھڑوں کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتی ہے جس کے باعث آپ دمہ اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    یہاں آپ کو چند تجاویز بتائی جارہی ہیں جن کو اپنا کر آپ اپنے پھیپھڑوں کو اسموگ سے بچا سکتے ہیں۔


    رش والے مقامات سے بچیں

    ایسے مقامات جہاں ٹریفک کا رش زیادہ ہو وہاں چہل قدمی کرنے، سائیکلنگ کرنے یا کسی کھلی گاڑی میں سفر کرنے سے پرہیز کریں۔

    اسموگ کے سیزن میں گاڑیوں کا زہریلا دھواں اس کی خطرناکی میں کئی گنا اضافہ کرسکتا ہے جس سے آپ فوری طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ کوشش کریں اسموگ کے دنوں میں ایسے راستوں پر سفر کریں جہاں نسبتاً کم ٹریفک ہو۔


    ایئر کنڈیشن کا استعمال

    اب چونکہ اسموگ کا آغاز موسم سرما سے قبل ہی ہوچکا ہے تو دوپہر کے وقت کھڑکیاں کھولنے سے پرہیز کریں تاکہ باہر کی اسموگ زدہ ہوا اندر نہ آسکے۔ اس کی جگہ ایئر کنڈیشن اور پنکھوں کے ذریعے کمروں کو ٹھنڈا کریں۔


    بیرونی سرگرمیاں کم کردیں

    اگر آپ صبح یا شام کے وقت کھلی فضا میں ورزش کرنے کے عادی ہیں تو اس عادت کو اس وقت تک ترک کردیں جب تک کہ اسموگ آپ کی جان نہیں چھوڑ دیتا۔

    اسموگ کے دنوں میں جم یا گھر کے اندر ورزش کرنا ہی مناسب ہے۔ کھلی فضا میں جانے سے جتنا ممکن ہو پرہیز کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ نے کبھی اپنے پھیپڑوں کی صفائی کی؟

    کیا آپ سگریٹ پیتے ہیں؟ کیا آپ گزشتہ کئی سال سے سگریٹ پی رہے ہیں ؟ کیا آپ کسی بڑے اور آلودہ شہر کے رہائشی ہیں؟ اگر ہاں تو اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے نظامِ تنفس کے لیے کچھ کریں بصورت دیگر کئی بیماریاں آپ کو لاحق ہوسکتی ہیں اور ممکن ہیں کہ کچھ تو آپ کے بدن میں جگہ بنا چکے ہوں۔

    نظامِ تنفس یا سانس لینے کا نظام پورے جسم میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہیں اگر آپ ایک مضبوط اور صحت مند نظامِ تنفس کے مالک نہیں ہیں تو آپ کو بہت سے جسمانی صحت کے مسائل درپیش ہوسکتے ہیں جن میں سر فہرست سانس کی بیماریاں شامل ہیں جن میں استھما‘ پھیپڑوں کی سوجن اور مختلف اقسام کی کھانسی عام ہیں۔

    soup-2

    کیونکہ ہمیں ا ٓپ کی صحت کا خیال ہے لہذا ہم لائیں ہیں آپ کے لیے ایک ایسا نسخہ جو کہ آپ کے نظامِ تنفس کو بہتر بنائے گا ‘ دھویں سے آلودہ پھیپڑوں کی صفائی کرے گا اور کینسر جیسے موذی سمیت آپ کو متعدد بیماریوں سے محفوظ رکھے گا۔ اور نسخہ بنانے میں اتنا آسان ہے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔


    اجزاء


    ادرک کا ایک چھوٹا ٹکڑا
    چار سو گرام کٹا ہوا لہسن
    دو چائے کی چمچی ہلدی
    ایک لیٹر پانی
    چار سو گرام چینی

    soup-1


    طریقہ کار


    ایک برتن میں پانی لے کر اس میں چینی ملائیں اور ابلنے کے لیے رکھ دیں‘ جب پانی ابلنے لگے تو اس میں لہسن ‘ ادرک اور ہلدی شامل کریں اور پھر تیز آنچ پر پکائیں اور ٹھنڈا ہونے پر فریج میں محفوظ کرلیں۔

    soup


    استعمال کیسے کیا جائے؟


    بہترین نتائج کے لیے دو کھانے کے چمچے صبح نہا ر منہ اور دو چمچے رات سوتے وقت استعمال کرنے سے آپ کا سانس لینے کا نظام متعدد بیماریوں سے بچا رہے گا۔