Tag: malala yosuf zai

  • ملالہ کی اوسلو میں وزیراعظم سے ملاقات

    ملالہ کی اوسلو میں وزیراعظم سے ملاقات

    اوسلو: وزیراعظم نوازشریف نے آج ناروے میں ہونے والی اوسلو ایجوکیشن سمٹ میں شرکت کے بعد نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے ملاقات کی۔

    ملاقات کے دوران تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور صنفی امتیاز کو ختم کرنے پر کام کررہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

    وزیر اعظإ نے مزید کہا کہ ان کی حکومت کوشاں ہےتعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کا چارفیصد کردیا جائے۔

    انہوں نے ملالہ یوسف زئی کی تعلیم کے فروغ میں ذاتی دلچسپی کو سراہا اور کہا کہ وہ افراد جنہیں دہشت گردوں کی جانب سے تکلیف پہنچی ان کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، حکومت دہشت گردی کے سدباب کے لئے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔

    دوسری جانب نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے حکومت کی جانب سے تعلیم کے فروغ کے لئے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی تعریف کی۔

    ملالہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین پاکستان اکانومک کاریڈور کی تعمیرپاکستان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔

  • ہالی ووڈ میں ملالہ یوسف زئی پر بننے والی فلم کا ٹریلر ریلیز

    ہالی ووڈ میں ملالہ یوسف زئی پر بننے والی فلم کا ٹریلر ریلیز

    لاس اینجلس : پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر بننے والی ہالی ووڈ کی دستاویزی فلم۔ ہی نیمڈ می ملالہ۔ کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی شان سوات کی پہچان ملالہ یوسف زئی کی زندگی کے گرد گھومتی ہالی ووڈ کی دستاویزی فلم کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا ۔

    فلم کی کہانی تعلیم کیلئے جدوجہد کرنے والی ملالہ کی حقیقی زندگی کے گرد گھومتی ہے ۔ جو ہر خطرات کا سامنا ڈٹ کے کرتی ہے۔اور تعلیم عام کرنے کیلئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دیتی ہے۔

    دستاویزی فلم کے ہدایت کار آسکر ایوارڈ یافتہ ڈیوس گوگنھم ہیں۔ فلم دو اکتوبرکو ریلیز کی جائیگی، یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی بارہ جنوری 1997 کو سوات میں پیدا ہوئی۔

    پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان کے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔

    اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔10اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں طبعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔

  • ملالہ کی متاثرکن داستاں پر بننے والی ڈاکیومنٹری کا ٹریلرجاری

    ملالہ کی متاثرکن داستاں پر بننے والی ڈاکیومنٹری کا ٹریلرجاری

    پاکستان کی بیٹی اورنوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر بننے والی ڈاکیومنٹری فلم کا ٹریلرریلیز کردیا گیا ہے۔

    فلم کا نام ’’ ہی نیمڈ می ملالہ‘‘ ہے اوراس کے ہدایت کار ڈیوس گگن ہیئم ہیں۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ملالہ یوسف زئی اورانکے والد ضیا دنیا بھرمیں لڑکیوں کی تعلیم کے مشن پرسرگرمِ عمل ہیں۔ ملالہ کو طالبان نے اسی جرم کی پاداش میں اس وقت سر میں گولی مارکرقتل کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ محض 14 سال کی تھیں۔

    لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے اپنے عزم کے بارے میں ملالہ نے ڈاکیومنٹری میں کہا ہے کہ ’’ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ کو چننا ہوتا ہے کہ آپ خاموش رہیں گے یا اٹھ کھڑے ہوں گے‘‘۔

    It's here! Take a first look at HE NAMED ME MALALA, a documentary about Nobel Peace Prize winner Malala Yousafzai's life, story and personal journey as an education activist. Pledge to see the film only in theaters this October at http://bit.ly/1IlDIMgDirected by acclaimed documentary filmmaker Davis Guggenheim (An Inconvenient Truth, Waiting for "Superman"), the film shows us how Malala, her father Zia and her family are committed to fighting for education worldwide.

    Posted by Malala Fund on Thursday, June 18, 2015

    انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ہوں جنہیں تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے، میں اکیلی نہیں ہوں، میرے ہمراہ لاکھوں ہیں اور ہماری آواز ہمارا سب سے طاقتور ہتھیار ہے‘‘۔

    ملالہ نے اعتراف کیا کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے ان کے والدین کا ہاتھ ہے اگروہ کسی عام، ماں باپ کی بیٹی ہوتیں تو اب تک دو بچوں کی ماں بن چکی ہوتی۔

    گزشتہ رات ملالہ یوسف زئی جان اسٹیوارٹ نامی ٹی وی اینکر کے شو میں ڈاکیومنٹری بارے میں بتارہی تھیں،۔ اس سے پہلے بھی دن 2013 میں ملالہ اسی شو میں آچکی ہیں اور اسٹیوارٹ ان سے کافی متاثر ہوئے تھے۔

    ملالہ یوسف زئی ٹی وی اینکر جان اسٹیوارٹ کے ہمراہ

    سوشل میڈیا پرملالہ فنڈ نامی پیج پربتایا گیا ہے کہ یہ ڈاکیومنٹری اکتوبرمیں ریلیز کی جائے گی۔

  • ایسے پاکستانی جنہوں نے اپنی پہچان آپ بنائی اورپاکستان کی پہچان بنے

    ایسے پاکستانی جنہوں نے اپنی پہچان آپ بنائی اورپاکستان کی پہچان بنے

    زندگی آگے بڑھنے اوربڑھتے رہنے کا نام ہے تاریخ میں ہمیں کئی نام ایسے ملتے ہیں جو سونے کا چمچہ منہ لے کر یا کسی پہلے سے شہرت یافتہ خاندان میں پیدا نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی اورآج ساری دنیا انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، یہاں ہم کچھ ایسے ہی پاکستانیوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے زندگی کی تمام ترمشکلات کا سامنا کرکے اپنے لئے ایسے راستے بنائے کہ دنیا ان کے نقش قدم پرچلنا چاہتی ہے۔

    عبد الستارایدھی

    عبدالستارایدھی کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں ’پھیری والے‘تھے اور معمولی پیمانے پرکپڑا بیچا کرتے تھے لیکن آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اور رفاعی ادارے چلارہے ہیں۔ پاکستان کے اس عظیم سماجی رہنماء کو خدمتِ خلق کا جذبہ ان کی بیمار والدہ سے ملا جن کی وفات مفلوجی کی حالت میں ہوئی۔

    مہدی حسن

    مہدی حسن نے اپنی جوانی کے آغاز میں چیچہ وطنی اور بہاولپور میں موٹر مکینک کے طور پرکام کیا کہ اپنا اوراپنے خاندان کا پیٹ بھرسکیں لیکن انہوں نے اپنے خواب کو ترک نہیں کیا اورآج دنیا انہیں’شہنشائے غزل‘کے نام سے یاد کرتی ہے اور پاکستانی موسیقی کی تاریخ ان کے نام کے بغیرنا مکمل تصورکی جاتی ہے۔

    محمد یوسف

    اپنے دور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سرمایہ اور ٹیسٹ کرکٹ کے مایہ نازکھلاڑی محمد یوسف نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور انتہائی دشوار حالات میں گزارا۔ انہوں نے رکشہ چلایا اور کرکٹ شروع کرنے سے قبل ایک درزی کی دوکان میں ملازمت بھی کی۔

    ملک ریاض

    پاکستان کے دس متمول ترین افراد میں ایک نام ملک ریاض کا بھی ہے لیکن یہ دولت انہیں ورثے میں نہیں ملی۔ ملک ریاض نے اپنی زندگی کی شروعات ایک کلرک کی حیثیت سے کی تھی۔ آج نا صرف یہ کہ وہ ایک جانی پہچانی کاروباری شخصیت ہیں بلکہ ان کی شہرت کا سبب ان کی سماجی خدمات اورفلاحی کام ہیں جن سے پاکستان کے نادار افراد کی کثیر تعداد فوائد کشید کرتی ہے۔

    ملالہ یوسف زئی

    چھوٹی سی عمرمیں بڑے خواب آنکھوں میں سجانے والی ملالہ یوسف زئی سے کون واقف نہیں۔ سوات میں حالتِ جنگ کے دور میں اپنی تعلیم کے حصول کے لئے آواز اٹھا کرانہوں نے پاکستان کا ایک ایسا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔ طالبان نے انہیں اس جرم کی پاداش میں قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئیں اورآج وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہیں اوریہ ایوارڈ انہیں امن اورتعلیم کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کے صلے میں ملاہے۔

  • اوسلو: ملالہ کا خون آلود لباس نمائش کے لئے پیش کردیا گیا

    اوسلو: ملالہ کا خون آلود لباس نمائش کے لئے پیش کردیا گیا

    اوسلو: دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اپنا خون آلود لباس ’نوبیل پیس سینٹر‘ کے لئے وقف کردیا ہے۔ انہوں نے یہ لباس سن 2012 میں تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے سوات کے علاقے مینگورہ میں کئے گئے ایک حملے کے وقت پہنا ہواتھا۔

    نوبیل پیس سنیٹر کی جانب سے جاری کردیا مراسلے کے مطابق ملالہ یوسف زئی کا یونیفارم ناروے کے شہراوسلو میں ہونے والے نوبیل پیس پرائز نمائش برائے 2014 میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

    کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی کو بچوں کے حقوق کے لئے ان کی جدوجہد پرامن کے مشترکہ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

    نمائش کے لئے خصوصی طور پرکئے گئے ایک انٹرویو میں 17 سالہ ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ’میں جب اسکول جاتی تھی تو یہی یونیفارم پہنا کرتی تھی اوریہ میرے لئے بہت اہم ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ جس دن ان پرحملہ ہوا اس دن بھی وہ یہی یونیفارم پہنے ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول جانا انکا حق ہے اور وہ اپنے حق کی جنگ لڑرہی تھیں جب ان پرحملہ ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ میرا یونیفارم میری زندگی کا انتہائی اہم حصہ رہا ہے اوراب میں چاہتی ہوں کہ دنیا بھرکے بچے اسے دیکھیں اور یہ بات جان لیں کہ اسکول جانا ہر بچے کا حق ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئیے۔

    ملالہ یوسف زئی پر سن 2012 میں منہ ڈھانپے ایک دہشت گرد نے اس وقت حملہ کیا تھا کہ جب وہ اسکول جارہی تھیں اوران پر یہ حملہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی اردو سروس کے لئے لکھے گئے بلاگ کے نتیجے میں ہوا تھا جس میں انہوں نے طالبان کی جانب سے عورتوں پر تعلیم کی پابندی کی سخت مذمت کی تھی، انہوں نے وہ بلاگ ’گل مکئی‘ کے نام سے صرف 11 سال کی عمر میں لکھا تھا۔