Tag: Malaria

  • ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن

    ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد عوام میں ملیریا سے بچاؤ اور اس کے متعلق پیدا شدہ خدشات اور غلط فہمیوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    پاکستان کا شمار آج بھی ملیریا کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین ممالک میں کیا جاتا ہے۔ ملیریا اینو فلیس نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلنے والا متعدی مرض ہے جس کا جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    اس مرض کی صحیح تشخیص نہ ہونے سے ہر سال دنیا بھر میں ملیریا کے 20 کروڑ جبکہ پاکستان بھر میں 10 لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ملیریا دوسری عام پھیلنے والی بیماری ہے۔

    پاکستان میں گلوبل فنڈ کے تعاون سے ملیریا کی تشخیص کے لیے 3 ہزار 155 سرکاری و نجی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جن کا مقصد سنہ 2020 تک ملیریا کے مکمل خاتمے کے ہدف کو پورا کرنا ہے۔

    ملیریا سے زیادہ متاثرہ 66 اضلاع میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور فاٹا کے اضلاع شامل ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بخار، کپکپی، سر درد، متلی، کمر اور جوڑوں میں درد ملیریا کی بنیادی علامات ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مرض جان لیوا ہو سکتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ صفائی ستھرائی کا مناسب خیال رکھنے اور مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے سے ملیریا سے بچاؤ ممکن ہے۔

    مچھروں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر

    مچھروں سے پچنے کے لیے سب سے پہلے گھر سے پانی کے ذخائر ختم کریں۔ چھوٹی چھوٹی آرائشی اشیا سے لے کر بڑے بڑے ڈرموں میں موجود پانی کا ذخیرہ مچھروں کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انہیں یا تو ختم کریں یا سختی سے ایئر ٹائٹ ڈھانپ کر رکھیں۔

    سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت لمبی آستین والی قمیض پہنیں اور جسم کے کھلے حصوں کو ڈھانپ لیں۔

    جسم کے کھلے حصوں جیسے بازو اور منہ پر مچھر بھگانے والے لوشن کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    گھروں اور دفتروں میں مچھر مار اسپرے اور کوائل میٹ استعمال کریں۔

    دروازوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں میں جالی کا استعمال کریں۔

    گھروں کے پردوں پر بھی مچھر مار ادویات اسپرے کریں۔

    چند ایک پودے جیسے لیمن گراس ڈینگی مچھر کی افزائش کی روک تھام کے لیے بہترین ہیں۔

  • کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    پاکستان میں ملیریا کا مرض ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ملیریا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ڈینگی اور چکن گونیا بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امراض کے پھیلاؤ کی وجہ کلائمٹ چینج ہے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا عنوان’کلائمٹ چینج کے انسانی صحت پر مضمرات اور زراعت سے اس کا تعلق‘ ہے۔ تحقیق میں طلبا و اساتذہ دونوں نے حصہ لیا۔

    تحقیق کی سربراہ پروفیسر ثوبیہ روز نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرات میں اضافہ پانی کے معیار اور غذا کو متاثر کر رہا ہے جبکہ یہ قدرتی آفات خصوصاً سیلابوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے مختلف امراض جنم لے رہے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    ان کے مطابق ان کی ٹیم نے کلائمٹ چینج اور ملیریا کے درمیان تعلق کی جانچ کے لیے پنجاب کے 15 ضلعوں میں تحقیقی سروے کیا۔

    پروفیسر ثوبیہ روز کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت میں مختلف تبدیلیاں مچھروں کی پیداوار اور نشونما میں اضافے کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ملیریا کے پھیلاؤ میں اضافے کا تعلق کم علمی اور صحت و صفائی کے فقدان سے بھی ہے۔ اس سلسلے میں مظفر گڑھ کا علاقہ ملیریا کا آسان ہدف پایا گیا جہاں صحت کی سہولیات نہایت ناقص اور شرح خواندگی بے حد کم ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظفر گڑھ میں زیادہ تر کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ملیریا کا نشانہ بنتے ہیں جو مختلف ماحول، موسم اور درجہ حرارت میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض موسم مچھروں کے لیے نہایت سازگار ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے حفاظت کریں

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ جو کسان ملیریا کا شکار نہیں ہوئے وہ نسبتاً تعلیم یافتہ تھے، مختلف بیماریوں اور ان کے بچاؤ کے حوالے سے شعور رکھتے تھے جبکہ وہ صحت و صفائی کا بھی خیال رکھتے تھے۔

    ماہرین نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا کہ ہر علاقے کے ماحول اور اس کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے کے لیے علیحدہ طبی پالیسی بنائی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز، ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار

    چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز، ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار

    کراچی :  چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز ہوگیا ہے، چکن گنیا سے پہلے ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں چکن گنیا سے قبل ڈینگی اور ملیریا کی تشخیص ضروری قرار دے دی گئی، ڈینگی کنٹرول پروگرام کی جانب سے ابراہیم حیدری سمیت ملیر کھوکھراپار میں ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ شروع کردیئے گئے ۔

    ڈائیریکٹر ڈینگی اینڈ پریوینشن کنٹرول پروگرام مسعود سولنگی کے مطابق ابراہیم حیدری میں ملیریا کے 4 جبکہ ڈینگی کا ایک کیس سامنے آیا ،ابراہیم حیدری میں ہزاروں ریکارڈ ہونے والے کیسز مبینہ طور پر چکن گنیا کے ہیں ،ایک ہی مچھر سے ڈینگی اور چکن گنیا پھیلتا ہے ، تینوں بیماریوں کی علامات ایک جیسی ہونے کی بنا پر ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ شروع کئے گئے ہیں۔

    مسعود سولنگی کا کہنا ہے کہ چکن گنیا سے قبل مریض کا ڈینگی اور ملیریا کا ٹیسٹ ضروری ہے ، جہاں جہاں سے چکن گنیا کے کیس ریکارڈ ہونگے، وہاں پر پہلے ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ کئے جائینگے ، چکن گنیا کی تشخیص کے لئے بیس ہزار کٹس کا آرڈر بھی دے دیا گیا ، چکن گنیا کی بروقت تشخیص کی کٹس فنلینڈ سے منگائی گئی ہیں ، چکن گنیا کی ٹیسٹ کٹس کے ساتھ صوبے بھر میں چکن گنیا کا ٹیسٹ ممکن ہوجائے گا۔


    مزید پڑھیں  کراچی چکن گونیا کی لپیٹ میں


    یاد رہے کہ بڑے پیمانے پر بیماری پھیلنے کے باوجود کراچی میں چکن گونیا کی تشخیص کا کوئی انتظام نہیں، متاثرہ افراد کے خون کے نمونے این آئی ایچ اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جہاں سے مریضوں میں چکن گونیا پازیٹو کی تصدیق کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے چکن گونیا، ملیریا اور ڈینگی سے متعلق دورے میں شہر میں گندگی کے ڈھیروں کوبیماری کی بڑی وجہ قرار دیا تھا۔

    اضح رہے کہ کراچی میں اب تک ڈھائی سو سے زائد چکن گونیا کے مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔

  • ایف آئی اے نے 50 کروڑ کی ویکسین برآمد کرلی

    ایف آئی اے نے 50 کروڑ کی ویکسین برآمد کرلی

    اسلام آباد : ایف آئی اے نے چھاپہ مار کاروائی کے دوران 5 کروڑ روپے مالیت کی سرکاری ویکسین برآمد کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خفیہ اطلاع کی بناء پر ایک گودام پر چھاپہ مارا گیا جس کے دوران گودام کے خفیہ حصوں سے خسرہ اور ملیریا کی ویکسین کی بوتلیں برآمد ہوئیں۔


    ایف آئی اے کا قومی ادارہ صحت کے ویئر ہاؤس پر چھاپہ، خراب ویکسین برآمد


    ایف آئی اے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز بھی این آئی ایچ کے قریب واقع اس گودام پر چھاپہ مارا گیا تھا جس میں چوالیس کروڑ روپے مالیت کی ویکسین بر آمد ہوئی تھی جبکہ آج برآمد ہونے والی ویکسین کی مالیت 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ایف آئی کے مطابق کل پچاس کروڑ روپے مالیت کی ویکسین زمین میں دبائی گئی تھی۔

    vaccc

    دستاویزات کے مطابق ملیریا اور خسرہ سے بچاوٗ کی یہ ویکسین پنجاب حکومت کو وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی تھی اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دریافت شدہ ویکسین میں کافی تعداد کی تاریخِ تنسیخ ختم ہونے میں ایک سال سے زائد کاعرصہ باقی ہے۔

    ایف آئی اے کے مطابق سیکرٹری ہیلتھ سے اس معاملے میں جواب طلب کرلیا گیا ہے اورمتعلقہ محکمے کی جواب دہی کے بعد مزید چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔

  • ملیریا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد نصف رہ گئی

    ملیریا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد نصف رہ گئی

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ عالمی پیمانے پر ملیریا کے خلاف کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اس مرض کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد نصف ہو گئی ہے۔

    رپورٹ میں پاکستان کو مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں شامل کیا گیا ہے، اور وہاں بھی سنہ 2000 کے بعد سے ملیریا سے ہونے والی اموات کی شرح آدھی رہ گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس خطے میں ملیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد سنہ 2000 میں 2166 تھی، جو 2013 میں کم ہو کر 1027 رہ گئی۔ خطے کے دو سب سے متاثرہ ملکوں میں سوڈان اور پاکستان شامل ہیں، جہاں اس خطے کی 90 فیصد اموات واقع ہوئیں: سوڈان میں 688 اور پاکستان میں 244۔

    اس خطے میں ملیریا کے کل مریضوں کا 27 فیصد حصہ رہتا ہے۔

    تاہم رپورٹ میں لکھا ہے کہ غیر معیاری ڈیٹا کی ترسیل کے باعث پاکستان میں سال بہ سال رجحان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں مرض پیدا کرنے والا جرثومہ پلازموڈیم فیلسی پیرم نہیں، جو افریقہ میں بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہاں پلازموڈیم وائویکس ملیریا پیدا کرتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔