Tag: Malika tarum Noor jahan

  • ملکہ ترنم نورجہاں کی بیٹیوں کا اپنی والدہ کو زبردست خراج عقیدت، ویڈیو دیکھیں

    ملکہ ترنم نورجہاں کی بیٹیوں کا اپنی والدہ کو زبردست خراج عقیدت، ویڈیو دیکھیں

    کراچی : ماضی کی پاکستانی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں 23دسمبر سال2000کو اس دار فانی سے کوچ گرگئی تھیں، ان کی 20ویں برسی کے موقع پر ان کی صاحبزادیوں اپنی والدہ کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔

    تمغۂ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل معروف گلوکارہ و اداکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی بیٹیوں حنا درانی، مینا حسن اور نازیہ اعجاز خان نے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو جاری کی اور ان کی یادوں کو مداحوں سے شیئر کرتے ہوئے اپنی والدہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔

    حنا درانی کی بیٹی اور میڈم کی پوتی میزبان نتاشا خالد سے یو ٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میڈم کے انتقال کے بعد سے ان کی زندگی کیسی رہی، اس ویڈیو میں انہوں نے اپنی والدہ کی دانشمندی اور ان کے ساتھ گزاری زندگی کے تجربات بیان کیے۔

    حنا درانی نے کہا کہ ہماری والدہ کی ایک بڑی بہن تھیںآپی عیدت جو بہت خوبصورت تھیں، وہ امریکی اداکارہ کیٹ ونسلٹ جیسی لگتی تھیں اور ان کے لیے ماں جیسی تھیں، انہوں نے بتایا کہ کس طرح شوہر سے علیحدگی کے باوجود انہوں نے باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھا تھا۔

    اپنی والدہ کی حب الوطنی کی مثال دیتے ہوئے حنا درانی نے کہا کہ ان کی والدہ کو پاکستان سے بہت زیادہ محبت تھی، وہ بیرون ملک سے وطن واپسی پر وہ اپنے ملک کی سرزمین پر سجدہ ریز ہوگئی تھیں۔

    Noman sent Today at 19:06

    حنا درانی نے مزید کہا کہ ‘سابق صدر پرویز مشرف ایک مرتبہ ہمارے گھر آئے تھے اور والدہ کو بتایا تھا کہ وہ جنگ کے دوران ان کے نغمے سنتے تھے اور وطن کے لیے ان کا جذبہ بڑھاتے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا ان کے قدموں میں تھی لیکن نور جہاں کے لیے ان کے 6 بچے ہی ان کی دنیا تھے، انہوں نے کبھی اپنے بچوں میں خامی نہیں دیکھی وہ صرف انہیں محبت کرتی تھیں۔

    ملکہ ترنم کی بیٹیوں نے کہا کہ ‘نور جہاں کے دن، رات اور فرصت کے تمام اوقات ان کے بچوں کے لیے تھے اور ہم نے بھی ان سے ایسی ہی عادات اپنائی ہیں، ہم تینوں اپنے بچوں کے لیے اب ان کے جیسی مائیں ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Hina Durrani (@_hinadurrani)

    ملکہ ترنم کی بیٹیوں کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کو شاعری کا بہت زیادہ شوق تھا، انہوں نے بتایا کہ جب ہماری والدہ لکھتی تھیں تو احمد فراز صاحب میری والدہ کی اصلاح کرتے تھے اور ان کے کام میں ترمیم کرتے تھے۔

    خیال رہے کہ شوہر سے علیحدگی کے بعد میڈم نورجہاں نے اپنی بچیوں کو بورڈنگ اسکول بھیج دیا تھا لیکن وہ انہیں بہت زیادہ یاد کرتی تھیں۔

    ملکہ ترنم کی بیٹیوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ نور جہاں نے کار کی ڈگی میں تین صدقے کے بکرے ان کے بورڈنگ اسکول بھیجے تھے کیونکہ والدہ نے کوئی برا خواب دیکھا تھا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری سالگرہ پر بھی کافی پرجوش تقریب ہوتی تھی، چاہے کسی کی بھی سالگرہ ہو ہم تینوں کی تمام کلاس فیلوز کو مدعو کیا جاتا تھا۔

    نور جہاں کی بیٹیوں نے کہا کہ انہوں نے ہمیں شاید بورڈنگ بھیج دیا ہو لیکن ہم ہمیشہ ساتھ تھے، ہم بورڈنگ کے وہ بچے تھے جو باہر جاتے تھے اور ہر ویک اینڈ پر ان سے ملتے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف ایک اچھی آواز کی مالک تھیں بلکہ ان کی پرسنالٹی بھی بہت شاندار تھی اگر آپ ملکہ ترنم کی تصاویر دیکھیں تو ان کا اسٹائل ہمیشہ نیا ہوتا تھا، وہ اپنے نئے ٹرینڈز بناتی تھیں، اور خود کو چاق و چوبند رکھنے کیلئے باقاعدہ واک کرتی تھی ہم نے ان سے خود کو گروم کرنا بھی سیکھا ہے۔

    میڈم کی صاحبزادیوں کا کہنا تھا کہ وہ بہت شائستہ مزاج رکھتی تھیں، میں نے کبھی انہیں اپنے بارے میں سوچتے نہیں دیکھا تھا، وہ بہت زیادہ خیراتی کام کیا کرتی تھیں، وہ کسی جگہ پر مانگنے والے یا کسی ضرورت مند خاتون کو دیکھ لیتی تھیں کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے، اس کی فوری مدد کیاکرتی تھیں انہوں نے اپنی پوری زندگی یہی کیا۔

    علاوہ ازیں ملکہ ترنم کی 20ویں برسی کے موقع پر ان کے نواسے اور اداکار و کامیڈین احمد علی بٹ نے اپنی نانی کی ایک یادگار تصویر شیئر کی ہے۔

    انسٹاگرام اکاؤنٹ پر جاری اسٹوری میں احمد علی بٹ نے اپنی والدہ ظل ہما، نانی نور جہاں اور بھائیوں کے ساتھ بچپن کی ایک یادگار تصویر شیئر کی۔

    احمد علی بٹ نے اپنی اسٹوری میں ملکہ ترنم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اس عورت کے نام جو مردوں کی دنیا میں اٹھ کھڑی ہوئی اور ملکہ بنی، نورجہاں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی 19ویں برسی، میڈم آج بھی مداحوں کے دلوں میں بستی ہیں

    ملکہ ترنم نور جہاں کی 19ویں برسی، میڈم آج بھی مداحوں کے دلوں میں بستی ہیں

    لاہور : لازوال گیتوں سے اپنی آواز جادو جگانے والی برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے19برس بیت گئے مگر اُن کا فن آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 19ویں برسی منائی جارہی ہے، مگر وہ اپنے صدا بہار گیت اور غزلوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر1926کو قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔ انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار بےبی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘ ’ہیرسیال‘شامل ہیں۔ موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔

  • برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے

    برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے

    لاہور : لازوال گیتوں سے اپنی آواز جادو جگانے والی برصغیر کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے18برس بیت گئے مگر اُن کا فن آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 18ویں برسی منائی جارہی ہے، مگر وہ اپنے صدا بہار گیت اور غزلوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر1926کو قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔
    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار  بےبی  نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘ ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔
    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔


    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔