Tag: malnutrition

  • 2022 کا سیلاب: آج بھی لاکھوں پاکستانی بچے غذا کی کمی سے موت کے رسک پر ہیں

    2022 کا سیلاب: آج بھی لاکھوں پاکستانی بچے غذا کی کمی سے موت کے رسک پر ہیں

    اسلام آباد: امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ 2022 کے سیلاب کے باعث آج بھی لاکھوں پاکستانی بچے غذا کی کمی سے موت کے رسک پر ہیں۔

    ترجمان امریکی سفارت خانہ جوناتھن لالی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2022 کے سیلاب نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی کو متاثر کیا، خواتین اور بچے سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے، اور آج بھی لاکھوں پاکستانی بچوں کو غذا کی کمی کی وجہ سے موت کا خطرہ لا حق ہے۔

    ترجمان نے کہا امریکا نے پاکستان کو سیلاب اور سیلاب سے بحالی کے لیے 215 ملین ڈالرز فراہم کیے، ان میں سے 100 ملین ڈالر خوراک کے لیے مختص کیے گئے، اور ریلیف پروگرام کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام سے مل کر کام کیا گیا۔

    ترجمان کے مطابق 1 لاکھ 35 ہزار بچوں کو ایمرجنسی غذائی ریلیف فراہم کیا گیا، 74 ہزار سے زائد حاملہ خواتین کی امداد کی گئی، صحت سہولیات کے لیے بلوچستان اور سندھ میں 12 نیوٹرائزیشن سینٹرز قائم کیے گئے۔

    جوناتھن لالی نے مزید بتایا کہ رواں سال امریکی سفیر نے 39 ہزار بچوں کے لیے مزید 486 ٹن خوراک فراہم کی، کُل 3 لاکھ 17 ہزار خواتین اور بچوں کو امداد فراہم کی گئی، انھوں نے کہا کہ امریکا اس اہم معاملے پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔

  • افغانستان میں بچوں کی زندگی کو خطرہ، یونیسیف نے خبردار کردیا

    افغانستان میں بچوں کی زندگی کو خطرہ، یونیسیف نے خبردار کردیا

    نیویارک: اقوام متحدہ کے فنڈز برائے اطفال (یونیسیف)نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں غذائی قلت جنگ سے زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن سکتی ہے۔

    یونیسیف کی جانب سے جاری بیان میں خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران عروج پر ہے، یہاں کے اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، بےروزگار والدین، منہدم معیشت اور بچےبھوک سے دوچارہیں۔

    یونیسیف نے کہا کہ ہنگامی بنیادوں پر افغانستان میں بحران سے نمٹنے کیلئے اقدام کئے جائیں فوری اور مناسب اقدام نہ کئے گئے تو افغانستان میں بحران جنگ سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بن سکتا ہے اور رواں سال 10 لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت سے ہلاک ہوسکتے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی دنیا سے اپیل کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر افغانستان میں بحران سےنمٹنےکیلئے اقدام کئے جائیں۔

    یہ بھی پڑھیں: امریکا کا افغانستان کے حوالے سے بڑا اعلان

    ادھر عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق افغانستان کی چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں، ان میں نو ملین قحط کے بہت قریب ہیں۔

    واضح رہے کہ اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں پہلے ہی موجود سنگین انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے، عالمی امداد اور مالی معاونت بند ہونے کی وجہ سے خشک سالی، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملازمتیں ختم ہونے کے اثرات مزید گھمبیر ہو چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ بھی خبردار کرچکا ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان میں پانچ سال کی عمر تک کے لاکھوں بچوں کو زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والی شدید غذائی قلت کے پیش نظر علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ 33 لاکھ بچے شدید نوعیت کی غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔

  • افغانستان میں غذائی قلت، کروڑوں افراد اموات کا خدشہ

    افغانستان میں غذائی قلت، کروڑوں افراد اموات کا خدشہ

    لندن : افغانستان کی سابقہ حکومت جس عالمی امداد کے سہارے کھڑی تھی وہ اب طالبان کی آمد سے بند ہوچکی ہے جس کے باعث ملک شدید مالی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکہ منجمد کرچکا ہے۔

    برطانیہ کی ایک درجن سے زیادہ نمایاں امدادی ایجنسیوں نے افغانستان میں لاکھوں افراد کے لیے قحط کو روکنے کے لیے عوامی عطیات کے لیے ہنگامی اپیل شروع کرنے کےلیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔

    برطانیہ کی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے مطابق اگلے تین ماہ میں دس لاکھ بچے غذائی قلت سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں اور22 ملین سے زیادہ بھوک کے خطرے کا شکار ہوجائیں گے۔

    آکسفیم، دی برٹش ریڈ کراس اور دیگر13 خیراتی ادارے مل کر آفت سے بچنے میں مدد کے لیے رقم اکھٹی کرنے کی اپیل شروع کر رہے ہیں۔

    برطانوی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے خبردار کیا کہ افغانستان میں کورونا کی وبا، تنازعات اور خشک سالی نے ملک کو ایک "ٹپنگ پوائنٹ” پر پہنچا دیا ہے جس سے8 ملین افراد کو بھوک کا خطرہ لاحق ہے۔

    افغانستان بھی ایک چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے میں بدترین خشک سالی کی لپیٹ میں تھا، ملک کی زیادہ تر گندم کی فصل برباد ہوچکی ہے اور اس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

    برطانوی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جیسے ہی منجمند موسم شروع ہوگا صورت حال مزید خراب ہو جائے گی، ہمیں جانیں بچانے کے لیے ابھی کام کرنا چاہیے۔

    خیراتی ادارے پہلے سے ہی زندگی بچانے والی امداد فراہم کررہے ہیں، اپنے آپریشنز کو بڑھا رہے ہیں اور ضرورت مندوں تک پہنچ رہے ہیں۔

    برطانوی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صالح سعید نے کہا کہ صورتحال پہلے سے ہی خوفناک سے آگے ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔ عوامی عطیات کا استعمال بھوکے خاندانوں کو ہنگامی خوراک اور نقد رقم فراہم کرنے، چھوٹے بچوں اور ماؤں کے لیے نیوٹریشن فراہم کرنے، غذائی قلت کے علاج میں ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کی مدد اور خاندانوں کو گرم رہنے میں مدد کے لیے موسم سرما کی کٹس کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    برٹش ریڈ کراس کی میرین ہورن نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا اور اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے سب سے بنیادی مدد مانگ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لوگ روایتی طور پر لچک دار تھے لیکن اب ’سرنگ کے آخر میں روشنی نہیں کے ساتھ مایوسی کا احساس ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ یہ اب چیزوں کو بہتر بنانے کے بارے میں نہیں ہے، یہ زندگیاں بچانے اور بہت دیر ہونے سے پہلے لوگوں تک پہنچنے کے بارے میں ہے۔

  • 5 سال سے فاقے کرنے پر مجبور نوجوان طالبہ موت کے گھاٹ اتر گئی

    5 سال سے فاقے کرنے پر مجبور نوجوان طالبہ موت کے گھاٹ اتر گئی

    چین سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان طالبہ 5 سال سے فاقے کرنے کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی، وو شاعری کرنا اور مضامین لکھنا چاہتی تھی لیکن اس کی شدید غربت اس کی جان لے گئی۔

    24 سالہ وو ہاؤن چین کے صوبے گیژو سے تعلق رکھتی تھیں، وہ گزشتہ 5 سال سے روزانہ 2 یان پر گزارا کر رہی تھیں۔ سخت غذائی قلت کے باعث وہ اسپتال میں داخل ہوئیں اور جانبر نہ ہوسکیں۔

    اسپتال ذرائع کے مطابق وو کو باقاعدہ کسی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی تاہم ایک طویل عرصے سے فاقے کرنے کی وجہ سے ان کا جسم شدید غذائی قلت اور مختلف پیچدگیوں کا شکار ہوچکا تھا اور یہی ان کی موت کا سبب بنا۔

    موت کے وقت 24 سالہ وو کا وزن صرف ساڑھے 21 کلو گرام تھا۔

    یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی چین کے مشرقی صوبے جیانگسو کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان کے صوبے میں 8 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 17 افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    وو کی والدہ اس وقت چل بسی تھیں جب وہ صرف 4 سال کی تھیں، کچھ عرصہ بعد ان کے والد بھی چل بسے۔ وو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اکیلی رہ گئیں جو ذہنی طور پر بیمار تھا۔ وو اپنے تمام اخراجات حتیٰ کہ اشیائے خور و نوش کی خریداری بھی چھوڑ کر صرف اپنے بھائی کے علاج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔

    وو کو مقامی حکومت کی جانب سے 300 یان ماہانہ دیے جاتے تھے، علاوہ ازیں کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد انہوں نے اسٹوڈنٹ لون لیا تھا جبکہ وہ 2 جز وقت ملازمتیں بھی کرتی تھیں۔ اس کے باوجود یہ رقم نہایت معمولی اور ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی تھی۔

    ان کے بھائی کے میڈیکل بل نصف حکومت کی جانب سے ادا کیے جاتے تھے اس کے باوجود ہر ماہ وو کو 5 ہزار یان بھائی کے علاج کی مد میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بھائی کے علاج کے بعد وو کے پاس صرف 2 یان اضافی بچتے تھے جس سے اشیائے خور و نوش خریدنا ناممکن تھا۔ اس رقم میں وہ صرف 2 عدد بن یا ابلے چاولوں کا 1 پیالہ خرید کر ان پر پورا دن گزارنے پر مجبور تھیں۔

    وو نے جب کالج میں داخلہ لیا تو ایک دن ان کے کلاس فیلوز نے ان کی حالت دیکھ کر انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا، وو نے جانے سے انکار کیا تو ان کے کلاس فیلو انہیں زبردستی خود ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔

    وہاں جا کر علم ہوا کہ وو کے دل کے والوز بھی خرابی کا شکار ہیں اور اس کی سرجری کے لیے 20 ہزار یان درکار ہیں۔ اس موقع پر وو کے دوستوں نے سماجی تنظیموں سے رابطہ کیا جنہوں نے آن لائن کراؤڈ فنڈنگ کی اپیل کی۔ صرف 2 دن میں وو کے پاس 7 لاکھ یان جمع ہوگئے۔

    وو کے دل کی سرجری کروائی گئی اور وہ جلد صحتیاب ہوتی گئیں، تاہم ان کی غربت کا ابھی کوئی مؤثر حل نہ نکل سکا تھا۔

    اس وقت وو کی غربت اخبارات اور ٹی وی کا موضوع بنی تو ایک انٹرویو میں وو نے اپنے مصائب کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دوسرے لوگوں کی طرح پیسے ختم ہونے پر اپنے والدین سے نہیں مانگ سکتی، ’میرے تو والدین ہی نہیں ہیں‘۔

    وہ نے بتایا کہ ان کے بال بہت خوبصورت تھے، لیکن کم خوراکی کی وجہ سے وہ بے تحاشہ مقدار میں جھڑنا شروع ہوگئے، کچھ عرصے بعد ان کی بھوؤں کے بال بھی جھڑ گئے۔ ’مجھے روز رات میں سونے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا تھا جبکہ اکثر میرے پیر بھی سوج جایا کرتے تھے‘۔

    وو منتظر تھی کہ وہ جلد صحتیاب ہو کر ایک نارمل زندگی شروع کرے تاکہ وہ اپنا مضامین اور شاعری کرنے کا شوق پورا کرسکے۔ ’میں ایسی ہی زندگی چاہتی ہوں‘۔ تاہم حالات نے اسے مہلت نہ دی اور وہ زندگی کی بے رحمی کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ گئی۔

  • بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا بچے غذائی قلت کا شکار

    بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا بچے غذائی قلت کا شکار

     

    ڈھاکا: بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم پناہ گزین روہنگیا بچے غذائی قلت کا شکارہونے لگے‘ لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ بچے کیمپوں میں پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی حالتِ زار پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران سنگین ہے عالمی برادری مدد کرے۔

    اقوام ِمتحدہ کا کہنا ہے کہ گھربارچھوڑکربنگلہ دیش کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پرمجبور روہنگیا پناہ گزینوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے‘ جن کوخوراک اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا ہے۔

    برما میں کوئی مسلمان ’اسلامی نام ‘ نہیں رکھ سکتا*

    دنیا بھر کے انسانوں کی نمائندہ تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک وقت کا کھانا حاصل کرنے کے لئے بے بسی کی تصویربن کرلائنوں میں کھڑے روہنگیا بچے عالمی برادری کے ضمیر پرطمانچہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق تین لاکھ چالیس ہزارروہنگیا بچے اس وقت کیمپوں میں بدترین زندگی گزاررہے ہیں۔نہ ہی انہیں مناسب خوراک میسر ہے،نہ تعلیم اورنہ ہی دیگرسہولتیں انہیں دی جارہی ہیں‘ ادارے کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ اس بدترین انسانی المیے سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری مدد کرے۔

    یاد رہے کہ رواں سال اگست میں برما کے مسلم اکثریتی صوبے رخائن میں برمی افواج نے نہتے شہریوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا ‘ جس میں ابتدائی جھڑپو ں میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں دیہات نذرِ آتش کردیے گئے تھے۔

    برمی فوج اوربدھ مت سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں سے اپنی جان بچا کربنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صحت کا عالمی دن: فارم سے پلیٹ تک

    صحت کا عالمی دن: فارم سے پلیٹ تک

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن ” ورلڈ ہیلتھ ڈے “ بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے۔

    اس سال ڈبلیو ایچ او نے اس دن کے لئے’’محفوظ خوراک‘‘ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اس کے لئے سلوگن ’’فارم سے پلیٹ تک‘‘ تک تجویز کیا ہے۔

    اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو صحت کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے اس سلسلے میں ملک بھر میں وزارت صحت، محکمہ صحت، پاکستان میڈیکل ایسوی ایشن، دیگر طبی تنظیموں اور این جی اوز کے زیر اہتمام خصوصی واکس، سیمینارز، کانفرنسز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

    سیمینارز اور کانفرنسز میں محفوظ خوراک اور صحت مند زندگی گزارنے کی سنہری اصولوں بارے آگاہی دی جائے گی اور ماہرین اپنے مقالے پیش کریں گے مقررین صحت کے حوالے سے درپیش خطرات اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

    دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن سب سے پہلے 1950ءمیں منایا گیا، 1948ء میں عالمی ادارہ صحت کے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او ہیلتھ اسمبلی نے ہر سال 7اپریل کو صحت کا عالمی دن منانے کی منظوری دی جس کے بعد دنیا بھر میں 7اپریل کو ” ورلڈ ہیلتھ ڈے “ منایا جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ ہر سال پاکستان میں ہزاروں بچے پینے کا صاف پانی میسر نا ہونے اور غذائی قلت کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، محفوظ خوراک کے موضوع پر ملک میں بے پناہ آگاہی کی ضرورت ہے۔