Tag: Manto

  • منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 108 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کردیا۔

    گوگل آج اپنے ڈوڈل کے ذریعے منٹو کو خراج عقیدت پیش کررہا ہے، آج منٹو کا 108 واں یوم پیدائش ہے۔ مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیم زر کی لا قانونیت اور تقسیم ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور متنازعہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جس پر کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں، اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اسی پردہ پوش معاشرے کی عکاس ہیں۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    منٹو نے اپنی زندگی کا آخری دور انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا، 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح ہند و پاک کے تمام اہل ادب نے یہ خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

  • بھارتی فلم’منٹو‘خلافِ توقع پذیرائی حاصل نہ کرسکی

    بھارتی فلم’منٹو‘خلافِ توقع پذیرائی حاصل نہ کرسکی

    ممبئی: اردو زبان کے شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم ریلیز کردی گئی جس نے حیران کُن طور پر پہلے روز باکس آفس پر خاطر خواہ بزنس نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق فلم ’منٹو‘ کا اسکرپٹ اور ہدایت کاری کے فرائض نندتا داس نے سرانجام دیے جبکہ باصلاحیت اداکار نوازالدین صدیقی نے معروف افسانہ نگار کا کردار ادا کیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریلیز کے پہلے روز فلم منٹو نے صرف چالیس لاکھ روپے کا بزنس کیا، فلمی پنڈتوں نے نندتا کی ہدایت کاری کو فلاپ قرار دیا۔

    مزید پڑھیں: ’ ناقابلِ برداشت زمانے کو میرے افسانے برداشت نہیں‘

    واضح رہے کہ  فلم میں منٹو کے مختلف پہلوؤں کو دکھایا گیا ہے جس میں وہ کبھی پولیس تو کبھی عدالتوں کا سامنا کرتے جبکہ کبھی اپنی تحریروں کی وجہ سے لوگوں اور اہلیہ کے طعنے بھی سنتے نظر آئے۔

    قبل ازیں جاری ہونے والے ٹریلر میں ’منٹو‘ کی زندگی اور تحریروں سے انہیں پیش آنے والی مشکلات کو نہایت خوبصورتی سے دکھایا گیا تھا جبکہ نوازالدین صدیقی سعادت حسن کی طرح معاشرے کی حقیقت بیان کرتے بھی نظر آئے تھے۔

    فلم میں نوازالدین صدیقی منٹو جبکہ دیگر کاسٹ میں رشی کپور، راسیکا دگل، راج شری، دیش پانڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس منٹو کو کینز فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ ہدایت کارہ کا کہنا تھا کہ وہ دیکھنا چاہتی ہیں لوگ منٹو کی زندگی کو دیکھ کر کیسا ردعمل دیں گے۔

    ویڈیو دیکھیں: ’جو میں دیکھتا ہوں وہی لکھتا ہوں‘ 

    خیال رہے کہ یہ فلم افسانہ نگار کی پوری زندگی پر نہیں بنائی گئی بلکہ حیات کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے بعد کچھ مناظر کو فلم میں شامل کیا گیا ہے۔

    اس بارے میں نواز الدین کا کہنا تھا کہ ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے، یہ تو صرف اُن کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

    اس ضمن میں ہدایت کارہ نندتا داس نے لاہور میں مقیم منٹو کی بیٹیوں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملاقات کی تھی اور ریلیز کے موقع پر اُن کی صاحبزادی کو ممبئی بھی مدعو کیا تھا۔ اُن کے اہل خانہ نے نندتا کو منٹو کی زندگی اور شخصیت کے اُن پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: منٹو کی پہلی جھلک

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی سنہ 2015 میں منٹو کی زندگی پر فلم پیش کی جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا جبکہ اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔

  • ’ ناقابلِ برداشت زمانے کو میرے افسانے برداشت نہیں‘ منٹو کا ٹریلر جاری

    ’ ناقابلِ برداشت زمانے کو میرے افسانے برداشت نہیں‘ منٹو کا ٹریلر جاری

    ممبئی: شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا جس میں اُن کو پیش آنے والی مشکلات کو دکھایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلم میں سعادت حسن منٹو کا کردار باصلاحیت اداکار نوازالدین صدیقی نے ادا کیا جبکہ ہدایت کاری اور رائٹر کے فرائض نندتا داس نے سرانجام دیے۔

    مختصر ویڈیو میں شہرہ آفاق افسانہ نگار کے مختلف پہلوؤں کو دکھایا گیا ہے جس میں وہ کبھی پولیس تو کبھی عدالتوں کا سامنا کرتے جبکہ کبھی اپنی تحریروں کی وجہ سے لوگوں کے طعنے بھی سنتے نظر آئے۔

    ٹریلر دیکھیں

    دو روز قبل جاری ہونے والے آفیشل ٹریلر میں ’منٹو‘ کی زندگی اور ان کی لکھی جانے والی تحریروں سے انہیں پیش آنے والی مشکلات کو نہایت خوبصورتی سے دکھایا گیا جبکہ نوازالدین صدیقی معاشرے کی حقیقت بیان کرتے بھی نظر آئے۔

    نوازلدین صدیقی منٹو جبکہ دیگر کاسٹ میں رشی کپور، راسیکا دگل، راج شری، دیش پانڈے وغیرہ شامل ہیں، فلم 21 ستمبر کو نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔

    فلم میں شامل منتخب مشہور ڈائیلاگ جو خاصے متاثر کن ہیں

    1. ‘میں اپنی کہانیوں کو کائنات سمجھتا ہوں‘
    2. ’میں اتنا لکھوں گا تم بھوکی نہیں مرو گی‘
    3. ’آپ لکھنے کی آزادی چاہتے ہیں تو رائٹر کی ذمہ داری کو بھی سمجھیں‘
    4. ’سچ ہرگز نہیں بولنا چاہیے، جو پسند نہ ہوں وہ صفحے پھاڑ دینے چاہیں‘
    5. ’جب غلام تھے تو آزادی مانگتے تھے اور اب آزاد ہیں تو کون سا خواب دیکھیں‘
    6. ’میں ہر مجبور عورت کے لیے لکھتا ہوں‘
    7. ’سچ تو ہرگز نہیں بولنا چاہیے، وہ صفحے پھاڑ دینے چاہیں جو ہمیں پسند نہ ہوں‘
    8. ’آج کے قاتل لہو اور لوہے سے تاریخ لکھتے جارہے ہیں‘

    قبل ازیں شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر بنائی جانے والی بالی ووڈ فلم ’منٹو‘ کا آفیشل ٹیزر  71ویں کینز فلم فیسٹیول 2018 میں ہفتے کے روز پیش کیا گیا تھا جسے حاضری نے بے حد پسند کیا تھا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس ہدایت کارہ نندتا داس نے آگاہ کیا تھا کہ وہ دو بار کینز فلم فیسٹیول میں بطور جیوری رکن اور کئی بار بطور ناظر شرکت کر چکی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ حاضرین میری فلم ‘منٹو‘ پر کیسا ردعمل دیں گے جو گزشتہ 7 سال سے میرے خیالوں میں ہے‘۔

    مزید پڑھیں: ’جو میں دیکھتا ہوں وہی لکھتا ہوں‘ ، کینز فلم میں‌ منٹو کے ٹیزر کا چرچا

    فلم میں منٹو کا کردار ادا کرنے والے نواز الدین صدیقی نے بھی اس بارے میں کہا تھا کہ’یہ ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے، لیکن منٹو ہمیشہ زندہ رہتا ہے‘۔

    خیال رہے کہ یہ فلم اردو کے صف اول کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی گئی بلکہ حیات کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے بعد کچھ مناظر کو فلم میں شامل کیا گیا ہے۔

    اس بارے میں نواز الدین کا کہنا ہے، ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے، یہ تو صرف منٹو کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں:  ‘منٹو کو سمجھنا ان کا کردار ادا کرنے سے زیادہ مشکل’

    فلم کے لیے نندتا داس نے لاہور میں مقیم منٹو کی بیٹیوں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملاقات کی، جس پر اُن کے اہل خانہ نے نندتا کو منٹو کی زندگی اور شخصیت کے ان پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

    منٹو کی زندگی پر پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی سنہ 2015 میں فلم پیش کی جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا جبکہ اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔

  • بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 106ویں سالگرہ ہے، منٹو کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوبصورت فیشن ایبل صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا ادباء میں نمایاں شخصیت کا مالک انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محرومی اور دشمنوں کے نرغے میں گہرا ہوا شخص محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کرگیا۔

    manto-post-01

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    manto-post-02

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اورمزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کرقلم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناونی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناونا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، سیاہ حاشیے، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

    manto-post-03

  • فلم ’منٹو‘ کینز فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے منتخب

    فلم ’منٹو‘ کینز فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے منتخب

    ممبئی: شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر بنائی جانے والی بالی ووڈ فلم ’منٹو‘  کینز فلم فیسٹیول 2018 میں پیش کرنے کے لیے منتخب کرلی گئی ہے۔ فیسٹیول 8 سے 19 مئی تک منعقد کیا جائے گا۔

    فلم کی ہدایت کارہ نندتا داس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اس بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو بار کینز فلم فیسٹیول میں بطور جیوری رکن اور کئی بار بطور ناظر شرکت کر چکی ہیں۔ ’میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ حاضرین اس فلم پر کیسا ردعمل دیں گے جو گزشتہ 7 سال سے میرے خیالوں میں ہے‘۔

    فلم میں منٹو کا کردار ادا کرنے والے نواز الدین صدیقی نے بھی اس بارے میں اپنی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا، ’یہ ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے، لیکن منٹو ہمیشہ زندہ رہتا ہے‘۔

     

    خیال رہے کہ یہ فلم اردو کے صف اول کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی جارہی تاہم منٹو کی زندگی کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے وقت کے کچھ مناظر پیش کیے جائیں گے۔

    اس بارے میں نواز الدین کا کہنا ہے، ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تو صرف منٹو کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے جارہے ہیں‘۔

    فلم کے لیے نندتا داس نے لاہور میں مقیم منٹو کی بیٹیوں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملاقات کی۔ منٹو کے اہل خانہ نے نندتا کو منٹو کی زندگی اور شخصیت کے ان پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: منٹو کو سمجھنا ان کا کردار ادا کرنے سے زیادہ مشکل

    ’منٹو‘ کی نمائش کی کوئی حتمی تاریخ تاحال طے نہیں کی جاسکی ہے۔ نندتا کا کہنا ہے کہ فلم پر کام جاری ہے، اور وہ کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ یہ کب مکمل ہو کر پردہ اسکرین پر پیش کی جاسکے گی۔ ’دراصل منٹو کی شخصیت اس قدر ہمہ جہت اور نیرنگی ہے کہ اس کا احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے‘۔

    منٹو کی زندگی پر پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی سنہ 2015 میں فلم پیش کی جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا۔ معروف پاکستانی اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 63 ویں برسی ہے، اپنے تلخ مضامین کے سبب معاشرے کی مزاحمت کا سامنا کرنے والے منٹو18 جنوری 1955 کو اس دنیا سے گزر گئے‘ ان کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کا مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے   بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔