حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کردیا، اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس بار تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن اس کے برعکس ہوا۔
بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن بد قسمتی سےان پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی ٹیکس کی ادائیگی کررہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس سارے معاملے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ٹیکس کون دیتا ہے؟ اور موجیں کس کی ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال تنخواہ دار طبقے نے 234 ارب روپے ٹیکس دیا، اس کے مقابلے میں ریئل اسٹیٹ نے صرف 8 ارب روپے جبکہ زرعی شعبے نے بھی 8 ارب روپے ادا ئیگی کی۔
اس کے علاوہ ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز نے کُل ملا کر 175 ارب روپے ٹیکس دیا جس سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ ان سب کو ملاکر بھی دیکھا جائے تو تنخواہ دار طبقہ ان سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے۔
حالیہ بجٹ میں قوی امید تھی کہ بہت سخت قسم کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے آیئے ان ٹیکسز پر نظر ڈالتے ہیں۔
موجودہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر کم سے کم اور 5 اور زیادہ سے زیادہ 35 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس طبقے پر 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔
رئیل اسٹیٹ پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی ہے جبکہ ٹریڈرز پر صرف 1 فیصد سے سوا دو فیصد لگایا گیا اور ایگریکلچر پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں فائدے میں کون ہے اور نقصان کس کا ہوا؟ سب سے پہلے سرکاری ملازمین بہت فائدے میں ہیں ان کی تنخواہ 25فیصد بڑھی ہے۔ پینشنرز کی پینشن میں بھی 15 فیصد اضافہ کیا گیا، ٹریڈرز بھی بہت فائدے میں رہے۔
اس بجٹ سے نقصان میں کون ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، ان کا ٹیکس سلیب بڑھا دیا گیا ہے، اب کم از کم 50 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ لینے والے کو ٹیکس دینا ہوگا۔
ماریہ میمن نے انکشاف کیا کہ جو لوگ بجٹ بناتے ہیں ان کو تین مہینے کی اضافی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، اس موقع پر انہوں نے تیمور سلیم جھگڑا کا ایک بیان بھی نشر کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ فنانس ڈویژن کے 5ہزار ملازمین کو اضافی تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ کام صرف 10 سے 12لوگ کرتے ہیں۔
اسلام آباد: آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کا سربراہ بننے سے قبل سوچنا چاہیے، ایران کے بعد سب سے زیادہ اہل تشیع پاکستان میں آباد ہیں پاکستان کو اتنے گمبھیر فرقہ وارانہ معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے، میں مہاجر ہوں ان سے ہمدردی ہے لیکن ایم کیو ایم سے نہیں، بے عقل نہیں ہوں کہ متحدہ کا سربراہ بن جاؤں، میرا مقصد صرف مہاجروں کو متحد کرنا ہے۔
یہ باتیں انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے بات کرتے ہوئے کہیں۔
فرقہ وارانہ معاملات میں پڑتے ہوئے پاکستان کو سو بار سوچنا چاہیے
سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل کی جانب سے اسلامی اتحاد کے متوقع سربراہ بننے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ معاملات میں داخل ہوتے ہوئے پاکستان کو 100 بار سوچنا چاہیے، راحیل شریف پاکستان کے آرمی چیف رہے ہیں انہیں بھی یہ سوچنا پڑے گا، ایران کے بعد سب سے زیادہ اہل تشیع پاکستان میں ہیں اتنے گمبھیر معاملے میں ہمیں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
جائزہ لیا جائے کہ ایسی فورس کے ساتھ اہداف کی تکمیل ممکن ہے؟
انہوں نے کہا کہ پہلے پوری فورس کا جائزہ لیا جائے، اس کے کمانڈرز سے ملا جائے اہداف دیکھے جائیں کہ کیا اس فورس کے ساتھ ان اہداف کا حصول ممکن ہے؟ اگر یہ ممکن ہوتا نظر نہ آئے تو اسے جوائن ہی نہیں کرنا چاہیے، جنگجوؤں کو مارنے کے لیے اس طاقت کے ساتھ جائیں جو ضروری ہے بصورت دیگر نہیں۔
اس وقت جو بھی آرمی قیادت ہے وہ میری ماتحت رہی ہے
جنرل راحیل شریف نے آپ کو سپورٹ کیا اور نئی فوجی قیادت نے آپ کو کوئی ضمانت نہیں دیں اس لیے آپ وطن نہیں آرہے اس سوال پر مشرف نے کہا کہ فوج میری فوج ہے جس پر فخر کرتا ہوں، 45 برس فوج میں رہا اور اسے کمانڈ بھی کیا، میری کمانڈ فیلڈ کمانڈ تھی، کارگل سمیت کئی جنگیں لڑیں، اس وقت جو بھی قیادت ہے جو میرے ماتحت رہے ہیں اور مجھے جانتے ہیں یا میرے اسٹوڈنٹس رہے ہیں جہاں جہاں میں نے پڑھایا ہے، یہ لوگ کیسے مجھے بھول سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم فیل پارٹی ہوچکی جو بکھر رہی ہے
ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بالکل ختم نہیں ہوا، لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ایم کیو ایم کے سرپر ہاتھ رکھیں، آرمی میں سیکھا کہ جو پلان فیل ہوجائے تو نیا پلان شروع کرو، ایم کیو ایم ایک فیل پارٹی ہوگئی ہے، بکھر رہی ہے، کراچی سے باہر پنجاب سمیت جہاں چاہیں چلے جائیں متحدہ پربھتہ خور اور را کے ایجنٹ ہونے کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔
کیسے ممکن ہے مقامی سطح کی جماعت کا سربراہ بن جاؤں
میری نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر ساکھ ہے کیسے ممکن ہے کہ میں کراچی اور حیدر آباد کی سطح پر آجاؤں، میں بے عقل نہیں، میں مہاجر ضرور ہوں میری مہاجروں سے ہمدردی ضرور ہے لیکن میں ایم کیو ایم نہیں اور نہ میر ی اب ایم کیو ایم سے کوئی ہمدردری ہے پہلے ہوگی ضرور اس لیے کہ وہ حکومت کا حصہ تھے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ ساری ایم کیو ایم را کی ایجنٹ ہے
یہ سمجھنا کہ ایم کیو ایم را ایجنٹ ہے اور اس کے دو کروڑ سپورٹر سارے بھارت میں جاکر لوگوں سے ملتے ہیں کہنا غلط ہے، ممکن ہے ان کے لندن میں بیٹھے کچھ لیڈر بھارتی خفیہ ادارے را سے ملے ہوں۔
ایم کیو ایم کراچی میں لوگوں کو ڈلیور کررہی تھی
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تعلق لوگوں کو فائدہ ملنے سے ہونا چاہیے، ایم کیو ایم کراچی میں لوگوں کو ڈلیور کررہی تھی، لوگ خوش تھے، راتوں کو چہل پہل تھی اب بعد میں کیا ہوا یہ الگ معاملات ہیں، آٹھ سال گزر گئے، ان آٹھ برس میں اگر کوئی ان سے کام نہیں لیتا اور ایم کیو ایم ردعمل کے طور پر کچھ کرتی ہے تو یہ الگ معاملات ہیں ۔
کراچی میں متحدہ ہی طاقت ہے، اسے کنٹرول کیا اور کام لیا
انہوں نے کہا کہ میں نے ایک پالیسی رکھی، دیکھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم ہی طاقت ہے، ہم نے اسے کنٹرول کیا، راہ راست پر لائے، نوگو ایریا ختم کیے، اگر جیل میں خراب آدمی ہے تو کیا اسے مارد دیا جائے؟ کیا اس سے اچھاکام نہ لیا جائے۔
طاقت اور بات چیت کے ذریعے متحدہ سے معاملات حل کیے جائیں
سابق صدر نے کہا کہ 1990ء میں ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن ہوا تھا، ڈرگ روڈ پر رات دس بجے کے بعد گاڑی نہیں چلتی تھی کیا یہ کراچی چاہتے ہیں آپ؟ تاکہ ملک کی معاشی حالت کا بیڑا غرق ہوجائے، ان سے بات کرکے معاملہ حل کیا جائے انہیں استعمال کیا جائے، طاقت اور بات چیت دونوں سے کام لیا جائے۔
چاہتا ہوں مہاجروں کو متحد کردوں لیکن متحدہ کی قومی پرستی توڑنی ہوگی
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقاتوں کا مقصد یہ نہیں کہ میں ایم کیو ایم کا سربراہ بن جاؤں جس پر رد عمل آیا کہ مشرف قبول نہیں، میں یہ چاہتا بھی نہیں ایم کیو ایم ویسے بھی ختم ہوچکی ہے، چاہتا ہوں کہ مہاجروں کو متحد کردوں اس میں ان کی بہتری ہے لیکن ان کی قوم پرستی توڑنی ہے تاکہ کراچی میں موجود پنجابی، بنگالی، بلوچ، سندھی،پٹھان سب اس میں آجائیں اور یہ لسانیت سے بالاتر ایک جماعت بن جائے ، میرا صرف یہ مقصد ہے۔
پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانا نواز شریف کا بہترین اقدام ہے
پی ایس ایل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ نواز شریف کا اچھا اقدام ہے، کوئٹہ گلیڈی ایٹر کو سپورٹ کرتا ہوں تاہم ساری ٹیمیں پاکستان کی ہیں۔
عمران خان سوچے سمجھے بغیر بات کرتے ہیں
پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان سوچے سمجھے بغیر بات کرتا ہے، میں کہتا ہوں کہ جب بھی کبھی یہ قدم اٹھائیں گے ہمیشہ یہی کہا جائے گا کہ کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا تو کیا کبھی بھی یہ قدم نہیں اٹھائیں گے؟ کبھی نہ کبھی قدم اٹھانا ہے تو ابھی کیوں نہیں۔
کسی بھی ٹی وی پر اینکر پرسن نہیں بن رہا
انہوں نے کہا کہ یہ بہت غلط ہوگیا اور مجھے احساس ہے اس بات کا میں ایک دم سے تجزیہ کار یا اینکر پرسن بن گیا ہوں، ایسی کوئی بات نہیں لیکن بول ٹی وی نے اصرار کیا کہ ہم ہر ہفتے آپ کا ایک انٹریو کرنا چاہتے ہیں جیسے ہر ٹی وی ایک انٹرویو دے رہا ہوں ویسے انہیں بھی دوں گا تاہم وہ ریگولر بنیادوں پر ہوگا جس میں پاکستان کیا ہے گڈ گورننس کیا ہے ؟ ملکی ترقی و خوشحالی کیا ہےیہ عوام کو سمجھانا چاہ رہا ہوں۔
میری مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا
انہوں نے کہا کہ میری مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے، وطن جانے میں جھوٹے اور سیاسی مقدمات رکاوٹ ہیں، امید ہے اسلامی مملکت میں مجھے عدل اور انصاف مل جائے،میری نقل و حرکت کو محدود نہیں کیا جائے تو واپس ضرور جاؤں گا،پاکستانی شہری ہوں اور پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں،عدالتوں میں عدل اور انصاف کی گنجائش ہے جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پاناما لیکس کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس وزیراعظم نواز شریف کا ذاتی معاملہ ہے لیکن پاناما لیکس میں پوری کابینہ عدالت جاتی اور بیانات دیتی تھی۔
حدیبیہ پیپرزکیس میں کوئی دھمکیاں نہیں دیں، نیب چیئرمین کو نہیں بلایا
حدیبیہ پیپرز ملز میں جان تھی لیکن میں جج نہیں تھا اور نہ میں نے بریفنگ لی، حکومت چلانا پورے دن کا کام ہے، اس کیس میں دباؤ ڈالنے کا جھوٹ بولا گیا کسی پر ظلم و تشدد نہیں ہوا ، نہ کبھی نیب کے چیف سے پوچھا۔
پرویز مشرف کا مکمل انٹرویو
انہوں نے مزید کہا کہ لیڈر شپ کا تقاضا ہے کہ وہ معاملات کو درست سمت پر لائے لیکن لیڈر شپ کا فقدان ہے امریکا اور افغانستان ہم سے ناراض ہیں، امریکاہم سے ناراض اور بھارت کو شہہ دے رہا ہے،حکومت ناکام ہے، پالیسی وضع ہی نہیں کی گئی،حکومت نے ابھی تک کسی کو وزیر خارجہ ہی منتخب نہیں کیا یہ لوگ پالیسی ہی نہیں بناتے بنائیں گے تو ادارے اس پر کام کیسے کریں گے۔