Tag: marine life

  • آپ کا کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے

    آپ کا کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپڑے دھوئے جانے کا عمل آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرناک طور پر بیمار بھی کرسکتا ہے۔

    ہمارے کپڑے عموماً کچھ مخصوص مٹیریل سے بنتے ہیں جن میں نائلون، پولیسٹر، فلیس اور اسپینڈکس شامل ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو مگر ان تمام مٹیریلز کی تیاری میں پلاسٹک کا بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    جب ہم واشنگ مشین میں کپڑوں کو دھوتے ہیں تو کپڑوں کے نہایت ننھے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ سیوریج اور بعد ازاں ندی نالوں اور سمندروں میں جا پہنچتے ہیں۔

    یہ ذرات معمولی ذرات نہیں ہوتے۔ پلاسٹک سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور یہی آبی حیات کو خطرناک نقصانات حتیٰ کہ موت تک کا شکار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذرات آبی حیات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بعد یہ ہماری خوراک کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

    سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول میں موجود زہریلے عناصر ان پلاسٹک کے ننھے ذرات سے کسی مقناطیس کی طرح چمٹ جاتے ہیں جو ہمیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کے ننھے ننھے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • کپڑے دھونا سمندری حیات کی موت کا سبب بن رہا ہے

    کپڑے دھونا سمندری حیات کی موت کا سبب بن رہا ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپڑے دھوئے جانے کا عمل آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرناک طور پر بیمار بھی کرسکتا ہے۔

    ہمارے کپڑے عموماً کچھ مخصوص مٹیریل سے بنتے ہیں جن میں نائلون، پولیسٹر، فلیس اور اسپینڈکس شامل ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو مگر ان تمام مٹیریلز کی تیاری میں پلاسٹک کا بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    جب ہم واشنگ مشین میں کپڑوں کو دھوتے ہیں تو کپڑوں کے نہایت ننھے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ سیوریج اور بعد ازاں ندی نالوں اور سمندروں میں جا پہنچتے ہیں۔

    یہ ذرات معمولی ذرات نہیں ہوتے۔ پلاسٹک سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور یہی آبی حیات کو خطرناک نقصانات حتیٰ کہ موت تک کا شکار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذرات آبی حیات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بعد یہ ہماری خوراک کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

    سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول میں موجود زہریلے عناصر ان پلاسٹک کے ننھے ذرات سے کسی مقناطیس کی طرح چمٹ جاتے ہیں جو ہمیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کے ننھے ننھے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

  • اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    وہیل کی ایک قسم اورکا سمندر میں اپنے بچے کو کچھوے کا شکار کرنا سکھا رہی ہے جس کی ویڈیو نے جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔

    نیشنل جیوگرافک کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اورکا اپنے شکار یعنی کچھوے کے پیچھے جارہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہیل اپنے ننھے بچوں کو کچھوؤں کا شکار کرنا سکھا رہی ہے۔

    یہ ویڈیو فرانس سے تعلق رکھنے والے میرین سائنس کے 2 طلبا نے بنائی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہیل تقریباً آدھے گھنٹے تک کچھوے کو گول گول گھماتی رہی اور بعد ازاں اسے ہڑپ کرلیا۔

    اس طرح سے وہ اپنے بچوں کو زندگی بچانے کی تکنیک بھی سکھا رہی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو مختلف عادات سکھانے کی تربیت چند ہی جانور دیتے ہیں اور وہیل ان میں سے ایک ہے۔

    اورکا بہت کم کچھوؤں کا شکار کرتی ہے تاہم اس کے جبڑے کچھوؤں کی پشت کا مضبوط خول توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

  • تنہا وہیل کو گود لے لیا گیا

    تنہا وہیل کو گود لے لیا گیا

    وہیل کی ایک قسم ناروہیل کو دوسری قسم کی وہیلوں نے گود لے لیا جس کے بعد تنہا ناروہیل کی تنہائی دور ہوگئی۔

    اپنی لمبی ناک کی خصوصیت رکھنے والی ناروہیل برفانی سمندروں میں پائی جاتی ہے۔

    ناروہیل

    چند روز قبل کینیڈا کے صوبے کیوبک کے سینٹ لارنس دریا میں دیکھا گیا کہ ناروہیل، وہیلز کی ایک اور قسم بیلگوا وہیلز کے گروہ کے ساتھ تیر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دونوں اقسام کی وہیلز میں کئی خصوصیات مشترک ہیں یہی وجہ ہے کہ ان وہیلز نے آسانی سے ایک دوسرے کو قبول کرلیا۔

    بیلگوا وہیلز

    بیلگوا وہیلز بھی اسی علاقے میں پائی جاتی ہیں تاہم وہ برفیلے پانی میں نہیں ہوتیں۔ ماہرین نے جس وقت اس انوکھے گروہ کو دیکھا اس وقت ناروہیل اپنے رہائشی مقام یعنی آرکٹک کے سمندر سے 1 ہزار میل دور تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناروہیل نر ہے جس کا ثبوت اس کی اضافی لمبی چونچ ہے جس کی لمبائی ڈیڑھ فٹ ہے۔

    ان کے مطابق وہ نہ صرف دوسری نسل کے وہیلز کے ساتھ خوش ہے بلکہ ان جیسی عادات بھی اپنا رہا ہے جیسے پانی میں بلبے بنانا۔

    ماہرین منتظر ہیں کہ آیا ان دو مختلف اقسام کی وہیلز کا جسمانی ملاپ بھی ہوگا یا نہیں جس کے بعد دونوں قسموں کی ملی جلی نسل وجود میں آئے گی۔

    مزید پڑھیں: وہیل اور ڈولفن کی ملی جلی نسل دریافت

  • دیو قامت وہیل کے سامنے ننھا سا انسان

    دیو قامت وہیل کے سامنے ننھا سا انسان

    سوشل میڈیا پر آنے والی چند تصاویر بہت مقبول ہورہی ہیں جن میں ایک ڈائیور ایک دیوقامت وہیل کے سامنے کھڑا ہوا نہایت ننھا سا نظر آرہا ہے۔

    جنوبی بحر الکاہل کے ایک جزیرے کے قریب لی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند نہایت قوی الجثہ وہیلز ایک کشتی کے آس پاس گھوم رہی ہیں۔

    انہیں عکس بند کرنے کے لیے ایک ڈائیور پانی میں کود گیا اور اس نے نہایت قریب سے ان وہیلز کی تصاویر لیں۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ریاست ہوائی کے سمندر میں پہلی بار ایک نہایت نایاب نسل کی مچھلی دیکھی گئی تھی جسے ڈولفن اور وہیل کی مخلوط النسل قسم کہا جارہا ہے۔

    یہ جاندار جسے عوامی طور پر ’وولفن‘ کہا جارہا ہے، وہیل کی ایک قسم میلن ہیڈڈ وہیل سے مشابہت رکھتی ہے مگر ماہرین کے مطابق یہ تکنیکی طور پر ڈولفن ہے۔

  • سن اسکرین سمندری حیات کے لیے نقصان دہ

    سن اسکرین سمندری حیات کے لیے نقصان دہ

    موسم گرما میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے سن اسکرین یا سن بلاک کا استعمال ایک عام سی بات ہے اور یہ ہمارے لیے تو بے ضرر ہے تاہم سمندری حیات کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    اگر آپ ساحل سمندر پر پکنک منانے جارہے ہیں اور جانے سے قبل آپ نے بہت سا سن اسکرین استعمال کیا ہے، تو یاد رکھیں پانی میں جانے کے صرف 20 منٹ کے اندر آپ کی جلد پر لگا آدھے سے زیادہ سن اسکرین پانی میں گھل جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی میں جانے کے بعد یہ سن اسکرین سمندری حیات کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سن اسکرین کا سب سے پہلا شکار مونگے کی چٹانیں بنتی ہیں۔

    ان چٹانوں کا رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 14 ہزار میٹرک ٹن سن اسکرین ان چٹانوں پر جم جاتا ہے۔ چٹانوں پر جم جانے والے اس سن اسکرین کا وزن 3 ہزار ہاتھیوں کے جتنا ہوتا ہے۔

    سن اسکرین میں موجود دھوپ سے بچانے والے کیمیکل یو وی پروٹیکشن میں شامل ایک جز بینزو فنون ان نباتاتی چٹانوں کو سخت کردیتا ہے جس کے باعث یہ مزید افزائش نہیں پاسکتے۔

    علاوہ ازیں یہ ایک خوردبینی کائی کو بھی متاثر کرتے ہیں جو ان چٹانوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے۔ نتیجتاً یہ چٹانیں اپنا رنگ کھونے لگتی ہیں جس کے بعد ان کے مردہ ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

    سن اسکرین کا اگلا شکارفائٹو پلنکٹن نامی کائی بنتی ہے۔ یہ کائی سمندر کی فوڈ چین کا بنیادی جز ہے۔ اس کائی کے متاثر ہونے سے سمندر میں موجود تمام جانداروں کی غذا متاثر ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوپ کی تابکار شعاعیں جلدی کینسر میں بھی مبتلا کرسکتی ہیں چنانچہ سن اسکرین کا استعمال ازحد ضروری ہے تاہم سمندری حیات پر اس کے نقصانات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

  • بلوچستان کے ساحلوں پر نایاب وہیل مچھلیوں کی آمد

    بلوچستان کے ساحلوں پر نایاب وہیل مچھلیوں کی آمد

    حب: بلوچستان کے ساحلوں پر نایاب اسپرم وہیل مچھلیوں نے پہنچ کر مقامی آبادی کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    اپنے منفرد گول ماتھے کی وجہ سے مشہور نایاب نسل کی یہ وہیل مچھلیاں جنہیں اسپرم وہیل کہا جاتا ہے گزشتہ روز کراچی سے 22 کلومیٹر دور دیکھی گئی تھیں۔

    بعد ازاں آج یہ بلوچستان کے ساحلوں سنارا بیچ اور جیوانی میں بھی دیکھی گئیں۔

    خاص بات یہ رہی کہ اس نوعیت کی نایاب وہیلوں کو اکثر جال کے ذریعے پانی سے باہر کھینچ لیا جاتا ہے جس کے بعد مردہ وہیلیں مقامی افراد کی تفریح کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

    تاہم اس بار کراچی سے لے کر بلوچستان تک جن ماہی گیروں نے اسے دیکھا انہوں نے اس کی حفاظت کی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔

    ماہی گیروں اور مقامی افراد نے ان وہیلوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔

    واضح رہے کہ اسپرم وہیل کے دانت تمام وہیل مچھلیوں میں سب سے بڑے ہوتے ہیں اور اسے سب سے بڑی دانتوں والی شکاری مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔

    یہ اسپرم وہیل کی نسل کے 3 خاندانوں میں واحد قسم ہے جو حیات ہے، بقیہ 2 اسپرم وہیل کی انواع معدوم ہوچکی ہیں۔

    یہ وہیل دنیا بھر کے سمندروں میں موجود ہوتی ہے اور افزائش نسل یا موسم کی وجہ سے ایک سے دوسرے سمندر میں ہجرت بھی کرتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    کراچی اوراس سے ملحقہ ساحلی علاقے یقیناً قدرتی حسن اوردولت سے مالامال ہیں یہاں کے دلفریب نظارے سیر کے لئے آنے والون کی نگاہوں کو خیرہ کردیتے اور واپس لوٹ کروہ کئی دن تک اسی خمارمیں مبتلا رہتے لیکن اس دولت کے اصل مالک یعنی یہاں کے مقامی افراد کس طرح کی زندگی گزارتے ہیں اگر کوئی صاحب دل ان کی ویران آنکھوں اور بے رونق گھروں میں جھانک کردیکھے تو شائد کئی دن سکون کی نیند سونا پائے۔

    پاکستان کی فشنگ انڈسٹری کی پشت یقیناً ساحلی بستیوں پرصدیوں سے آباد مچھیروں کے خاندان ہیں لیکن ملکی معیشت میں بھرپور حصہ ڈالنے والے یہ ماہی گیر کس طرح کسمپرسی اورغربت کی زندگی گزارتے ہیں اس کا اندازہ کراچی سے ملحقہ ساحلی بستی مبارک ولیج کے ایک دورے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

    کراچی سے لگ بھگ 30 کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ساحلی بستی مبارک ولیج کے آبادی تقریباً چارہزارنفوس پرمشتمل ہے اوراس کے مکین پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے مقامی ماہی گیروں کے حالاتِ زندگی جاننے کے لئے جب اس بستی کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔

    مبارک ولیج کے اس دورے کے دوران اندازہ ہوا کہ زندگی انتہائی مشکل ہے ، مقامی آبادی کے گھر کچے بنے ہوئے ہیں اور سیلاب یا طوفانی ہواوٗں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ بستی زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانے والی سہولیت یعنی بجلی اور پانی سے یکسرمحروم ہے اور سمندر کنارے آبادمقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کا دارو مدار شہر سے آنے والے پانی کے ٹینکر (جوانتہائی مہنگا ہے) اوردوردرازواقع گنتی کے چند میٹھے پانی کےکنووٗں پرہے۔

    یہ بھی دیکھا گیا کہ اس بستی کے مقیم افراد اس حد تک افلاس کا شکار ہیں کہ ان کی نئی نسل جو ابھی نہایت کم عمر ہے ساحل کنارے تفریح کے لئے آنے والوں سے پیسے اور کھانا مانگنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتی۔

    جب ان معصوم بچوں کوکھانافراہم کیا گیا تومحسوس ہوا کہ کھانے کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد کے پیچھے صدیوں کی محرومیاں کارفرما ہیں کہ جن کے سبب یہ معصوم بچے اپنے بچپن کی اصل معصومیت ہی کھوبیٹھے ہیں۔

    بستی کے واحد اسکول کے ایک سینئراستادعبدالستارنے مقامی آبادی کی مشکلات پرروشنی ڈالتے بتایا کہ کس طرح مبارک ولیج کے مکین آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    عبدالستارنے بتایا کہ چارہزار کی اس بستی کے لئے ایک سرکاری اسکول ہے جو کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن اس اسکول میں اساتذہ کی تعداد انتہائی کم ہے اور سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔

    انہوں نے صحت کی سہولیات کے حوالے سے جو انکشاف کیا وہ کسی کے بھی سر پر آسمان توڑدینے کے مترادف تھا کہ اتنی بڑی آبادی کے لئے ایک ڈسپنسری بھی نہیں ہے، عبدالستارکے مطابق مقامی آبادی میں اموات کی سب سے بڑی وجہ امراض قلب اور زچگی کے دوران پیچیدگی ہے، انہوں نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اکثر 16 سے 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی نوجوان لڑکیاں زچگی کے مراحل میں بنیادی طبی سہولیات میسرنہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں‘‘۔

    عبدالستارکراچی کے سابق ستی ناظم سید مصطفیٰ کمال کے بے حد مداح دکھائی دئیے حالانکہ انہوں نے اپنی حقیقی جذبات کا اظہار کیمرے کے سامنے نہیں کیا لیکن آف کیمرہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’مصطفیٰ کمال یہاں کے مقامی افراد کے لئے پیر کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ یہاں نہ ہونے کے برابر جو سہولیات ہیں وہ انہیں کہ مرہونِ منت ہیں اور پاکستان بننے کے بعد سے ان کی حکومت تک مبارک ولیج میں آنے والی واحد سیاسی شخصیت ہیں‘‘۔

    مبارک ولیج کے اس بزرگ استاد کا کہنا تھا کہ یہاں تک آنے والی سڑک انہی کے حکم سے تعمیر کی گئی ہے اوراسکول میں بھی انہوں نے ہی مقامی افراد کوبحیثیت استاد بھرتی کیا اور ساحل پر انسانی جانوں کی حفاظت کے لئے لائف گارڈز تعینات کئے۔

    ساحل پر تعینات لائف گارڈ ریاض نے اے آروائی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں زندگی آسان نہیں ہے، جب سیزن ہوتا ہے تو ہمیں پیسے ملتے ہیں لیکن جب سمندر بھپرا ہوا ہوتا ہے تو یہاں کوئی نہیں آتا اور اس موسم میں مچھلیاں بھی نہیں ہوتیں کہ گزارہ کیا جاسکے‘‘۔

    واضح رہے کہ حکومت فشنگ سیکٹرسے ہرسال اربوں روپے کماتی ہیں لیکن حکومتی اداروں کی جانب سے ماہی گیروں کو ہمیشہ ہی نظراندازکیا جاتا رہے اوراسی سبب ماہی گیرآج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی انتہائی بدحالی کی زندگی جینے پرمجبورہیں۔

    کراچی کے ساحل سے ملحقہ مبارک ولیج پاکستان میں ماہی گیروں کی دوسری سب سے بڑی بستی ہے۔