Tag: Marine pollution

  • کراچی میں بارشوں کے بعد سمندری آلودگی میں اضافہ

    کراچی میں بارشوں کے بعد سمندری آلودگی میں اضافہ

    اسلام آباد (24 اگست 2025): کراچی میں بارشوں کے بعد سمندری آلودگی میں اضافہ ہو گیا ہے، جس کے لیے بندرگاہوں پر صفائی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر بحری امور محمد جنید انوار چوہدری کی ہدایت پر کراچی کی بندرگاہوں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ صرف صفائی نہیں، آلودگی کی روک تھام بھی ضروری ہے۔

    جنید انوار چوہدری کے مطابق بحری آلودگی کی روک تھام کے لیے میرین پلوشن کنٹرول بورڈ فعال کر دیا گیا ہے، اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کے منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔

    خیبر پختونخوا میں سیلابی ریلوں اور تودے گرنے کا انتباہ

    وفاقی وزیر نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے مون سون بارشیں غیر یقینی ہو گئی ہیں، بارش کا گندا پانی سمندر کو آلودہ کر رہا ہے، سمندری آلودگی شہریوں اور ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جو چیزیں سمندری غذا کو آلودہ کر رہی ہیں ان میں پلاسٹک، تیل اور کیمیائی اجزا شامل ہیں، اور اس سے ماہی گیر برادری کے روزگار کو شدید خطرات لاحق ہیں، اس لیے ماحولیاتی تحفظ کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

  • ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی، ویڈیو منظر عام پر

    ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی، ویڈیو منظر عام پر

    کراچی: ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی ہے، انڈسٹریل ایریا کی فیکٹریوں کا زہریلا کیمیکل سمندر میں چھوڑے جانے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لانڈھی ٹاؤن میں صنعتی زون کی 500 کے قریب گارمنٹ فیکٹریوں کے زہریلے کیمیکل سے بھرا نالہ سیدھا سمندر کے پانی میں‌ جا کر گر رہا ہے، رہائشی علاقوں کے سیوریج کا گندا پانی اور بھینس کالونی سے نکلنے والا گوبر بھی برسوں سے سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔

    اس صورت حال کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مرنے لگی ہیں اور علاقوں میں طرح طرح کی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں، جن میں جلد کی بیماری بھی شامل ہے۔

    ویڈیو سے صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ زہریلا کیمیکل سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔

    ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں ابوبکر، یونس، مصطفیٰ، ادریس و دیگر کا کہنا ہے کہ زہریلے کیمیکل سے بھرے نالے کو سمندر میں گرنے سے فوری طور پر روکا جائے اور گارمنٹس فیکٹریوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ماہی گیروں‌ کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں کا زہریلا کیمیکل سمندر میں جانے سے نہ روکا گیا تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ سمندر ان کی روزی کا پیالہ ہے، ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مر چکی ہیں، روزی کے اس پیالے کو زہریلا کیمیکل گندا کر رہا ہے، ان کے بچے بھوک اور بد حالی کا شکار ہو گئے ہیں۔

    ترجمان کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کمال شاہ کا کہنا ہے کہ ریڑھی گوٹھ اور پورٹ قاسم کے سمندر سے مچھلی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، سمندر زہریلے کیمیکل نے آلودہ کر دیا ہے، ہم سندھ حکومت اور ماحولیاتی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر گارمنٹ فیکٹریوں کے مالکان سے مل کر ان کو ٹیپ پلانٹ لگانے پر مجبور کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ریڑھی گوٹھ کا سمندر ایک گندے گٹر میں تبدیل ہوگیا ہے، ریڑھی گوٹھ اور پورٹ قاسم کے چینل میں مچھلیاں ختم ہونے کی وجہ سے ماہی گیر مچھلی کے شکار کے لیے دوسرے سمندری علاقوں میں نکلنے پر مجبور ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ڈیزل مہنگا ہے، راشن بھی مہنگا ہو چکا ہے، اب ہمارا گزارا نہیں ہوتا، ہمارا سمندر صاف ہوا کرتا تھا، ہمیں وہ صاف سمندر لوٹایا جائے۔

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    نئی دہلی: بھارت میں مقدس اور اہم مذہبی حیثیت رکھنے والا دریائے گنگا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارتی حکومت دریا کے بچاؤ اور تحفظ کی کوششیں کر رہی ہیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں۔

    دریائے سندھ کی طرح ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے نکلنے والا دریائے گنگا اپنے سفر کے آغاز میں نہایت شفاف اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔

    پہاڑوں اور صاف ستھرے شمالی علاقوں سے بہتا ہوا یہ پانی آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے۔

    لیکن جیسے جیسے یہ نیچے شہروں کی طرف آتا جاتا ہے اس میں گندگی کی سطح بڑھتی جاتی ہے۔

    دریائے گنگا نہ صرف 40 کروڑ افراد کو پینے کا پانی مہیا کرتا ہے، بلکہ یہ زراعت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

    ہندو عقیدے کے مطابق دریائے گنگا کا پانی گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز صبح کے وقت لاکھوں افراد گنگا میں اشنان (غسل) کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تاہم اس مذہبی عقیدے کی عملداری سمیت بے شمار عوامل دریائے گنگا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ہر دریا کی طرح دریائے گنگا میں بھی شہروں کا کوڑا کرکٹ، کچرا اور زہریلا صنعتی فضلہ شامل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گنگا میں سیوریج کا روزانہ تقریباً 4 ہزار 8 سو ملین لیٹر پانی گرتا ہے۔

    بعض مقامات پر سیوریج کے پانی کی آمیزش کی وجہ سے گنگا کی سطح پر گیس کے بلبلے نظر آتے ہیں اور آس پاس کے علاقے میں شدید تغفن پھیلا ہوا ہے۔

    ہمالیہ کی چوٹیوں سے شروع ہونے والا گنگا کا سفر ڈھائی ہزار کلومیٹر کی مسافت پر محیط ہے اور یہ شمالی بھارت میں سمندر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    بھارتی ہندوؤں کے لیےماں کی حیثیت رکھنے والا گنگا اپنے سفر کے دوران جب صنعتی شہر کانپور سے گزرتا ہے تو وہاں زہریلا ترین صنعتی فضلہ شامل ہونے سے دریا کے پانی کا رنگ تبدیل ہو کر گہرا بھورا ہو جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس سفر میں ایک علاقہ ایسا بھی آتا ہے جہاں آلودگی اور الائشوں سے گنگا کے پانی کا رنگ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔

    مودی حکومت نے گنگا ماں کی صفائی کے لیے 3 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جس کے بعد گنگا کو صاف کرنے کے لیے ٹریٹ منٹ پلانٹس لگائے جارہے ہیں تاہم ان پر نہایت سست رفتاری سے کام کیا جارہا ہے۔

    فی الوقت جو ٹریٹ منٹ پلانٹس فعال ہیں وہ گنگا کا صرف 1 چوتھائی پانی صاف کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس دریا کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات نہ کیے گئے تو ہندوؤں کا مقدس دریا بہت جلد مر جائے گا اور اس کا ذکر صرف کتابوں میں ملے گا۔

  • رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    آپ نے اکثر ایسی آرائشی اشیا دیکھی ہوں گی جنہیں رنگوں بھری چمکیلی افشاں یا گلیٹرز سے سجایا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ایسی آرائشی اشیا سجانے کے عادی ہیں تو جان لیں کہ آپ سمندروں میں آلودگی کی وجہ بن رہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے ان گلیٹرز کو سمندروں اور آبی حیات کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی طرح یہ گلیٹر بھی کسی صورت زمین یا پانی میں حل یا تلف نہیں ہوتے اور جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔

    گلیٹرز کو پلاسٹک کی چھوٹی قسم یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ فلٹر سے بھی باآسانی گزر جاتے ہیں۔

    سمندر میں جانے کے بعد یہ آبی حیات کی خوراک کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں ان کے جسم میں پلاسٹک جمع ہوتا رہتا ہے جو بالآخر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی طرح گلیٹرز پر بھی پابندی عائد کی جائے تاکہ سمندری آلودگی میں کمی اور آبی حیات کی حفاظت کی جا سکے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    سمندروں کی آلودگی کا مسئلہ نیا نہیں اور اب یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندروں میں پانی سے زیادہ کچرا اور پلاسٹک بھرا ہوا ہوگا۔

    تاہم حال ہی میں ایک سیاح نے ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو بظاہر تو بہت منفرد معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کا پس منظر نہایت خوفناک ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے جسٹن ہوف مین نامی سیاح اور ماحولیاتی کارکن نے لکھا کہ کاش یہ منظر مجھے دیکھنے کو نہ ملتا، مگر اب میں اسے پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔

    It’s a photo that I wish didn’t exist but now that it does I want everyone to see it. What started as an opportunity to photograph a cute little sea horse turned into one of frustration and sadness as the incoming tide brought with it countless pieces of trash and sewage. This sea horse drifts long with the trash day in and day out as it rides the currents that flow along the Indonesian archipelago. This photo serves as an allegory for the current and future state of our oceans. What sort of future are we creating? How can your actions shape our planet?
.
thanks to @eyosexpeditions for getting me there and to @nhm_wpy and @sea_legacy for getting this photo in front of as many eyes as possible. Go to @sea_legacy to see how you can make a difference. . #plastic #seahorse #wpy53 #wildlifephotography #conservation @nhm_wpy @noaadebris #switchthestick

    A post shared by Justin Hofman (@justinhofman) on

    انہوں نے لکھا کہ سمندر کی لہروں کے ساتھ بے تحاشہ کچرا بھی سمندر کے اندر آجاتا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ان کے مطابق انڈونیشیائی جزیروں کے پانیوں میں کھینچی جانے والی اس تصویر میں موجود یہ ننھا سا سمندری گھوڑا بھی اسی کچرے زدہ پانی سے گزر کر آیا ہوگا اور واپسی پر یہ کانوں کی صفائی کرنے والی ایئر بڈ میں پھنس گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس سے زور آزمائی کر کے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے یا اسے کوئی دلچسپ چیز سمجھ کر اس پر سواری کر رہا ہے۔

    جسٹن ہوف کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ہمارے خوفناک مستقبل کی ایک مثال ہے۔ ’یہ کیسی ترقی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ اپنے ماحول، فطرت اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا کر کی جانے والی ترقی کسی کام کی نہیں‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔