Tag: Mars

  • مریخ پر مکڑیاں؟ نئی تصاویر نے سب کو حیرت زدہ کردیا

    مریخ پر مکڑیاں؟ نئی تصاویر نے سب کو حیرت زدہ کردیا

    سائنسدانوں کو اس بات کا کسی حد تک یقین ہے کہ مریخ پر زندگی موجود ہے تاہم یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں اس بات کے سچ ہونے یا نہ ہونے کا یقینی جواب مل جائے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 19ویں صدی کے آخری برسوں میں ایک امریکی خلاباز پرسیوال لورل کا خیال تھا کہ انہوں نے مریخ کی سطح پر نہریں دیکھی ہیں جو اس بات ثبوت ہے کہ اس سیارے میں کسی مخلوق کی زندگی کا وجود ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے گزشتہ دنوں یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ تصاویر نے نئی بحث کو جنم دیا ہے، مریخ کی سطح پر رینگنے والی چیونٹیوں یا سیاہ مکڑیوں کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر کافی دھوم مچائی ہوئی ہے۔

    سوشل میڈیا پر خلائی ایجنسی کی حال ہی میں شیئر کی گئی تصاویر میں صارفین کو مریخ کے دلفریب مناظر دکھائے گئے، ان تصاویر میں ایک نئی چیز دیکھنے میں آئی کہ مریخ کے جنوبی قطبی علاقے میں چاروں جانب ” سیاہ مکڑیاں” بکھری ہوئی نظر آرہی ہیں جسے "انکاسٹی” کا نام دیا گیا ہے۔

    خلائی ایجنسی نے اپنی پوسٹ میں مریخ کے ایک علاقے میں پھیلی ہوئی ان سیاہ مکڑیوں کے بارے میں حقائق تفصیل سے بتائے اور واضح کیا کہ دراصل میں وہ کیا چیز ہیں۔

    اس حوالے سے یوروپی اسپیس ایجنسی نے بتایا کہ مکڑیوں کی یہ تصاویر مارس ایکسپریس نے حاصل کی ہیں اور وضاحت کی کہ درحقیقت یہ کسی بھی قسم کے خوفناک رینگنے والے جاندار نہیں ہیں بلکہ یہ مناظر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذخائر کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مریخ پر سردیوں کے مہینوں کے دوران (کاربن ڈائی آکسائیڈ) برف جمع ہوجاتی ہے جس سے ایک پتلی برفیلی تہہ بن جاتی ہے پھر جب موسم بہار آتا ہے اور سورج کی روشنی برفیلی تہہ میں سے داخل ہوتی ہے جس سے تبدیلی پیدا ہونے کے بعد یہ جگہ ایسی نظر آتی ہے جیسے زمین پر مکڑیاں بکھری ہوئی ہوں۔

  • کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    جرمن ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اگر انسان مریخ پر جائے گا تو وہاں بھی وہ بیکٹیریا زندہ رہیں گے اور بیماری کا سبب بنتے رہیں گے۔

    جرمن ایرو اسپیس سینٹر کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں رہنے والے چند ایسے بیکٹیریا ہیں، جو جسم پر زیادہ دباؤ پڑنے سے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، چناں چہ مریخ پر یہ بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ وہاں ان کی نشوونما بھی ممکن ہے۔

    ایسٹرو بائیولوجی نامی سائنسی جریدے میں جنوری 2024 میں ایک ریسرچ شائع ہوئی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ انسانوں میں متعدد امراض کا سبب بننے والے 4 ایسے مائکروبز (جرثومے) ہیں جو مریخ کے شدید ماحول میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور نشوونما بھی پا سکتے ہیں۔

    جرثوموں کی یہ صلاحیت جانچنے کے لیے جرمن ایروسپیس سینٹر کے سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر مریخ کا ماحول تیار کر کے تجربات کیے، جس سے مذکورہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں، اور دنیا بھر کی اسپیس ایجنسیاں مریخ کی جانب مشن روانہ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔ اس ڈیٹا سے لیباٹریز میں تجربات کر کے یہ معلوم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجہ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

    محققین کے مطابق مریخ زمین سے نسبتاً قریب ہے اور مریخ کا ایک دن زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے، اس لیے سائنس دان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیوں کے قیام میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں حالاں کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنھیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ توماسو زکاریا کے مطابق لیبارٹری میں مریخ کا مصنوعی ماحول تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے پانی کی عدم موجودگی، ہوا کا انتہائی کم دباؤ، سورج کی جھلسا دینے والی الٹرا وائلٹ تابکار شعاؤں اور مہلک زہریلی نمکیات کو مصنوعی طریقے سے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔

    انسانی جسم میں چار عام بیکٹیریا رہتے ہیں، جو یوں تو بے ضرر ہیں لیکن بیرونی عوامل یا دباؤ کے زیر اثر ہمارے لیے مہلک ثابت ہوتے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، مریخ کے تیار کردہ مصنوعی ماحول میں ان بیکٹیریا پر بار بار تجربات کیے گئے، حیرت انگیز طور پر یہ مائیکروبز نہ صرف اس شدید ماحول میں زندہ رہے بلکہ مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی یا ریگولتھ میں نشوونما بھی کی۔

    محققین کے مطابق بیکٹیریا انتہائی سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں، جو زمین پر اربوں سالوں سے موجود ہیں، اس لیے مریخ یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر تحقیق کے لیے بیکٹیریا موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔ جب بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی مریخ کی مٹی میں رکھا گیا تو بیکٹیریا زہریلے اثرات سے مرے نہیں چار میں سے تین قسم کے بیکٹیریا زندہ رہے اور 21 دن تک ان کی نشوونما بھی نوٹ کی گئی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کم زور مدافعتی نظام والے خلا باز مریخ پر بیماریوں کا شکار جلد ہوں گے، اس لیے انھیں اپنے ساتھ بہت سی ادویات ساتھ لے جانا ہوں گی، اور ان جرثوموں کا مریخ میں زیادہ خطرناک بن جانا بھی قرین قیاس ہے۔

  • مریخ پر 3 ارب سال قدیم سمندر کے آثار دریافت

    مریخ پر 3 ارب سال قدیم سمندر کے آثار دریافت

    سیارہ مریخ کے بارے میں روزانہ نئی نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں، حال ہی میں ماہرین کو ایک تحقیق میں مریخ پر 3 ارب سال قدیم بہت بڑے سمندر کے آثار ملے ہیں۔

    امریکا کی پینسلوانیا یونیورسٹی کے محققین نے چند تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ کسی زمانے میں مریخ پر گہرا سمندر، گرم اور نم موسم بھی رہا ہوگا۔ یہ عرصہ ممکنہ طور پر ساڑھے 3 ارب سال قبل کا ہے۔

    پروفیسر بینجمن کارڈینس کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے سمندر کا مطلب ہے کہ یہاں زندگی کے امکانات بھی تھے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں مریخ گرم سیارہ تھا۔

    تحقیق کاروں کو ساڑھے 6 ہزار کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی بہاؤ والی چوٹیاں ملیں جو ممکنہ طور پر دریا اور سمندر کی وجہ سے وجود میں آئیں۔

  • سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر چاند اور مریخ کے قریب آنے کا منظر دیکھا گیا، ایسا مریخ کی گردش کی وجہ سے ہوا۔

    العربیہ نیوز کے مطابق سعودی عرب اور عرب دنیا کے آسمان میں جمعہ کی نصف شب کے بعد گھٹتا ہوا چاند سیارہ مریخ کے سامنے سے گذرا، اس منظر کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا چاند اور مریخ قریب ہوگئے ہیں۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے سربراہ انجینیئر ماجد ابو زاہرہ نے وضاحت کی کہ چاند اور مریخ کو شمال مشرقی افق کی طرف دیکھا جائے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی اسکوپ کے میدان میں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے درمیان بظاہر فاصلہ وسیع ہے۔ لیکن یہ دوربین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مریخ کی چمک کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیسے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگا۔

    ابو زاہرہ نے مزید کہا کہ مریخ کی چمک زمین کے آسمان میں بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریخ بہت بڑا نہیں ہے، جس کا قطر صرف 6 ہزار 790 کلو میٹر ہے اور مشتری کے برعکس ہے جو ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتری کا قطر 1 لاکھ 40 ہزار کلو میٹر ہے، مریخ کے سائز کے 20 سے زیادہ سیارے مشتری کے سامنے ایک ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، اس لیے مشتری ہمیشہ روشن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    چھوٹے مریخ کے لیے، جس کی چمک اس کی قربت یا زمین سے فاصلے سے متعلق ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مریخ زمین کے مدار سے باہر سورج کے گرد گھومتا ہے اور زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بدل جاتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات زمین اور مریخ نظام شمسی کے ایک ہی طرف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

    زیادہ تر 2021 میں مریخ اور زمین ایک دوسرے سے سورج کے تقریباً مخالف سمتوں پر تھے۔

    سرخ سیارے کی چمک کو بعض اوقات زمین کے سورج کے گرد ایک بار گردش کرنے سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں ایک سال لگتا ہے جبکہ مریخ کو ایک بار گردش کرنے میں تقریباً 2 سال لگتے ہیں۔

    جب زمین مریخ اور سورج کے درمیان سے گزرتی ہے تو دونوں کے گرد اس کے گذرنے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے، سورج کے گرد یہ ایک سال میں چکر کاٹتی ہے جبکہ مریخ کے گرد 2 سال اور 50 دن میں اس کی گردش مکمل ہوتی ہے۔

  • دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    امریکی خلائی ادارہ ناسا اور چین مریخ پر انسانوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاہم اس کے لیے انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم وہاں بھیجے جانے والے خلا بازوں کی زندگی اور صحت ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مریخ پر انسانوں کو بھیجے جانے کے منصوبے میں سب سے اہم پہلو خلا بازوں کی صحت اور ان کی سلامتی ہے جن کو مریخ تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ خلا میں گزارنے ہوں گے، جس کے بعد پڑوسی سیارے پر بھی کئی ماہ قیام کرنا ہوگا۔

    ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ بہت کم کشش ثقل کے باعث انسانوں کے لیے مریخ پر رہنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

    ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا ہے تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خلا باز مریخ تک سفر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنا کام درست طریقے سے کرسکیں گے یا نہیں۔

    اس ماڈل اور اس کی پیشگوئیوں کے بارے میں تحقیقاتی مقالہ حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوا، تحقیقی ٹیم نے مریخ کے مشنز کے ممکنہ خطرات کے ساتھ ساتھ مریخ پر وقت گزارنے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سورج اور خلائی ذرائع کی ریڈی ایشن کے باعث مریخ پر قیام سے انسانی جسم میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں بہت کم کشش ثقل کے اثرات کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلز اور ہڈیوں کا حجم گھٹ سکتا ہے جبکہ اعضا اور بینائی کے افعال پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیںِ۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ مریخ تک پہنچنے کا سفر 6 سے 8 ماہ کا ہوگا جس سے خون کی شریانوں کی ساخت یا دل کی مضبوطی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کہ خلائی سفر کے دوران بے وزنی کا نتیجہ ہوگا۔

    تحقیق کے مطابق بہت زیادہ وقت کشش ثقل کے بغیر رہنے سے دل کی رفتار سست ہوسکتی ہے کیونکہ اسے زیادہ کام نہیں کرنا ہوگا جبکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث اسے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خلا باز بے ہوش ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جب خلا باز مریخ جائیں گے تو زیادہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر مریخ پر قدم رکھتے ہی کوئی بے ہوش ہوگیا یا کوئی طبی ایمرجنسی ہوئی تو کوئی بھی مدد کے لیے موجود نہیں ہوگا، چنانچہ ضروری ہے کہ وہاں بھیجے جانے والے افراد مکمل طور پر فٹ اور مریخ کی کشش ثقل کو اپنانے کے قابل ہوں۔

    اس ماڈل کے لیے مشین لرننگ پر مبنی الگورتھم استعمال کیے گئے تھے جس میں آئی ایس ایس اور اپولو مشنز کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ مریخ کے سفر کے لیے طویل خلائی پرواز سے دل کی شریانوں کے نظام میں تبدیلیاں آسکتی ہیں تاکہ وہ ماحول اپنا سکیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ خلا بازوں کا جسم کئی ماہ کی خلائی پرواز کے مطابق خود کو بدل سکتا ہے مگر مکمل طور پر صحت مند اور فٹ ہونا شرط ہے۔

    اب یہ ماہرین بیمار یا کم صحت مند افراد پر طویل خلائی سفر کے اثرات جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا عام افراد بھی خلا کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں۔

  • مریخ پر ایلین کے قدموں کے نشانات؟ تصویر وائرل

    مریخ پر ایلین کے قدموں کے نشانات؟ تصویر وائرل

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے دعویٰ کیا ہے کہ مریخ پر ایلین( خلائی مخلوق) موجود ہیں اور ان کے قدموں کے نشانات بھی مل گئے ہیں۔

    امریکی ٹی وی کے مطابق ناسا کی جانب سے تصویر جاری کی گئی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ مریخ کی سطح پر قدموں کے نشان موجود ہیں۔ یہ ایلین کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

    سوشل میڈیا یہ تصویر نہ صرف وائرل ہورہی ہے بلکہ صارفین کی جانب سے بھی اس پر کمنٹس بھی کیے جارہے ہیں، ان صارفین نے مریخ پر قدم کے نشان کی خوبصورت تصویر کو ایک منفرد انداز میں تشبیہ دی ہے۔

    ایک صارف نے لکھا کہ مریخ پر اس اجنبی قدم کا نشان حیرت انگیز ہے، خدا کی تمام تخالیق خوبصورتی پر محیط ہیں اور کائنات اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ قبل از وقت ہے۔ محض چند نشانات کی بنیاد پر ایلین کی موجودگی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

    ان ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تصویریں کسی سیارچے کی ہوسکتی ہیں کیونکہ ناسا کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ایلین کی تصویریں سامنے آئیں۔

    دریں اثنا ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مریخ پر ایلین کی موجودگی کی تلاش کے لئے سیارے پرلینڈنگ کے لیے ایک روبوٹ اتارنے کی جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔

    لینڈنگ سائٹ کے انتخاب پر چار برس سے بحث جاری تھی۔ یہ روبوٹ یورپ اور روس کے ماہرین نے مل کر تیار کیا ہے۔

  • "انسان بہت جلد زمین چھوڑ کر مریخ میں منتقل ہوجائیں گے”

    "انسان بہت جلد زمین چھوڑ کر مریخ میں منتقل ہوجائیں گے”

    یسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک طویل عرصے سے انسانوں کو مریخ پر پہنچانے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، اب انہوں نے بتایا ہے کہ انسان کب تک زمین کے پڑوسی سرخ سیارے پر قدم رکھ سکتے ہیں۔

    ویسے تو وہ پہلے2024 تک انسانوں کو مریخ تک پہنچانا چاہتے تھے مگر اب انہوں نے اس کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اس دہائی کے آخر تک ہوسکے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سال 2016میں اسپیس ایکس کے بانی نے مریخ میں ایک شہر بسانے کے منصوبے کے بارے میں بتایا تھا اور اس توقع ظاہر کی تھی کہ انسان بردار مشن2024 تک سرخ سیارے پر پہنچ جائے گا۔

    اس کے بعد سے کمپنی نے مریخ راکٹ کی تیاری میں کافی پیشرفت کی ہے مگر وہ اتنی نہیں جو 2024 کے ہدف کو حاصل کرسکے۔

    ایک ٹوئٹ میں ایلون مسک نے بتایا کہ ان کے خیال میں2029 وہ قریب ترین سال ہے جب ممکنہ طور پر انسان مریخ پر پہلا قدم رکھ سکیں گے یعنی اس سال جب انسانوں کو چاند پر پہلی بار قدم رکھے60 برس مکمل ہوجائیں گے۔

    اس سے قبل دسمبر2020 میں ایلون مسک نے2026 تک مریخ میں انسانوں کو بھیجنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

    اسپیس ایکس کی جانب سے ناسا کے خلاء بازوں کو چاند اور پھر مریخ پر لے جانے کے لیے اسٹار شپ کو ڈیزائن کیا گیا ہے جس نے ابھی کچھ آزمائشی پروازیں مکمل کی ہیں مگر ابھی تک خلاء میں نہیں بھیجا گیا۔

    — فوٹو بشکریہ ناسا

    ایلون مسک کی جانب سے یہ بھی شکایت کی جاتی رہی ہے کہ فیڈرل لانچ ریگولیشنز نے مریخ تک پہنچنے کے عمل کو سست رفتار کردیا ہے۔

    ویسے یہ جان لیں کہ مریخ پر جانے کے لیے کافی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ زمین کے ساتھ ساتھ ہمارا پڑوسی سیارہ سورج کے گرد چکر لگاتا ہے، جس کے دوران وہ کبھی ایک دوسرے کے قریب ترین آجاتے ہیں تو کبھی دور۔

    اسی کو مدنظر رکھ کر مخصوص ایام میں مشن بھیجنے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے پہلےایلون مسک نے2024، پھر 2026 اور اس کے بعد اب2029 کی تاریخ دی ہے۔

    2018میں ایلون مسک نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اگر آپ مریخ پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ سوچ کر جائیں کہ وہاں مرنے کا امکان زمین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

    ایلون مسک نے کہا کہ جب آپ خلا میں سفر کریں گے تو موت کا امکان بھی بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اگر مریخ تک محفوظ سفر کرکے پہنچنے پر بھی وہاں لوگوں کو رہائشی بیس کی تعمیر کے لیے نان اسٹاپ کام کرنا ہوگا اور مریخ کے سخت موسمی حالات بھی جلد موت کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔

    تاہم ایلون مسک کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے متعدد لوگ ہیں جو چوٹیاں سر کرتے ہیں، لوگ ہر وقت ماﺅنٹ ایورسٹ پر مرتے ہیں مگر انہیں چیلنج پسند ہوتے ہیں۔

    اپنے بارے میں اسپیس ایکس کے بانی کا ماننا تھا کہ ایسے 70 فیصد امکانات ہیں کہ وہ خود بھی زمین چھوڑ کر مریخ منتقل ہوجائیں گے۔

  • مریخ سے مزید حیران کن معلومات موصول

    مریخ سے مزید حیران کن معلومات موصول

    مریخ پر مختلف خلائی مشنز بھیجے جانے کے بعد سے اس سیارے کے بارے میں نئی نئی معلومات افشا ہورہی ہیں، اور حال ہی میں اس سرخ سیارے کے حوالے سے مزید معلومات موصول ہوئی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ مریخ کی جس جگہ پر چین کا روور ژورونگ اترا ہے وہاں ہوا اور ممکنہ طور پر پانی کے کٹاؤ کے واقعات رونما ہوئے ہوں گے، جو سرخ سیارے کی سطح کی خصوصیات کے بارے میں مزید ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

    رواں ہفتے نیچر جیو سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ژورونگ کی جانب سے مریخ کے پہلے 60 دنوں میں جمع کیے گئے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس کے دوران اس نے تقریباً 450 میٹر کا سفر کیا۔

    چین کے ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ٹیم نے ڈنگ لیانگ کی سربراہی میں روور کے کیمروں کے ذریعے لی گئی چٹانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا مشاہدہ کیا کہ مریخ کی مٹی میں ہوا کے کٹاؤ کے اثرات اور نشانات کے ثبوت موجود ہیں۔

    انہوں نے سرخ سیارے کی سطح پر پہاڑوں، لہروں اور کٹے ہوئے گڑھوں کی بناوٹ کا بھی مشاہدہ کیا جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جگہ طویل عرصے سے ہوا کی موجودگی کی وجہ سے موسمی اثرات کی زد میں رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق، ہوا کے کٹاؤ کے علاوہ، ماہرین نے کچھ چٹانوں کی ساخت کا بھی مشاہدہ کیا جن کے نمکین پانی کے ساتھ تعامل کا ثبوت ملتا ہے۔

    چین کا مریخ پر موجود روور شمسی توانائی سے چلنے والا 6 پہیوں والا روبوٹ ہے جس کا وزن 240 کلو گرام ہے۔ اس کی متوقع عمر کم از کم 90 مریخی دن ہے، جو زمین پر تقریباً 3 ماہ کے برابر ہے۔

  • مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک مریخ پر رہائشی کالونی بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ وہاں رہنے والے افراد کو گوشت خوری ترک کرنی پڑے گی۔

    اسٹار لنک اور برین چپ جیسے اچھوتے منصوبوں کے خالق ایلون مسک مستقبل میں انسانوں کے لیے سرخ سیارے پر رہائشی کالونی بنانے کے تصور پر کام کر رہے ہیں۔

    اس کالونی میں لوگ شیشے کے بنے گنبدوں میں رہنے کے ساتھ اپنے لیے غذا بھی شمسی توانائی پر چلنے والے ہائیڈرو پونک فارمز میں اگائیں گے۔

    انسانوں کو مختلف سیاروں پر بسانے کے خواہش مند ایلون مسک کا پہلا ہدف سرخ سیارے پر ایک مستحکم رہائشی آبادی کا قیام ہے۔

    ایلون مسک نے 2002 میں اسپیس ایکس کا قیام بھی اسی مقصد کے تحت کیا تھا اور اس ہدف کو ہزاروں اسٹار شپ فلائٹس کے ذریعے حاصل کرنے کی توقع ہے۔

    ایلون مسک کے اس منصوبے کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ مریخ پر رہائش اختیار کرنے والے پہلے 100 افراد کو محدود وسائل کی وجہ سے صرف سبزیوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ فی الحال وہاں گلہ بانی کرنا ممکن نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلون مسک کی سرخ سیارے پر 5 ہزار افراد کے لیے قائم کی گئی کالونی میں صرف سبزیوں اور پھلو ں کو ہی اگایا جاسکے گا۔

    ان ہائیڈرو پونک 4 منزلہ اور 0.3 اسکوائر میل پر محیط فارمز کو اسٹار شپ کے ذریعے سرخ سیارے تک پہنچایا جائے گا۔

  • مریخ پر موجود ”انسان“، ناسا کی تصویر نے ہلچل مچا دی

    مریخ پر موجود ”انسان“، ناسا کی تصویر نے ہلچل مچا دی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے پرسیورینس روور کی جانب سے لی گئی تصویر نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا مریخ پر انسان رہ سکتا ہے۔

    زیرِ گردش تصویر میں ایک چٹان پر موجود پُراسرار چیز کو دیکھا جا سکتا ہے جسے یو اید او ماہرین اور نظریہ کار غیر معمولی چیز کے طور پر دیکھتے ہیں۔

    اسکوٹ سی وارنگ نامی شخص کا کہنا ہے کہ اسے انٹرنیٹ پر براؤزنگ کے دوران یہ تصویر ملی جو مریخ پر ناسا کی جانب سے 2021 میں لی گئی ہے۔

    تصویر میں بہت سی چٹانوں کو دیکھا جا سکتا ہے تاہم ان میں سے ایک چٹان پر کسی چیز کی موجودگی نے اسکوٹ کی توجہ حاصل کرلی۔ اسکوٹ کی جانب سے نشاندہی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

    اسکوٹ نے تصویر میں ایک شخص کی نشاندہی کی ہے جو چٹان پر لیٹا ہے۔ اس نے سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اس کے بال سرخ ہیں جبکہ اس کے اردگرد انسانی قدموں کے نشان بھی موجود ہیں۔

    کیا اس تصویر میں موجود چیز کوئی انسان ہے اور کیا مریخ پر انسان رہ سکتا ہے؟ اس پر ناسا کی جانب سے وضاحت آنا باقی ہے۔