Tag: Mars

  • زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے زمین پر مریخ کے ماحول والی رہائش گاہ تعمیر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نے زمین پر مریخ کی طرز کی رہائش گاہ بنائی ہے تاکہ مستقبل میں مریخ پر رہائش کے انسانی صحت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

    یہ رہائش گاہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر میں تعمیر کی گئی ہے، یہ تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا ایک نمونہ ہے، جس میں رہائش کے لیے رضاکاروں کا انتخاب کیا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق یہاں رہنے والے رضا کارایک مصنوعی مشن پر کام کریں گے جس میں ان کی سپیس واک،رہائش سے باہر رابطے کے لیے محدود ذرائع ، محدود خوراک اور وسائل سمیت تمام امور کا جائزہ لیا جائے گا۔

    مصنوعی مریخی ماحول میں منتخب افراد کو ایک سال تک رہنا ہوگا،  جس کے لیے ناسا کی جانب سے انھیں معاو ضہ بھی ادا کیا جائے گا، اس تجربے کا مقصد مستقبل میں مریخ پر جانے والوں کی صحت اور کارکردگی کو جانچنا ہے۔

    زمین پر قائم اس مریخی رہائش گاہ میں رہنے کے خواہش مند افراد کا امریکی شہری ہونا اور ماسٹر ڈگری ہولڈرہونا لازمی ہے جب کہ اس کی عمر  30 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔

  • مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب مریخ کی اندرونی ساخت کا مکمل تعین کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

    سائنسدانوں نے خلائی جہاز "ان سائٹ” سے حاصل ہونے والی معلومات پر مریخ کے اندرونی ڈھانچے کی مکمل شکل تیار کرلی ہے۔ ناسا کا ان سائٹ خلائی جہاز سال 2019 سے مریخ پر آنے والے زلزلوں کو ریکارڈ کررہا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مریخ کی بیرونی پرت یا کرسٹ کی موٹائی 24 سے 72 کلومیڑ ہے جو اندازوں سے کم ہے لیکن سب سے اہم دریافت مریخ کی اندرونی پرت یا کور سے متعلق ہے جس کا نصف قطر 1830 کلومیٹر ہے۔

    یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدان زمین کے علاوہ کسی اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کا تعین کر سکے ہیں۔ چاند کی اندرونی ساخت کا بھی پتا چلایا گیا ہے لیکن مریخ کا نصف قطر 3390 کلومیٹر ہے جو چاند سے بہت زیادہ ہے۔ مریخ کی اندرونی ساخت کے بارے میں معلومات سیاروں کے قیام اور ان کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

    خلائی جہاز ان سائٹ نے مریخ کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے بھی وہی طریقہ اپنایا ہے جو زمین پر ماہرین ارضیات اپناتے ہیں یعنی زلزلوں کے سگنلز کو سمجھ کر زمین کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تعین کیا جاتا ہے۔

    قدرتی عوامل توانائی کی لہروں کو چھوڑتے ہیں اور ان لہروں کی رفتار اور راستے کی تبدیلی سے ان چیزوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن سے توانائی کی لہریں گزرتی ہیں۔

    ناسا نے زلزلہ ناپنے کے لیے جس نظام کا استعمال کیا ہے اس نے پچھلے دو برسوں میں سینکڑوں زلزلوں کو محسوس کیا جو سرخ سیارے کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ناسا مشن کی آلات والی ٹیم کی سربراہی فرانس اور برطانیہ کرتے ہیں۔ مریخ کی وہ سطح جہاں خلائی جہاز موجود ہے، وہاں مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 20 سے 39 کلومیٹر کیا گیا ہے۔

    ریاضی کے فارمولے”معلوم سے نامعلوم”کے تحت مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 24 سے 72 کلومیٹر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمین کی بیرونی پرت کی اوسط موٹائی 15 سے 20 کلومیٹر ہے اور ہمالیہ جیسے خطے میں زمین کی بیرونی پرت کی موٹائی 70 کلومیٹر بنتی ہے۔

    لیکن سب سے دلچسپ معلومات مریخ پر زلزلوں کے سگنلز کی ہے جو تقریباً 1560 کلومیٹر گہرائی سے واپس لوٹتی ہے اور یہ مائع شکل میں ہے۔

    پہلے کے اندازوں میں مریخ کی اندرونی پرت چھوٹی سمجھی جاتی تھی لیکن اس نئی تحقیق سے پرانے اندازوں کی نفی ہوتی ہے۔
    ان سائٹ خلائی جہاز کو 2018 میں لانچ کیا گیا تھا

    ناسا مشن کا کہنا ہے کہ اس نئے مشاہدے سے دو خوبصورت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مریخ کی اندرونی پرت ماضی کے اندازوں سے کم کثیف ہے اور اس کی ہیت میں آئرن نکل زیادہ ہے اور اس میں سلفر جیسے دوسرے اجزا کی مقدار کافی ہے۔

    دوسرا نتیجہ یہ کہ اندرونی اور بیرونی پرتوں یعنی کرسٹ اور کور کے درمیان مینٹل کی موٹائی اتنی زیادہ نہیں جتنا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا اور زمین کے برعکس یہ صرف چٹانوں کی ایک تہہ ہے۔

    مریخ کے حجم کو جانتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مینٹل یا درمیانی پرت میں دباؤ سے معدنیات کوئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس کے برعکس زمین کی درمیانی پرت معدنیات سے ڈھکی ہوئی ہے جس سے گرمائش کے اخراج کا عمل سست ہو جاتا ہے۔

    مریخ کے ابتدائی دنوں میں اسی مینٹل یا درمیانی پرت پر معدنیات کی تہہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

    اسی وجہ سے مریخ کے ابتدائی دور میں دھاتوں کے اخراج میں مدد ملتی تھی جس سے عالمی مقناطیسی عمل چلتا تھا لیکن وہ اب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور اب مریخ پر مقناطیسی لہروں کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ مریخ کی سطح خشک اور ٹھنڈی ہے جہاں ہر وقت تابکاری شعاؤں کی بارش ہوتی رہی ہے

    امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ٹم پائک ناسا مشن کا حصہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم پہلی بار زلزلوں کو ماپنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’ہم نے مریخ پر دیکھا کہ اس کی درمیانی پرت کہیں موٹی اور کہیں سے ہمارے اندازوں سے زیادہ پتلی ہے۔ اس سے ہمیں سیارے کے ارتقائی عمل کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔‘

    کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹر سانے کوٹار نے خلائی جہاز ان سائٹ کے نتائج کو ہنر مندی کا عظیم مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مریخ پر چھوٹے چھوٹے زلزلوں جن کی شدت کبھی چار اعشاریہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے، انھیں ریکارڈ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ زمین پر اتنی شدت کے زلزلے کو تبھی محسوس کیا جاتا ہے اگر زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں نہ ہو۔

  • مریخ پر پانی مگر کیسے؟  سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    مریخ پر پانی مگر کیسے؟ سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    سیارہ مریخ دیکھنے میں سرخ مٹی کا ایک خشک بیاباں صحرا لگتا ہے لیکن اس میں جھیلیں بھی موجود ہیں جس کے آثار ماہرین نے دریافت کرلیے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ سیارہ نوعمر تھا تو اس پر پانی کی وافر مقدار موجود تھی، اس کی سطح اور زمین کے نیچے پانی کی بھرپور مقدار موجود تھی اور آج بھی اس کے آثار موجود ہیں۔

    ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے بعد کہا جا رہا ہے کہ مریخ کے جنوبی قطب کے نیچے سائنسدانوں کے تصور سے زیادہ پانی ہونے کی امید ہے۔

    مریخ کے جنوبی قطب کے نیچے کوئی ایسی شے ہے جو نیچے کی طرف آمد و رفت کر رہی ہے اور اس کے بارے میں سائنسداں بہت زیادہ تفصیل حاصل نہیں کر پائے ہیں لیکن ریڈار کے سگنلز نے آبی ذخائر کا امکان ظاہر کیا ہے۔

    یہ دعویٰ یوروپین اسپیس ایجنسی کے مارس ایکسپریس اسپیس کرافٹ اور مارس ایڈوانس راڈار سے ملے اعداد و شمار کے مطابق سائنسدانوں نے کیا ہے۔

    سال2018 میں یورپ کے مارس ایکسپریس اسپیس کرافٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں مریخ کے جنوبی قطب پر زمینی سطح کے نیچے 19 کلو میٹر چوڑی اور تقریباً 1.6 کلو میٹر گہری جھیل کا اشارہ اور ثبوت ملا ہے۔

    یہ جھیل اوپری خشک اور اوبڑ کھابڑ سطح کے کافی نیچے ہے اب اسی اسپیس کرافٹ کے سائنسدانوں کی ٹیم نے پھر سے اس دعوے کی تصدیق کی اور امکان ظاہر کیا ہے کہ سطح کے نیچے جھیلیں موجود ہیں۔

    مارس ایکسپریس اسپیس کرافٹ میں لگے مارس ایڈوانس ریڈار فار سب سرفیس اینڈ آئنوسکوپک ساؤنڈنگ (مارسس) کے ڈیٹا سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سال 2018 کی تلاش درست ہے لیکن وہاں پر ایک جھیل نہیں ہے بلکہ وہاں پر درجنوں جھیلیں ہیں۔ ان میں سے کئی جھیلیں 10 کلو میٹر چوڑی ہیں اور اب تک ایسی تقریباً تین جھیلوں کے سائز کا صحیح طریقے سے اندازہ لگایا جا سکا ہے۔

    مارسس کے ڈیٹا کو جب اس سال گہرائی سے جانچا گیا تب علم ہوا کہ یہ بات درست ہے۔ ایریجونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹورل محقق اور ہند نژاد آدتیہ کھلّر اور مارسس کے کو پرنسپل انوسٹی گیٹر اور ناسا کے جیٹ پروپلشن لیباریٹری کے سائنٹسٹ جیفری پلاؤٹ نے اس ریڈار کے 44 ہزار اعداد و شمار کا مطالعہ کیا، یہ اعداد و شمار گزشتہ 15 سالوں میں جمع کیے گئے تھے۔

    آدتیہ کھلر اور جیفری پلاؤٹ نے دیکھا کہ مارسس نے چار مزید جھیلوں کا پتہ لگایا ہے۔ یہ افقی اور عمودی طور پر ایک دوسرے سے کافی دور ہیں لیکن کئی اور جھیلیں ایک دوسرے کے نزدیک ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ علاقہ اتنا زیادہ ٹھنڈا ہے کہ یہاں پر پانی مائع کی شکل میں رہ ہی نہیں سکتا، یہ جم کر برف بن جاتا ہے جیسے کہ ہماری زمین پر شمالی اور جنوبی قطب پر جمی برف ہے۔

  • چین نے مریخ کی نئی تصویر جاری کر دی

    چین نے مریخ کی نئی تصویر جاری کر دی

    بیجنگ: چین نے تیان وین -1 سے لی گئی مریخ کی نئی تصویر جاری کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیر کو چین کے قومی خلائی انتظامی ادارے (سی این ایس اے) نے مریخ کے تحقیقی مشن تیان وین -1 کے ذریعے لی گئی نئی تصویر جاری کی ہے۔

    اس تصویر میں ملک کے پہلی مریخ گاڑی اور سرخ سیارے کی سطح پر اس کے لینڈنگ پلیٹ فارم کو دکھایا گیا ہے، یہ تصویر تیان وین -1 کے آربیٹر پر نصب ہائی ریزولوشن کیمرے سے 2 جون کو شام 6 بجے (بیجنگ ٹائم) لی گئی۔

    تصویر میں دائیں کونے میں 2 روشن مقامات دکھائی دے رہے ہیں، جن کے متعلق سی این ایس اے کا کہنا ہے کہ ان میں سے بڑا مقام لینڈنگ پلیٹ فارم ہے، جب کہ چھوٹا ژھورونگ روور ہے۔

    یاد رہے کہ آربیٹر، لینڈر اور روور پر مشتمل چینی تیان وین -1 تحقیقی مشن 23 جولائی 2020 کو مریخ کی جانب بھیجا گیا تھا، 15 مئی کو روور لے جانے والا لینڈر مریخ کے شمالی نصف کرہ کے ایک وسیع میدان یوٹوپیا پلینیٹیا کے جنوبی حصے پر اتر گیا تھا۔

    22 مئی کو روور ژھورونگ اپنے لینڈنگ پلیٹ فارم سے مریخ کی سطح پر اتر گیا تھا، جہاں اس نے سرخ سیارے پر اپنے تحقیقی کام کا آغاز کیا، اس کے ساتھ ہی چین مریخ کی سطح پر روور اتارنے اور آپریٹ کرنے والا امریکا کے بعد دوسرا ملک بن گیا تھا۔

    چین نے نیا سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا

    چینی میڈیا کے مطابق چینی تحقیقاتی خلائی گاڑی مریخ کی سطح پر حالات کا جائزہ لے گی، مریخ کی سطح کے نیچے پانی اور زندگی کے امکانات تلاش کیے جائیں گے۔ شمسی توانائی سے چلنے والی ژھورونگ اپنی 90 دن کی کھوج کے دوران قدیم زندگی کی علامتوں کی تلاش کرے گی، جس میں زمین میں ریڈار داخل کر کے کسی بھی سطح پر پانی اور برف کی تلاش بھی شامل ہے۔

  • مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سرخ سیارے پر زندگی کے لیے ضروری عنصر آکسیجن کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق مریخ پر ناسا کا خلائی مشن Perseverance کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا، 20 اپریل کو ’پرسیورینس مارس رووَر‘ نے مریخ کے ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کر کے اسے سانس لینے کے قابل آکسیجن میں تبدیل کر دیا۔

    یہ کارنامہ ناسا کی اس جدید اور نئی خلائی گاڑی جو چھ پہیوں والا روبوٹ ہے، نے مریخ پر اپنی 60 ویں دن انجام دیا، اس مشن نے مریخ پر 18 فروری کو لینڈ کیا تھا۔

    ناسا کے اس مشن پرسیورینس کا اصل مقصد تو مریخ پر زندگی کے آثار کو تلاش کرنا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس خلائی گاڑی کو دیگر سائنسی تجربات کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ ناسا کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرپور ہے، اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے خلائی گاڑی پر ٹوسٹر (ٹوسٹ گرم کرنے والی مشین) جتنا ایک آلہ لگایا گیا ہے، جسے MOXIE کا نام دیا گیا ہے یعنی مارس آکسیجن انسیٹو ریسورس یوٹیلائزیشن ایکسپیریمنٹ۔

    اس آلے کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولز سے آکسیجن ایٹمز کو الگ کیا گیا، اور اس کے لیے گیس کو لگ بھگ 1470 ڈگری فارن ہائیٹ پر گرم کر کے کاربن مونو آکسائیڈ تیار کیا گیا۔

    اس آلے کے پہلے تجربے کے دوران 5 گرام آکسیجن تیار ہوئی، جس سے ایک خلا باز 10 منٹ تک اپنے اسپیس سوٹ میں سانس لے سکتا ہے، ناسا کے مطابق اس تجربے کی کامیابی سے مستقبل کے مشنز کے لیے ایک نیا ذریعہ ہاتھ آیا ہے، بالخصوص ایسے مشنز جن میں انسانوں کو راکٹوں میں مریخ پر بھیجا جائے گا، جہاں انھیں آکسیجن کی ضرورت ہوگی۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ مریخ پر 4 انسانوں کو لے جانے والے راکٹ میں 55 ہزار پاؤنڈ آکسیجن بھیجنے کی ضرورت ہوگی، مگر مریخ تک اتنی زیادہ مقدار میں آکسیجن بھیجنا ممکن نہیں، اس لیے اس نئی ٹیکنالوجی سے مستقبل کے مشنز کے لیے سرخ سیارے کی کھوج زیادہ آسان ہوسکے گی۔

    واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے جب زمین سے باہر کسی جگہ آکسیجن تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ یہ مشن دراصل مریخ پر مائیکروبیل (microbial) زندگی کے آثار کی تلاش کا کام کر رہا ہے، جو 3 ارب برس قبل مریخ پر موجود تھے، جب نظام شمسی کا چوتھا سیارہ سورج سے زیادہ گرم ، نم اور زندگی کے لیے ممکنہ طور پر سازگار تھا، سائنس دانوں نے اس کے لیے امید بھی ظاہر کی ہے۔

  • مریخ پر پہلا گھر فروخت ہو گیا، قیمت کتنی؟

    مریخ پر پہلا گھر فروخت ہو گیا، قیمت کتنی؟

    انسانوں نے ابھی مریخ پر قدم نہیں رکھا ہے تاہم سرخ سیارے پر واقع مستقبل کی ایک رہائش گاہ فروخت ہو گئی ہے۔

    مارس ہاؤس نامی یہ گھر دنیا کا پہلا ڈیجیٹل این ایف ٹی (وہ ٹوکن جس کا تبادلہ نہ ہو) گھر ہے جو زمین کے رہائشی کو فروخت کیا گیا ہے، اور یہ 5 لاکھ ڈالر سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوا۔

    اس گھر کا ورچوئل نقشہ ایک تھری ڈی فائل کی صورت میں خریدار کو کمپیوٹر پر بھیجا گیا، جسے کرسٹن کِم نامی خاتون نے تیار کیا تھا، اُن کا کہنا تھا کہ یہ نقشہ انھوں نے کرونا وبا کے دوران مئی 2020 میں اپنے ڈیجیٹل بدھ مت فلسفے کے تصور کے تحت ڈیزائن کیا ہے، یعنی ایک ایسا ماحول جہاں انسان صحت مند رہے۔

    مریخ پر ڈھائی لاکھ انسانوں کا شہر، تعمیراتی کام کب شروع ہوگا؟

    اس مریخ گھر کی ڈیزائننگ میں گرین ہاؤس پینلنگ میں مستعمل خصوصی گلاس فیبرک کا استعمال کیا گیا ہے، جس میں کھانا کھانے، بیٹھنے اور سونے کی جگہوں کے ساتھ ساتھ سوئمنگ پول بھی بنایا گیا ہے۔

    یہ گھر سرخ سیارے پر کسی پہاڑی چوٹی پر تعمیر شدہ لگتا ہے، جو مریخ کے قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

    این ایف ٹی (نان فنجیبل ٹوکن) کرپٹوکرنسی یعنی بٹ کوائن کی طرح کی چیز ہے، جس کے ذریعے ڈیجیٹل اثاثے ریکارڈ کیے جاتے ہیں، تاہم روایتی کرپٹو کرنسی کے برعکس NFTs کو کسی اور کے بدلے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، نیز ڈیجیٹل اثاثوں کی بھی ایک قدر ہوتی ہے، جو غیر متحرک اور متحرک تصاویر، ویڈیوز، موسیقی اور اسی طرح دیگر چیزوں کو پیش کر سکتی ہے، کچھ لوگ اسے نایاب چیزیں جمع کرنے کے لیے خریدتے ہیں اور کچھ کرپٹو کرنسی کی طرح سرمایہ کاری کے لیے۔

    خریدار کو ایک تھری ڈی فائل دی جاتی ہے، جسے وہ اپنے میٹاورس یعنی ایک اجتماعی ورچوئل شیئر اسپیس میں اپ لوڈ کرتا ہے۔ یوزرز ورچوئل اراضی خرید کر ڈیجیٹل کاروبار اور ڈیجیٹل گھر تعمیر کر سکتے ہیں۔

  • مریخ پر ڈھائی لاکھ انسانوں کا شہر، تعمیراتی کام کب شروع ہوگا؟

    مریخ پر ڈھائی لاکھ انسانوں کا شہر، تعمیراتی کام کب شروع ہوگا؟

    میڈرڈ: ایک ہسپانوی تعمیراتی کمپنی نے سرخ سیارے پر ڈھائی لاکھ انسانوں کے لیے شہر بسانے کا منصوبہ پیش کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق مریخ پر پہلا شہر بسانے کی تیاری شروع کر دی گئی، ہسپانوی کمپنی ابیبو اسٹوڈیو نے نووا شہر کا منصوبہ متعارف کرایا ہے جو مریخ ہی پر موجود خام مال سے تعمیر کیا جائے گا۔

    ڈھائی لاکھ شہریوں کو سرخ سیارے پر بسانے کے لیے گھروں کو پہاڑ کے پہلو میں افقی کی بجائے عمودی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، شہر کا یہ ڈیزائن ماحولیاتی دباؤ اور تابکاری کے اثر کو کم کرے گا۔

    تعمیراتی کمپنی مریخ پر پائی جانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور قدرتی وسائل سے گھروں کو تعمیر کرنے میں مدد لے گی۔

    مریخ پر تعمیر اس شہر میں گھر، دفاتر اور سبزہ زار وغیرہ سبھی ایسے مقامات ہوں گے جو زمین پر ہوتے ہیں، تاہم یہ تحقیق ابھی نہیں ہو سکی ہے کہ انسان کو وہاں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    اس شہر میں سبز رنگ کے گنبد تعمیر کیے جائیں گے، جنھیں سبزیاں اگانے کے لیے تجربات اور سیر تفریح کے لیے استعمال کیا جائے گا، خوراک کا بنیادی ذریعہ فصلیں اگانا ہوگا۔

    زمین سے مریخ کے لیے شٹل سروس ہر 26 ماہ بعد چلے گی، جو 3 ماہ تک اپنا سفر جاری رکھے گی، اور مریخ پر جانے کے لیے یک طرفہ ٹکٹ 3 لاکھ ڈالر ہو سکتا ہے۔

    تاہم 2054 تک مریخ پر تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان نہیں ہے اور وہاں آباد کاری 2100 سے پہلے ممکن نہیں ہے۔

  • عرب دنیا کا پہلا مریخ مشن موسم کی خرابی کے باعث ملتوی

    عرب دنیا کا پہلا مریخ مشن موسم کی خرابی کے باعث ملتوی

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات اور عرب دنیا کا پہلا مریخ مشن ملتوی کردیا گیا، مشن بدھ کی شب 12 بجے روانہ کیا جانا تھا تاہم موسم کی خرابی کے باعث اسے ملتوی کرنا پڑا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق متحدہ عرب امارات کا پہلا مریخ مشن موسم کی خرابی کے باعث ملتوی کردیا گیا، یہ عرب دنیا کا بھی پہلا خلائی مشن تھا۔

    متحدہ عرب امارات کا پہلا خلائی تحقیقاتی مشن بدھ 15 جولائی کو رات 12 بج کر 51 منٹ پر روانہ ہونا تھا، تاہم موسم کی خرابی کے باعث اس کے ملتوی ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے جو اب سچ ہوگئے۔

    اماراتی خلائی مشن مریخ کا موسم دریافت کرنے اور آئندہ 100 برس کے دوران وہاں انسانی بستی بسانے سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

    خلائی مشن جاپان کے خلائی سینٹر ٹینگا شیما سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والا تھا، اس کا حجم فور وہیل گاڑی جتنا ہے اور وزن 1350 کلو گرام ہے۔ اسے پائلٹ کے بغیر خود کار سسٹم کے تحت کنٹرول کیا جائے گا۔

    اس خلائی مشن کو العمل (ہوپ) کا نام دیا گیا ہے، مشن کو مریخ تک پہنچنے میں 7 ماہ کا وقت درکار ہوگا اور یہ مریخ تک پہنچنے کے لیے 493 ملین کلو میٹر کا سفر طے کرے گا۔ العمل خلائی مشن مدار میں 687 دن تک رہے گا۔

    خیال رہے کہ مریخ کا ایک سال کرہ ارض کے 687 دن کے برابر ہوتا ہے، اماراتی خلائی مشن العمل 3 ٹیکنالوجی وسائل اپنے ہمراہ لے کر جارہا ہے۔

    مشن سال بھر مریخ کے بدلتے ہوئے موسموں کی مکمل تصویر لے گا، خلائی مشن پر ریڈ ایکسرے سسٹم نصب ہے۔ یہ مریخ کے زیریں فضائی غلاف کی پیمائش کرے گا اور درجہ حرارت کا تجزیہ کرے گا۔

    خلائی مشن میں انتہائی حساس کیمرہ نصب کیا گیا ہے، یہ اوزون کے حوالے سے دقیق ترین معلومات حاصل کرے گا جبکہ 43 ہزار کلو میٹر تک کی مسافت کے فاصلے سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مقدار ناپنے والا آلہ بھی مشن میں نصب کیا گیا ہے۔

    اماراتی حکام کے مطابق مریخ مشن بھیجنے کی نئی تاریخ کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

  • کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    مریخ پر انسانی آبادی بسائے جانے کے حوالے سے مختلف ریسرچز اور تجربات پر کام جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مریخ پر انسانی آبادی شروع کرنے کے لیے 110 انسان درکار ہوں گے۔

    فرانس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولی ٹیکنیک میں کیے گئے مطالعے میں دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کم از کم کتنے انسان مریخ پر زیادہ سے زیادہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ کم از کم 110 انسان ان محدود وسائل کے اندر مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ افراد ایک کالونی بنا کر رہیں گے اور ان کی کالونی آکسیجن سے بھری ایک گنبد نما جگہ ہوگی۔ ان افراد کو اپنی زراعت خود کرنی ہوگی۔

    اس تحقیق میں ایک میتھامیٹیکل ماڈل استعمال کیا گیا جس سے کسی دوسرے سیارے میں زندگی کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی، تحقیق میں کہا گیا کہ اس کالونی میں اہم ترین عوامل میں سے ایک، ایک دوسرے سے اشتراک یا شیئرنگ کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر اس آبادی کا کسی وجہ سے (متوقع طور پر کسی جنگ کی صورت میں) زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا یا مریخ پر رہنے والوں نے خود ہی اپنی خود مختار حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تو 110 افراد کی آبادی محدود وسائل میں آسانی سے مریخ پر زندگی گزار سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ زمین کو خطرناک ماحولیاتی خطرات سے دو چار کرنے کے بعد اب انسانوں کو زمین اپنے لیے ناقابل رہائش لگنے لگی ہے اور اس حوالے سے دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں جن میں مریخ سرفہرست ہے۔

    امریکی ارب پتی ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپیس ایکس پروگرام پر اس امید پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ جلد مریخ پر ایک انسانی آبادی آباد ہوجائے گی۔

  • مریخ پر جوہری بم گرائیں تاکہ وہاں انسان بسائے جائیں، ایلون مسک

    مریخ پر جوہری بم گرائیں تاکہ وہاں انسان بسائے جائیں، ایلون مسک

    واشنگٹن : چیف ایگزیکٹو ٹیسلا کمپنی نے مشورہ دیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی تیز ترین ترکیب بھی یہی ہے کہ مریخ پر جوہری بم گرا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیس ایکس اور ٹیسلا کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور معروف سائنسی و سماجی شخصیت ایلون مسک نے مشورہ دیا ہے کہ مریخ کو انسانوں کی رہائش کے قابل سیارہ بنانے کیلئے اس پر ایٹم بم گرانا ہوں گے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کاکہنا تھا کہ سائنس میگزین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایلون مسک نے یہ مشورہ دیا ہو، اس سے قبل 2015ءمیں بھی وہ اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ایلون مسک سمجھتے ہیں کہ مریخ پر جوہری بم گرانے سے سرخ سیارے کے قطبین پر موجود برف پگھل جائے گی جس سے برف میں قید کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سیارے کے کرہ ہوائی (ایٹماسفیئر) میں پھیل جائے گی جس سے پیدا ہونے والا گرین ہاﺅس گیس افیکٹ سیارے کا درجہ حرارت اور ہوا کا دباﺅ بڑھا دے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کی تیز ترین ترکیب ہے،نیو اسپیس جریدے میں بھی انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں انسان 10 لاکھ افراد پر مشتمل ایک کالونی مریخ پر بسا سکتا ہے۔