Tag: Mars

  • ڈونلڈ ٹرمپ سٹھیا گئے، چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ سٹھیا گئے، چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے دیا

    واشنگٹن : امریکی صدر نے چاند سے متعلق ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ ناسا کو چاند پر جانے کی بات نہیں کرنی چاہیے، ہم 50 سال پہلے یہ کرچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے کر دنیا بھر کے ماہر فلکیات کو اچھنبے میں ڈال دیا۔ گزشتہ روز انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کے بعد ناسا کو چاند پر جانے کی بات نہیں کرنی چاہیے، ہم 50 سال پہلے یہ کرچکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ناسا کو اس سے بڑی چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جیسے کہ مریخ (چاند جس کا حصہ ہے)، دفاع اور سائنس سے متعلق ٹرمپ کی ٹوئٹ پر دنیا بھر کے ٹوئٹر صارفین نے حیرت کا اظہار کیا جس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ چاند مریخ کا حصہ نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایک نظریہ یہ ہے کہ بہت سالوں قبل زمین اور کسی سیارے کے درمیان ہونے والے ٹکراؤ کے باعث چاند کا جنم ہوا تھا۔

    خلائی ماہرین کا کہنا تھا کہ مریخ چاند سے تقریباً 140 ملین میل دور ہے، امریکی میڈیا نے ناسا سے اس حوالے سے رابطہ کیا تاہم تاحال ادارے کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    انسان نے زمین کی حدود سے باہر جانے کے بعد جہاں دیگر سیاروں پر اپنے قدم رکھے، وہیں وہاں پر اپنا گھر بنانے کا بھی سوچا، لیکن ہر سیارہ زمین کی طرح زندگی کے لیے موزوں مقام نہیں ہے جہاں زندگی کے لیے ضروری آکسیجن اور پانی مل سکے۔

    تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مریخ کی اوپری سطح سے نیچے موجود نمکین پانی میں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود ہے جو زندگی کے لیے کافی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جس طر ح زمین پر اربوں سال قبل خوردبینی جاندار موجود تھے اسی طرح مریخ پر بھی ایسی آبادیاں بس سکتی ہیں۔

    جرنل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مریخ پر کئی مقامت میں اتنی آکسیجن موجود ہے جو کثیر خلیہ جاندار جیسے اسفنج کی زندگ کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ مریخ پر اتنی بھی آکسجین موجود نہیں کہ وہاں خوردبینی جاندار زندہ رہ سکیں، تاہم نئی تحقیق مریخ پر کیے جانے والے مطالعے کو نیا رخ دے گی۔

    اس سے قبل بھی کئی بار مریخ پر پانی کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث کہا گیا کہ ماضی میں مریخ پر بھی زندگی ہوا کرتی تھی۔

    ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس سے قبل نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • 17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا مریخ پر پہلا پڑاؤ ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایک 17 سالہ دوشیزہ بھی مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان کا اعزاز حاصل کرنے والی ہیں۔

    ایلیسا کارسن صرف 17 سال کی ہیں جو اس وقت ناسا میں خلا باز بننے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

    وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بننا چاہتی تھیں اور ان کے خواب کی تعبیر انہیں اس طرح مل رہی ہے کہ سنہ 2033 میں وہ مریخ پر بھیجے جانے والے اولین انسانی مشن کا حصہ ہوں گی۔

    امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والی ایلیسا ابتدائی خلائی تربیت مکمل کرنے والی سب سے کم عمر ترین طالبہ ہیں جس کے بعد اب وہ ناسا کا باقاعدہ حصہ ہیں۔

    ایلیسا 4 زبانوں یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور چینی زبان میں عبور رکھتی ہیں جبکہ پرتگالی اور ترکی زبان بھی کچھ کچھ جانتی ہیں، اس کے علاوہ روسی زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    ایلیسا بچپن سے کچھ منفرد کرنا چاہتی تھیں، جب اسے معلوم ہوا کہ انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے لیکن مریخ تاحال ناقابل تسخیر ہے تو مریخ پر جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایک بار مریخ پر جانے کے بعد اس کا زمین پر لوٹنا شاید ممکن نہ ہو، پھر بھی زمین سے تقریباً 40 کروڑ کلومیٹر دور مریخ پر پہنچنے ان کی ضد برقرار ہے۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر جانے کے سفر کے دوران چاند پر عارضی پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا چاند گاؤں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    واشنگٹن: سائنس دانوں نے مریخ پر جمی برف کے نیچے 12 میل چوڑی مائع پانی کی ایک جھیل کا سراغ لگایا ہے۔

    امریکی جرنل سائنس میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سرخ سیارے پر پہلی مرتبہ اتنا زیادہ مائع پانی دریافت کیا گیا ہے، سائنس دان ایریکو فلامینی کا کہنا ہے کہ وہاں پانی موجود ہے ہمیں اس بابت کوئی شک نہیں ہے۔

    سائنس دان اس سیارے پر پانی کی موجودگی کے حوالے سے ایک طویل عرصے سے تحقیق میں مصروف تھے کیونکہ اس سے یہ واضح ہوسکتا ہے کہ کیا اس سیارے پر کبھی زندگی بھی موجود تھی یا کیا اب بھی وہ کسی شکل میں وہاں موجود ہوسکتی ہے؟

    آسٹریلیا کی سون برن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلن کے مطابق ’یہ ایک حیران کن نتیجہ ہے، جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مریخ پر مائع پانی موجود ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس سیارے پر کسی نہ کسی صورت میں زندگی کے لیے موافق حالات رہے ہوں گے۔‘

    سائنس دانوں کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر مریخ پر پانی مائع شکل میں موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی انسانی مشن کے اس سرخ سیارے پر اترنے کی صورت میں زمین کے اس اہم سایہ سیارے پر انسانوں کو زندہ رہنے میں بھی مدد مل سکے گی۔

    مریخ پر ملنے والی اس جھیل میں نہ تیرا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ پانی پیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اس سیارے کی سطح پر انتہائی سفاک اور سرد ماحول میں جمی برف سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر تہہ میں ہے۔

    ناقدین سائنس دانوں کے مطابق دریافت کی گئی جھیل ایک طرف تو انتہائی سرد اور خراب ماحول میں ہے اور دوسری جانب اس میں سیارے سے نمکیات اور معدنیات کی انتہائی زیادہ ملاوٹ ہوئی ہوگی، جس کی بنا پر اسے مائع پانی کہنا درست ہوگا۔

    سائنس دانوں کے مطابق نکتہ انجماد سے کہیں نیچے پانی مائع حالت میں نہیں مل سکتا اور مائع حالت میں پانی کا ملنا خود یہ بتا رہا ہے کہ اس میں میگنشیم، کیلشیم اور سوڈیم کی بھاری مقدار موجود ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ مریخ اب سرد، خشک اور بنجر سیارہ ہے، تاہم 3.6 ارب برس قبل ایسا نہیں تھا تب یہ ایک گرم اور نم زدہ سیارہ ہوتا تھا اور اس پر بڑی مقدار میں مائع پانی موجود تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک’پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    بنی نوع انسان نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کی وسعتوں کو بھی چھاننا شروع کردیا ہے اور آج کے دور میں مختلف سیاروں کو سر کیے جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جن میں سے ایک مریخ بھی شامل ہے، ناسا کی ایک سینیئر انجینیئر کا کہنا ہے کہ مریخ پر پہلا قدم رکھنے والا انسان کوئی مرد نہیں بلکہ خاتون ہونا چاہیئے۔

    امریکا کے خلائی ادارے ناسا میں بطور انجینیئر اپنی خدمات سر انجام دینے والی ایلسن مک انتارے کا کہنا ہے کہ چاند پر اب تک 12 افراد کو بھیجا جا چکا ہے جن میں سے ایک بھی خاتون نہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ مریخ پر جانے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں تو اس بار مریخ پر پہلا قدم رکھنے کا اعزاز ایک خاتون کو ہونا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ایلسن گزشتہ 30 برس سے ناسا سے منسلک ہیں اور ان کے مطابق انہوں نے وقت کو بدلتے دیکھا ہے۔ ’پہلے ادارے میں رکھے جانے والے افراد زیادہ تر مرد ہوتے تھے اور بہت کم خواتین کو ترجیح دی جاتی تھی، تاہم اب وقت بدل گیا ہے اب خواتین بھی مردوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر فائز کی جارہی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے شعبے کے ڈائریکٹر اور ڈویژن انچارج کی ذمہ داریاں بھی خواتین کے پاس ہیں، ’یقیناً خواتین مریخ پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہر کرسکتی ہیں‘۔

    ایلسن مک انتارے کی اس تجویز کا تمام حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ خلا میں جانے والی سب سے پہلی خاتون کا اعزاز روسی خلا نورد ویلینٹینا ٹریشکووا کے نام ہے جنہوں نے 60 کی دہائی میں زمین کے مدار سے باہر نکل کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    ایک اور خلا باز پیگی وٹسن کو خلا میں سب زیادہ دن گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پیگی 3 خلائی مشنز میں مجموعی طور پر 665 دن خلا میں گزار چکی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    یورپی خلائی ایجنسی نے مشن مارس 2020 کے لیے ڈیزائن کردہ  روور کو حقیقت کے قالب میں ڈھالتے  ہوئے اس  کی تصاویر آشکار کردیں،  لیکن درحقیقت میں یہ روور مریخ کی جانب نہیں بھیجا جائے گا۔

    ای سی اے ( یورپی خلائی ایجنسی )کا کہنا ہے کہ یہ روور اسٹرکچرل تھرمل ماڈل کے تین روورز کی سیریز کا حصہ ہےجنہیں سرخ سیارے پر زندگی کی تلاش کے لیے جانے کے لیے تیار کرنا ہے تاہم ان تینوں میں سے کوئی بھی خود مریخ پر نہیں جایا جائےگا بلکہ تجربات کے نتیجے میں سامنے آنے والی خامیاں دور کرکے نیا روور تیار کیا جائے گا۔

     تیسرا روبوٹ جو کہ بالکل حقیقی کے مشابہہ ہوگا اسے بھی خلا میں نہیں بھیجا جائے گا بلکہ وہ یہی زمین پر رہے گا اور مریخ کی جانب جانے والے روور میں اگر سافٹ وئیر کے حوالے سے کوئی خرابی پیش آئی اور ماہرین کو اس میں تبدیلی کرنا پڑی تو وہ اس تبدیلی کو زمین پر موجود مشین پر آزمائیں گے اور اس کے نتائج کی روشنی میں خلا میں موجود روور کے سافٹ ویئر میں تبدیلی لائی جائے گی۔

    یاد رہے کہ یہ منزل کئی سال کے انتظار اور کئی تبدیلیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ایس ٹی ایم کو  برطانیہ کی ایئربس فیکٹری میں تیار کیا گیا ہے اور اب اسے سخت ترین ماحولیاتی ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزرنے کے لیے  تولوز بھیجا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اسے تمام سخت ترین حالات سے گزاریں گے تاکہ یہ طے ہوسکے یہ راکٹ لانچ  کے وقت اور وہاں مریخ پر لینڈنگ اور اسکے بعد پیش آنے والے تمام مشکل حالات سے گزر سکے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    زمین کے پڑوسی سیارے مریخ جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، پر انسانی آبادیاں اور مزید دریافتیں کرنے کے مشن پر کام جاری ہے، اور اس سلسلے میں مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند پر عارضی پڑاؤ قائم کیا جاسکتا ہے۔

    جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کی سالانہ کانفرنس میں کہا گیا کہ مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند بہترین پڑاؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں 4 ہزار کے قریب ماہرین فلکیات نے شرکت کی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ ہم زمین کے مدار سے باہر بھی کاروباری سرگرمیاں شروع کریں اور نئی جہتوں کو دریافت کریں۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ایک خلائی ماہر پائرو میسینا کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 17 سال سے زمین کے محور سے بالکل باہر رہ رہے ہیں۔

    یہاں ان کی مراد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ہے جو زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    سنہ 1998 میں لانچ کیا جانے والا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن 27 ہزار 6 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر 92 منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔

    خلائی اسٹیشن پر متعدد خلا باز بھی موجود ہیں جو اسٹیشن پر مختلف خلائی آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔

    اب یہ اسٹیشن مریخ کی طرف بڑھنے جارہا ہے اور یہ مریخ کی طرف جانے والا پہلا انسانی مشن ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    خلائی ماہرین کے مطابق اس سفر کے دوران چاند پر رک کر ایک مستقل پڑاؤ ڈالنا بہترین طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بنایا جانے والا سب سے تیز رفتار خلائی جہاز زمین سے مریخ تک کا سفر 39 دن میں طے کر سکتا ہے۔

    مریخ پر پہنچ کر انسانی آبادی بسانے کا ابتدائی مرحلہ رواں برس عالمی خلائی اداروں کا مشن ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی سنہ 2024 تک عالمی خلائی اسٹیشن کو ختم کرکے چاند پر مستقل کالونی بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خلاؤں کی مزید تسخیر اب چاند پر رہتے ہوئے کی جاسکے۔

    دوسری جانب امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی چاند پر ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    چاند پر ایک مستقل باقاعدہ رہائشی پڑاؤ بنانے کا کام جاری ہے اور اس سلسلے میں یورپی خلائی ایجنسی نے روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس سے معاہدہ بھی طے کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    ہم میں سے اکثر افراد کو چاند یا بادلوں میں مختلف اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اب مریخ پر بھی مختلف چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو صرف عام افراد کو ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2001 میں ناسا کی جانب سے کھینچی جانے والی مریخ کی تصاویر کی مزید نئی اور بہتر تکنیک سے جانچ کی گئی اور سائنس دان مریخ کی سطح پر ایک عجیب و غریب سا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    ناسا نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ کیا جغرافیائی عوامل تھے جن کے باعث مریخ کی زمین پر یہ چہرہ بن گیا ہے۔

    اس موقع پر ناسا نے مریخ کی مزید تصاویر بھی جاری کیں۔

    یاد رہے کہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور اس کی وسعت زمین کی وسعت سے نصف کم ہے۔ مریخ کو سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔