Tag: martyred

  • کوئٹہ فائرنگ، ایس پی قائدآباد سمیت 4 پولیس اہلکارشہید

    کوئٹہ فائرنگ، ایس پی قائدآباد سمیت 4 پولیس اہلکارشہید

    کوئٹہ: کلی دیبہ کے قریب فائرنگ کے نتیجے ایس پی قائدآباد سمیت 4 پولیس اہلکارشہید اور ایک زخمی ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں کلی دیبہ کے قریب مسلح افراد نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کردی ، جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید جبکہ ایس پی قائد آباد مبارک شاہ فائرنگ شدید زخمی ہوئے، جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

    پولیس کے مطابق ملزمان نے ایس پی قائد آباد کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کلی دیبہ کے قریب کی گئی جس سے 4 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

    پولیس کے مطابق واقعے کے بعد ملزمان جائے وقوعہ سےفرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ پولیس نے علاقے کا محاصرہ کر کے قریبی علاقوں میں سرچ آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔

    بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ  ایس پی قائدآباد سمیت4اہلکاروں کی شہادت کی اطلاعات ہیں،  دشمن ہمارا مورال ڈاؤن کرنے کیلئے نشانہ بنا رہے ہیں، ہماراعزم پختہ ہے،دہشت گردوں کا صفایا کریں گے۔

    انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ شایدنئےگروپ سامنےآنےکی کوشش کررہےہیں،  دہشت گردوں کاقلع قمع کریں گے، قانون نافذ کرنے والے ادارے بہترین کام کر رہے ہیں۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری کی پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی اہلکاروں پرفائرنگ میں ملوث ملزمان کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ بدامنی، خوف پھیلانے والوں کے مقاصد کو ناکام بنایا جائیگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    تحریر: سید فواد رضا

    پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

    ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔

    شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

    اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔

    وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

    میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔

    راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا