Tag: Mashal Khan Case

  • مشعال قتل کیس: رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری

    مشعال قتل کیس: رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری

    پشاور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے طالبعلم مشعال کے قتل کیس کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔ عدالت نے رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت اور مشعال کے والد کی طرف سے دائر اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    کیس کی سماعت جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میاں ارشد جان نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے واقعے میں ملوث ملزمان کو کچھ سیکشن میں بری کیا ہے ملزمان کو ان سیکشن میں بھی سزا دی جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ جن 26 افراد کو بری کیا گیا وہ بھی واقعے کے وقت وہاں پر موجود تھے۔ جائے وقوع کی ویڈیو اور فوٹیج میں ان افراد کو دیکھا جاسکتا ہے۔

    مشعال کے والد کے وکیل ایڈوکیٹ ایاز خان نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کو جن سیکشن میں بری کیا گیا ان سیکشن میں سزا دی جائے۔

    عدالت نے صوبائی حکومت اور مشعال کے والد کی جانب سے دائر اپیلیں باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    یاد رہے کہ مشعال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد نے مرکزی ملزم عمران کو پھانسی، 5 ملزمان کو عمر قید، 25 کو چار سال قید اور 26 ملزمان کو بری کردیا تھا۔

    بعد ازاں مجرم عمران علی سمیت دیگر نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے ہائیکورٹ رجسٹری میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے بغیر ویڈیو اور گواہ کے سزا کا فیصلہ سنایا جو غیر قانونی ہے۔

    دوسری جانب مقتول مشعال کے اہل خانہ اور خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے بھی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے مختلف درخواستیں دائر کی گئیں جن میں رہا ہونے والے ملزمان کو بھی سزا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال خان قتل کیس میں 33 عینی شاہدین کے بیانات قلم بند

    مشعال خان قتل کیس میں 33 عینی شاہدین کے بیانات قلم بند

    ہری پور: انسداد ِدہشت گردی کی عدالت نے مشعال خان قتل کے مزید پانچ عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیے جس کے بعد حلفیہ بیان دینے والوں کی تعداد 33 ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت ہری پور کی سنٹرل جیل میں مشعال خان نامی صحافت کے طالب علم کے قتل کیس کی سماعت کررہی ہے ‘ جسے مجمع میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔

    مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل*

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سماعت کے دوران اے ٹی سی کے جج فضل سبحان نے 25 ملزمان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور یہ فیصلہ 20 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 23 سالہ مشعال مردان میں ولی خان یونی ورسٹی کا طالب علم تھا‘ اسے رواں سال 13 اپریل کو بھپرے ہوئے یونی ورسٹی کیمپس میں طالب علموں کے جمِ غفیر نے بدترین تشدد کرنےکے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس کے بارے میں افواہ پھیل گئی تھی کہ مشعال نےاہانتِ مذہب پر مبنی کچھ مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا ہے۔

    مشال خان پرجھوٹا الزام لگایا گیا، جے آئی ٹی*

    بعد ازاں واقعے کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق جواں سال طالب علم مشال خان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اہانت مذہب کا جھوٹا الزام لگا کرقتل کیا گیا‘ جس کے لیے مشتعل ہجوم کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس سازش میں کچھ یونیورسٹی ملازمین اورسیاسی جماعت کے مقامی رہنما شامل تھے۔

    جے آئی ٹی میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے دوران پولیس کے کردارپربھی سوالیہ نشان ہے جس نے بروقت کارروائی نہیں کی اور طالب علم مشال خان کو بچانے کی کوشش نہیں کی اس لیے جےآئی ٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ غفلت کے مرتکب افسران اوراہلکاروں کی نشاندہی کی جائے۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا‘ کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مشعال کیخلاف نوٹیفکیشن قتل کے بعد جاری ہوا، پروفیسر فیاض کا اعتراف

    مشعال کیخلاف نوٹیفکیشن قتل کے بعد جاری ہوا، پروفیسر فیاض کا اعتراف

    اسلام آباد : مردان یونیورسٹی میں مشتعل افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم مشعال خان کے حوالے سے یونیورسٹی کے پروفیسر فیاض علی شاہ نے کہا ہے کہ مشعال خان کے قتل کے بعد اس کےخلاف نوٹیفکیشن جاری ہوا، ہمیں اس وقت واقعے کی معلومات نہیں تھیں۔

    اس بات کا اعتراف انہوں نے اے آر وائی نیوزکے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، پروفیسرفیاض شاہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ مشعال خان کےخلاف نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں۔

    اسسٹنٹ رجسٹرار نےغلطی سے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم میٹنگ میں تھے تو پتہ چلا کہ مشعال کو قتل کردیا گیا ہ، مشعال کیخلاف نوٹیفکیشن پراسسٹنٹ رجسٹرارسے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔

    بھائی کو قتل کرنے والے مسلمان نہیں، بہن مشعال خان

    اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقتول مشعال کی ہمشیرہ نے کہا کہ مشعال خان ہمارے گھرکا چراغ تھا جسے بے دردی سے بجھا دیا گیا، اس کی لاش دیکھی تو اس کا چہرہ بدل چکا تھا، بھائی کو بےدردی سے قتل کرنے والےمسلمان نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ مشعال خان کے قاتلوں کوسخت سےسخت سزادی جائے، بھائی کوجیسےمارا گیا قاتلوں کو بھی ویسے ہی سزادی جائے ۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھائی نے یونیورسٹی میں ہونے والے کسی مسئلے کا ذکر کبھی نہیں کیا
    لاش کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، علاقے میں بھائی کی نمازجنازہ نہ پڑھانے کا اعلان بھی ہوا تھا۔

    کسی کو بھی سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کو ہے، مفتی نعیم

    اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ مشعال خان کو جھوٹے الزام کی بنیاد پر بےدردی سے قتل کیاگیا، اسلام محض الزام کی بنیاد پر کسی کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، انہوں نے کہا کہ اور الزام سچا یا جھوٹا ہونے کی انکوائری ریاست ہی نے کرنی ہوتی ہے، الزام ثابت بھی ہوجائے تو بھی سزا دینا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست کسی کو سزانہیں دے رہی کئی کیسزالتوا کا شکار ہیں، مفتی نعیم نے کہا کہ مشعال خان کو قتل کرنے والے ظالم ہیں، اس کو بغیر تحقیقات کے بے دردی سے قتل کیا گیا۔

    پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شہریارآفریدی نے کہا کہ جب ریاست جزا اورسزا نہ دے تو المیہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ جبکہ مفتی حنیف قریشی کا کہنا تھا کہ ریاست نے ہرچیزمیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔

  • مشال کے خلاف توہین رسالت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، آئی جی

    مشال کے خلاف توہین رسالت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، آئی جی

    پشاور: انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا نے کہا ہے کہ مشعال خان قتل کیس میں 6 یونیورسٹی ملازمین سمیت 22 افراد کو گرفتار کرلیا۔ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے، شواہد جمع کرنے کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مشعال قتل کیس میں گرفتار ملزمان میں واقعے کے اہم کردار موجود ہیں، سائنسی خطوط پر کیس کی تفتیش کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: روشن مستقبل کو بے رحمی سے قتل کیا گیا، اہل خانہ

    آئی جی کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران 11 مزید ملزمان کی نشاندہی ہوئی جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ فوٹیج میں شناخت ہونے والے ملزمان کا نام ایف آئی آر میں درج ہوگا۔

    صلاح الدین محسود نے کہا کہ تصاویر میں نظر آنے والے ڈی ایس پی نے جان خطرے میں ڈال کر لاش وہاں سے نکالی، وہ لاش گاڑی میں رکھ  کر لارہا تھا کہ پورا ہجوم اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    دوسری جانب مشعال خان قتل کیس کے گرفتار 11 ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت نے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ 8 ملزمان پہلے ہی 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔

    ‘مشعال خان بے گناہ’ 

    دوسری جانب خیبر پختونخواہ کے شہر بنوں میں شہریوں کی بڑی تعداد نے پریس کلب کے باہر جمع ہو کر مشعال خان کے قتل کے خلاف احتجاج کیا اور قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

    احتجاج میں سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان، طلبا اور عام شہری بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسلام امن کا دین ہے۔ واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔

    اس سے قبل گزشتہ روز مشعال کے سوئم کے موقع پر بھی مردان میں لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے مشعال کی قبر پر پہنچی اور اس پر پھول نچھاور کیے۔

    احتجاج کے دوران لوگ ’مشعال خان بے گناہ، مشعال خان مظلوم‘ کے نعرے بھی لگاتے رہے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی مشعال خان کے بہیمانہ قتل کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخواہ کو 36 گھنٹے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    سفاکانہ واقعے پر وزیر اعظم نواز شریف نے بھی گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔