Tag: Mashal Khan murder case

  • مشال خان کے والد نے عدالتی فیصلے پر  اطمینان کا اظہار کردیا

    مشال خان کے والد نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کردیا

    پشاور : مشال خان کے والد اقبال خان کا کہنا ہے کہ فیصلہ سنانے پر ہم عدالت کے شکرگزار ہیں، ملزمان کوسزاسنائے جانے پر مطمئن ہوں، بری ملزمان سے متعلق وکلا سے مشاورت کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے مشال قتل کیس میں دو ملزمان کو عمر قید کے فیصلے پر مشال کے والد اقبال خان نے اطمینان کا اظہار کردیا۔

    والد مشال نے کہا ملزمان کوسزاسنائے جانے پر مطمئن ہوں، عدالت کی جانب سےانصاف پر متاثرہ افراد کو اطمینان ملتا ہے، مگر دو ملزمان کی رہائی پر اعتراض ہیں ، بری ملزمان سے متعلق وکلا سے مشاورت کروں گا اور بریت سے متعلق معاملہ ہائی کورٹ میں اٹھائیں گے۔

    اقبال خان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے پر جج صاحب کے مشکور ہیں، انصاف ملنے سے پاکستان کا نام مزید روشن ہوگا، انصاف سے ثابت ہوا کہ مظلوم کی دادرسی ہوئی ہے۔

    یاد رہے مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں طالبعلم مشال خان قتل کیس میں پشاورکی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی کونسلر عارف اور اسد کو عمر قید کی سزا سنادی اور دو ملزم کو بری کردیا۔

    مزید پڑھیں : مشال خان قتل کیس: پی ٹی آئی کونسلرعارف اوراسد کوعمر قید کی سزا

    کیس میں مجموعی طور پر اکسٹھ ملزمان کوگرفتار کیاگیا تھا جبکہ مرکزی ملزم عمران کو دو بار سزائے موت اور پانچ ملزمان کو پچیس سال کی سزاسنائی گئی تھی اور پچیس ملزمان چار سال قید کی سزا ملی۔

    مقدمےمیں نامزد چھبیس ملزمان کورہا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور چار سال سزا پانے والے ملزمان کو پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کاحکم دے دیا تھا۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

  • پشاور: مشال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 16 مارچ کو سنایا جائے گا

    پشاور: مشال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 16 مارچ کو سنایا جائے گا

    پشاور: انسداددہشت گردی عدالت، پشاور نے مشال قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، فیصلہ 16 مارچ کو سنایا جائے گا.

    اے آر وائی کے  نمایندے عثمان علی کے مطابق پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں  کیس کی سماعت ہوئی، ملزمان کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا. عدالت میں چھیالیس گواہان اور مشال کے والد کے بیان ریکارڈ کیے جا چکے ہیں.

    خیال رہے کہ مشال خان یوسفزئی عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کا طالب علم تھا، جسے 13 اپریل 2017 کو یونیورسٹی کی حدود میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا۔

    مقتول پر مبینہ طور پرفیس بک پر مذہب مخالف مواد نشر کرنے کا الزام تھا۔ البتہ تفتیشی اداروں‌ نے واضح کیا کہ انھیں مشال کے خلاف شواہد نہیں ملے.

    مزید پڑھیں: مشال قتل کیس : مرکزی ملزم عارف 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    واقعے کے خلاف سماجی طبقات کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

    مشال قتل کے بعد 45 افراد حراست میں لیے گئے، انھیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں کیس کی سماعت ہوئی.

    اب اس ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، جو رواں ماہ سنایا جائے گا.

  • مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    ہری پور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا۔ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

    عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔ مشعال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    سزائے موت کے ملزم عمران پر تشدد کے بعد مشعال پر فائرنگ کا الزام تھا۔ عمران مشعال خان کا ہم جماعت طالب علم تھا۔

    سیکیورٹی خدشات پر سینٹرل جیل میں آج تمام قیدیوں کی ملاقات بند کردی گئی جبکہ سینٹرل جیل سیکیورٹی کے لیے پولیس کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔

    جیل کی سیکورٹی کے لیے 250 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ جیل کے راستوں پر ناکہ بندی کر کے مکمل تلاشی کا عمل جاری ہے۔

    مشعال خان قتل کیس کے فیصلے کے دن مشعال خان کے گھر پر بھی سخت سیکیورٹی  انتظامات کیے گئے تھے۔ مشعال کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عدالت نہیں جاسکے۔

    خیال رہے کہ عدالت نے اس کیس میں گواہان، مشعال کے والد اقبال خان، ملزمان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ کیس میں مشعال کے والد اور استغاثہ کے وکیل سردار عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے چیف پراسیکیوٹر کے طور پر بھی عدالتی معاونت کی۔

    مزید پڑھیں:  مشعال قتل کیس میں 57 ملزمان پر فرد جرم عائد

    پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر یہ کیس ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل ہوا تھا۔

    مشعال خان قتل کیس میں 50 گواہان نے بیانات قلم بند کروائے ہیں۔ کل 61 ملزمان میں سے 58 ملزمان گرفتار اور 3 مفرور ہیں جب کہ تمام ملزمان کی درخواست ضمانت کی اپیلیں بھی مسترد ہوچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔