Tag: Mashal Khan

  • مشعال قتل کیس: مکمل انصاف نہیں ملا، والد مشعال

    مشعال قتل کیس: مکمل انصاف نہیں ملا، والد مشعال

    کراچی: مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے طالب علم مشعال خان کے والد نے کہا ہے کہ فوٹیج میں نظر آنے کے باوجود بھی ملزمان کو نہیں پکڑا گیا، ہمیں مکمل انصاف نہیں ملا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائے کے پروگرام الیونتھ آور میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، عدالتی فیصلے کے بعد مشعال کے والد کا کہنا تھا کہ مشعال کے قتل کے بعد مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ مشعال قتل سے پہلے اے پی ایس، باچا خان یونیورسٹی واقعہ بھی ہوا لیکن موثر اقدامات نہیں کئے گئے، کسی کو بلاوجہ قتل کرنا ایک انتہائی شرمناک جرم ہے۔

    مشعال کیس فیصلہ : مقتول کے بھائی کا عمران خان کو فون

    مشال کے والد کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا کسی غلط سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا، اس پر جھوٹے الزامات لگا کر قتل کیا گیا، اب فیصلہ سامنے ہے ثابت ہوگیا مشعال بے گناہ تھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ فوٹیج میں نظر آنے والے تمام افراد کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے جس کے لیے ہم عدالت جائیں گے۔

    مشال قتل کیس کے دیگرملزمان کو بھی گرفتارکیاجائے، مشال کے بھائی کا مطالبہ

    یاد رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں عبدالولی یونیورسٹی مردان میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان پر اہانت مذہب کا الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    خیال رہے مشعال خان کے قاتل کو سزائے موت کے فیصلے کے بعد مقتول کے بھائی ایمل خان نے چیئرمین پی ٹی ائی عمران خان کو ٹیلی فون کرکے اظہار تشکر کیا ہے جبکہ اس موقع پر مشعال کے والد کا کہنا تھا کہ کیس میں مفرور 3 ملزمان کو بھی جلد گرفتار کیا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے: والدہ مشعال خان

    جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے: والدہ مشعال خان

    مردان: مشعال خان کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، ہم انصاف کے لئے آخری حد تک جائیں گے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں‌ نے مشعال کیس میں‌ فیصلہ آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا.

    یاد رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ آج ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا. واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے مشعال کی والدہ نے کہا کہ جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے، مشعال قتل میں عدالت سے کیسے ان کو رہائی ملی.

    مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    انھوں‌ نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس قسم کے قتل کا ہول ناک واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، مشعال کا قتل کیمرے کے سامنے ہوا، پھر ہمیں انصاف کیوں نہیں مل رہا.

    انھوں‌ نے سوال اٹھایا کہ یہ کون سا انصاف ہے، کیا انصاف ایسے ہوتا ہے جو ملزمان بچ گئے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے.

    اس موقع پر مشعال کے بھائی نے کہا کہ سزاسب کوملنی چاہئے تھی، کیوں‌ کہ سب واقعےمیں ملوث تھے.

    یاد رہے کہ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔ عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

    واضح رہے کہ مشال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

     

  • مشعال خان قتل کیس: پختونخواہ حکومت کا 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہ

    مشعال خان قتل کیس: پختونخواہ حکومت کا 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہ

    پشاور: خیبر پختونخواہ حکومت نے مشعال خان قتل کیس میں 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے مشعال خان قتل کیس میں 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ آج ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سنایا گیا جس میں مشعال خان پر تشدد اور فائرنگ کرنے والے مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25 سال قید اور 25 ملزمان کو 4 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    عدالت نے قتل میں ملوث دیگر 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے۔

    اس بارے میں پختونخواہ کے صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں 26 ملزمان کو عجلت میں بری کیا گیا۔ ان 26 میں سے بعض لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کیس کے مفرور ملزمان پاکستان سے فرار ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشال قتل کیس: 3 گواہان کے بیانات قلم بند، تعداد 48 ہوگئی

    مشال قتل کیس: 3 گواہان کے بیانات قلم بند، تعداد 48 ہوگئی

    ایبٹ آباد: انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مشال خان قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں مزید 3 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق مردان کی ولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشال خان کو رواں سال 13 اپریل کو طالبِ علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانتِ مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    بعد ازاں واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن) تشکیل دی گئی جس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جواں سال طالب علم مشال خان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اہانت مذہب کا جھوٹا الزام لگا مشتعل ہجوم کے جذبات کو بھڑکایا اور پھر اُسے قتل کیا گیا، اس سازش میں کچھ یونیورسٹی ملازمین اورسیاسی جماعت کے مقامی عہدیداران بھی شامل تھے۔

    جے آئی ٹی میں کہا گیا تھا کہ واقعے کے دوران پولیس کا کردار بھی سوالیہ رہا جس نے بروقت کارروائی نہ کر کے طالب علم کو بچانے کی کوشش نہیں کی ، جےآئی ٹی کی سفارشات میں لکھا گیا تھا کہ غفلت کے مرتکب افسران اوراہلکاروں کی نشاندہی کی جائے۔

    مزید پڑھیں: مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل

    مشال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشال کے ساتھ ہوا‘ کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    قبل ازیں گزشتہ ماہ اکتوبر میں  انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشال خان قتل کے مزید پانچ عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیے جس کے بعد حلفیہ بیان دینے والوں کی تعداد 33 ہوگئی تھی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران اے ٹی سی کے جج فضل سبحان نے 25 ملزمان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور یہ فیصلہ 20 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔

    آج بتاریخ 28 نومبر کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مشال خان قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے مزید 3 گواہان کے بیاناتِ قلم بند کیے، جس کے بعد مجموعی طور پر گواہان کی تعداد 48 تک پہنچ گئی۔

    یہ بھی پڑھیں: مشال قتل کیس ، 57ملزمان پر فرد جرم عائد

    گواہان کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ مشال خان کے  والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی ، جس میں کہا گیا تھا کہ مشال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے۔

    جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • مشعال قتل کیس ، 57ملزمان پر فرد جرم عائد

    مشعال قتل کیس ، 57ملزمان پر فرد جرم عائد

    ہری پور : مشعال قتل کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت نے 57ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ہری جیل میں انسداد دہشت گردی کے جج جسٹس فضل سبحان نے مشعال قتل کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران انسداد دہشتگردی نے جیل میں قید ستاون ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

    عدالت نے حکم دیا کہ کل سے باقاعدہ کیس کا ٹر ائل شروع ہوگا۔

    خیال رہے کہ ہری پور جیل میں قائم باچا خان وارڈ، جو اسپتال کا حصہ ہے اسے عارضی طورپر عدالت بنایا گیا ہے۔


    مزید پڑھیں : دھمکیاں مل رہی ہیں، مقدمہ مردان سے پشاور منتقل کیا جائے، والد مشال خان


    یاد رہے کہ مشعال خان کے  والد اقبال خان نے مقدمہ کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی ، جس میں کہا گیا تھا کہ مشال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ رواں سال 13 اپریل کوعبد الولی خان مردان یونیورسٹی میں 23 سالہ ہونہار طالب علم مشعال خان کو اہانت رسالت کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم نے بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تھا، جس کی تحقیقات کے لیے تیرہ رکنی جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے مشعال خان قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ مشال کا قتل نہ صرف والدین بلکہ پوری قوم کا نقصان ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • پشاور:یونیورسٹی سے مشعال خان کا سامان لواحقین  کے حوالے

    پشاور:یونیورسٹی سے مشعال خان کا سامان لواحقین کے حوالے

    پشاور:یونیورسٹی سے مشعال خان کا سامان لواحقین کےحوالے کردیا گیا، سامان میں کپڑے ، جوتے ، کتابیں اور بیگ شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال خان کا سامان لواحقین کےحوالے کردیا گیا، مشعال کے والد کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد مشال کا سامان ہمارےحوالے کیا گیا، مشعال خان کے قتل کے بعد کمرے میں لوٹ مار بھی کی گئی ، سامان سےلیپ ٹاپ ، کیمرہ ، موبائل،آئی ڈی کارڈ غائب ہیں۔

    مشعال کے والد کا مزید کہنا تھا کہ مشعال کی زندگی پر مشتمل ذاتی ڈائری بھی موجود نہیں ، جے آئی ٹی نے غائب سامان کی تلاش کی یقین دہانی کرائی ہے۔

    مشال خان کی جیب سے برآمد 270 روپے بھی والد کے حوالے کئے گئے۔

    یاد رہے مشال خان قتل کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آئی تھی ، جس کے مطابق طالب علم مشال خان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اہانت مذہب کا جھوٹا الزام لگا کرقتل کیا گیا جس کے لیے مشتعل ہجوم کے جذبات کو بھڑکایا گیا اس سازش میں کچھ یونیورسٹی ملازمین اورسیاسی جماعت کے مقامی رہنما شامل ہیں۔


    مزید پڑھیں : مشال خان پرجھوٹا الزام لگا کرمنصوبہ بندی سے قتل کیا گیا، جے آئی ٹی


    رپورٹ میں مشال خان کو اہانت مذہب میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مشال اوراس کے ساتھیوں کے خلاف توہینِ رسالت یا مذہب کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں لیکن مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پرلوگوں کو مشال کے قتل کے خلاف اکسایا۔

    جے آئی ٹی میں کہا گیا تھا کہ واقعے کے دوران پولیس کے کردارپربھی سوالیہ نشان ہے جس نے بروقت کارروائی نہیں کی اور طالب علم مشال خان کو بچانے کی کوشش نہیں کی اس لیے جےآئی ٹی سفارش کرتی ہےکہ غفلت کے مرتکب افسران اوراہلکاروں کی نشاندہی کی جائے۔

    یاد رہے رواں سال 13 اپریل کوعبد الولی خان مردان یونیورسٹی میں 23 سالہ ہونہار طالب علم مشال خان کو اہانت رسالت کا الزام لگا کرمشتعل ہجوم نے بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تھا جس کی تحقیقات کے لیے تیرہ رکنی جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں ۔

  • ریاست ظالموں‌ کے ساتھ سے ڈنڈا چھین کر طالب علموں کے تحفظ کو یقینی بنائے، والد مشال

    ریاست ظالموں‌ کے ساتھ سے ڈنڈا چھین کر طالب علموں کے تحفظ کو یقینی بنائے، والد مشال

    صوابی: مشال خان کے والد نے کہا ہے کہ ملک میں عدم تشدد کے نظریے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ریاست ظالموں کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین لے تاکہ طالب علموں کا تحفط یقینی بنایا جاسکے۔

    مشال خان کے چالیسویں کی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے طالب علم کے والد اقبال نے کہا کہ دھرتی کے دیگر مشال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ  درسگاہوں میں علم کیساتھ طلباکے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں کبھی کسی کو انصاف نہیں ملا جس کی بہت ساری وجوہات ہیں، اب وقت ہے کہ ریاست ظالموں کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین کر اُن کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے۔

    اس موقع پر مشال خان کی بہنوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھائی کے قتل کی تحقیقات سے مطمئن ہیں، طالب علموں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، بھائی کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔

    چالیسویں کی تقریب میں پیش ہونے والی قرارداد  واضح اکثریت سے منظور کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مشال خان قتل کیس کو فوجی عدالت بھیجا جائے۔ مشال کے چالسویں کی تقریب میں سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کےارکین سمیت سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔

    خیبرپختونخواہ کے ضلع صوابی میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مقتول مشال خان کے والداقبال نےسپریم کورٹ سےماسٹر مائنڈ کو بھی شامل تفیش کرنے کامطالبہ کیا ہے۔


    مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل


    خیال رہےکہ گزشتہ ہفتےسپریم کورٹ میں مشال خان قتل ازخود نوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مشال کا قتل نہ صرف والدین بلکہ پوری قوم کا نقصان ہے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔


    عمران خان کی مردان میں طالبعلم کے قتل کی مذمت، جنگل کا قانون نافذنہیں ہونے دیں گے


    واضح رہےکہ مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تھا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

  • مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل

    مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل

    اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مشال خان قتل ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی‘ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مشال کا قتل نہ صرف والدین بلکہ  پوری قوم کا نقصان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز بدھ سپریم کورٹ اسلام آباد میں مشال خان ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئےچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ پولیس مردان کی جانب سے رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی گئی جس کے مطابق57میں سے 53ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں۔

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ملزمان نے پولیس کی تحویل میں اعترافی بیان دیا ہے جبکہ یونی ورسٹی انتظامیہ کے واقعے میں ملوث ہونے کی تحقیقات جاری ہیں۔

    چیف جسٹس نے استسفارکیا کہ رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض افراد کے نام شامل تھے‘ اب تک انتظامیہ کے خلاف تحقیقات مکمل کیوں نہیں ہوئیں؟۔

    سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشال کے ساتھ ہوا کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    انہوں نے مشال خان کےوالد سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ آپکےدکھ میں شریک ہیں، چاہتےہیں مزیدکسی کانقصان نہ ہو۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔

    مشال خان کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل


    دوسری جانب مشال خان کے والد کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں مشال کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

    انھوں نے یہ بات اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں اس معاملے پر چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہی اور عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ اگر ممکن ہو تو مقتول کی بہنوں کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منتقل کر دیا جائے۔

    اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ گواہان اور شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔


    مشال خان کے قتل کے لرزادینے والے حقائق


    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • مشعال خان سے نظریاتی اختلاف تھا: مرکزی ملزم کا اعتراف جرم

    مشعال خان سے نظریاتی اختلاف تھا: مرکزی ملزم کا اعتراف جرم

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے مرکزی ملزم عمران علی نے عدالت میں اعترافی بیان ریکارڈ کروا دیا۔ ملزم کو 2 روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق طالب علم مشعال خان کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم عمران علی نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔

    مشعال قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم عمران علی کو سینئر سول جج کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ بیان میں اس نے کہا کہ مشعال میرا کلاس فیلو تھا۔ مشعال کے نظریات سے اختلاف تھا۔

    یاد رہے کہ عمران علی کو دو روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ عمران نے ابتدائی تفتیش کے دوران ہی جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔

    مشعال کے قتل میں مطلوب 47 افراد قانون کی حراست میں ہیں جبکہ 2 مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    دوسری جانب چند روز قبل سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال خان کو گولیاں مارنے والا مرکزی ملزم  گرفتار

    مشعال خان کو گولیاں مارنے والا مرکزی ملزم گرفتار

    پشاور : مشعال کے خون سے ہاتھ رنگنے والا مرکزی ملزم بھی گرفت میں آگیا، ڈی آئی جی مردان کا کہنا تھا کہ ملزم مشعال کا ہم جماعت تھا، اسی نے گولیاں ماریں، جس پستول سے گولیاں ماریں وہ بھی مل گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی مردان کا کہنا ہے کہ مشعال خان پر فائرنگ کرنے والے مرکزی ملزم عمران کو گرفتار کرلیا ہے، ملزم مشعال کا کلاس فیلو تھا، آلہ قتل بھی برآمد بھی کرلیا ہے جبکہ ملزم کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔

    محمدعالم خان شنواری نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم نےابتدائی تفتیش میں مشعال پر فائرنگ کا اعتراف کرلیا ہے، جس پسٹل سے فائرنگ کی گئی وہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔

    ڈی آئی جی نے کہا کہ واقعے میں یونیورسٹی کے ملازم بھی ملوث ہیں، مشعال اور انتظامیہ کے درمیان مسائل تھے۔

    ڈی آئی جی مردان کا کہنا تھا کہ کیس میں اب تک ایک سو اکتالیس ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی ہر زاویے سے تفتیش کر رہی ہے،  جبکہ یونیورسٹی سے حاصل کی جانے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد تحقیقات سے جاری ہیں۔


    مزید پڑھیں : مشعال قتل ازخود نوٹس کیس، 36ملزمان کو گرفتار کیا، ،پولیس رپورٹ


    یاد رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ مشعال خان قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی ازسرنو تشکیل کر دی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔