Tag: Mashal Khan

  • مشعال خان کے قتل میں ملوث مزید 2 ملزمان گرفتار

    مشعال خان کے قتل میں ملوث مزید 2 ملزمان گرفتار

    مردان: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے الزام میں مزید 2 ملزمان گرفتار کرلیے گئے۔ کیس میں گرفتار ملزمان کی تعداد 36ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق عبد الولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشعال کے قتل کیس میں پیشرفت جاری ہے۔ پولیس نے مزید 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم اشفاق خلجی کو ویڈیو کے ذریعے شناخت کیا گیا۔ مشعال قتل کیس میں سیکیورٹی انچارج بلال بخش سمیت گرفتار ملزمان کی تعداد 36 ہوگئی ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل مشعال کے قتل کے حوالے سے کچھ ویڈیوز بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے کچھ قتل سے پہلے اور کچھ قتل کے بعد کی ہے۔

    ایک ویڈیو قتل سے پہلے کی ہے جس میں مشتعل ہجوم مشعال کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ دوسری ویڈیو میں قتل کے بعد یونیورسٹی کے طالب علموں کا جتھا ایک دوسرے کو مبارکباد دیتا اور ایک دوسرے سے قاتل کا نام نہ بتانے کا حلف لیتا دکھائی دے رہا ہے۔

    ایک اور ویڈیو میں مشتعل طلبا یونیورسٹی سے باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لاش تلاش کر رہے ہیں تاکہ بہیمانہ تشدد سے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اس کی لاش کو بھی جلا دیا جائے۔

    مجسٹریٹ کے سامنے ایک ملز م سدیس نے اعتراف جرم کرلیا تاہم 7 ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ مشعال قتل کیس کے مرکزی ملزمان تاحال گرفتار نہیں کیے جاسکے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    دوسری جانب چند روز قبل سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال خان قتل: یونی ورسٹی ملازمین سمیت تین ملزمان گرفتار

    مشعال خان قتل: یونی ورسٹی ملازمین سمیت تین ملزمان گرفتار

    مردان:مشعال خان قتل کیس میں پیش رفت کرتے ہوئے پولیس نے مزید تین ملزمان گرفتار کرلیا ہے، مردان کی ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم کو تینِ مذہب کے الزام میں طلبہ کے ہجوم نے قتل کیا تھا۔

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مردان میاں سعید کے مطابق حالیہ پیش قدمی کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے دوملزمان کومردان اورایک کوچارسدہ سےگرفتارکیاگیا ہے‘ دتین میں سے دو یونی ورسٹی کے ملازم ہیں جبکہ ایک طالب علم ہے۔

    پولیس ذرائع کے مطابق گرفتارشدہ ملزمان میں سے ایک ملزم یونیورسٹی کاسیکیورٹی افسرجبکہ دوسراکمپیوٹرآپریٹرہے تیسراگرفتارملزم ولیخان یونیورسٹی کاطالبعلم ہے،ڈی پی او کے مطابق تینوں ملزمان کو ویڈیو کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔

    مقدمہ درج‘ گرفتاریاں شروع

    طالب علم کی ہلاکت کا مقدمہ تھانہ شیخ ملتون میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے ، مقدمے میں 7اےٹی اے302اور297کےتحت درج کیاگیاتھا۔

    واضح رہے رواں ماہ کی 13 تاریخ کو مردان میں ولی خان یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں میں تصادم کے نتیجے میں طالب علم مشال خان جان سے گیا تھا، تصادم میں ڈی ایس پی سمیت سات افراد زخمی بھی ہوئے، کشیدگی کے باعث یونیورسٹی غیرمعینہ مدت کے لیے بند کردی گئی تھی۔

    ویڈیو دیکھئے


    کچھ دن قبل مشعال کے بہیمانہ قتل سے پہلے کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی تھی ، ویڈیو میں مشتعل ہجوم کمیٹی روم کے باہر مشعال کے ساتھی عبداللہ پر تشدد کے بعد مشعال کو ڈھونڈ رہا ہے اور کہہ رہے ہیں اس کو پولیس کے حوالے کریں گے تو ہم جیل بھی جاکے اسے ماریں گے۔ یہ بھی کہا گیا مشعال مسجد میں بھی ملے تو ما ردو۔

    فوٹیج میں پولیس اہلکار بھی نظرآئے، جنہوں نے مشتعل افراد کو منتشر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ویڈیو میں موجود ہجوم شدید اشتعال میں کہتا دکھا ئی دے رہا ہے کہ مشال کہیں بھی ملے اسے قتل کردیا جائے

  • مشعال کہیں بھی ملے اسے قتل کردو

    مشعال کہیں بھی ملے اسے قتل کردو

    پشاور : مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے قتل سے پہلے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی،  جس میں مشتعل افراد مشعال کو تلاش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں  مشعال کہیں بھی ملے اسے قتل کردیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق عبدالولی خان مردان یونیورسٹی میں مشعال کے بہیمانہ قتل سے پہلے کی ایک اور ویڈیو سامنے آگئی، ویڈیو میں مشتعل ہجوم کمیٹی روم کے باہر مشال کے ساتھی عبداللہ پر تشدد کے بعد مشعال کو ڈھونڈ رہا ہے اور کہہ رہے ہیں اس کو پولیس کے حوالے کریں گے تو ہم جیل بھی جاکے اسے ماریں گے۔ یہ بھی کہا گیا مشعال مسجد میں بھی ملے تو ما ردو۔

    فوٹیج میں پولیس اہلکار بھی نظرآئے، جنہوں نے مشتعل افراد کو منتشر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ویڈیو میں موجود ہجوم شدید اشتعال میں کہتا دکھا ئی دے رہا ہے کہ مشال کہیں بھی ملے اسے قتل کردیا جائے۔


    مزید پڑھیں : مشعال کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم کی گاڑیوں کی تلاشی


    اس سے قبل بھی مردان کی عبدالولی یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی تھی ، جس میں قتل کے بعد مشتعل ہجوم پولیس کی موجودگی میں مشعال کی لاش ڈھونڈنے کے لیے گاڑیوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔

    فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر مشتعل ہجوم باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لا ش تلاش کر رہا ہے، گیٹ پر راستے روکے کھڑے افراد کو گاڑیوں کے دروازے اور ڈگی کھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتعل طلبہ لاش کو جلانا چاہتے تھا۔

    یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

  • مشعال خان قتل از خود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا

    مشعال خان قتل از خود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مشعال خان قتل از خودنوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا  جبکہ آئی جی خیبر پختونخوا نے مکمل رپورٹ مرتب کر نے کیلئے مزید مہلت مانگ لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال  خان  قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران آئی جی کے پی کے صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ 80 فیصد تحقیقات مکمل کرلی ہے ، تحقیقات مکمل کرکےجلد چالان پیش کریں گے ، التماس ہے ذیلی عدالت کو کیس کی جلدسماعت کی ہدایت کی جائے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ فکر نہ کرے، عدلیہ اورپوری قوم اس معاملے پرایک ہیں، معاملےمیں  ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنائیں گے۔

    سپریم کورٹ نے پشاورہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بتایا جائے جوڈیشل کمیشن بنانے کا کیاجواز ہے ، ہمیں اپنے تحقیقاتی اداروں  پرمکمل اعتماد ہے ،  سیاسی مفادات کیلئے تحقیقات کو سائیڈ لائن نہیں ہونے دیں گے، آئی جی صاحب ہم نےآپ کی بڑی تعریف سن رکھی ہے۔


    مزید پڑھیں : مشال قتل کیس: سپریم کورٹ میں سماعت کل ہوگی


    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی پولیس کو کیس کی درست اور جلد تحقیقات کرکے چالان پیش کرنے کی ہدایت کی۔

    بعد ازاں مشعال خان ازخودنوٹس کی سماعت ستائیس اپریل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کی دوخواست وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کی تھی۔

    واضح  رہے کہ گزشتہ دنوں مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل طالب علموں نے مشعال  خان پر توہین رسالت کا الزام لگا کر اُس پر حملہ کیا اور شدید تشدد کیا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگیا تھا۔

    دوسری جانب مشال قتل میں ملوث مزید دو ملزم طارق خان ا وراسحاق خان کوچارسدہ پولیس نے حراست میں لےلیا ہے۔

  • مشعال کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم کی گاڑیوں کی تلاشی

    مشعال کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم کی گاڑیوں کی تلاشی

    مردان: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ قتل کے بعد مشتعل ہجوم پولیس کی موجودگی میں مشعال کی لاش ڈھونڈنے کے لیے گاڑیوں کی تلاشی لیتا رہا۔

    مشعال کے قاتلوں کو نوجوان کی جان لینے کے بعد بھی قرار نہ آیا۔ مشعال کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔

    فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر مشتعل ہجوم باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لا ش تلاش کر رہا ہے۔

    گیٹ پر راستے روکے کھڑے افراد کو گاڑیوں کے دروازے اور ڈگی کھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتعل طلبہ لاش کو جلانا چاہتے تھے۔

    ویڈیو میں بندوقیں تھامے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز یونیورسٹی کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جو مشعال کے قتل کے کچھ دیر بعد کی تھی۔

    مزید پڑھیں: مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    ویڈیو میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشعال کی جان لینے والے، قتل کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ملزمان نے با آواز بلند حلف بھی اٹھایا کہ گولی مارنے والے کا نام کوئی نہیں لے گا۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    گذشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔

    آج صبح سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    مردان: عبد الولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں قاتل ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے اور قاتل کا نام راز رکھنے کے لیے حلف اٹھاتے نظر آرہے ہیں۔

    یہ ویڈیو مبینہ طور پر مشعال کے قتل کے کچھ دیر بعد کی ہے۔

    ویڈیو میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشعال کی جان لینے والے قتل کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ملزمان نے با آواز بلند حلف بھی اٹھایا کہ گولی مارنے والے کا نام کوئی نہیں لے گا۔

    مزید پڑھیں: مشعال خان قتل کیس کو پاکستان میں مثال بنائیں گے، عمران خان

    ویڈیو میں حلف لینے میں والوں میں تحریک انصاف کے کونسلر عارف کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ویڈیو کی مدد سے ملزمان کی باآسانی شناخت میں مزید مدد ملے گی۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم گزشتہ روز انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں گزشتہ روز کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    آج صبح قومی اسمبلی میں بھی مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔

  • مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں مردان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر نے مشعال خان قتل کے خلاف مذمتی قرارداد ایوان میں پیش کی۔ قرارداد کا متن اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تیار کیا تھا۔

    پیش کی گئی قرارداد میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور مشعال خان کے قتل میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

    قرارداد میں وفاقی اور صوبائی حکومت سے واقعہ کے ذمہ داران اور سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم گزشتہ روز انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں گزشتہ روز کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    قومی اسمبلی میں وزرا کی غیر حاضری

    قومی اسمبلی کے اجلاس میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وزرا کی غیر حاضری پر برس پڑے اور کہا کہ وزیر اعظم نے جمہوریت اور آمریت میں فرق ختم کردیا ہے۔ جمہوریت میں فیصلے پارلیمنٹ میں کیے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ میں کوئی آتا ہی نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت کے رویے سے خطرناک پیغام جا رہا ہے اور فیصلے پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر کیے جا رہے ہیں۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف مکہ، مدینہ اور لندن میں ہمیں کہتے تھے جمہوری نظام مضبوط کرنا ہے۔ آج وزیر ایوان میں کیوں آئیں جب وزیر اعظم خود نہیں آتے۔ کلبھوشن یادیو، افغان بارڈر اور مشعال خان قتل جیسے مسائل پر پارلیمنٹ میں کوئی بات نہیں کی جا رہی۔

    لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر بھی خورشید شاہ نے حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ بغیر آڈٹ سرکولر ڈیٹ کی مد میں 480 ارب ادا کیے جانے کے باوجود آج بھی سرکلر ڈیٹ 385 ارب روپے ہے۔

    اجلاس میں لاپتہ افراد سے متعلق کوئی جواب نہ ملنے پر پیپلز پارٹی کے واک آؤٹ اور شاہدہ رحمانی کی جانب سے کورم کی نشاندہی کے بعد حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی اور اجلاس کل صبح ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

  • مشال کے قاتلوں کو پہچان سکتا ہوں ، دوست عبداللہ

    مشال کے قاتلوں کو پہچان سکتا ہوں ، دوست عبداللہ

    مردان : عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیش آنے والے حادثے میں جاں بحق ہونے والے مشال خان کے ساتھی عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان جمع کروایا، جس میں بتایا کہ مشال خان پر توہین مذہب کے الزامات کس نے لگائے۔

    تفصیلات کے مطابق عبدالولی خان یونیورسٹی واقعے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم مشال خان کے دوست عبداللہ نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرادیا، جس میں عبداللہ نے توہین رسالت کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر مشال کیخلاف بیان دینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، دونوں طالبعلم اظہار اور فرحان میرے شعبے سے اور جونئیر تھے ، میری مشال سے ایک روز پہلے ملاقات ہوئی تھی، جنھوں نے مشال کو مارا انھیں شناخت کرسکتا ہوں۔

    عبداللہ کہا کہ مشال کو مارنے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ دونوں ملوث تھے، میں مسلمان ہوں اور مذیبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ، جرنلزم کے چھٹے سمسٹر کا طالب علم ہوں اور مشال کو پہلے سسمٹر سے جانتا ہے، 2ماہ پہلے مشال سے دوستی ہوئی تھی اور دوستی کی بڑی وجہ مشال کی قابلیت تھی۔

      عبد اللہ نے بتایا کہ  تیرہ اپریل کی صبح گیارہ بجے محمدعباس نے مجھے فون کیا، محمدعباس اور مدثربشیر سازش کے اہم کردار ہیں، محمدعباس، مدثربشیر اور دیگر طلبا نے مجھ  پر اور مشال پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔


    مزید پڑھیں : مشال خان قتل کیس میں ایف آئی اے سے مدد طلب


    عبداللہ نے کہا کہ ان کی باتیں سنتے ہی میں نے کلمہ پڑھ کرالزامات سے انکار کیا، کلمہ پڑھ کر اس کا اردو اور پشتو میں ترجمہ  بھی سنایا ، مجھ سے کلمہ سننے کے بعد دباؤ ڈالا گیا کہ مشال نے توہین مذہب کی ہے۔

    مشال خان کے دوست نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے مشال  سے کبھی ایسے الفاظ نہیں سنے تو میں نے الزام لگانے سے انکارکیا تو اساتذہ نے مجھے چیئرمین کے دفترکے باتھ روم میں بند کردیا، اس دوران ہجوم دروازے توڑ کر باتھ روم میں داخل ہوا اور مجھے تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس اہلکاروں نے مجھے مشتعل ہجوم سے بچا کر اسپتال منتقل کیا۔

    دوسری جانب عبداللہ کی عدالت میں بیان کی کاپی اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلی ہے۔


    مزید پڑھیں : میرے بیٹے کو بے رحمی سے قتل کیا گیا، مشال کی والدہ


      دوسری جانب مشال قتل کیس کے گرفتار گیارہ ملزمان کو اے ٹی سی نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا جبکہ آٹھ ملزمان پہلے ہی چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔

    واضح رہے کہ 13 اپریل کو عبدالولی یونیورسٹی مردان میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی مشال خان کے بہیمانہ قتل کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخواہ کو 36 گھنٹے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • روشن مستقبل کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا، اہل خانہ

    روشن مستقبل کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا، اہل خانہ

    صوابی: ولی خان یونیورسٹی میں ساتھی طلباء کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے مشعال ملک کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کو بے رحمی سے قتل کیا گیا، اُس کے چہرے کو مسخ کیا گیا، حکومت قاتلوں کو گرفتار کرے۔

    تفصیلات کے مطابق دو روز قبل ولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ کی تعلیم حاصل کرنے والے صوابی کے نوجوان کو ساتھیوں نے توہین رسالت کا الزام دے کر  شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں نوجوان دم توڑ گیا تھا۔

    مشعال خان پر ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو لوگوں نے اس قتل کی مذمت کی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس واقعے کو المناک سانحہ قرار دیتے ہوئے جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا۔

    پڑھیں: ’’ مردان میں طالب علم قتل،8 ملزمان گرفتار ‘‘

    ویڈیو دیکھیں:

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشعال کی والدہ نے کہا کہ ہم سب کو ایک دن دنیا سے جانا ہے مگر میرے بیٹے کو بے رحمی سے قتل کیا گیا اُس کے چہرے کو مسخ کیا اور تشدد سے جسم کی ہڈیاں اور انگلیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشعال کو بے رحمی سے قتل کیا گیا جس کا بہت افسوس ہے، والدہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے۔

    مزید پڑھیں: ’’ عبدالولی یونیورسٹی میں بہت ظلم ہوا، پرویز خٹک ‘‘

     مشعال کی بہن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھائی ہمیشہ حدیثوں کا حوال دے کر تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا تھا، وہ روشن مستقبل کی نوید تھا جسے بجھا دیا گیا۔